مدد گار
افسانہ از، جواد حسنین بشر (اِبنِ مسافر)
وہ جگہ سڑک سے تھوڑا ہٹ کر تھی جہاں وہ ایک بے ہوش لڑکی کے ساتھ موجود تھا۔ نہ جانے وہ کون تھی اور یوں اس حال
میں اس جگہ کیسے پڑی تھی؟
وہ اتفاقاً اس طرف نکل آیا تھا، سڑک سے تھوڑا دور ذرا ہٹ کر درختوں اور جھاڑیوں کی اوٹ میں کہیں، وہ بس یونہی ادھر چلا آرہا تھا جب بے حس و حرکت پڑے اس نسوانی وجود نے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ اُس کے قدموں کو بھی ٹھہرا لیا تھا، اُس لڑکی کو وہاں بے ہوش پڑے نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ وہ اردگرد سے بے نیاز ٹیڑھی میڑھی بے سدھ سی پڑی تھی، شرٹ کے دامن سِرک کر ادھر ادھر ہو چلے تھے، اس کے آس پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جس سے کچھ بھی اندازہ ہو پاتا کہ وہ کون ہے؟
شاید کسی نے اس سے پرس اور موبائل وغیرہ چھین کر اسے یوں اس حال میں چھو ڑ دیا ہو؟ اُس نے سوچا۔
یا پھر شاید کچھ اور ہوا ہو؟ کسی نے کچھ ایسا ویسا کر کے وغیرہ؟
لیکن لڑکی کی بظاہر بہتر حالت اور سلامت کپڑوں نے فوراً اس کے خیالات کی تردید کر دی، لڑکی کے بالوں نے اُس کے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا، ہلکی ہلکی سانسوں کی آوازیں ابھر رہی تھیں، ادھر ادھر ہو چلے دامن کی اوٹ سے دھیمے دھیمے سے ہلکورے لیتا اس کا گورا پیٹ جھلک رہا تھا۔
وہ کیسے اس لڑکی کی مدد کرے؟
وہ تیزی سے سڑک کی جانب لپکا، ہاں! کسی گاڑی وغیرہ کو روکنا چاہیے تا کہ لڑکی کوہسپتال پہنچایا جا سکے؟ وہ سڑک کے کنارے پہنچا اور ہاتھ کے اشاروں سے گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کرنے لگا، کافی دیر یونہی گزر گئی، کوئی گاڑی نہیں رکی۔
شاید کوئی گاڑی نہیں رکے گی، اُس نے سوچا۔
مدد کرنے سے ہر کوئی گبھراتا ہے، کوئی رک بھی جائے گا تو لڑکی کا سُن کر شاید گبھرا جائے گا۔ وہ واپس پلٹا اور لڑکی کے پاس آکر اُسے غور سے دیکھنے لگا، اچانک اسے لگا جیسے لڑکی ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی، شاید ٹیڑھا میڑھا پڑے ہونے کے باعث اس کی سانسیں ٹھیک سے نہیں چل رہیں۔
وہ ایک ہاتھ سے لڑکی کی بھری بھری رانوں کا سہارا لے کر اس کے قریب بیٹھ گیا، اور دوسرے ہاتھ سے انتہائی نرمی سے ان بالوں کو ہٹایا جنھوں نے لڑکی کے آدھے چہرے کو چھپایا ہوا تھا، اُس نے اپنا موبائل نکالا اور سوچا کہ اسے مدد کے لیے کال کرنی چاہی؟ ہاں ! یہ ٹھیک ہے ،لیکن موبائل کی سکرین کو کافی دیر گھورتے رہنے کے بعد اُس نے موبائل کو واپس جیب میں ڈال لیا، شاید سگنل نہیں آ رہے تھے؟۔۔۔ ادھر لڑکی کی سانسیں؟
اُس نے اپنی توجہ پھر سے لڑکی پر مرکوز کر دی اورآرام اور احتیاط کے ساتھ لڑکی کی پلکوں کو تھوڑا تھوڑاسا اٹھا کر دیکھا اور دونوں ہاتھوں سے ہلکا ہلکا سا لڑکی کے گال تھپتھپانے لگا کہ شاید لڑکی جاگ جائے؟
لڑکی کی زیریں کمر، ٹانگیں، بازو اور سینے پر ڈھلکی ہوئی گردن،
اُس کے ہاتھوں نے لڑکی کے بدن کو خوب جانچ پرکھ کر سیدھا کیا ،لیکن اس کی پریشانی کم نہیں ہوئی، شاید ابھی بھی لڑکی ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی تھی؟
وہ اپنا دایاں کان لڑکی کے پیٹ سے لگا کر سانسوں کی رفتا ر کو قریب سے محسوس کرنے لگا۔
دائیں کان میں شاید کچھ پرابلم ہے۔
اُس نے بایاں کان پیٹ پر رکھا، شاید اسے ہتھیلی پھیلا کر چیک کرنا چاہیے؟
اس نے چیک کیا، ہاں! سانسوں کا چلن بے حد دھیما ہے ، ایسے میں وہ کیا کرے؟
اُس نے اردگرد کا جائزہ لیا، کوئی بھی نہیں تھا، اُس نے اپنا چہرہ لڑکی کے چہرے پر جھکایا اور اس کے لبوں کو وا کر کے سانسیں دینے لگا، لڑکی کے پیٹ پر ہاتھ پھیلائے اندازہ کرتے ہوئے کہ سانسیں ٹھیک سے چلنے لگی ہیں یا نہیں؟ اور اس کی کوشش کامیاب ہو پا رہی ہے یا نہیں؟
اُس کی کوشش جاری تھی۔۔۔ اور لڑکی مسلسل بے ہوش۔۔۔
شاید ہوش پوری طرح سے گم ہو چکے تھے
سڑک سے مسلسل گاڑیوں کی آوازیں آرہی تھیں، لیکن جلد ہی ۔۔۔ دھیمی دھیمی ہلکی سانسوں کی آواز اور مسلسل بج رہی موبائل کی گھنٹی کی آوازسمیت تمام تر آوازوں پر کسی بِدکے ہوئے وحشی گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑتی سانسوں کی آوازنے غلبہ پا لیا۔
اور لڑکی مسلسل بے ہوش تھی۔