مشینون کی منزل ، انسانیت کا زوال: ضرر دہ ہنر
افسانہ از، نصیر احمد
کبھی کبھی خوشی کا بھی اتنا وفور ہو جاتا ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کہیں اور کیا کریں۔ یہی حال میرا تھا کہ کچھ دیر میں میری انسانہ سے ملاقات ہونے والی تھی۔ سر خوشی کے اس عالم میں میرے ذہن میں حافظ کا شعر ہی آیا کہ انسانہ تھیں ہی ایسی کہ حافظ کے علاوہ ان کے حسن و خوبی کو کوئی اجاگر کر ہی نہیں سکتا تھا۔
شاھد آن نیست کہ موئی و میانی دارد
بندہ طلعت آن باش کہ آنی دارد
واقعی انسانہ جیسی عظیم شخصیت کی طلعت کی صرف بندگی ہی کی جا سکتی تھی اور میں تو بندگی کہ بھی لائق نہیں تھا کہ میں نے بہ قول شخصے فاحشاؤں کےمقامات بلند کر کے آسمان گرایا تھا۔ جی ہاں، میں ہی ان مرزا صاحب کا قاتل ہوں جن کی قربت اور دوری صدی کے آغاز میں انسانیت اور عظمت کا معیار تھی۔ بس لوگوں کو تفہیم نہیں ہوئی اور زیادہ تر دور ہٹتے گئے مگر انسانہ ان کی لاڈلی دوست تھیں اور کبھی بھی ان سے دور نہیں ہٹیں اور آج انسانیت کی بقا کا دار و مدار انسانہ پہ ہے۔ اور جیسے میں نے فاشسٹوں کے لیے مرزا صاحب کو قتل کیا تھا، ایسے ہی میں آج مشینوں کے لیے انسانہ کو قتل کرنے جا رہا ہوں لیکن ان کے لیے میرے دل میں جو عزت ہے، وہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن کام کام ہوتا ہے اور میں اپنے دل میں انسانہ کے لیے بہت ساری محبت اور عزت کے با وجود انسانہ کو قتل کروں گا۔
یہ موقع پھر کہاں ملے گا کہ اتنے واسطوں، رابطوں، سلسلوں، پیچیدگیوں، گردشوں اور مسافتوں کے بعد انسانہ سے ملاقات ممکن ہوئی تھی۔ اب میں منقبت ،ستائش اور فردا کا سوچ کر یہ موقع ضائع کر دوں تو مجھے پیشہ ور کون کہے گا؟ میرے لیے یہ نا قابلِ برداشت ہے کہ مشینیں میرے پروفیشنلزم پر معترض ہوں۔ یہ ہارے ہوئے چند انسان جن کی قیادت انسانہ کر رہی ہیں کچھ بھی کہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر مشینوں کی نگاہ میں میرا درجہ کم ہو جائے میں سہہ نہیں سکتا اور پھر مستقبل تو مشین ہی ہے۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں میرے دل سے مرزا صاحب کے قتل کی ندامت اور انسانہ کے چند لمحوں بعد یقینی قتل کرنے کا ملال نہیں کم ہو رہے۔
انسانہ کے بارے میں مشینوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ ان کی خوبیاں، ان کی خامیاں۔ ان کی تیز نگاہیں جو وجود کا فریب بھانپ گئی تھیں اور ان کا دل جو محبت اور سخاوت کا ایک بحرِ بے کراں تھا، سب مجھے معلوم تھا۔ اور آج جس مزاحمت کی وہ قیادت کر رہی ہیں، اس کے لیے کتنے غیر محسوس انداز میں مرزا صاحب ان کی تربیت کر رہے تھے، اس کی تفصیلات بھی مجھے معلوم ہیں۔ کھانے، لباس، کتاب سے لے کر پنچھیوں پیڑوں تک بھی ان کی پسند، نا پسند مجھے معلوم تھی۔
مشینوں نے سب کچھ ریکارڈ کیا ہوا تھا۔ پھر بھی مشینیں انھیں کچھ سمجھ نہیں سکیں اور مشینیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ انسانہ کے ساتھ اگر معاملہ نہیں ہو سکتا تو انسانہ کو ختم کر دیا جائے۔ اور اس کام کے سلسلے میں میں نے مشینوں کے خاتمے کا امکانات اجاگر کر کے انسانہ تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ کامیابی کا لالچ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے خلاف انسانی مزاحمت کمزور ہو جاتی ہے اور انسانہ بھی فریب میں آ گئی تھیں۔ اب بس انسانہ سے میری ملاقات کے بعد چند دھماکے ہونے تھے اور انسانی مزاحمت کا مکمل خاتمہ۔
ویسے بھی انسانوں کا رہا کچھ نہیں تھا، ایک ویرانہ اور انسانہ کے ارد گرد چند لوگ۔ اور یہ لوگ مشینوں کی بے پناہ طاقت کے سامنے کچھ نہیں تھے لیکن انسانہ نے ایک ایسا حل ڈھونڈ لیا تھا کہ مشینیں وقتی طور پر کھٹل ہو گئی تھیں۔ بے چاری مشینیں، جب بھی بے بس ہوتی ہیں تو میرے پاس ہی آتی ہیں۔ ایک مقام پر انسانوں سے یہ جنگ وہ ہارنے لگی تھیں، تب میں ہی ان کے کام آیا تھا ،اب وہ کھٹل ہو گئی تھیں، تب بھی میں ہی ان کی مدد کر رہا تھا۔ مشین بھی جتنی مرضی ترقی کر لے، پروفیشنل کی محتاج ہی رہتی ہے۔
صدی کے آغاز میں مرزا صاحب اور ان جیسے چند لوگ بات سمجھ گئے تھے کہ معاملات کس طرف جا رہے ہیں، اس لیے انھوں نے انسانہ کی کافی اچھی تربیت کر دی تھی، مگر انسانہ نہ تو پروفیشنل تھیں اور نہ مشین، اس لیے ہار گئی تھیں۔ وہ لڑکی سی ہی تھیں لیکن انھیں تعلیم کر دیا گیا تھا کہ وجود کا معتبر انکشاف جو دکھاتا کم ہے اور چھپاتا زیادہ ہے اس کی منزل انسانیت کا زوال ہی ہے۔ انسانہ کی اس طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ وجود کے معتبر انکشاف کے نام پر روز مرہ زندگی بھی ادا کاری بن گئی ہے اور ادا کار کے لیے تالیوں سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے اور ادا کار کی تالیوں سے یہ محبت انسانیت کو لے ڈوبی گی۔
انھیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اگر تاریخ میں افسانے کے امکانات ڈھونڈ کر سچ کو ختم کیا جائے گا اور ذاتی تفہیم کو بے ثبوت آفاقی سچ بنانے کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تو لوگ اپنے ہر عمل کو روا سمجھ لیں گے کہ ذاتی احتساب کے معاملے میں لوگ ناتواں ہوتے ہیں اور سچ کی عدم موجودی میں اجتماعی احتساب بھی نا تواں ہو جائے گا۔
انسانہ کو یہ بھی تعلیم کر دیا گیا تھا کہ سچ کے خاتمے پر مبنی امیر آدمی کی پرستش کا انجام قتل گاہیں ہی ہوتا ہے کہ انسانوں میں درجہ بندی جب احسن سمجھ لی جائے تو اس کے بعد قتل وغارت آسان ہو جاتی ہے۔
انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ جب مشین کارکردگی میں اس قدر اضافہ کر دے کہ مشین کے استعمال کرنے والے سست ہو جائیں تو مشینوں کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اور جب مشینوں کے پاس انسانوں کے بارے میں بے پناہ علم ہو گا اور مشینوں میں شعور کے حوالے سے تجربات کامیاب ہونے لگیں گے تو جس طرح فاشزم کے تحت انسان دوسرے انسانوں کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح ایک وقت آئے گا مشینیں انسانی تجربے کو کام میں لاتے ہوئے کائنات میں انسانوں کو غیر ضروری سمجھنے لگیں گی۔ یہ بات ان لوگوں نے کہی تو تھی مگر اس کا انھیں کچھ یقین نہیں تھا۔
انسانہ کو مرزا صاحب نے سمجھا دیا تھا کہ فاشزم اور مشین کا اتحاد انسانوں کے لیے بڑے خطرناک نتائج لا سکتا ہے۔ اور بیسویں صدی میں اس اتحاد کے خوف ناک نتائج پر تو مسلسل بحث ہوتی رہتی تھی۔
لیکن فاشسٹوں اور مشینوں کا اتحاد ہو گیا اور اس اتحاد کو کوئی نہیں روک سکا۔ انھی دنوں میں اس اتحاد کے خلاف مسلسل گفتگو کے جرم میں میں نے فاشسٹوں کے لیے مرزا صاحب اور ان جیسے چند لوگوں کا خاتمہ کیا تھا۔ فاشسٹ بھی مشینوں پر بہت زیادہ بھروسا کرنے لگے تھے اور اتنے عرصے میں مشینوں میں شعور کے بنیادی آثار بھی نظر آنے لگے تھے۔ چند ہی سالوں میں مشینیں آزاد ہونے لگیں اور چوں کہ ان کی ساری تعلیم فاشسٹوں نے کی تھی، اس لیے وہ فاشسٹوں کے نقشِ قدم پر ہی چلیں اور فاشسٹوں اور انسانوں کو مٹانے لگیں۔
انسانی صلاحیتوں کا خاتمہ تو فاشسٹ کر ہی چکے تھے، اس لیے انسان مشینوں کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ اور انسان اربوں کی تعداد میں قتل ہو گئے۔ مشینیں جو چاہتیں وہی ہوتا، کبھی وہ سمندری طوفان لے آتیں، کبھی وبائیں پھیلا دیتیں اور کبھی اسلحے کے ذریعے انسانیت کا خاتمہ کرنے لگتیں۔ اور انسانوں کو چھپنے بھاگنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔
اسی عرصے میں انسانہ مزاحمت کی لیڈر کے طور پر ابھریں اور انھوں نے مشینوں کامقابلہ کرنے کی بجائے مشینوں سے چھپنے اور بھاگنے کے کامیاب تجربے کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان کے گروہ نے مشینوں کا استعمال ترک کر دیا جس کے نتیجے میں مشینوں کو انھیں ڈھونڈنے میں مشکل ہونے لگی۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے مشینوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں نے انسانہ کو ڈھونڈ لیا۔
میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے انسانہ کے پاس لے گئے ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار انھیں آمنے سامنے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ درمیانے قد کی تھیں اور ان کی عمر میرے خیال میں پچاس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ گوری چٹی تھیں اور ان کی نیلی آنکھیں جیسے میرے ارادے جان گئی تھیں۔
تو آپ ہیں، جو جانتے ہیں کہ سکول میں کیا ہوا تھا؟
اب مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ انسانہ ساری بات جانتی ہیں، یا مجھے دیکھتے ہیں جان گئی تھیں۔
جی، جاننے کا تو نہیں کہہ سکتا، لیکن سنا ہے۔
میں نے کہا۔
جو سنا ہے بتا دیں، ہمارے لیے بہت اہم ہے۔
وہ پوچھنے لگیں۔
میڈم وہ ایسے ہے کہ مشینیں سکول میں گھس کر بچے مارنے لگی تھیں کہ اچانک جو لیڈر مشین تھی رک گئی۔ لیڈر مشین کے رکنے کے بعد سب مشینیں رک گئیں، اور بچے بچ گئے۔
میں نے کہا۔
اس کی کیا وجہ تھی؟
انھوں نے پوچھا۔
سنا ہے، کسی مرکزی پروگرام میں خرابی ہو گئی تھی۔ جسے دور کرنے کے لیے انسانی مداخلت کی ضرورت تھی۔ ڈیزائن ہی ایسا تھا کہ اس خرابی کے بعد مشینوں کی شعوری آزادی یا تو ختم ہونی تھی یا برقرار رہنی تھی، لیکن یہ فیصلہ ایک انسان نے کرنا تھا۔
میں نے انھیں بتایا۔
اور انسان نے انسانوں کے خلاف کیوں فیصلہ کیا؟
انھوں نے پوچھا
یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟
میں نے کہا۔
ھاھا، پوچھنے کی بات ہے۔ کہیں تو انسان نے اپنی بدی تھامنی ہوتی ہے۔ نہیں تھامے گا، تو اپنا نقصان کرے گا۔ ہماری آنکھوں میں جھلکتی محبت اور عزت کے معنی ہیں۔ مشین کی ریٹنگ تو ہمارے بعد بے معنی ہو جائے گی۔ اور یہ پھر فاشسٹوں کی تربیت یافتہ مشینیں ہیں، انھوں نے انسان کو ختم کرنا ہے، اور اس کے بعد ایک دوسرے کو اور اس کے بعد اگر بچ گئیں تو فطرت کو۔
انھوں نے کہا۔
جس نے انسان کے خلاف فیصلہ کیا تھا، اس کا دل یونہی تو پتھر نہیں ہوا تھا۔ انسانوں نے اس کے خلاف مسلسل فیصلے کیے تھے۔
میں نے کہا۔
اتنی تباہی کے بعد بھی انسانوں کے خلاف فیصلوں میں اس نے اپنی حماقت نہیں دیکھی؟
انھوں نے کہا
ایک جب اپنی حماقت نہیں دیکھ رہا ہو تو دوسرا کیوں دیکھے؟
میں نے کہا
لیکن اگر ایک بھی یہ حماقت دیکھ لے تو کیس ختم ہو جاتا ہے؟
انھوں نے کہا
اور اگر دیکھنے والا ایک بھی نہ رہے، تو کیسی دانائی اور کیسی حماقت۔
میں نے کہا
اب میں دبدھا میں پڑ گیا، میں ان کا پرستار بھی تھا، لیکن میں اپنے ساتھ کے انسانوں کو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ انھوں نے بارہا سنگ دلی کی تھی اور میں نے بار ہا معاف کیا تھا۔ لیکن معافی ہر دفعہ ایک بڑی غلطی ثابت ہوئی تھی اور میں اب یہ غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا۔
ایک تو رہے گا
انھوں نے کہا۔
ان کی نیلی نیلی جگمگاتی ہوئی آنکھوں میں چند منٹوں کے بعد روشنی نہیں رہے گی، ان کے ہونٹوں کے پھر کبھی مسکراہٹ نہیں نصیب ہو گی اور ان کی آواز کی شیرینی پھر اس دنیا میں نہیں گونجے گی، میں بہت دکھی سا ہو گیا مگر میں معاف نہیں کر سکتا تھا اور میں نے اپنی کلائی میں چھپی ہوئی مشین کا بٹن دبا دیا۔
اور شاید بہت سارے
وہ کہنے لگیں۔
میرے ذہن میں تھا، ابھی چند دھماکے اور یہ آخری گروہ بھی ختم، لیکن کچھ نہیں ہوا۔
انسانہ مسکرا کر کہنے لگیں۔
مزاحمت کی میں ایسے ہی لیڈر نہیں ہوں۔یہ سلسلے، یہ رابطے، یہ پیچیدگیاں، یہ سب اسی لیے تھا کہ تمھیں تمھاری مشین سے محروم کر دیا جائے۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اب وہ مشین ہمارے پاس ہے اور جب کبھی بھی مشینیں رکیں گی تو جو فیصلہ کرے گا وہ انسانوں کے حق میں فیصلہ کرے گا۔ مشینوں کے شعور پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور فطینوں کے شعور پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ فطین درکار ہیں مگر با کردار فطین۔
اب میں بہت گھبرا گیا۔
اور میرے خلاف فیصلہ؟
میں نے کہا
خلاف نہیں، تمھارے حق میں۔ تم اپنی ایجاد سے محروم ہو گئے ہو، اپنے ساتھ تمھیں نہیں رکھیں گے کہ تم پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ فطین تم ہو، اب ہماری طرح مشینوں سے چھپنے کی کوشش کرتے رہو، لیکن ہمارے ساتھ نہیں کہ تم نے فطانت کا بہت ہی غلط استعمال کیا ہے۔ مرزا صاحب بھی فطین تھے، اکیلے بھی تھے لیکن وہ با کردار شخص تھے۔ فطانت میں ان کی تنہائی ایک المیہ تھی مگر فطانت میں تمھاری تنہائی، تمھاری سزا۔ فطانت یا کسی قسم کی خوبی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسانیت، قانون اور اخلاق کو معطل کر دیا جائے۔
زیادتیاں تو مرزا صاحب اور بہت ساروں کے ساتھ ہوئی لیکن ہر کسی نے گھناؤنا انتقام نہیں لیا اور مرزا صاحب نے تو کسی قسم کا انتقام نہیں لیا۔ اور آج اگر مشینوں کے خلاف کچھ انسانیت باقی ہے، تو انھی کی وجہ سے ہے کہ میں بھی تو انھی کی تفہیم اور خلاقی سے بہرہ مند ہوتی رہی ہوں۔ اگر کسی ایک جگہ پر تم نے بدی تھامی ہوتی تو میں تمھاری فطانت کو تنہا نہ رہنے دیتی مگر تم نے کسی ایک جگہ بھی اپنی بدی نہیں تھامی۔
انھوں نے کہا اور وہ سب وہ ویرانا چھوڑ کر کسی اور سمت چلے گئے۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے میں بھی ہار گیا ہوں اور مشینیں بھی ہار گئی ہیں۔ انسانہ ہماری توقع سے زیادہ ذہین نکلیں۔ واقعی مشینوں نے کچھ عرصے بعد رکنا ہے اور انسانہ لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیں گی۔ اتنے عرصے میں بھی مشینوں سے چھپنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
لیکن انسانوں کی جیت کے بعد کی زندگی کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے ہول آتے ہیں۔ کاش وہ مجھے کسی کٹہرے میں کھڑا کر دیں، یا کوئی گروہ مجھے چیر پھاڑ دے، یا مجھے ایسے ہی پھانسی دے دیں لیکن مجھے پتا ہے انسانہ مجھے زندہ رہنے دیں گی اور یہ زندگی تنہائی اور حقارت کی ہو گی، حقارت جس کا میں مستحق ہوں۔ وہ حقارت جو مرتے وقت میرے لیے ان مرزا صاحب کی آنکھوں میں تھی، اب وہ پورے عالم کی آنکھوں میں ہو گی۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات ہے کہ وہ حقارت میری آنکھوں میں بھی میرے لیے موجود ہے۔