مدرسہ ڈسکورسز کے متعلق چند نکات
از، پروفیسر محمد مشتاق
پہلی بات یہ ہے کہ یہ کوئی “سازش” نہیں ہے نہ ہی اس کے کچھ “خفیہ مقاصد” ہیں۔ کوئی بھی شخص ذرا سی محنت کر کے متعلقہ یونی ورسٹی کی ویب سائٹ سے اس پروجیکٹ کے اہداف کے متعلق بنیادی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد وہ بھی نہیں ہے جو ہمارے بعض بزرگ اپنے حسنِ ظن کی بنیاد پر فرض کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی مسیحی کیتھولک یونی ورسٹی کو کیا پڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کو جدید الحاد اور اعتقادی چیلنجز سے نبرد آزماء ہونے کے گُر سکھائے اور ان کے لیے جدید علمِ کلام کی تشکیل میں مدد دے۔
یہ خواہش ان عُلَمائے کرام کی ہو سکتی ہے جو ان ڈسکورسز کا حصہ بن رہے ہیں، یا اپنے شاگردوں اور منتسبین کو ان کا حصہ بننے دے رہے ہیں، یا اس کی ترغیب دے رہے ہیں، اور یہ خواہش مستحسن ہے لیکن ہے یہ خواہش ہی۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس پروجیکٹ پر یقیناً بہت بڑی رقم، وسائل اور وقت کا خرچ کیا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں، جہاں مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ there is no free lunch، یہ نہیں مانا جا سکتا کہ اتنا کچھ خرچ کرنے والے بَہ غیر کسی (متوقع یا یقینی) فائدے کے اتنا کچھ خرچ کریں گے۔ تاہم یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اتنا ہی، بَل کہ اس سے کہیں زیادہ، خرچ بہت ساری جامعات پر بھی ہو رہا ہے؛ اداروں پر بھی اور افراد پر بھی۔
دور کیوں جائیں؟ پولیو ویکسی نیشن ہی کو لے لیجیے۔ سازشی نظریات تو یہاں بھی بہت سی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پولیو ویکسی نیشن کا فائدہ صرف ہمیں ہی نہیں ہو رہا، ویکیسین خرچ کرنے والوں کو بھی ہو رہا ہے۔ اس کے با وُجود ان کے فائدے کی وجہ سے ہمیں ویکسین نہیں چھوڑنی چاہیے بَل کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ویکسین میں ہمارا فائدہ ہے، یا نقصان اور اگر دونوں ہیں تو ان کا تناسب کیا ہے؟
مدرسہ ڈسکورسز سمیت جو بھی پروجیکٹ مغربی یونی ورسٹیوں یا اداروں سے آئیں، ان میں پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ ان میں ہمارے لیے فائدہ اور نقصان کتنا ہے؟ البتہ فائدہ اور نقصان سے مراد مادی فائدہ اور نقصان نہیں، بَل کہ دینی، اخلاقی اور علمی فائدہ اور نقصان ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کے مواد، موضوعات، طریقِ کار اور افرادِ کار کے متعلق جو کچھ تفصیلات ہمیں ملی ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہ مکمل تفصیلات نہیں ہیں، ان کی بناء پر ہماری رائے یہ ہے کہ ان ڈسکورسز کے نتیجے میں کوئی نیا علمِ کلام نہیں بن رہا، نہ ہی جدید مسائل پر غور و خوض کیا جا رہا ہے، بَل کہ فوکس پرانے مسائل ہی کے انکار یا تاویل پر ہے۔
اس لیے جو اس خیال سے ان ڈسکورسز کی تعریف کر رہے ہیں کہ نئے مسائل پر غور کیا جا رہا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے،
ایں خیال است و محال است و جنوں!
پانچویں بات یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کا ہمارے مدارس کے نو جوانوں کو میرے نزدیک سب سے بڑا فائدہ ان کے علمی مباحث میں نہیں، بَل کہ عملی تجربات میں ہے۔ یہ طلبہ اگر چند ممالک کا اور ملک کے اندر چند شہروں کا سفر کر لیں، اچھے ہوٹلوں میں رہائش اور خوراک سے لطف اندوز ہوں، جدید سیمینارز اور ورکشاپس کے تجربے سے گزریں (اور پشتو مقولے کے مطابق “شاگرام دیکھ لیں”)، تو اس exposure سے جو فائدہ نکلے گا، وہ خشک علمی تجزیوں سے نہیں نکل سکتا۔
ہاں، یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس تجربے اور exposure کے نتیجے میں عِلمی، یا عَملی انحراف کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کیا وہ عِلمی یا عَملی انحراف ملکی جامعات، بَل کہ مدارس کے اندر رہ کر بھی ممکن نہیں ہوتا، بالخصوص ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد کے دور میں؟
مجھے روکے گا تو اے نا خدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
چھٹی بات یہ ہے کہ کیا فارن ٹُؤرز یا ملک کے اندر این جی اوز کے پروگراموں میں شرکت پر صرف بڑے مدارس کے مہتممین کے صاحبزادگان کا حق ہے؟ کیا ان صاحبزادگان نے الحاد سے بچاؤ کے ٹیکے لگوائے ہیں؟ اگر کسی ذہین طالب علم کو موقع مل رہا ہے تو کیوں اسے محض اس بناء پر محروم کیا جائے کہ وہ صاحبزادگان میں شامل نہیں ہے؟
آخری بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل تجدد کے مذاہبِ اربعہ کا ذکر کیا تھا تو عمار ناصر بھائی نے کہا تھا کہ تقسیم خماسی ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس پر عرض کیا تھا کہ آپ چاہیں تو مدرسہ ڈسکورسز کو تجدد کا پانچواں مذہب شمار کر سکتے ہیں۔ تاہم مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ میں شامل افراد کی علمی کاوشوں کا جائزہ لینے کے بعد ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ، انشاء اللہ، وہ کوئی بہت بڑا فتنہ نہیں برپا کر سکیں گے۔
(نوٹ: یہ نکات جولائی 2019ء میں لکھے تھے۔ ڈسکورسز کے تازہ ترین کھیپ میں چند ایک سنجیدہ اہلِ علم بھی شامل ہیں۔ انھی میں ایک صاحب علم کی تحریر دیکھ کر معلوم ہوا کہ ان کی خدمت میں یہ تحریر پھر پیش کرنی چاہیے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!)