مدرسہ کی ماحولیات اور روٹی کا مسئلہ
کالونی سے باہر کی سڑک کے موڑ پر ایک مسجد سے مُلحَقہ قاری صاحب کے حلقہ میں سات سے سولہ سال تک کی عمروں کے بچے سر ہلا ہلا کر سبق یاد کرنے کے بعد اب مدرسہ میں تیار کیے گئے سالن اور قیمتاً خریدی ہوئی تندوری روٹیوں سے پیٹ کے جہنم کو ذائقے کی جنت سے آشنائی کا شرف بخش رہے تھے۔ قاری صاحب نے مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے فرمایا کہ کھاناتناول فرمائیے؛ میں نے بَہ غیر گوشت کے پکے ہوئے سیاہ شوربے کی طرف دیکھا، جس میں موجود اِکّا دَکّا آلو ایک بچے کی المونیم کی تُڑی مُڑی پلیٹ کےنحیف پیندے میں ہلکورے لیتے ہوئے شوربے میں سے اپنی ادرک آمیز پیلاہٹ کے ساتھ اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ سالن بہت کم روپوں کی قربانی سے تیار ہوتا ہے۔
تیس سے پینتیس بچوں کی مدرسے میں موجودگی کا مطلب ہر ایک بچے کے گھر سے پانچ سو روپے فی کس امداد نہیں تھا؛ بَہ مشکل دس سے پندرہ بچے ساڑھے سات ہزار مجموعی رقم کے ساتھ پینتیس بچوں کے رزق میں برکت کا سامان کیے ہوئےتھے۔
اتنی ہی رقم جمعہ کی نماز سے حاصل ہو تو پندرہ ہزار روپے میں قاری کے گھر کا گزارہ بھی اور پینتیس بچوں کا کھانا بھی، مسجد کے متفرق اخراجات بھی؛ میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔
میں نے قاری صاحب سے ملنے میں جلدی سے کام لیا اور سڑک تک آتے آتے میرے گرم گرم آنسو میرے گالوں کو بھگو چکے تھے۔
میں کیوں رو رہا ہوں؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ میرے اندر سے آواز آئی، یہ مولوی، یہ بچے سب اچھوت ہیں؛ اس معاشرے کا کالک۔ سب روشن خیال ان کو تنگ نظر خیال کرتے ہیں۔ ایسا ہی ہے ناں؟
ہر گز نہیں۔ میرے اندر سے ایک سخت اور جچا تُلا جواب آیا۔
جب قاری صاحب نے مجھے کھانا کھانے کی دعوت دی تھی، میری نظر جس بچے کی سالن کی پلیٹ کی طرف گئی تھی اس پلیٹ کے کالے شوربے میں اس بچے کی نحیف انگلیوں میں تھما ہوا لقمہ گول گول گھوم رہا تھا۔
انگلیاں، غیر ارادی طور پر شوربے میں ڈوبے ہوئے روٹی کے ٹکڑے کو الٹا سیدھا کر کے ایسے گھما رہی تھیں جیسے روٹی کے اس ٹکڑے پر سالن زیادہ لگ گیا ہو، اور ہاتھ کی انگلیاں لقمے کو جھٹک جھٹک کر سالن کو حسبِ ضرورت کے پیمانے سے ماپ رہی ہوں۔
بچے کا ہاتھ خود کار انداز میں کام کر رہا تھا اور اس کی آنکھیں پلیٹ کی بَہ جائے میرے سراپا کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں کچھ پانے کی حسرت اور کسی شے کی کمی کا اثر مجھے پتھرائی ہوئی تصویر میں ڈھالنے لگا تو اس تصوّر سے سڑک سے کالونی کی گلی کی طرف جاتے ہوئے میرے پاؤں لڑکھڑا گئے اور جسم کو آتی ہوئی سردیوں کی پہلی تیز ہوا کے جیسی لہر چھو کر گزر گئی؛ اور پھر پورا جسم روتے ہوئے یوں کانپنے لگا جیسے اعصابی نَسوں میں اَٹکے ہوئے آنسوؤں کو کھینچ کھینچ کر قطرہ قطرہ آنکھوں سے باہر نکال رہا ہو۔
راستے میں ایک دو راہ گیروں نے مجھے گھور کر دیکھا بھی، مگر کچھ نہ سمجھ سکے۔ بخار زَدہ اعصاب کے ساتھ میں گھر آ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ یہ بچہ نا جانے کیسے آج رو پڑا تھا۔
وہ عمران خان، ہاں عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم سکول اور مدرسوں کے لیے ایک جیسا نظامِ تعلیم لے کر آئیں گے۔
ویسے ہم کتنا کماتے ہیں تو پھر دینی تعلیم کے لیے کیوں خرچ نہیں کرتے؟ اور وہ بچے جن کے والدین ان کی مدد نہیں کر پاتے اتنی کم عمر میں انہیں درس و مدرسے میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔
ان بچوں کا کیا قصور ہے؟
سوال پر سوال، میرا دماغ چکرا گیا تھا؛ تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ اگر ماہانہ ایک ہزار روپے مدرسے میں بچوں کے کھانے کی مد میں دے دیا کروں تو؟
دیا کرو، میرے اندر سے پختہ لہجے میں جواب آیا۔ ایک بار پھر آلوؤں کا سیاہ شوربہ، بچے کا سالن کی پلیٹ میں گول گول گھومتا ہوا ہاتھ، اور قناعت پسند قاری صاحب، سب تصویریں بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہی تھیں۔
اگلے دن میں نے مسجد میں پانچ سو روپے کا ایک نوٹ بھجواتے ہوئے خود کو تسلی دی، یار کار میں بھی تو ہر دو دن بعد ایک ہزار روپے کا پٹرول ڈلواتے ہو، تو کیا ہوا اگر پانچ سو روپے مسجد کے بچوں کے رزق کے واسطے بھجوا دیے ہیں تو حساب کتاب کرنے لگے ہو؟
اس بات کو بہت سے دن گزر گئے؛ پھر مہینہ اور پھر اکتوبر ختم اور نومبر شروع۔ کل شام سورج غروب ہونے سے چند منٹ پہلے جب میں مسجد سے گزر کر بڑی سڑک پر کار دوڑاتا ہوا بازار میں داخل ہوا تو جی چاہا کہ اپنے لیے ایک برگر بنواتا ہوں گھر جا کر کھاؤں گا۔
پھر سوچا کہ چلو تین برگر بنوا لیتا ہوں، بیگم صاحبہ اور بچوں کا بھی تو مجھ پر حق ہے۔ برگر والا لڑکا مجھے دیکھ رہا تھا میں نے اسے پاس بلا لیا کہ کار سے نہ اترنا پڑے ادھر بیٹھے بیٹھے پیسے دے دیتا ہوں۔
سامنے کی طرف سے تین نو عمر لڑکے سفید کرتے اور پا جاموں میں ملبوس سر پر سبز پگڑیاں باندھے ڈرائیونگ والی جانب مڑے اور بات کا آغاز کیا۔
پہلے تو حیرت ہوئی کہ اس وردی میں یہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ میں نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے ان میں سے ایک لڑکے کی طرف دیکھا جو مجھ سےزیادہ نزدیکی پر تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ بولتا میں نے پوچھا، ہاں کیا بات ہے؟
جی وہ آج ہمارے مدرسے میں کھانے کا انتظام نہیں ہو سکا آپ ہماری مدد فرما دیجیے!
میں نے پوچھا کتنی؟
وہ بولا، جتنی رقم مناسب سمجھیں آپ دے دیجیے۔
نہیں، ہر گز مت دینا کوئی رقم! میرے اندر سے پھر آواز آئی، کہاں سے آئے ہو؟
میں نے سوال کیا۔ دوسرا لڑکا بولا، مدینہ مسجد سے۔
کدھر ہے مدینہ مسجد؟ اور سنو یہ جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہے یہ اچھی بات نہیں؛ بہت افسوس۔ بیٹھو گاڑی میں، میں جا کر آپ کے قاری صاحب سے بات کرتا ہوں۔
اگلے ہی لمحے تینوں لڑکے گولی ہو گئے۔ میں نے برگر لینے کا ارادہ ترک کر دیا اور خود سے سوال کرتے ہوئے بڑبڑانے لگا، او ہو یہ دن بھی آنے تھے …
ایک بار پھر سالن کی پلیٹ میں موجود کالا شوربہ اور اس شوربے میں ادرک آمیز پیلے پیلے آلوؤں کے قتلے میری نظروں کے سامنے تھے۔ ایک بچے کے ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑا ہوا روٹی کا ایک لقمہ آلوؤں کے کالے شوربے میں گول گول گھوم رہا تھا… اور میری کار چیونٹی کی سی رفتار میں مدرسے کے ساتھ کی سڑک سے میرے گھر کی طرف مڑنے لگی تھی۔
باہر سڑک پر ہر شے گھوم رہی تھی۔ میرا دماغ بھی گھوم رہا تھا۔ لیکن آج میرا جسم بالکل ساکت تھا۔
اور آنکھیں آنسو بہانا بھول گئی تھیں۔ جیسے میں کبھی رویا ہی نہ ہوں۔
از، اشرف جاوید ملک