میں ساحرہ ہوں
از، توصیف احمد
میں ساحرہ ہوں۔۔۔!
وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی ہے کہ میں ساحرہ ہوں۔ وہ اپنے اس چھوٹے سے آنگن سے بہت دور آ چکی ہے، جس کی منڈیروں پہ کبوتر اور کوے شور کرتے ہیں۔ لیکن اس کے کانوں کے بالکل پاس منڈیر پہ بیٹھے کوے اب بھی شور کرتے ہیں۔ لیکن کوے کا شور رائیگاں چلا جاتا ہے۔۔۔ کسی مہمان کے آنے کی امید اس کی پلکوں پہ پھڑ پھڑاتی ہوئی مر جاتی ہے۔
میں ساحرہ ہوں۔۔۔!
وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی ہے کہ میں ساحرہ ہوں۔ وہ اپنے حلق سے ان لمحوں کی روداد بیان نہیں کر سکتی، جنہیں وہ اپنے ہر خواب، ہر منظر میں اب شامل رکھتی ہے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ دورِ حاضر کی آنکھوں کو خِیرہ کر دینے والی نئے نئے رنگ کی روشنیاں درحقیقت وہ اندھیرا ہیں۔ جن میں کوئی قید ہو تو رہائی ممکن نہیں۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ ترازو کی قسمت میں بس وزن لکھا گیا ہے۔ وزن چاہے سبزی کا ہو یا اس کے وجود کا۔۔۔ ہے تو وزن ہی نا۔
لکڑی تولنے والے ترازو پہ اسے بٹھایا گیا تو وہ ایک لمحے کو اسے باپ کا لاڈ سمجھی۔ لیکن وہ اس سے بھی بے خبر تھی کہ یہاں ایک ایسا بازار بھی ہے جہاں باپ کا پیار چالیس ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بھی بکتا ہے۔ جہاں عقیدے مختلف رنگ کی چادروں کی صورت میں سستے داموں دستیاب ہیں۔
وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی ہے کہ میں ساحرہ ہوں اور میں نے باپ کا یہ لاڈ پیار اسی بازار کی ایک روشن دکان سے اپنے بچپن اور جوانی دے کر چالیس ہزار روپے فی کلو کے حساب سے خریدا ہے۔ اور اگر حساب کتاب کر کے بائیس لاکھ اسی ہزار کا کل لاڈ پیار پایا ہے۔ ایسے کتنے ہی باپ وہاں موجود تھے جب ترازو میں اسے تول کر تالیاں بج اٹھی تھیں۔ خریدنے والے نے اسے خریدا اور خریدی ہوئی شے کا استعمال خریدار بخوبی کرنا جانتا ہے۔ وہ کوئی بھی شے استعمال کرنے کی غرض سے خریدتا ہے۔
وقت گزرا تو وہ اتنا کہنا سیکھ گئی کہ اسے سائیں سے محبت ہے۔ نام اس کا جو بھی رہا ہو، لیکن اسے سائیں کہا جاتا تھا۔ یہ سائیں اسے ایک طلِسم کدے پہ نظر آیا تھا، جہاں اس نے محبت کا معنی سیکھا تھا۔ اس نے سائیں سے کہا تھا کہ مجھے خرید لو، میں بہت قیمتی ہوں، ستاون کلو کی محبت خرید کر امیر ہو جاؤ۔ لیکن خریدنے والے کے پاس اتنی متاع نہیں تھی کہ وہ ستاون کلو کی محبت چالیس ہزار روپے فی کلو کے حساب سے خرید سکتا۔۔۔!
وہ سائیں اسے خرید تو نہیں سکا لیکن اسے ہر خریدار سے محروم کر کے انمول کر دیا۔
میں اب سوچتا ہوں کہ بعض سودے ایسے ہوتے ہیں جو خسارے اور نفع کی حد سے کہیں پرے رہ کر طے پاتے ہیں۔ اس لیے وہ سفر کر کے وہاں جا پہنچی، جہاں اسے کوئی کلو کے حساب سے نہیں جانتا تھا۔ جہاں اس نے شب خون مارنا سیکھا۔
سیکھ کر اس نے پہلا شب خون اسی بازار پہ مارا، جہاں باپ کا پیار بکتا ہے، جہاں ماں کی ممتا بکتی ہے، جہاں بھائی کی محبت، جہاں محبت بکتی ہے۔ جہاں عقیدے بکتے ہیں، جہاں بڑی سی سکرین پہ جسمانی اعضاء کی قیمتیں درج ہیں۔ جہاں رشتوں کا مزاج برہم ہے، جہاں محسوس کرنے کا رواج برہم ہے۔
وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی تھی کہ وہ ساحرہ ہے اور انمول ہے۔
اور یہ خواب رسیدہ آنکھوں والی لڑکی بس اتنا ہی کہہ سکتی ہے کہ میں مشعل ہوں۔ وہ نہیں کہتی کہ وہ مشعل ہے، وہ دراصل گُل ہے۔ اس کی جلتی ہوئی آنکھوں میں جل کر خاک ہوجانے والے لمحوں کی راکھ اسے مشعل کہتی ہے۔ اسے یاد ہے اس نے کچی دیوار کی دوسری جانب دو پتھر رکھ کر باہر جھانکا تو اس کا باپ حسب معمول کیکر کے اس نوجوان درخت کے سائے تلے خریداروں سے بحث کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے مڑ کر ماں کو بھی دیکھا تھا، لیکن اس نے جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔
ایک لمحے میں اس نے سمجھا جیسے ہر بشر کا مقدر مٹی ہے۔ ایسے ہی ہر بیٹی کا مقدر یہی بحث ہے۔ اس نے دوبارہ دیوار کی دوسری جانب جھانکا اور باپ کے ہونٹوں سے نکلی بحث پہ غور کرنے لگی۔ جو اس کے جسمانی اعضاء کی قدر و قیمت آئے ہوئے خریداروں کے سامنے کھول رہا تھا۔ خریدار جوں جوں سنتے جاتے، اس کی قیمت بڑھتی جاتی۔
وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی ہے کہ وہ گل ہے۔ اس کی پلکوں پہ جمی ہوئی راکھ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس شہر کی باسی رہی ہے جہاں ہر رنگ کا پیار ہر رنگ کی ریڑھی پہ بکتا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو ہمارے وجود کے مضافات میں واقع ہے۔ نظر نہیں آتا لیکن کھڑکی کھول کر جھانکا جائے تو تارکول کی شور سہتی سڑکوں کے عین وسط پہ کھڑی کچھ آوازیں کمین گاہوں کو ترستی ہیں۔ جن کا تعاقب کیا جائے تو آوازیں ایک ایسے شہر میں لے جا کر پٹخ دیتی ہیں کہ مساموں سے بدبو خارج ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ بریکنگ نیوز سے گونجتی دنیا سے کہیں دور اس شہر کے وسط میں سٹاک ایکسچینج کی بڑی سی سکرین سارے مہذب چہروں کا مذاق اڑاتی ہے۔
وہ جو کھڑکی کے اندر رہتے ہوئے اس شہر کا نام تک بھول جاتے ہیں، وہی اس بڑی سی سکرین پر ہر لمحے بدلتے ہوئے ہندسوں کے موجد قرار پاتے ہیں۔ جہاں قانون کے مضبوط دائرے میں کمزور وجود تھرکتے ہیں۔
جہاں ہر گلی، ہر کھڑکی سے ایک آواز جھانکتی ہے ”میں ساحرہ ہوں، میں گل ہوں“
جن کے لیے خون میں چھپی محبت ان کے لیے زہر ثابت ہوتی ہے اور قانون کے مضبوط دائروں کا تعاقب ان کے لیے جان لیوا زندان۔۔۔!