اپنے حاسدوں سے پیار کیجیے
از، یاسر چٹھہ
کیوں؟
وہ آپ کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ آپ سے حسد کرتے ہیں۔ آپ کو اپنا قیمتی اور غیر قیمتی دونوں قسم کے وقت دیتے ہیں۔ ہم کسی ایسے سے ہر گز حسد نہیں کرتے جس کو ہم اہم نا سمجھتے ہوں۔
اب اگر حاسدینِ کرام اس قدر بھلے مانس ہیں تو ان کو کچھ وقت دینا انصاف اور خوش دلی کا فریضۂِ عین جانتے ہوئے ہم ان پر مزید بات کرتے ہیں۔
آپ سن کر بھی یہی فریضہ ادا کر سکتے ہیں، جو ہم نے لکھ کر ادا کیا۔ ٹھیک ہے ناں!
تو لیجیے جناب…
حاسدوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں:
ا۔ سب سے سطحی اور سستی قسم وہ ہوتی ہے جو آپ کے سامنے حَسدِیہ جملے کہہ کر اپنے آپ کو آشکار کر لیتی ہے۔ بھلا آپ دوسرے پر اس قدر مفت میں نیکی کیے جا رہے ہیں۔ کچھ تو اپنی تجارت اور پیشہ ورائیت کا خیال کیا ہوتا؟
ب۔ اس سے کم درجے کی حَسَدی نوع وہ ہوتی ہے جو آپ کے دوستوں کے سامنے آپ کے بہ ظاہر خلاف فضا تیار کرتی ہے اور باتیں کرتی ہے۔ اچھے دوست بس دھیرج رہ کر سنتے رہیں اور اس پر رائے قائم کرنے میں کچھ وقت لیں تو وہ واقعی اچھے دوست ہوتے ہیں۔
ان دو ابتدائی قسم کے حاسدوں سے دُور پَرے سب سے اعلیٰ حاسدین کی وہ قسم ہوتی ہے جو جو دھیمی آنچ پر مستقل طور پر تعلقِ حسد نبھاتے پکتی رہتی ہے۔
اب حاسد سے پیار آخر کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اوہ، بھئی کیا مسئلہ ہے۔ آپ اس کے حسد کرنے کے موضوعات کو جمع کیجیے؛ ان کو ترتیب دیجیے؛ ان پر غور کیجیے۔ ان کی بِناء پر اپنے آپ کو بہتر کیجیے۔
حاسد ہمارا ایک قسم کا بہترین اور سچا دوست ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے انتہائی عمدہ فیڈ بیک اور سیکھنے سوچنے کا سامان پیدا کرتا ہے۔ ہاں، البتہ اگر ڈرنا ہے تو خوشامدی سے ڈریے، یہ بندے کو لے ڈوبتے ہیں۔ یہ ہمیں مُضحکہ خیز یعنی ridiculous بنا کر چھوڑتے ہیں۔
مزید دیکھیے: یوسفی صاحب کا مکتوب بنام مبشر علی زیدی، المعروف اختصار پسند از، مبشر علی زیدی
اوپر بیان کردہ پیمانوں اور مِعیاروں کی کسُوٹی پر سے دیکھا جائے تو سب سے بے مَصرف اور فضول وہ حاسد ہوتے ہیں جو آپ کو بہت محنت کر کے نظر انداز کرتے ہیں، حالاں کہ وہ آپ پر مسلسل چوری چھپے نظر رکھے ہوتے ہیں اور کن اَکھیوں کو اپنی عینک بنائے ہوتے ہیں۔
ان اخِیرلوں کو سب سے برا کیوں کہا؟
اس لیے کہا کہ، خواہ مخواہ حسد کر کے خون بھی جلاتے رہتے ہیں، اپنے تھوڑے سے خوراک میں حاصل کردہ حیاتیات vitamins کو بھی خود کشی پر مجبور کرتے ہیں، اور حسد علیہ کو کچھ فائدہ بھی نہیں پہنچا پاتے۔ گویا یہ انسانی بہتری کے امکانات کے فطری اور ترقی پسندانہ مقاصد کے لیے سُمِ قاتل بنتے ہیں۔
آخر پر پھر عرض کروں گا اپنے حاسدوں پر احسان کیجیے۔ کچھ اچھا اچھا کر کے انھیں اپنے حسد کے لیول کو upgrade کرنے کا انعام اور صِلہ دیجیے۔
چلیے اب کام کیجیے۔