مدفن کی تلاش
کہانی از، ظہیر عباس
سورج کی اَدھ کھلی آنکھ ابھی غضب سے عاری تھی۔ وہ بَہ راہِ راست اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہاں سے جو بھی مشرق کی سَمت دیکھتا اسے صرف سورج ہی دکھائی دیتا۔ دور تک کوئی ٹیلہ تھا اور نہ ہی کوئی درخت جو ان کی نگاہوں کے درمیان حائل ہوتا۔
سورج کے عین درمیان سے نکلنے والا وہ دھبا پَل پَل شبیہیں بدل رہا تھا۔ وہ کوئی دیو ہیکل کیکڑا، بھینسا، گینڈا یا اس سے ملتا جلتا کوئی چوپایا محسوس ہو رہا تھا۔
کبھی لگتا وہ ادھر ہی دائیں بائیں ہو رہا ہے تو کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے سورج سے لمحہ لمحہ دور ہو رہا ہے اور انھِیں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مبہم خد و خال آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو گئے۔ وہ جنگلی جانور سمجھ کر جس کا سامنا کرنے کے لیے دل ہی دل میں کوئی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے تھے۔ در اصل وہ چار لوگ تھے جو چارپائی اٹھائے، لڑکھڑاتے ہوئے ان کے قریب تر ہو رہے تھے۔
انھوں نے چارپائی یوں احتیاط سے رکھ دی جیسے ڈر رہے ہوں کہ کہیں چارپائی پر سوئے ہوئے شخص کی آنکھ نہ کھل جائے۔ ان کے لباسوں پر خون کے دھبے اور چھینٹے بہت نمایاں تھے۔
جوتے گاڑھے خون میں لَت پَت تھے اور ٹخنوں کے گرد بھی خون جما ہوا تھا۔ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی خون کی ندی سے گزر کر آئے تھے کیوں کہ ٹخنوں سے اوپر خون کے اکا دکا چھینٹے تو ضرور موجود تھے، لیکن زخم کا کوئی نشان نہیں تھا۔
اس کا مطلب یہی تھا کہ زخمی ہونے کے با وُجود خون ان کے جسموں سے رِستا ہوا ان کے پاؤں تک نہیں آیا تھا۔
ان کی کوئی ہاتھ بھر لمبی داڑھیاں تھیں جو یقیناً اُنھوں نے اپنی مرضی سے نہیں رکھیں، بَل کہ عرصے سے انھیں بنانے کاموقع ہی نہیں ملا۔ گرد اور خون سے اَٹے ہوئے چہروں کو دیکھ کر رنگت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
حیرت اور خوف سے پھیلی آنکھیں اس بات کی چُغلی کھا رہی تھیں کہ طویل اور کٹھن سفر کی وجہ سے وہ اپنے حواس میں نہیں رہے تھے۔ وہ چارپائی زمین پر رکھتے ہی ڈھیر ہو گئے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس کی آخری رسومات کے لیے وہ گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔
مرنے والے کی عمر اٹھارہ سے بیس کے درمیان ہو گی۔ بھورے ہلکے بالوں سے بھرے چہرے پر اکا دکا سیاہ بال بھی تھے۔ سفید رنگت والا یہ خوب صورت جوان یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی سویا ہو۔
حیران کن طور پر اس نو جوان کے جسم پر خون کا ایک چھینٹا تک نہیں تھا، البتہ چارپائی کے چاروں پائیوں کے گرد بھی خون جما ہوا تھا۔ انھوں نے ان چاروں کو پانی پلایا اور بچا ہوا کھانا بھی انھیں دے دیا۔
سستا لینے کے بعد ایک بار پھر انھوں نے اس نیت سے لڑکھڑا کر اٹھنے کی کوشش کی کہ میت کو اٹھا سکیں۔ انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کی مدد کی جائے اور پوچھیں کہ یہ لاش کس کی ہے اور ان کی منزل کہاں ہے؟ ویسے بھی کئی روز سے وہ بے مقصد وہاں بیٹھے تھے۔ ان پر ترس کھا کر انھوں نے میت اٹھالی۔
اب وہ چاروں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ زخمیوں کو میت نہ اٹھانے دی جائے۔ شام ہونے سے پہلے زخمیوں کی طبعیت بھی سنبھلنے لگی تھی۔ وہ کئی بار سستانے کو رکے لیکن پھر بھی مدھم چال چلتے رہے۔
انھیں تجسس تو بہت تھا کہ ان سے پوچھا جائے کہ میت کہاں لے کر جانی ہے، لیکن پھر اس خیال سے کہ یہ ساتھ ہی تو ہیں خود ہی بتا دیں گے۔ وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ دن ڈھلے انھوں نے اگلے ٹھکانے پر پڑاؤ کیا۔
سونے سے پہلے انھوں نے ان چاروں سے اس میت کے بارے میں استفسار کیا۔ ”ہم ساتھ ہی ہیں۔ صبح ہوتے ہی ساری کہانی، اول تا آخر آپ کو سنا دیں گے۔“
دن چڑھے جب آنکھ کھلی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ رات سوئے تو بیس تھے مگر جب وہ اٹھے تو دو گُنے ہو چکے تھے۔ پہلے چاروں کا کہیں نشان تک نہ تھا۔ وہ سب چارپائی کے گرد حیرانی کھڑے تھے۔ اس بات پر تُو تکار ہو رہی تھی کہ ہم پہلے یہاں تھے۔ دوسرے کہہ رہے تھے کہ نہیں تم لوگ بعد میں آئے ہو۔
کافی دیر وہ بحثتے رہے۔ دونوں اطراف سے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ بعد میں آیا ہے۔ ”یہ جنازہ بھی تمھِی لوگوں کا ہے اور کج بحثی سے تم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو“۔
بالآخر وہ لوگ جو جنازہ کے ساتھ آئے تھے، دوسروں کو اس بات پر قائل کرنے میں کام یاب ہو گئے کہ مرے ہوئے شخص سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ توان چار مفلوک الحال زخمیوں کی مدد کو یہاں تک آ گئے تھے جو صبح میت اٹھائے ان تک پہنچے تھے۔ ابھی ہم نے ان سے پوچھنا تھا کہ میت کو کہاں پہنچانا ہے، وہ ہمیں سوتا چھوڑ کر غائب ہو گئے۔
وہ پہلے آمد کے حوالے سے تو اک دوسرے کو مطمئن نہ کر سکے، البتہ جو مصیبت ان کے گلے پڑ گئی تھی اس کے بار ے میں کوئی فیصلہ کرنا ضروری تھا۔
فیصلہ یہی ہوا کہ آخری رسومات کا کوئی انتظام کیا جائے۔ دور تک کوئی آبادی بھی نہیں تھی۔ آخر وہ اسے کہاں لے کے جائیں۔ جنازہ اٹھانے والے اور ساتھ چلنے والے یہی سوچتے جا رہے تھے۔ قدموں کے لحاظ سے وہ جنازے کو کندھا دیتے۔ یوں وہ تمام قدم گِن گِن کر رکھ رہے تھے۔ پہلے چاروں کی باری ختم ہوتی تو اگلے چار اٹھا لیتے۔
”دھوپ آج کچھ زیادہ تیز نہیں ہے، کل تو بہت بارش ہوئی تھی“۔
”کہاں ہوئی تھی بارش، میں پہلے روز سے تمھارے ساتھ ہوں مجھے نہیں پتا؟“
”یہ اس وقت سے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا چلا آ رہا ہے جب سے ہمارے ساتھ نکلا ہے۔ میں نے پہلے روز ہی کہا تھا کہ اس منحوس کو ساتھ مت لو۔ جب سے یہ ہم میں شامل ہوا ہے ہمارا واسطہ نا کامیوں سے ہی پڑا ہے۔ رہی سہی کسر اس چارپائی والے نے نکال دی ہے خود تو دیکھو کتنے مزے سے پڑا ہے اور ہم ہیں کہ جہنم میں چل رہے ہیں۔“
”وہ دیکھو دور مکان نظر آ رہے ہیں۔ وہاں مردوں کو ٹھکانے لگانے کا سامان تو ضرور ہو گا۔“
آبادی دیکھ کر ان کے قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ اب چار تازہ دم نو جوانوں نے میت کو اٹھا لیا۔ ”ہم اندازہ لگانے میں غلطی کر رہے ہیں۔ آبادی اتنی نزدیک بھی نہیں ہے۔“
یہ سنتے ہی ان کے قدم زمین پر ٹکنے لگے۔ اب وہ مدھم چال چلتے ہوئے مکانوں کے قریب تر ہو رہے تھے۔
”کہیں کوئی رو رہا ہے“۔
”ایک نہیں کئی آوازیں ہیں!“
”یہ تو انھیں مکانوں سے آرہی ہیں۔“
رونے کی آوازیں قریب تر ہو رہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سے لوگ رو رہے ہوں۔ جُونھی وہ آبادی کی حدود میں داخل ہوئے لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے ان کی طرف بھاگنے لگے۔
ان کے قدم زمین نے پکڑ لیے۔ چارپائی نیچے رکھتے ہی لوگ ان کے قریب آن پہنچے۔ غم سے نڈھال لوگوں نے ان سب کو پرے دھکیلا اور میت کے گرد بین شروع کر دیا۔
”میرا خیال ہے یہ انھی کا کوئی عزیز تھا۔“
”ہاں چلو ہماری جان چھوٹی۔“
وہ پیچھے کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے لگے۔ ”مرنے والا ان میں سے کس کا عزیز ہے؟ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر رونے کی کوشش کررہا ہے۔“ تھوڑی دیر بعد سب چپ ہو گئے۔ ان کی عورتیں بین کرتی ہوئی واپس چلی گئیں۔
کافی دیر وہ چپ چاپ میت کے پاس بیٹھے رہے جیسے فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ کرنا کیا ہے۔ جن لوگوں نے چارپائی وہاں تک پہنچائی تھی ان کی حیثیت اب ثانوی تھی۔ وہ آبادی والوں کو تجسس سے دیکھ رہے تھے۔
”پتا نہیں اب ان کا کیا ارادہ ہے؟“
”بس دیکھتے جاؤ۔“
”شام پھر ڈھلتی جا رہی ہے اور ہم نے پچھلے روز سے کچھ نہیں کھایا۔“
”انھی سے بات کر کے دیکھتے ہیں“۔
انھوں نے گاؤں والوں کو اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ ایک آدمی اٹھا اور آبادی میں گُم ہو گیا۔ سورج اگر چِہ ڈوب چکا تھا، لیکن آنکھوں پر زور دے کر چند فرلانگ تک دیکھا جا سکتا تھا۔
آبادی کی طرف سے پہلے آوازیں اور پھر سائے انسانوں میں بدلتے ہوئے ان کے قریب آن پہنچے۔ ان میں سے ایک تو وہی تھا جو ان کے پاس سے اٹھ کر گیا تھا۔ باقی دس سے بارہ سال کی عمر کے چار بچے تھے جنھوں نے کھانے پینے کا سامان اٹھایا ہوا تھا۔
کھانا صرف انھی کے لیے تھا جو میت کو وہاں تک لائے تھے۔ آبادی والے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ جونھی انھوں نے کھانا ختم کیا سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ چار لوگوں نے میت کو اٹھایا اور چل پڑے۔ باقی دائیں، بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔
اس رات جنازہ آبادی والوں نے ہی اٹھایا۔ ”آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ بس ہمارے ساتھ چلتے رہیے۔ آپ پہلے ہی بہت مشقت اٹھا چکے“۔ آبادی کے کسی فرد کی آواز میت اٹھتے وقت ہی انھوں نے سنی تھی۔ رات کا پچھلا پہر ہو چلا تھا کھانا کھانے والے غنودگی کے عالم میں تھے۔
”یہ ہمیں کہاں لیے جا رہے ہیں؟”
“میں بھی یہی سمجھا تھا کہ کہیں قریب ہی مردے کا ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنے جا رہے ہیں۔“
”سارا دن ہم بغیر رکے چلتے رہے ہیں۔ اب ہمارے لیے چلنا دوبھر ہو رہا ہے اگر آپ میت رکھیں تو ہم تھوڑا سستا لیں۔“
پچھلے روز کی طرح ان کے جاگنے سے پہلے، آج بھی کافی لوگ وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آبادی سے شامل نہیں ہوئے تھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلی رات والا ہنگامہ کھڑا ہو جائے۔ یہ خدشات دماغوں میں جنم لینے سے پہلے ہی ہوا ہو گئے۔
”ہم اس جنازے میں شرکت کرنے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ ہم نے علاقے کا کونا کونا چھان مارا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ان چار نیم پاگلوں کا جو ہمیں پچھلے روز ملے۔ وہ زخموں سے نڈھال گرتے پڑتے جا رہے تھے جیسے انھیں کسی نے وحشیانہ طریقے سے پیٹا ہو۔ ہم نے ان کی حالت دیکھ کر انھیں زیادہ دیر نہیں روکا۔“
”چند لوگ ایک میت لے کر اس سمت کو گئے ہیں۔ وہ شاید بہت جلدی میں تھے۔ ہم نے انھیں روک کر یہ پوچھنے کی کوشش بھی کی کہ میت کس کی ہے، لیکن انھوں نے ہماری بات کا جواب دینا پسند نہیں کیا۔ سو ہمیں یہ پتا نہیں ہے کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔
“اگر آپ ذرا جلدی چلیں گے تو اگلے روز انھیں جا لیں گے۔ ہم چاروں عرصہ ہوا اپنے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔ ہمیں جلدی اپنے ٹھکانوں تک پہنچنا ہے ورنہ ہم بھی ان میت والوں کو ڈھونڈنے آپ کے ساتھ چلتے۔
“ہماری حالت آپ کے سامنے ہے کیا خبر ہم اپنے گھروں کو زندہ سلامت پہنچ بھی پاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہمیں جلدی نہ ہوتی تو ہم آپ کو بتاتے کہ ہماری یہ حالت کیوں کر ہوئی؟“
”وہ چاروں ہمیں یہ راستہ بتا کر چل دیے۔ ان کی بتائی ہوئی سمت میں چلتے ہوئے ہم یہاں آن پہنچے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ان کے بتانے کے بعد ہمیں آپ کو زیادہ تلاش نہیں کرنا پڑا۔ اگر آپ لوگ سو نہ جاتے تو یقیناً بہت آگے نکل جاتے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔“
”ان کے چہروں پر داڑھیاں تھیں اور پیروں کے گرد خون بھی جما ہوا تھا؟“ ”یہ چاروں پھر وہی ہیں جو پچھلی رات ہمیں میت کے پاس چھوڑ کر بھاگ گئے“۔
”لو آ گیا اب ہماری بات کا یقین؟“
”لیکن سوال یہ ہے کہ انھوں نے ان سے جھوٹ کیوں بولا؟“
”وجہ سیدھی ہے کہ اگر وہ سچ بولتے کہ وہ میت ہم ہی وہاں چھوڑ کر آئے ہیں تو یہ لوگ انھیں واپس ساتھ لانے کی کوشش کرتے۔“
”جو بھی ہے وہ مصیبت ہمارے گلے میں ڈال کر رفو چکر ہو گئے۔“
”اب اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں ملے گا کہ میت کہاں سے آئی؟“
”یہ جو ابھی ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں، یہ کون ہیں۔ ؟“
”فی الحال چپ رہو، بس تماشا دیکھو۔“
آنے والے ساٹھ ستر کے لگ بھگ تھے۔ تعداد اب دو سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ تھوڑی دیر وہاں رکنے کے بعد نئے آنے والوں نے چارپائی اٹھائی۔
ایک بار پھر وہ رواں دواں تھے۔ جس کا جب جی چاہتا وہ میت کو کاندھا دے دیتا۔ آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے سے شناسا ہو رہے تھے۔ باتیں کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔
”میں نے سنا ہے بادشاہ کا بڑا بیٹا بادشاہ کو قتل کر کے خود تخت پر بیٹھ گیا ہے۔“
”نہیں، نہیں۔ وہ قتل نہیں ہوا اسے قید کر لیا گیا ہے۔“
”سلام ہے تم دونوں کی عقل پر اس نے بڑھاپے کی وجہ سے خود تخت چھوڑ دیا ہے۔“
”میرے بھائی وزیرِ اعظم نے بادشاہ کے بیٹے سے گَٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ وزیر کی بیٹی جو شہزادے کی منظورِ نظر ہے۔“
”یار کیا بتاؤں تمھیں وہ میری بات مانتی ہی نہیں، اسے کئی بار میں نے سمجھایا کہ اچھا وقت آ جائے گا، حالات بدل جائیں گے۔ لیکن وہ یہ کہہ کر کاٹنے کو دوڑتی ہے کہ تم کئی سالوں سے مجھے جھوٹی تسلیاں دے رہے ہو۔
“ارے! اسے میں نے سب بتایا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر تمھارا گزارا نہیں ہو گا۔ لیکن تب اس پر عشق کا بھوت سوار تھا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کبھی گھر واپس نہیں جاؤں گا۔“
”وہی ناں چار گلیاں چھوڑ کر جو کونے پہ ہے۔ ہاں ہاں وہی دروازے پر نیم کا درخت ہے۔“
”زندگی میں پہلی بار گھر سے نکلا ہوں مزا آ رہا ہے۔“
“آہستہ بولو اگرمیت کے لواحقین میں سے کسی نے سن لیا تو ہنگامہ ہو جائے گا۔“
”ویسے آپ نے بتایا نہیں کہ مرنے والے کے لواحقین کون ہیں۔“
”کیا احمقوں کی طرح باتیں کر رہے ہو؛ چپ چاپ چلتے رہو۔ اتنے عرصے سے ہم جنازے کے ساتھ ہیں۔ اب اگر میں پوچھوں کہ بھائی مرنے والا کس کا کچھ لگتا ہے تو سب کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔“ ”لگتا تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی جُھنڈ ہے۔“
”اور درختوں کے اوپر سے پہاڑ بھی دکھائی دے رہے ہیں۔“
“ہاں یار مجھ سے تو دو قدم نہیں چلا جا رہا۔“
سورج ان کے سروں کے عین اوپر تھا۔ دھوپ کی حدت سے صرف وہی محفوظ رہتے جن کے سروں پر میت کا سایہ ہوتا۔ اپنے سائے اپنے قدموں تلے مسلتے وہ وہاں آن پہنچے۔
گھنے اور پھلوں سے لدے درختوں کی چھاؤں میں لیٹے ہوئے انھیں کافی وقت ہو گیا تھا۔ ان میں سے کوئی اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ جگہ ایک بہتی ہوئی ندی کے کنارے تھی جس کا منبع یقیناً وہ پہاڑ تھے جو انھیں تھوڑی دیر پہلے درختوں کے اوپر سے دکھائی دے رہے تھے۔
لیٹنے سے پہلے وہ دیر تک نہاتے رہے تھے۔ ساری تھکاوٹ ندی میں بہا کر ہی وہ باہر نکلے تھے۔ ان کے آرام میں خلل، گھنٹیوں کی آواز، گھوڑوں کی ہِن ہِناہٹ، ہوا میں تیرتے ہوئے قہقہوں اور بے ہنگم شور شرابے نے ڈال دی۔
آواز ندی کے پار سے نہیں، بَل کہ جھنڈ کے پیچھے سے آ رہی تھی جہاں سے وہ گزر آئے تھے۔ ان میں سے کچھ تو اٹھ کر بیٹھ گئے باقی ابھی لیٹے ہوئے تھے کہ ندی کی طرف پانی کی غرض سے آنے والے ان کے سرہانے آن کھڑے ہوئے۔
کچھ بچے اور عورتیں حیرانی سے میت کو تو کبھی اس کے گرد بکھرے ہووں کو گھور رہے تھے۔ ان کے اعتماد کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ علاقہ ان کا دیکھا بھالا ہے اور کہیں آتے جاتے وہ لازمی یہاں پڑاؤ کرتے ہیں۔
چند لمحے وہ نا گواری سے انھیں دیکھتے رہے اور پھر ندی سے پانی بھر کر لوٹ گئے۔ ان کے جاتے ہی وہ سب اٹھ گئے۔ اتنے میں خانہ بَہ دوش بھی تعزیت کے لیے آنے والوں کی طرح چپ چاپ وہیں آن بیٹھے۔
”تم سب اس وقت تک یہی رکو گے جب تک ہم مردے کو ٹھکانے نہ لگا آئیں۔ اگر ہم اس کی آخری رسومات میں شامل نہ ہوئے تو یہ روح ہمارے اجداد کی روحوں سے ہماری شکایت کرے گی کہ ہم نے اس کے ذریعے ان تک اپنا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔“
“چار آدمی بڑھ کر جب میت اٹھانے لگے تو خانہ بَہ دوشوں نے انھیں روک دیا۔”
“اب اسے ہم اٹھائیں گے۔“
انھوں نے جنازہ اٹھایا اورچل پڑے۔
”یقیناً انھیں پتا ہے کہ مردے کی آخری رسومات کہاں ادا کی جاتی ہیں۔“
”ہاں اسی لیے تو یہ آگے آگے چل رہے ہیں۔“
کافی دیر تک وہ بہاؤ کے مخالف سمت میں چلتے رہے۔ کوس بھر چلنے کے بعد انھوں نے لکڑی کے پل کے ذریعے ندی کو پار کیا۔ اب وہ بہاؤ کے ساتھ اسی طرف چل رہے تھے جس کی مخالف سمت میں تھوڑی دیر پہلے وہ سستا رہے تھے۔ جب وہ اس جگہ کے عین سامنے پہنچے۔ خانہ بَہ دوشوں کے رشتے داروں نے انھیں ہاتھ ہلا ہلا کر با قاعدہ رخصت کیا۔
”اب یہاں پڑے پڑے سڑتے رہو۔ ہم تو کبھی نہیں پلٹیں گے۔“
”ہاں اس زندگی میں کتنی یَک سانیَت تھی۔ وہ تو بھلا ہو جنازے والوں کا جن کے بہانے ہماری جان چھوٹ گئی۔“
”ٹھیک کہتے ہو اب تک تو اجداد کی روحیں بھی گل سڑ گئی ہوں گی۔ یہ جسے ہم کندھوں پہ اٹھائے پھر رہے ہیں اس کی روح بھی پتا نہیں کس عالم میں ہو گی۔“
انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔ اب ندی اور ندی کنارے کے درختوں کے راستے میں اور بڑے بڑے درخت حائل ہو چکے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے یوں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے جیسے کب کے بچھڑے ہوئے ہوں۔
”پچھلے دنوں کے مقابلے میں اب گرمی کچھ کم ہو گئی ہے۔“
”اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہم میدانی علاقے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔“
”بھلا ہو مرنے والے کا ورنہ ہم زندگی میں کبھی اس طرف نہ آتے۔“
”کچھ سال پہلے جب ہم نے یہاں پڑاؤ کیا تھا۔ زمین خشک تھی۔ لگتا ہے اس سال خوب بارشیں ہوئی ہیں۔“
”شام ہونے کو ہے، ہم جنگل میں داخل ہونے سے پہلے ادھر ہی رکیں گے۔ کیوں کہ جنگل گھنا اور فاصلہ بھی کافی زیادہ ہے۔ رات اگر ہم چلتے رہے تو کھو جائیں گے۔ درخت پھل دار ہیں۔ ہمیں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہو گا،“ خانہ بَہ دوشوں میں سے کسی کی آواز گونجی۔
جن کی آنکھ مُنھ اندھیرے کھل گئی تھی انھیں باقیوں کے جاگنے کا کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔
”شکر ہے آج سوتے میں کوئی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوا۔“
”رات بہت عجیب بات ہوئی۔ میں چارپائی کے پاس ہی لیٹا تھا کہ اچانک میرے چہرے پر کوئی چیز آن گری۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ہوا کے کسی جھونکے نے مردے کے چہرے سے کپڑا نوچ لیا تھا، جو میرے چہرے پر آن گرا تھا۔
“میں نے جب کپڑے دوبارہ اس کو ڈھانپا تو مجھے یوں لگا کہ وہ مرا ہوا نہیں ہے بَل کہ زندہ ہے۔ میرا اوپر کا سانس اوپر، اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔“
”یہ تمھارا وہم ہے۔“
“ہاں یہ میرا وہم ہی ہے، ورنہ کوئی کھائے پیے بَغیر اتنے دن کیسے دم سادھے لیٹ سکتا ہے؟“
”میرا خیال ہے ہمیں اگلی رات اسی جنگل میں ہو جائے گی۔“
”مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے رات ہو چکی ہے۔ سورج اس وقت سے دکھائی نہیں دیا جب سے ہم اس جنگل میں داخل ہوئے ہیں۔“
”دکھائی کیسے دیتا، وہ تو جنگل کی اس سَمت سے نکلا تھا جدھر کو ہم جا رہے ہیں۔“
”جب ہم جنگل میں داخل ہوئے تھے تو میت کن لوگوں نے اٹھائی ہوئی تھی؟“
اس بات کا جواب کہیں سے نہیں آیا۔ بس وہ چلتے رہے۔ اندر سے خوف زدہ بھی تھے کہ کہیں ایسا نہ کہ جنگل میں چلتے ہوئے ہی ان کی زندگی تمام ہو جائے۔ بھوک اور پیاس سے وہ بے حال ہونا شروع ہو گئے تھے۔
”چلتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سستانے کو رکیں اور اسی حالت میں مارے جائیں۔ اگر ہم مر گئے تو اس میت کا کیا ہو گا؟”
“وہ درختوں کے تنوں سے بچتے بچاتے جا رہے تھے۔ وہ جو خود بھاگ بھاگ کر پہلے میت کو کندھا دے رہے تھے، اب ان کی کوشش تھی کہ ان کی باری نہ ہی آئے۔
آہستہ آہستہ وہ جنگل کے اختتام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ درخت اب کم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ گھنا جنگل پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ درختوں کے درمیان ہی چل رہے تھے لیکن اب درختوں کا فاصلہ بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ سورج عین سروں کے اوپر ہونے کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کس سَمت سے طلوع ہوا ہے۔
”ہم خواہ مخواہ ڈر رہے تھے، جنگل کا رقبہ اتنا بھی زیادہ نہیں تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے تو ہم داخل ہوئے تھے اور اب باہر بھی آ گئے۔“
جنگل سے نکلتے ہی انھوں نے تھوڑی دیر سستانے کا فیصلہ کیا۔
”وہ دور کسی شہر کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔“ ان کی نظروں نے اثبات کی تائید کی۔ وہ اٹھنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ انھیں شہر کی طرف سے دھول سی اڑتی دکھائی دی۔
”شاید بہت تیز آندھی آنے والی ہے۔“
اڑتی دھول انھی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دھول میں سے پہلے گھوڑوں کی تھوتھنیاں برآمد ہوئیں اور پھر گھڑ سوار،جو اب لمحہ بہ لمحہ دھول سے آگے بڑھتے چلے آرہے تھے۔ انھوں نے بمشکل ان کے پاس آکر گھوڑوں کو روکا۔ گُھڑ سوار پچاس کے قریب تھے۔
”آپ کی آمد کی اطلاع کل شام کو ہی ہو گئی تھی۔ ہم مسلسل آپ کی تلاش میں تھے۔ پورا شہر آپ کا منتظر ہے۔ آپ کھانا کھائیں پھر آگے بڑھتے ہیں۔“
یہ کہہ کر انھوں نے گھوڑوں پر لدا ہو راشن اتارنا شروع کر دیا۔ انھوں نے حیرانی سے گھڑ سوار کی بات سنی۔ کھانے کے برتنوں سے اٹھتی ہوئی مختلف قسم کی خوشبووں نے ان پر سِحَر طاری کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اس کی بات پہ غور کرنے کا موقع نہیں ملا کہ ان کی آمد کی اطلاع شہر والوں کو کیوں کر ہوئی؟
وہ سب گھڑ سواروں کی معَیّت میں شہر کی طرف رواں تھے۔ بلند و بالا یہ شہر مغرب کی سمت میں تھا۔
”میرے خیال کے مطابق یہ شہر مشرق کی طرف ہونا چاہیے تھا۔“
”ہاں ہاں! تم ٹھیک کہتے ہو۔ جب ہم جنگل میں داخل ہوئے تھے تو ہمارے چہرے مشرق کے رخ تھے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ ہم ناک کی سیدھ میں آگے نہیں بڑھے۔ تو کیا ہم اندھیرے میں چلتے ہوئے ایک بار پھر وہیں آن نکلے ہیں؟“
”چھوڑو یار ہمیں پہلے کون سا سمجھ آ رہا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ جتنا ہم غور کریں گے الجھ جائیں گے۔ بس چلتے رہو۔“
جوں جوں وہ شہر کے قریب ہو رہے تھے عقب سے سورج بھی عمارتوں کو چھو رہا تھا۔ شہر کے قریب پہنچنے پر آسمان کے باتیں کرتی چند عمارتوں کے سائے آگے بڑھ کر ان کی قدم بوسی کو آن پہنچے۔
تھوڑی ہی دیر میں شہر کی تمام عمارتوں کے سایوں نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ شام کے سایے مزید گہرے ہوتے ہوئے اندھیرے میں بدل چکے تھے۔
شہر کے اکابرین ان کے انتظار میں تھے۔ انھوں نے بڑھ کر میت اٹھا لی۔ ٹیڑھے میڑھے، بعض اوقات تنگ ہوتے تو کبھی کھلے بازار کی سی صورت اختیار کرتے راستے پر وہ شہر والوں کے پیچھے چل رہے تھے۔
”میرا خیال ہے یہی جنازے کا آخری پڑاؤ ہے۔“
”ہاں، لگتا تو ایسے ہی ہے جیسے وہ ہمیں کھانا دینے آئے، جس طرح وہ ہماری تلاش میں تھے، جیسے ابھی انھوں نے ہمارا استقبال کیا۔“
”شہر کی عمارتیں کچھ زیادہ ہی بلند نہیں ہیں؟“
”یوں لگتا ہے، جیسے آسمان سے اتری ہوں۔“
”سمجھ نہیں آتی وہ ستارے ہیں یا عمارتوں کی کھڑکیوں میں روشنی ٹمٹما رہی ہے؟“
”یہ ہمارے پیچھے کیسا شور ہے؟“
جنازہ لے جانے والوں کے پیچھے پورا شہر ہاتھوں میں مشعلیں لیے امڈ آیا تھا۔ راستے کے بائیں جانب عورتیں اور دائیں طرف مرد اپنے ہاتھوں میں مشعلَیں اٹھائے قطاریں بنا کر چل رہے تھے۔ وہ جس عمارت کے پاس سے گزرتے اس کے باسی قطاروں کے پیچھے ہو لیتے۔
چلتے چلتے وہ شہر کو پیچھے چھوڑ آئے۔ انھوں نے میت ایک کھلی جگہ پہ رکھی۔ نو جوان کے چہرے کا نقاب الٹ دیا گیا۔ میت یہاں تک لانے والے تماشائی بنے کھڑے تھے۔
فضا میں حبس تھا لیکن کبھی کبھار کوئی جھونکا راہ بھول اس طرف آ نکلتا جس کے نتیجے میں ساکت مشعَلوں کو جھرجھری آ جاتی۔ مرد و زن برابر، لیکن دو علیحدہ قطاروں میں کھڑے تھے۔
ہر کوئی اپنی باری آنے پر مرنے والے کا ماتھا چومتا اور مدھم آواز میں سسکتا ہوا پہلے کھڑے ہُووں میں شامل ہو جاتا۔ رات ڈھلنے کے قریب تھی جب یہ عمل مکمل ہوا۔
شہر والوں نے میت کو اٹھایا اور واپس پلٹنے کی بَہ جائے، شہر سے مخالف سمت میں آگے بڑھنا شروع ہو گئے۔ ان کی عورتیں مشعلیں لیے شہر کو واپس چلی گئیں۔
ہر روز لوگ جنازے میں شامل ہو رہے تھے۔ کوئی ہانپتا کانپتا آتا اور کہتا کہ ہمیں تو فلاں گاؤں والوں نے بتایا کہ جنازہ اس سمت کو گیا ہے۔ کوئی کہتا کہ ندی کنارے خانہ بَہ دوش عورتیں اور بچے تھے۔ انھوں نے ہماری رہنمائی کی تو ہم یہاں تک پہنچے۔
”زخموں سے چور ہمیں اک دیوانہ ملا تھا جواب تک ہو سکتا ہے مرکھپ گیا ہو۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جنازہ اٹھا کے ہم چار چلے تھے۔ اپنی خستہ حالی کی وجہ سے ہم جنازے والوں کا دور تک ساتھ نہ دے سکے اور واپس پلٹ آئے۔ واپسی کے سفر میں میرے تین ساتھی مر گئے۔ میں اکیلا ہی بچا ہوں۔“
”ہمیں کہیں سے کوئی خبر نہیں مل رہی تھی، اس لیے ہمارے پاس اس خبطی کی بات پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہمیں جنازے میں شرکت کی جلدی تھی، ورنہ اس مرتے ہوئے آدمی کے لیے مرہم کا سامان ضرور کرتے۔ ویسے بھی اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ کوئی دوا بھی اس کے لیے کارگر نہ ہوتی۔“
”ایک ایسے شہر سے ہمیں جنازے کی خبر ملی جہاں کی عورتیں ساری رات مشعلیں لیے اپنے مردوں کا انتظار کرتی ہیں جو جنازے کی آخری رسومات ادا کر کے ابھی تک واپس نہیں پلٹے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن شہر میں اور راتیں مشعلوں کی روشنی میں شہر سے باہر بسر کرتی ہیں۔“
”پچھلے چند روز سے لڑائی میں شدت آ گئی تھی۔ اس دن دونوں فوجیں فیصلہ کن معرکہ لڑنے جا رہی تھیں۔ لا تعداد انسانوں کے شور نے فوجیوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔
“یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی تیسری فوج ان کی طرف بڑھ رہی ہو۔ آوازیں اس سمت سے آ رہی تھیں وہ جدھر جنگل اور پہاڑ ملتے تھے۔ دونوں فوجوں کے جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ پہلے اس تیسری قوت سے نپٹا جائے۔
“تیروں اور تلواروں سے لیس فوجی حملہ کرنے کو تیار تھے جب نہتے لوگوں کا انبوہ درختوں سے نمُو دار ہونا شروع ہوا۔ تعداد گنتی میں نہیں آ رہی تھی۔ سارے فوجی ان کی طرف ہکے بکے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کاندھے پر ایک نو جوان کی میت اٹھا رکھی تھی۔
“ان کے مطابق وہ اس کی آخری رسومات ادا کرنے کو جا رہے تھے۔ انھوں نے تھوڑی دیر مرے ہوئے اور زخمی فوجیوں کے درمیان پڑاؤ کیا۔ کچھ کھایا پیا اور آگے چل دیے۔
“حیران کن بات یہ ہوئی کہ ہماری اور دشمن کی فوج کے تمام سپاہی بھی ان کے ساتھ یہ کہہ کر ہولیے،”’یہ جنازہ شاید کسی بہت برگزیدہ ہستی کا ہے۔ اس کی آخری رسومات کے بعد ہی باقی لڑائی ہو گی۔“’
“یہ کہہ کر وہ تو چل دیے اور ہم عورتیں اور بچے ان مردوں اور زخمیوں کی اس وقت تک رکھوالی کریں گے جب وہ واپس نہیں آ جاتے۔
“آنے والوں نے جنازے میں شامل ہو کر یہ بتایا کہ اس عورت کی نشان دَہی پر ہم یہاں پہنچے جو میدانِ جنگ میں رہ جانے والوں میں سے ایک تھی۔
”بارات دھوم دھام سے چل رہی تھی۔ جب ہم نے انسانوں کا ایک سمندر دیکھا۔ ہمارے دلوں میں جنازے کی ہیبت بیٹھ گئی۔ آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے اپنی عورتوں اور بچوں سے کہا کہ اس وقت تک جگہ نہیں چھوڑنی جب تک ہم لوٹ نہیں آتے۔ سو ہم بھی چلے آئے۔“
”وہ مرنے والا میرا بھائی تھا۔ اس کی آخری رسومات ہونے کے قریب تھیں۔ جب یہ جنازہ وہاں سے گزرا، ہم سب اپنا دکھ بھول گئے۔ میّت کو ٹھکانے لگائے بَغیر ہی ہم چلے آئے۔ اب وہاں صرف میّت ہی ہو گی اور ہم یہاں آپ لوگوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔“
”ہم تو کسی قافلے کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ رات کا پچھلا پہر ہو گا۔ ہوا کارخ ہماری طرف ہونے کی وجہ سے آوازیں کئی کوس دور سے ہم تک پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ ہم سو کے قریب لوگ تھے۔ آنے والوں کے شور اور آوازوں سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
“یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا فوجی لشکر ہے جو رات کے اندھیرے میں غافل دشمن کو سوتے میں جا لینا چاہتا ہے۔ ہم اندر سے ڈر رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہمیں لوٹنے کے چکر میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
“قریب آنے پر پتا چلا کہ یہ تو کسی کا جنازہ ہے جس کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں۔ یہ دیکھو ہم اپنے ہتھیار بھی ساتھ ہی لے آئے ہیں۔“
ایک سمندر تھاجو لہریں لیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ کچھ تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچتے تو کچھ راستے سے مل جاتے۔ جیسے دنیا بھر کے لوگوں خبر ہو گئی ہو۔ پیچھے رہ جانے والوں میں صرف بچے، عورتیں، بیمار اوربوڑھے ہی تھے۔
بہت سے ایسے بھی تھے جو صرف اتنا بڑا مجمع دیکھ کرہی آتے گئے۔ مجمعے میں شامل ہونے کے بعد ہی انھیں پتا چلتا کہ یہ تو کوئی جنازہ ہے۔
لوگ کھنچتے چلے آ رہے تھے۔ سیاہ پانیوں میں بنا پتوار کے ڈولتی کشتی کی طرح جنازہ دو قدم آگے تو کبھی پیچھے ہو رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کہاں جانا ہے۔ وہ تو بس سِحَر زدہ سے آگے بڑھ رہے تھے۔ جو ساتھ چلے تھے وہ سرکتے سرکتے ایک دوسرے سے میلوں دور پہنچ چکے تھے۔
پورے مجمعے میں دولوگ بھی ایسے نہیں تھے جو ایک دوسرے سے شناسا ہوں۔ اسی وجہ سے اب وہ آپس میں کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔
پہلے تو نئے شامل ہونے والے جب آتے تو شور مچ جاتا، لیکن اب صورت یہ تھی کہ یا تو دنیا بھر کے لوگ آن شامل ہوئے تھے، کوئی باقی نہیں بچا تھا، یا وہ چپ چاپ شامل ہوتے چلے جارہے تھے۔
یہ سمجھ نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پہلے چلنے والوں کو چلتے ہوئے چاروں سمت میں خالی زمین بھی دور تک نظر آتی تھی۔
نئے لوگ جنازے میں شامل ہوتے پتا چل جاتا مگراب تو جیسے زمین افراد سے بھر گئی تھی۔
ارد گرد صرف لوگ ہی لوگ تھے زمین کا کہیں نشان نہیں تھا۔ اونچے نیچے راستوں پر سرکتے ہوئے وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم وار جگہ پر تو انسان تھے ہی کوسوں دور نظر آنے والے پہاڑ بھی لوگوں سے لدے ہوئے تھے۔
پہاڑوں پر چڑھتے، اترتے ہُووں کو آگے اور پیچھے تا حدِّ نظر لوگ ہی لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ ہزاروں لوگ ایسے تھے جنھوں نے جنازہ نہیں دیکھا تھا وہ تو بس مقدس فریضہ سمجھ کر آن شامل ہوئے تھے۔
بے شُمار ایسے بھی تھے جنھیں پتا ہی نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ کیا ہے۔ جو پہلے بہت جوش و خروش سے چل رہے تھے، بڑھتی تعداد اور تھکاوٹ کی وجہ سے، ان کی رفتار کم ہوتے ہوتے رک سی گئی تھی۔ سورج ایک بار پھر لوگوں کے سروں کو چھوتا ہوا غروب ہونے کو تھا۔
کافی دیر رکے رہنے کی وجہ سے وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ آخری رسومات کا وقت آن پہنچا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھنا ضرور چاہتے تھے کہ ہم کب تک یہاں رکیں گے، یہ کیا ہو رہا ہے؟ پہلے پہل تو نئے ملنے والے رَہ نُمائی کرتے، لیکن اب رَہ بَر بھی گم راہ ہو چکے تھے۔
زیادہ دیر رکے رہنے کی وجہ سے ان کے جی گبھرانے لگے تھے۔ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ ایک اتھاہ خاموشی تھی جو ٹوٹنے کانام نہیں لے رہی تھی۔ وقت جیسے تھم گیا تھا۔
اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ خود کو اس گھمبیرتا سے بچانے کے لیے اُنھوں نے باتیں کرنا شروع کر دیں۔
”یہ ہم اتنی دیر سے کیوں چل رہے ہیں؟“ اس سہمی ہوئی سرگوشی نے لا متناہی سرگوشیوں کے لیے راہ ہم وارکی۔ انبوہ کے ہر حصے سے گفتگو کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ جو پہلے پہل سہمے سہمے سے بول رہے تھے اب اونچی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ آوازیں ہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
”چارپائی پہ کچھ ہے بھی یا نہیں؟“
”ویسے میں نے تو چارپائی دیکھی تک نہیں۔“
”ہو سکتا ہے وہ کوئی مرا ہوا شخص ہو ہی نا، وہ کسی بیمار کو لے کر جا رہے ہوں۔“
”ہم بَغیر سوچے سمجھے ان کے پیچھے یہاں تک آ گئے ہیں؟“
”راستے میں کتنے سخت موسموں کا ہمیں سامنا رہا پر ہم رکے نہیں۔“ ”جیسے کسی نے ہم پر جادو کر دیا ہو۔“
”یہ بھی ممکن ہے چارپائی خالی ہو اور وہ کسی مرے ہوئے شخص کو لے جانے کے لیے جا رہے ہوں۔“
”نہیں میرے گمان میں وہ شاید کسی کو دفن کر کے آ رہے تھے۔“
”اس سے پہلے ہم جہاں بھی رکے اپنے مرضی سے رکے لیکن یہاں تو جیسے ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔“
”وہ چارپائی اٹھانے والے ہیں کہاں اُنھی سے جا کر پوچھتے ہیں کہ کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے، ہم کب تک اسی جگہ رکے رہیں گے؟“
”اچھا یہ کوئی جنازہ تھا۔ ہم لوگ تو اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر ہی چلے آئے کہ دیکھو کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔“
”رکنے سے بہتر ہے کہ چلیں ورنہ یہیں دم گھٹنے سے ہم سب مارے جائیں گے۔“
”میرے خیال میں ہمیں اِنھیں ڈھونڈنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو ہم ادھر ہی کھڑے رہ جائیں۔“
”ممکن ہے آگے راستہ ہی بند ہو۔“
”جب سے ہم چلے ہیں کسی جگہ بھی اتنی دیر نہیں رکے۔“ ”ہاں! ہاں! چلو چلو، انھیں تلاش کریں اور ان سے پوچھیں کہ یہ میت کس کی ہے اور اب ہمیں کیا کرنا ہے۔“
”چلنے کی بات تو سارے کر رہے ہیں لیکن کسی کو پتا بھی ہے کہ وہ ہیں کہاں؟“
”تم اس بات کو چھوڑو اور چلنے کانام لو بس۔“
پھر کیا تھا کچھ لوگ ٹولیوں کی شکل میں تو کچھ تنِ تنہا ہجوم میں سے جنازہ ڈھونڈنے کو حرکت میں آ گئے۔ جس کی دانست میں جدھر بڑھنا چاہیے تھا، اس نے ادھر ہی دھکم پیل شروع کر دی۔
بڑھتے اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ گھٹی گھٹی غراہٹیں، تو کہیں آسمان کو چیرتی ہوئی آوازیں ایک دوسرے کے متوازی اور ایک دوسرے کو قطع کر رہی تھیں۔
جتھے کے جتھے ایک سَمت تو کبھی دوسری سمت، ڈولتے پھر رہے تھے۔ فطرت نے اندھیرے کی بے کَراں چادر بچھا کر ان کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی تھی۔
بقاء کی کش مکش میں بے شمار بچھڑے ہوئے بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے۔ بھاگنے والوں کے قدموں تلے کی زمین گرے ہووں کی وجہ سے نرم اور نا ہم وار ہو گئی تھی۔
کچھ زندوں کے درمیان پھنسے ہوئے مردے بھی تھے جنھیں نیچے گرنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ہرشخص اس کوشش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو خود کو دوسرے شخص کے نرغے میں آنے سے بچایا جائے، جس کے ہاتھ کسی بھی لمحے اس کی گردن کو دبوچ سکتے تھے۔
موت رات بھر اپنے ابدی رنگ میں رقص کرتی رہی۔ صبح آنے تک طوفان یوں تھم چکا تھا جیسے رات بھر کچھ ہوا ہی نہیں۔ تا حدِّ نگاہ پڑی ہوئی ٹیڑھی میڑھی لاشیں، رات کی بھیانکتا کا مُنھ بولتا ثبوت تھیں۔
درمیان میں کہیں اونچے نیچے ٹیلے بھی تھے جنھیں دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ مرے ہوئے لوگوں نے ٹیلوں کو چھپا رکھا تھا، یا لوگ ایک دوسرے کے اوپر یوں مرے پڑے تھے کہ انھوں نے ٹیلوں کی شکل اختیار کر لی تھی۔
چارپائی گہرے گاڑھے خون میں جمتی ہوئی لاشوں کی ڈھیریوں کے درمیان پڑی تھی۔ اپنی اصلی حالت قائم رکھنے والا یہ واحد بدن تھا، جسے خراش تک نہیں آئی تھی۔
بچ جانے والے لڑکھڑا کر مرے ہووں کے سہارے اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جہاں نگاہِ کام کرنا چھوڑ دیتی، یوں لگ رہا تھا جیسے سرخ رنگ کی پھوار پڑ رہی ہو اور اس کے پیچھے بھی یہی منظر ہو۔
یہ چاروں وہ تھے جو اس وقت چارپائی کے نیچے تھے۔ ان کی تمام رات اسے بچاتے ہوئے گزر گئی۔ چاروں طرف سے جب شور ان کی طرف بڑھنے لگا تو انھیں میت کی پڑ گئی۔
پہلے تو انھوں نے بڑی ہمت سے میت کو زمین پر رکھنے کے لیے جگہ بنائی پھر اپنی طرف بڑھنے والوں کی راہ میں حائل ہو گئے۔ دھکم پیل میں رات گزر گئی۔ تین سے چار قدم چھوڑ کر کوئی چار پانچ ہاتھ اونچا لاشوں کا ڈھیر تھا جو میت کے گرد دائرے کی شکل میں پڑا تھا۔
یہ وہی لوگ تھے جو مر کر آگے بڑھنے والوں کو روکنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔ سورج ابھی طلوع ہونے میں کچھ وقت تھا، لیکن روشنی دور تک دیکھنے کو کافی تھی۔
”کل شام تک تو سب ٹھیک تھا یہ اچانک سب کو کیا ہو گیا؟وہ چاروں طرف سے چیختے چلاتے ہماری طرف کیوں بڑھتے چلے آ رہے تھے؟
“جب سے ہم ان میں شامل ہوئے ہیں سبھی آرام سے چلے آ رہے تھے ایک دم انھیں کیا ہو گیا؟ یہ محض بھگدڑ تھی یا کوئی سازش؟“
”دیکھو! دور تک لاشیں ہی لاشیں ہیں۔“
”ہاں ہمارے قریب والے سب مارے گئے۔“
”شکر ہے میت کو کچھ نہیں ہوا۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔“
”میرا خیال ہے ہم چاروں کے سوا کوئی زندہ نہیں بچا۔“
”چوٹیں بہت زیادہ تو نہیں آئیں، لیکن اتنی کم بھی نہیں کہ آسانی سے ہم میت اٹھا کر چل سکیں۔ وہ جو آگے بڑھنے والوں کو روک رہے تھے۔ ان کی وجہ سے ہم بچ گئے۔“
”یہ اچھا ہوا کہ ہم چار ہیں اگر تین یا دو ہوتے تو چارپائیاں اٹھانا کتنا مشکل ہو جاتا۔“
”نہیں!ہم ان کی وجہ سے نہیں، مرے ہوئے نو جوان کی وجہ سے بچے ہیں۔ سوچو، صرف ہم چار ہی کیوں بچے ہیں؟“
”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو میت نے ہی ہمیں بچایا ہے۔ ہم بھلا اسے کیسے بچا سکتے تھے؟“
”اسے اپنی آخری رسومات کے لیے چار کاندھے درکار تھے، سو اس نے ہمیں بچا لیا۔“
”تب تک آخری رسومات ممکن نہیں جب تک ہمیں کچھ اور زندہ لوگ نہ مل جائیں۔“
”ویسے بھی لاشوں کے درمیان اس کی آخری رسومات ممکن نہیں ہیں۔“
”جلدی فارغ ہو کے اپنے گھر والوں کی خبر بھی لینی ہے۔ ایک عرصہ ہو گیا ہمیں گھروں سے نکلے ہوئے۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ ہمیں مرا ہوا سمجھ کر صبر کر کے بیٹھ گئے ہوں۔“
”ہماری غیر متوقع واپسی انھیں نہال کر دے گی۔“
”پہاڑیوں کی طرف ہی چلو ہو سکتا ہے اس پار لاشیں نہ ہوں۔“
وہ چارپائی اٹھائے، لاشوں پہ پاؤں دھرتے، لڑکھڑاتے، ان دو پہاڑیوں کی سَمت چل دیے جن کے درمیان سے سورج انسانی قد کے برابر ابھر آیا تھا۔
٭٭٭٭٭