مداری کی پٹاری
(عمار غضنفر)
کسی زمانے میں سڑک کے کنارے یا مصروف علاقوں میں مداری تماشہ دکھاتے نظر آتے تھے، اور لوگوں کا ایک جمّ غفیر اپنے سب کام دھندے چھوڑ کر، دائرہ بنائے مداری کا تماشہ دیکھا کرتا تھا۔ تفریح کے ذرائع کم تھے۔ اور لوگوں کو اس صورت میں ایک سستی تفریح ہاتھ آ جاتی تھی۔ ویسے بھی فرصت کا دور تھا۔ زندگی میں اتنی بھاگم دوڑ نہیں تھی۔ آج کل لوگوں کو تفریح کے دیگر ذرائع میسر آگئے ہیں، اور مداری بھی نظر آنے بند ہو گئے ہیں۔ شائد روزی کمانے کا کوئی اور ڈھنگ اپنا لیا ہے۔ مگر کچھ مداری اب بھی ہمارے ملک میں کافی سرگرم ہیں۔ یہ سامنے نہیں آتے، بلکہ پسِ پردہ رہ کر تماشے دکھاتے ہیں۔
مداری کا کمالِ فن یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنی باتوں، لہجے کے اتار چڑھاؤ، اور اپنی حرکات وہ سکنات سے مجمع کو مسمرائز کر کے، ان کی توجّہ آخر تک مرکوز رکھتے تھے۔
تماشائی دم سادھے منتظر رہتے کہ مداری کی پٹاری سے کیا برآمد ہوتا ہے، اور با لآخر مداری جب اپنی پٹاری کھولتا تو کوئی ایسی چیز برآمد ہوتی جو لوگوں کے اندازے کے بلکل برعکس ہوتی۔ یہی مداری کا کمال تھا۔
ایک ایسا ہی سحر انگیز تماشا ہمارے ملک میں بھی جاری ہے، اور لوگوں کی توّجہ بھی اسی طرح اپنی جانب مبذول کیے ہے۔ اور یہاں جب مداری نے پٹاری کھولی تو لوگوں کے اندازے کے برعکس اس پٹاری میں سے پانامہ کی بجائے ایک اقامہ برآمد ہوا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جے۔آئی۔ٹی کی رپورٹ کی وجہ سے یہ مقدمہ آج بھی وہیں ہے جہاں کچھ عرصہ قبل کھڑا تھا۔ آف شور کمپنیوں اور لندن اپارٹمنٹس کے متعلق جو مواد عدالت عظمیٰ کو پیش کیا گیا ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
چھ ماہ کی سماعت اور ستّر دن کی تفشیش کے بعد جو مواد پیش کیا گیا ہے، وہ کسی موثر الزام یا الزام سے متعلق قانونی شہادت کی عدم موجودگی میں اس معیار کا نہیں کہ وزیرِ اعظم کے خلاف کسی فیصلے کی بنیاد بن سکے۔ مگر وزیرِ اعظم کا اقامہ اور حسن نواز صاحب کی قائم کردہ ایف۔زیڈ۔ای کمپنی سے تعلق وزیرِ اعظم کے لیے ممکنہ طور پر کسی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ادھر یہ بھی شنید ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف دستاویزات اکٹھی کرنے والی فرم کے مالک اختر راجہ، واجد ضیاء کے کزن اور پی۔ٹی۔آئی کے متحرک کارکن ہیں، جن کی فرم کو اس مد میں تقریباً چالیس ہزار پاؤنڈ فیس ادا کی گئی۔
مزید یہ کہ اس فرم میں اختر راجہ کے علاوہ صرف ایک اور خاتون کام کرتی ہے، اور یہ فرم ایک ایسے دفتر سے آپریٹ کرتی ہے جس کا پتا 49 مختلف کمپنیاں استعمال کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ واجد ضیاء کے یہ کزن پارٹ ٹائم روحانی علاج بھی کرتے ہیں، اور ان کی فرم گزشتہ سال ستمبر میں آٹھ ہزار پاونڈ سے زیادہ کی مقروض تھی۔ ان نکات کی بنیاد پر جے۔آئی۔ٹی کی غیرجانبداری پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
دیکھیں اب مداری کی پٹاری سے مزید کیا برآمد ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی امیدوں پر اوس پڑتی ہے یا بقول پیپلزپارٹی کے ہر دلعزیز لیڈر مقبول چانڈیو صاحب کے مطابق “ٹانگہ آ گیا کچہریوں خالی” والی صورتحال درپیش ہوتی ہے۔ ہوائیں تو مخالف نظر آتی ہیں، اور پس پردہ مداری بھی اس مرتبہ کچھ کر کے ہی دکھانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے اب تک اپنے پتّے شو نہیں کرائے۔ دیکھیں وہ اس صورتحال سے کیسے نکلتے ہیں۔ انہیں مشورہ دینے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، مگر وزیرِ اعظم صاحب کی خدمت میں حسبِ حال میاں محمد بخش صاحب کا ایک شعر “پھنس گئی جان شکنجے اندر، جیوں ویلن وچ گنّا ۔۔۔ رٙو نوں کہ ہن رہو محمد، ہن رہویں تے منّاں” یعنی جان ایسے شکنجے میں پھنسی یے جیسے بیلنے میں گنّا، رس کو کہو اب اندر رہ کر دکھائے تو میں مانوں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.