خان پور جھیل کے سبز پوش پانی کو سلام
از، یاسر چٹھہ
کل بھی ایک مشکل فرد کی سی مشکل نفسیاتی کیفیت سے دن کا آغاز ہوا۔ لیکن ختم بہت پُر لطف ہوا۔
ویسے دن ہے کیا؟ وہ بھی رات کے ساتھ بندھا دائروی تسلسل ہی تو ہوتا ہے۔
صبح بیداری ہوئی، بے زاری ہی کا راج تھا۔ کسی بے ترتیب نیند میں بے ہنگم خواب سے جاگنے، یا نام کے سویے رہنے سے نا جاگی ہوئی جاگ۔ ایسا سَر درد جسے ماتھے کے کسی چنیدہ حصے کا درد کہا جاتا کہ سَر درد… درد کا کون سا گاؤں، تحصیل، ضلع ہوتا ہے، بھلے کون سا جغرافیہ ہوتا ہے۔ درد topical ہوتے ہوئے بھی atopical ہوتا ہے، pervasive ہوتا ہے۔
آپ کی جب عمر بِیتی جاتی ہے؛ بَہ ظاہر گزرے برس، آنے والے برسوں کی نسبت ریاضی کے کسی inequality relations میں ہوتے ہیں، اور زیادہ امکان میں کم تر ہندسوں میں۔
پتا نہیں جس نا کیفیتی جیسی کیفیت کو کہنا اور بیان کرنا چاہ رہا ہوں، اسے لفظ و فہم سونپنے میں کسی قدر مؤثر انداز اپنا پایا ہوں یا نہیں؟ جانے اور نا جانے کا intersection ہے، سرحد ہے، حاشیہ ہے، یا کسی مستقبل کا نفیساتی ہاویہ ہے۔ اور ہمیں کہا بھی تو گیا ہے کہ وَ ما اَدراکَ ما ھِیَہ …
اپنے ہونے اور نا ہونے کی، یا کس نوعیت کے ہونے کی مہاجرت، اپنے ہونے اور نا ہونے کا کیفیتی انشقاق، سوچ بال کھولے آنکھوں کو اُلجھائے، اندھیرے کو چاند مانے، سورج کو گھٹے ہوئی چاند راتیں مانے… ۔ بس کچھ ایسا ہی!
اسی کیفیت میں، آپ کے ساتھ آپ سے وابستہ افراد، بیوی، اولاد، ضروری تو نہیں کہ وہ بھی اسی فریکوئنسی پر ہوں، بَل کہ بھلا ہی ہو کہ وہ ہَمہ دم ایسے نا ہی ہوں؛ وہ سب توانائی اور تمنا کی بَر تر توانا حالت میں ہوں۔ گھر سے کہیں ہوا بدلی کے لیے جانے کی فرمائش ہو، اور نا جائز بھی کب ہو۔
آپ اپنے آپ کو، اپنی بوجھلتا کو اپنی مدد آپ کے تحت اٹھائیں اور بَہ مشکل اٹھائیں۔ نہانے اور نا نہانے کی خود میں جنگ و جدل کریں۔
پھر کہیں نہا لیتے ہیں، لیکن شیو نہیں بنائیں گے۔ خود کو کچھ تو ڈسکاؤنٹ اور رعایت دیں ناں۔
گاڑی سٹارٹ کریں، اب یہ فیصلہ کیسے ہو کہ کہاں جائیں۔ چند قدم کے فاصلے تک گاڑی چلائیں اور کسی طرف کچھ سوچے، کچھ نا سوچے چلا دیں۔ تجویزیں آ رہی ہیں، پر جانے وہ کہاں جا رہی ہیں۔
حرکت کرنے اور مناظر بدلنے کی اپنی دنیا ہوتی ہے، اپنا تبدیلئِ نفسیات کی سَکت ہوتی ہے … چلیے تو پھر وقت کی قبروں کے علاقے کی طرف چلتے ہیں؟ ٹیکسلا چلتے ہیں۔
اچھا تو پھر ٹیکسلا ہی چلتے ہیں۔
ٹیکسلا آتا ہے؛ ٹیکسلا میوزیم آتا ہے۔ سکرپ آتا ہے، آثارِ قدیم کی تختیاں آتی ہیں، جَولیاں جانے کے بورڈ آتے ہیں۔ آثارِ قدیم کی حدیثِ قدیم کی مُنادی کے طور پر… بدھا کی شانتی کی نوید کے منظروں کی خبر لیے۔
پر آثارِ قدیم اور گزرے وقت کی زندہ قبروں کے ساتھ، ماہر سنگ تراش ہاتھوں سے ترشتی مستقبل کی موتوں کے لیے پتھر کی تیار شدہ اور تیار کی جانے والی قبروں اور کَتبوں کے ساتھ بَر لبِ سڑک زندہ درخت بھی تو ہیں، پھل دار درخت… مالٹا، خان پور کا مالٹا، سرخ رنگ کا زندگی آموز red blood مالٹا… لیکن یہ سب تو زندگی کی علامتیں ہیں؛ زندہ علامتیں، سانس لیتی اور سانس دیتی علامتیں… پیدائش کے عمل کے اوّل عمل کی سی تیز سانسوں کی علامتیں۔ پانی کی موجودگی کی علامتیں۔
زندگی زندہ ہے، کیا کرے گی اپنی سنت یا اپنی عادت سے مجبور؟ آنکھیں منظر دیکھتی ہیں تو صبح کے نا جاگی ہوئی جاگ کے منظر چَھٹنے لگتے ہیں۔ ذہن کے غار سے جالا ہٹنے لگتا ہے؛ پانی جو ذہن میں اور تصور و تصویر میں آ جاتا ہے۔
تو کیوں نا خان پور ڈیم چلا جائے۔ فیصلے پر پہنچنا حریت پا جانے کی ایک صورت بھی ہوتی ہے۔ تذبذب و مہاجرتِ کیفیت تھکا دینے والا اور بے منزل سفر ہوتا ہے۔ چلتے چلتے منزل آتی ہے۔ گاڑی دائیں جانب مڑتی ہے۔ پارکنگ لیتی ہے۔ سب اترتے ہیں۔ بچے اور عمر میں بڑھ چکے بڑے لمحے میں اتر آتے ہیں۔
سامنے گہرا پانی ہے، رنگ اس کا سبز ہے۔ یہ سب سبز پہاڑ کی گود میں ہے۔ پانی امن میں رہنا چاہتا ہے، لوگ اسے خود کار موٹروں والی کشتیوں سے اسے اپنی مصنوعی توانائی کی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح سوچتا ہوں؛ ایک بار پھر سوچتا ہوں کہ لوگ اپنے لطف کے ہارمونوں کو میکانکی سہاروں کے سپرد کیوں کر دیتے ہیں، لوگ کیا کرتے ہیں؟ پر لوگ ہیں، انہیں کرنے دیتے ہیں۔
کچھ دیر یہاں رکتے ہیں۔ لوگوں کےبیچ اپنے آپ میں گُم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جاگتے میں سونے کی ایک اور کیفیت سے گزرتے ہیں؛ کچھ، ہر چند کہ آس پاس سے ملاوٹ و تخریب موجود ہے۔
لوگوں کا ہجوم ارد گرد پُر سکون رہنے کی کوششوں میں مصروف خان پور ڈیم کی جھیل کے پانی کو، اس پانی کو جو اپنی گود لیے پہاڑ کے درختوں کے سبز عکس کو اپنی ذات میں گھولے کسی فقیر کی طرح کھڑا ہے، اسے امن سے رہنے نہیں دے رہے۔
اس دوران بچے کسی قلفیوں والے کو دیکھ لیتے ہیں۔ وہ اسے آئس کریم والا کہتے ہیں، یا کچھ اور، بَہ ہر حال وہ مجھے اس کے پاس لے جا کر وہ فرد جو کچھ بھی بیچ رہا ہے، انہیں لے کر دینے کی ضد کر ڈالتے ہیں۔ بچوں کی خواہش کے آگے کتنی چلتی ہے، سو اتنی ہی چلی جتنی چلتی ہے۔
اسی دوران اس قلفی فروش سے ارد گرد کے کسی نسبتاً پُر سکون اور کم بِھیڑ والے خان پور ڈیم جھیل کے مقام کا پوچھتا ہوں۔ وہ گندھارا کا بتاتے ہیں، کسی ‘موبائلی’ کا بتاتے ہیں، کسی کینیڈا ریزارٹ کا کہتے ہیں۔
گوگل میپس پر سرچ دیکھتا ہوں تو گندھار اور کینیڈا ریزارٹ نام کے مقامات کی کچھ بھنک تو پڑتی ہے، لیکن ان قلفی فروش کے ادا کردہ ‘موبائلی’ کے متعلق گوگل میپس گول مول کر دیتا ہے۔ پھر گوگل میپس پر گندھارا کی لوکیشن دیکھتے دیکھتے کسی مَبالی، Mabali کو دیکھتا ہوں تو ذہن کلِک کرتا ہے کہ علاقائی لہجے کے عمل دخل کی جمع تفریق کر کے یہی مَبالی ہی اُن قلفی فروش کا موبائلی تھا۔
ہم راہیوں کو جنہیں اب تک مجھ سمیت بھوک کی اشد حالت لاحق ہو چکی ہے، وہاں سے چل نکل کر ان تجویز کردہ مقامات سے ڈھونڈ کر کھانے کی ترغیب دیتا ہوں اور وہ قائل ہو جاتے ہیں۔
اب پھر مَبالی اور دیگر مقامات تک پہنچنے کے لیے گوگل میپس کا سہارا لیتا ہوں جو کہ نقشِ بَر آب ثابت ہوتا ہے۔ آخرِ کار انسانی پوچھ تاچھ سے انتہائی تنگ اور ایک وقت میں صرف ایک گاڑی کے جانے کے لیے کافی رستے پر چل نکلتے ہیں۔ شکر ہے کہ صرف ایک مقام پر دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کو گزارنے کے لیے کسی نسبتاً کھلی جگہ پر چار منٹ رکنا پڑا۔ بَہ ہر حال یہ خالصتاً نصیب کا معاملہ تھا۔
یہ سڑک اور اس پر مُنھ نکالے گول مٹول پتھروں پر گاڑی کیسے چلتی ہے اس پر ہمارے ہم سفر ہمارے فرزند، فریدون کا یہ سوال نما تبصرہ بہت صائب تھا:
“Baba, why people up and down on this road?”
سفر کا یہ حصہ صبر کے امتحان اور وصل سے پہلے کے لمحوں کی کیفیت کا عکسِ حقیقی ہے۔
ایک بیانیاتی جَست بھرتے ہیں۔ مَبالی پہنچتے ہیں۔ پارکنک باہر ہے، داخلے کے پیسے الگ سے ہیں۔ پرل کانٹی نینٹل بُھوربن، مری کے سے چلن کرتے لگتے ہیں۔ چلیے پیسے دے دیے۔ ریسیپشن پر روپوں کی کرنسی میں تول کر بات کرتے ہیں، لیکن بھلی بات یہ ہے کہ آخری میں کہنے والی بات کو تھوڑا پہلے کہتا ہوں کہ خرچ کردہ
دعا ہے کہ جب کوئی یہاں آئے تو بہت زیادہ ہجوم نا ہو، جیسے کہ ہمارے جاتی بار لوگوں کی مناسب سی تعداد ہی موجود تھی۔
اب آپ یہاں ایک ایسی جگہ آ گئے ہیں کہ جھیل کا وہ پانی جس نے سبز پہاڑوں سے ادھار لیے سبز رنگ کو اہنے اوپر پہنا ہوتا ہے، آپ سے باتیں کرتا ہے۔ پہاڑ اوپر سے کھڑے پوری عظمت اور شان و شوکت سے اپنے کان پرے کیے اپنے آپ میں مگن کوئی چِلّہ کاٹتے اور حالتِ فکر میں محسوس ہوتے ہیں۔
راقم پاکستان سے باہر کبھی نہیں گیا، جانے لوگ وہاں کیسے محسوس کرتے ہوں۔ لیکن یہاں اپنی جغرافیائی دنیا سے بہت فاصلے کا احساس نہیں یوتا۔ یہ شاید کچھ اضافی فائدہ ہو۔
یہاں مَبالی آئی لینڈ دن اور شام کے کسی جوڑ پر بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمین آپ پر خواہ مخواہ کا کششِ ثقل ڈالنا بند کیے ہے؛ آسمان آپ کے گَلے مل کر ساتھ رہنا چاہتا ہے، اور یہ سب کچھ اسلام آباد سے گھنٹے سوا گھنٹے کی مسافت پر ہو۔
باقی باتیں جا کر محسوس کیجیے، اور ذاتی سطح پر محسوس کیجیے۔
(اس تحریر کے لکھنے میں کوئی کمرشل مفاد وابستہ نہیں۔)