لو جہاد love jahad، فاشزم کا بد ترین حربہ
عطش بلال ترالی، ریسرچ اسکالر، یونیورسٹی آف حیدر آباد، دکن، حیدر آباد، بھارت
لو جہاد کیا ہے۔ یہ کون سا جہاد ہے۔ دراصل کچھ کٹر ہندو تنظیموں، شیوسینا، بجرنگ دل، آر ایس ایس، کے مطابق مسلمان لڑکے بھولی بھالی غیر مسلم لڑکیوں کو اپنے عشق کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان سے شادی کے وعدے کر کے انھیں ہندوؤں کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور کہیں کہیں تو شادی کر کے ان سے بچے پیدا کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
لو جہاد کی اس اصطلاح کو آج سے کچھ سال پہلے ہی استعمال لایا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس لو جہاد کی اصطلاح سے بہت سارے لوگ موت کی آغوش سو چکے ہیں۔ فاشسٹ فورسز کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار (حربہ) ہے جس سے آسانی سے ملک کی بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں پر وار کیا جا سکتا ہے۔ اس لو جہاد کا بیج سب سے پہلے یو پی کے علاقے ’’مظفر نگر‘‘ میں بویا گیا۔ جس سے ہزاروں کی تعداد میں مسلم لوگ آج بھی ٹینٹوں میں رہائش پذیر ہیں ۔یہ کس طرح ہوا اور فسادات کیسے ہوا تو جان کرہر زی حس یہ جان کرحیران ہو تا ہے۔
جب ایک مسلم لڑکا موٹر سائیکل پر اپنی گلی سے گزر جاتا ہے تو اس کو راستے میں روک کر بولاجاتا ہے کہ آپ نے ایک ہندو لڑکی کو چھیڑا اور لو جہاد بول کر مار پیٹ ہوتی ہے تو تب اس کے احباب ان کو چھڑاتے تو ہیں مگر اس کے بعد چھیڑ چھاڑ کے الزام سے وہ لڑکی صاف انکار کرتی ہے۔ مگر دونوں گروہوں میں لڑائی کی وجہ سے حالات زیادہ خراب ہو جاتے ہے۔ اور اسی شام میں مندروں میں لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے جو پہلے ہی پلاننگ میں ہوتا ہے۔کیوں کہ یہ الیکشن کا زمانہ تھا۔
کچھ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کو کچھ بستی کے جاٹ لوگوں نے دلاسا دے کر کہا کہ کوئی کچھ نہیں کرے گا آپ کے ساتھ ہم دیکھ لیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ ستمبر میں ایک شام کو جب یہ سازش رچائی گئی تو مظفر نگر کے دہی علاقے میں جب مذہبی فسادات کی یہ آگ لگی تو یہ مسلم لوگ جان بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگتے ہیں اور اربوں کی دولت میں ایک تنکا بھی اپنے ساتھ نہیں لیتے ہیں۔ یہ حملہ جاٹ لوگوں نے مسلمانوں پر کیا جو پہلے ہی پلان کیا گیا تھا اور لو جہاد کو ہتھیار بنا کر انجام دیا گیا۔ اس فسادات میں ستر ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے اور ابھی تک بھی گھروں کے بدلے خیموں میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اتنا ہی نہیں بلکہ اس میں درجنوں مسلم عورتیں اجتماعی عصمت دری کا شکار بھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاووہ کچھ شیر خوار بچے جو گھروں میں سوئے تھے وہ بھی آگ کی نظر ہوئے یہ لوگ ابھی بھی خیموں میں بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزار رہے ہیں۔ مظفر نگر کے اس دیہات میں اُس وقت مسجدوں پر آر ایس ایس نے بھگوا جھنڈا گاڑ دے تھے۔ یہ لو جہاد کا ایک بڑا ظلم مسلمانوں پر ہوا۔ اس کے بعد چھوٹے بڑے لو جہاد کے یہ واقعات ملک کے ہر گلی اور نکڑ پر رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 21 ہر شخص کو right to life and personal property, liberty وغیرہ عطا کرتا ہے جو ہر ایک فرد کا بنیادی حق ہے۔ آزادی کے ساتھ دھائی گزرنے کے جانے کے بعد بھی ہم اپنے اس بنیادی حق کا استعمال کتنا کر پاتے ہیں ۔جواب آپ کے سامنے ہے حکومت ہمارے اس بنیادی حق کی حفاطت کس حد تک کرتی ہے ۔یہ بھی آپ کے علم میں ہے ۔اس کے ساتھ آرٹیکل 25-28 بھی ہر فرد کو مذہب چننے کا اختیار دیتا ہے۔
لو جہاد کی شکار کیرالہ کی ایک ہندو لڑکی بھی تب ہوئی جب انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر دیا اور ایک مسلم لڑکے شفین سے شادی کر دی ۔ ان کا نام اکھیلا ہے جو پیشے سے بی یو ایم اس کی ڈاکٹریٹ کی طالبہ ہے۔ لیکن بھونچال تب آیا جب اکھیلا‘‘ یعنی ہادیہ کے والد نے کیرالہ ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی مگر جب کورٹ نے کیس دیکھا تو کیرالہ کورٹ نے یہ رٹ منسوخ کر دی۔ کچھ مہینوں کے بعد ان کے والد سے ایک اور رٹ ہائی کورٹ میں داخل کر دی گئی جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ ان کی بیٹی کو ’’لو جہاد‘‘ سے بہلا کر پھسلا کر شادی کر کے سیریا اور isis کے ساتھ بھیجے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اکھیلا( ہادیہ) کے باپ کا الزام تھا کہ ان کی بیٹی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کا ایک گروہ معصوم لڑکیوں کو پھسانے میں لگا ہوا ہے۔
تب ہائی کیرالہ ہائی کورٹ نے اس کیس پر کاروائی پر کرنے حکم دیا اور ’’ہادیہ‘‘ کے باپ کے لگائے گئے الزامات سے کیرالہ ہائی کورٹ نے دوسری مرتبہ ان کی شادی کو ختم کرنے کا حکم دیا ۔اور ہادیہ کو اس کے باپ کے سپرد کیا گیا۔جس پر ’’ہادیہ‘‘ کو بعد میں گھر میں اپنے والدین سے بہت اذیت کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے فوراً بعد ’’ ہادیہ‘‘ کا شوہر کیرالہ ہائی کورٹ سے متفق نہیں ہوا کیوں کہ انہوں نے کورٹ میں شادی کی تھی۔اس لیے انہوں سپریم کورٹ کا درواز ے کو دستک دی اور اس کیس کو سپریم کورٹ میں لیا تاکہ ان کو ان کی بیوی واپس مل جائے۔جب سریم کورٹ کا منافقانہ فیصلہ سامنے آیا تو ان کی امیدوں پر ایک بار پھر سے پانی پھیر گیا ۔سپریم کورٹ نے انصاف کے بدلے N.I.A کی ٹیم کو اس معاملے کو تفتیش کرنے کا حکم دیا۔
یاد رہے N.I.A صرف دہشت گردی کے معاملوں میں مداخلت اور تفتیش کرتی ہے ۔ لیکن یہ کیس لو جہاد سے حل تو نہیں ہوا لیکن اس لڑکی کو پہلے گھر میں بند کردیا گیا ۔ جہاں اس پر ظلم کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد جب وہ ہوسٹل گئی وہاں بھی یہ ظلم کم نہیں ہوا بلکہ یہاں اس کے کمرے میں cctvفکس کیے گئے جس پر نظر رکھی جاتی ہیں ۔لوجہاد کی وجہ سے اس سے سپریم کورٹ میں بھی انصاف نہیں ملا اور یہ لڑائی بہت بڑی ہو گئی جس سے ملک کے بہت سارے سماجی کار کن لڑ رہے ہیں اور امید ہے کہ ہادیہ کی جیت ایک دن ہو گی۔
لو جہاد کی بری مثال افرازل کی موت ہے۔ افرازل کے قتل کی وجہ ’’لو جہاد‘‘ نہیں بھگوا آتنک ہے۔ آج سے کچھ دنوں پہلے تقریباً تمام ذی حس لوگوں کا ضمیر کانپ اٹھا۔ جب راجسھتان کے راجسمندر میں ایک بنگالی مسلم مزدور کا دن دھاڑے وحشیانہ قتل کر دیا گیا ہے۔ اس قتل کو شمھبو لال نامی ایک ہندو نے انجام دیا۔ یہ انتہائی غیر انسانی کام ہے۔ یہ قتل اس دن کیا گیا جس دن بابا صاحب امبید کر کے آئینی کام کو یاد کرنے کا دن ہے اسی دن افرازل کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ افرازل دراصل راجستھان میں مزدوری کرتا تھا جو کچھ سالوں سے یہاں کام کرتا تھا اس کو دھوکے میں بلا کر اور پھر اس پر وار کیا جاتا ہے۔ اس پر پہلے کدال سے وار کیا جاتا ہے اس کے بعد جب شمھبولال کا جی نہیں بھرتا ہے تو وہ اس پر پٹرول چھڑک کر زندہ جلاتا ہے اس کی چیخ و پکار فضاکی آنکھ کو بھی نم کر دیتا ہے۔ حد تب ہوئی جب اس سارے ظلم اور وحشیانہ قتل کو ویڈیو بنا کر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
اس ویڈیو میں قاتل کی آواز صاف سنائی دیتی ہے جس میں وہ افرازل سے کہتا ہے کہ آپ کو لو جہاد‘‘ کے جرم میں یہ سزا دی جاتی ہے۔حب حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ افرازل کی عمر پنتالیس سال کی ہے اور اس کی فیملی اور بچے بھی ہیں جو محض ایک مزدور ہوتا ہے ۔اور اس کو کسی ہندو لڑکی کے ساتھ ساتھ دور دور کا واستہ نہیں ہوتا ہے۔ دراصل افرازل کا قتل ہی نہیں بلکہ لو جہاد کی تدبیر سے بھگوا اور ہندتوا کا ابتدا سے اقلیت کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کا اہم طریقہ ہے۔ شمھبو لال نامی قاتل نہ صرف تربیت یافتہ ہے بلکہ اس کی زبان کا انداز بھی مکمل طور پر اس ملک کے ہندو تو وادی طاقتوں کی ہے ۔یہاں تک قاتل درندے نے اپنے برے کام کو جائز ٹھہرانے کے لیے جو ویڈیو بناکر وائرل کیا ہے۔ ان میں وہ بھگوا جھنڈا کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے ۔اس نے جو باتیں کی ہیں۔ وہ سنگ پریوار کے نظریے کی باتیں ہی ہیں۔اس لیے اس کے ہندو وادی تنظیموں سے رشتے کو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جو ہی یہ حیوانیت کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔
اس کے بعد پولیس نے اس کو حراست میں لیا ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ تک کہا گیا ہے کہ شمبھولال دماغی مریض ہے جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل اس دشہت گرد کو بچانے کی یہ نئی تدبیریں ہیں۔ خوف و ہراس کو بڑھاوا دینے کے لیے اس قاتل کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اتنا ہی نہیں حیرت تب ہوئی جب کچھ انتہا پسند تنظیموں نے اس کی بیوی کے اکاؤنٹ میں کچھ لاکھ روپے بھی جمع کر دیے۔ اور یہ چیزیں دہشت گردی اور اقلیت کو ڈرانے کی طرف صاف اشارہ ہے۔
صبر کے جامے تب چاک ہو جاتے ہیں جب اس قاتل کی حمایت ہر طرف سے ملتی دکھائی دیتی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ جب آج سے کچھ دن پہلے ان کو ادے پور عدالت میں لایا گیا ۔جس کے لیے پہلے ان تنظیموں نے باضاطہ احتجاج کرنے کے لیے ایک مہم چلائی تاکہ افرازل کے قاتل شمبھو لال کو سزا سے بچایا جائے اور اس کو رہا کیا جائے۔
حد تب ہوئی جب انہوں اودے پور کی عدالت میں نعرہ بازی کر کے ادے پور کورٹ پر بھگوا پرچم لہرایا اور شمبھولال کی رہائی کی حمایت میں نعرے بازی کی۔ جو کھلم کھلا ہندتو کی غنڈہ گردی ہے۔ آخر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ افرازل کا قتل کسی رنجش یا رومانوی تعلق یا غصے کا نتیجہ نہیں ہو کر ایک مذہبی اقلیت اور اکیلے پردیسی شخص کا شکار کرنے جیسا ہے۔ جس کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک معتصب ہندو نے اپنی بزدلی کا نشانہ بنایا، اس کا کوئی جرم نہیں تھا، اس کے قتل کو بھی’’ لو جہاد‘‘ اسلامی دہشت گردی ،دفعہ 370 اور رام مندر سے جوڈ کر جس طرح سے اس کو ’’ ہندو شوریہ‘‘ کا رنگ دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قاتل شمبھو لال کے ذہن میں مسلمانوں کے لیے گہری نفرت بوئی گئی جس کی وجہ سے انہوں نے بلا خوف ایسا قتل کر دیا۔ ان چیزوں سے ملک کے اقلیتی طبقوں میں خوف و ہراس بھر دیا جاتا ہے جس کے بعد ان کے ساتھ سیکنڈ ہینڈ سٹیزن کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔