مغربی ناول کا ہیرو، حصہ ششم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
بیسویں صدی کے مرکزی اور کبیری کرداروں پر کافکا کے ہیروؤں نے کسی نہ کسی حوالے سے اپنا اثر ضرور مرتب کیا ہے، چاہے یہ حوالہ مخمصۂِ ذات اور تقلیب وجود کا ہو یا روحانی تعزیر اور سزائے مرگ کا۔ اس ضمن میں ’’دی ٹرائل‘‘ کے ’جوزف کے‘ (Joseph K) کو بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایسا کردار ہے جو بطورایک بینک اہلکار کے خود کو بیوروکریسی کی دنیا کے اندر محفوظ و مامون سمجھتا تھا مگر ایک دن علی الصبح دو اجنبی وارد ہوتے ہیں اور اسے جرم کی وجہ بتائے بغیر زیر حراست ہونے کا حکم سناتے ہیں۔ اس کو کبھی پتہ نہیں چلتا کہ اس پر عائد کردہ الزامات کی تفصیل کیا ہے، بالکل جیسے ’’کاسل‘‘ کے ہیرو کو اس طاقت کا علم نہیں ہو پاتا جو مقامی قلعے کے کوائف جمع کرنے کی راہ میں ہمیشہ مزاحم رہتی ہے اور بطورِ مساحت کار اسے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآنہیں ہونے دیتی۔ ’’دی ٹرائل‘‘ کا ہیرو بھی عدالت کی ماورائی کارروائی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس کی مزاحمت زبانی احتجاج سے اوپر نہیں اٹھ پاتی۔ حکام بالا تک رسائی کی ہر کوشش بے کار جاتی ہے۔
جوزف جس کاذب و بیگانہ سماج میں رہتا ہے خوداس کی خصلت بھی اسی سماج جیسی ہے۔ اس کی رہائی کے لیے نہ تو سماج کسی اجتماعی جدوجہد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ وہ سماج سے کسی طرح کی مدد مانگتا ہے۔ بطورِ فرد اس کی اپنی مدافعت میں بھی کوئی زور نہیں۔ لہٰذا جب سزا پر عمل درآمد ہو کے رہتا ہے جوپہلے ہی سے طے شدہ ہے تو اس پربیوروکریسی کے مکروہ کردار اور عدالتی نظام کے تشدد کا راز کھلتا ہے۔ جوزف کی موت کو کتے کی موت سے بڑھ کر کسی اور چیز سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ اپنی موت پر جوزف کا تبصرہ خود اس کے وجود کو نامعتبر ثابت کرتا ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ حقیقی وجود کے ساتھ اس کے بیوروکریٹک وجود کے مطابق ہی سلوک ہوتا ہے۔ جوزف کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا۔ اس کی موت پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر اسے زندگی کیوں دی گئی تھی اور پھر موت سے ہمکنار کیوں کیا گیا تھا۔
حراست سے لے کر ہلاکت تک کے بیچ جوزف آسیبیت کی جس غیر ہوا دار اور نیم تاریک فضا میں مقید رہتا ہے اس کی بنا پر اسے کافکائی ہیرو سے بہتر نام نہیں دیا جا سکتا۔ کافکا کے لیے ہیرو کی موت ایسی متبادل قوت کا درجہ رکھتی ہے جو ہر مادی اور غیر مادی کرب پر غالب آ کر نجات کا اعلامیہ بن جاتی ہے۔
’’دی میٹا مورفوسس‘‘ The Metamorphosis میں کایا کلپ، دہشت اور مذلت کی جو غلیظ اور بے رحمانہ فضا دکھائی گئی ہے اس میں بھی ہیرو کی موت خود اس کے لیے اور اس کے کنبے کے لیے سکون و اطمینان کا پیغام بن کر وارد ہوتی ہے۔ گریگرسمسہ کا کاکروچ میں بدلنا اور جوزف کا عدالت کے ہاتھوں خوار و زبوں ہو کر مر جانا، زمینی سے لے کر آسمانی، ہر سطح کے استعمارانہ نظام کے اندر انسان کی نامرادی اور بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کافکا نے ایک فنکار کے طور پر خود کو اپنے دور کی منفیت اور مخفیت میں جذب کر لیا تھا، اس کے ہیرو بھی ایک وسیع تر زمانی سطح پر اس منفیت اور مخفیت کے اندر بے ثمری کی مثال ہیں۔
جوزف کی بے ثمرزندگی پر نظر ڈالیں تووہ انسانی تعلقات اور انسانی خصوصیات سے عاری ایک کھوکھلا وجودہے جس کی حقیقی شخصیت اور ملازمانہ شخصیت کے بیچ افتراق کا پردہ حائل ہے۔ جوزف کے لیے زیر حراست لائے جانے کا غیر متوقع واقعہ بہت انوکھا ہے۔ یہ واقعہ اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور اسے اپنی بیگانگی کے خول سے باہر نکالتا ہے جو اس کی حقیقی فردیت کے گردبنا ہوتا ہے۔ جوزف بینک میں ہر وقت تیار رہتا تھا۔ وہاں اس کے خدمت گار تھے۔ ٹیلی فون سامنے پڑے ہوتے۔ کلائنٹ اور کلرک کام کی غرض سے آتے مگر مصروفیت کے باوجود اس کا دماغ باخبر رہتا۔
اگر یہ صوتِ حال بینک میں پیش آتی تو وہ اس پر قابو پا لیتا مگر یہ واقعہ تو بینک کی زندگی سے باہر پیش آیا تھا اوراس کا حل بھی اسے باہر ہی تلاش کرنا تھا۔ باہر کی دنیا اس کے لیے اجنبی تھی جس کے لیے وہ قطعی طور پر تیار نہیں تھا۔ گویا اس کی ذات ایک دہشت ناک سچائی کے روبرو آگئی تھی جو بالآخر اسے ایک لایعنی موت سے ہم کنار کرتی ہے۔ جوزف کا جرم کیا تھا، وہ کون سی عدالت تھی جس میں اس کا مقدمہ چلایا گیا تھا اور وہ کون سا قانون تھا جس کے تحت اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ یہ سارا ٹرائل ہی لا یعنی ہے۔
ٹرائل جس عدالت میں کیا گیا، اس کوسمجھنے کے لیے مختلف نقطہ ہائے نظر کے ناقدین کی طرف سے جو تعبیرات پیش کی گئی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے:
۱۔ نفسیاتی نقطۂ نظر کے نقادوں کے مطابق عدالت کافکا کی فوق انا یا سپر ایگو کا اشاریہ بھی ہے اور ایک طرح سے اس کے متشدد باپ کی تجریدی علامت بھی۔
۲۔ الٰہیاتی نقطۂ نظر کے نقادوں کے نزدیک عدالت ایک وسیع تر الوہیت کی علامت ہے۔ جس کے سیاق و سباق کو انسان کبھی احاطۂ فہم میں نہیں لا سکتا۔
۳۔ وجودیاتی نقطۂ نظر کے ناقدوں کے خیال میں عدالت بدخواہی اور بے رحمی سے مشتق ہے اور فی الاصل بے سمت زندگی کی لایعنیت کی علامت ہے۔
جوزف اپنے ہیروانہ تصور میں صاف طور پر وجودی ہیرو نظر آتا ہے، ایسا وجودی ہیرو جس پر سے واقعات کا ملبہ ہٹا دیں تو انسان کے جوہری اور بنیادی تصور تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور زندگی اور موت کے بیچ فرد کا مقدر آشکار ہو جاتا ہے۔
اندر اور باہر کی تنزلی اور لایعنیت کے حوالے سے کافکا کے ساتھ کامیو کے ہیروؤں کا مطالعہ انسان کے روحانی خلا کو سمجھنے میں اور بھی مدد دیتا ہے۔ ’’دی آؤٹ سائیڈر‘‘ کے کبیری کردار مرسو (Meursault) میں ایسے لایعنی ہیرو کا تصور پایا جاتا ہے جو داخلی و خارجی زندگی میں اپنے لا تعلقانہ طرزِ عمل کے باعث اپنی ذات کا کوئی شعور نہیں رکھتا مگر قتل کا بلا ارادہ ارتکاب کرنے کے بعد جب اسے جیل میں ڈالا جاتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کی سوئی ہوئی حِسیں جاگ اٹھتی ہیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران اس پر نظامِ حیات اور انسانی اعمال کی مہملیت و لغویت اس طور افشا ہوتی ہے کہ وہ اس سے نظریں چرانے یا خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے تہِ دل سے تسلیم کر لیتا ہے اور ایک بہادر آدمی کی طرح پھانسی کے تختے پر چڑھ کر اپنے وجود کے کھوکھلے پن کو خود ساختہ معنی سے بھرنے کا اہتمام کر جاتا ہے۔ یہی کوشش مرسو کو ابسرڈ ہیرو(absurd hero) کے قریب لاتی ہے۔
البرکامیو کی کتاب ’’متھ آف سسی فس‘‘(Myth of Sisyphus) کی روشنی میں دیکھیں تو لایعنی ہیرو دنیا کی نگاہوں میں بیگانہ ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی ہوتا ہے نہ غیر اخلاقی بلکہ ماورائے اخلاق ہوتا ہے اور نیک و بد کی تفریق سے بے نیاز ہو کر بے تحرک اور بے کیف زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ گویا اس کی مثال سسی فس کی ہوتی ہے جو اپنی پشت پر وزنی پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے جانے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ اس کا المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ شعور کی سطح پر آتا ہے اور موجود کی اس جبریت اور یکسانیت کو بدلنے کے لیے بغاوت اختیار کرتا ہے اور اس بغاوت کو تلاشِ ذات یا جستجوئے وجود کے درجے پر لے جاتا ہے تو تب وہ ابسرڈ ہیرو یا لامعقول ہیرو کہلاتا ہے۔
کامیو کے فکشن کے کبیری کردار یا تو ایمان و اعتقاد کے مسئلے پر کشتی لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر سرے سے الوہیت میں یقین نہیں رکھتے۔ سسی فس اس لیے کامیو کا آئیڈیل بنا کہ اس نے دیوتاؤں کی نفی کی تھی۔ مرسو ایسا ہی کردار ہے جو خدا کو وجود سے انکاری ہے مگر جھوٹ نہیں بولتا اور یہی چیز اسے مذہبی اور معاشرتی ریاکاری سے بچاتی ہے۔ خود کامیو نے مرسو کے بارے میں کہا تھا کہ:
’’میرے نزدیک وہ ایک برہنہ آدمی ہے جسے اس سورج سے محبت ہے جو سائے نہیں چھوڑتا۔ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو کبھی سوال نہیں پوچھتا مگر سوالوں کے جواب دیتا ہے اور اس کے سارے جواب اس قدر تنبیہی ہیں کہ سوسائٹی ان کا سامنا کرنے کی تاب نہیں رکھتی۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سوسائٹی کسی فرد کے سامنے لاجواب ہو جاتی ہے تو وہ جبریت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مرسو جبریت کے ہاتھوں مغلوب ضرور ہے مگر وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ لایعنی ہیرو منطقی دلیلوں میں نہیں الجھتا۔ اس کا ذہن عقلیت پسندوں سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔
کامیو کی ابسرڈیٹی میں یہ نقطہ بہت اہم ہے جو مرسو کو سوسائٹی کے بندھے ٹکے معیارات حتیٰ کہ مذہبی اعتقادات کو رد کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ کامیو کے نزدیک انسانوں کی انفرادی زندگی کسی عقلی معنی کی حامل نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کوئی مثبت مفہوم پیدا ہو سکے یا کوئی عقلی ساخت تشکیل پا سکے۔
لایعنیت کا فلسفہ ایسی بے سود اور بے نتیجہ کوشش کی وضاحت کرتا ہے جو کسی معقول ترتیب کے حصول کے لیے کی جاتی ہے چاہے اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ مرسو کے ہیروانہ جوہر پر غور کریں تو اس کے کردار میں مسرت اور لایعنیت دو سرچشموں کی طرح آپس میں آمیخت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس مقام پر ’’ناسیا‘‘ کے ہیرو روکنٹائن (Roquentin) کا تذکرہ بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا ہیرو ہے جو معاشرے کی مفلوج و معذور فضا میں اپنے وجود کے معنی دریافت کرنے کی جدوجہد کرتا ہے اور اس پوشیدہ قوت کو بے نقاب کرتا ہے جو غیر واضح انداز میں فرد کی بے دخلی کے لیے صف آرا ہوتی ہے۔ روکنٹائن کو جوہر پر وجود کے تقدم کا کرداری اعلامیہ مانا جاتا ہے۔ یہ وہی ہیرو ہے جس کے بعض افکار و اعمال کو کامیو نے اپنے فلسفے کے عین مطابق پایا تھا۔ مرسو اور روکنٹائن کے کرداروں میں مشترک بات یہ ہے کہ دونوں زندگی کی مہملیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی وجہ سے خود کوشعورِذات سے الگ نہیں کر پاتے۔
تاہم مابعد الطبیعاتی رخ سے دیکھیں تو روکنٹائن کے کردار میں مرسو کی بہ نسبت مسرت و حرارت کی کمی پائی جاتی ہے۔ وجودیت خدا کی ہستی کو رد کرتی ہے اور سارتر کا ماننا ہے کہ یہی چیز فرد کو اپنے اعمال میں اور بھی ذمہ دار بناتی ہے۔ کامیو کا نظریہ بھی یہی تھا۔ سارتر کے خیال میں وجود کے عقب میں کوئی reason نہیں ہوتی سوائے nothingness کے۔ انسان اپنے انفرادی جوہر کی تخلیق کے لیے آزاد ہے مگر اسے ہر قدم پر اس احساس کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کا وجود غیر یقینی ہے یعنی existence is contingent۔
جب کسی فرد میں احتمالیت کا شعور بیدار ہوتا ہے تو اس کے وجود میں اکراہ و تنفر کے سبب متلی کی خواہش جنم لیتی ہے جسے سارتر نے nausea کی اصطلاح میں ظاہر کیا ہے۔ روکنٹائن ناسیا کو اپنے وجود کا ازلی حصہ سمجھتا ہے۔ اس کا بنیادی مسئلہ امتلائے ذات کے روبرو آنے کا ہے۔ یہ ایک ایسی پراسرار کیفیت ہے جو انسان کو زندگی کے آخری سانس تک دبوچے رکھتی ہے۔ انسانی وجود متلی آور ہے۔ سارتر کے نزدیک اس کے ہونے کی بنا پر ہی ہمارا جی متلاتا ہے۔ لہٰذا وجود اور اشیاء کا ادراک اس کیفیت سے نبرد آزما ہوئے بغیر نہیں ہو سکتا۔
روکنٹائن کو اپنے ہونے کا ثبوت اسی کیفیت کے اندر حاصل ہوتا ہے۔ وہ انڈو چائنا میں اپنی موجودگی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور چونک اٹھتا ہے کہ وہ اتنے برسوں سے یہاں کیا کر رہا ہے۔ ایپی فینی کا یہی لمحہ ناسیا بن کر جب اس پر یلغار کرتا ہے تو وہ رولی بان کی سوانح عمری پر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ رولی بان کی زندگی کے واقعات سے وہ ایسے معنی برآمد کر رہا ہے جو اس کی شخصیت میں یکسر مفقودہیں۔ جوائس کا سٹیفن ڈیڈلس ہو یا کامیو کا مرسو یا کافکا کا ’جوزف کے‘ سب اس مرحلے سے گزرے ہیں۔
روکنٹائن اور ’جوزف کے‘ کا موازنہ کریں تو ’جوزف کے‘ کا ’’فعل‘‘ روکنٹائن کے ’’ذہن‘ ‘سے مشابہ نظر آئے گا ۔ایک کا کردار جسم کی عمل داری میں ظہور کرتا ہے تو دوسرے کا ذہن کی عمل داری میں۔ جو تنازعہ جوزف اور عدالت کے مابین ہے، وہی تنازعہ جسم اور ذہن کے بیچ روکنٹائن کا ہے البتہ سارتر نے ’’ناسیا‘‘ میں فنکارانہ تخلیق کو وجود کا حرکی پہلو مانا ہے اور اسے روکنٹائن کا حتمی علاج قرار دیا ہے۔
ہیرؤوانہ تصور کی بحث میں امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمینگوے کے کوڈ ہیرو کا تذکرہ بھی نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اوّل اوّل جب اس کے ناول شائع ہوئے تو ان میں ایک مخصوص قسم کا آدمی بطورِ ہیرو دکھائی دیا جو شراب نوشی، نوع بہ نوع جنسی تعلقات، شکار اور بُل فائٹنگ جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ جیسے جیسے ہیمنگوے کے ناول منظر عام پر آتے گئے، اس آدمی کی معروفیت بڑھتی گئی اور ناقدین نے محسوس کیا کہ اس کا ہیرو جن مخصوص قسم کے آداب و اطوار کے ساتھ عمل آرا ہوتا ہے، اس سے ایک کوڈ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
ہیمنگوے کا ہیرو خود اپنے کوڈ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا کیونکہ وہ نظریے کی بجائے عمل میں یقین رکھتا ہے۔ اس کے عمل کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ جسمانی اور جذباتی درد کو برداشت کر سکتا ہے اور ارادے کی آزادی اور وجود کی انفرادیت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کرتا، عورت کے سامنے کمزور نہیں پڑتا اور رسومیات کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ اس ادراک کے باوجود کہ فنا انسان کا مقدر ہے اور nada یعنی nothing ایک حقیقت ہے اور یہ کہ کوئی بھی ماخذ خارج میں انسانی زندگی کو معنی خیز اور بامقصد نہیں بنا سکتا، وہ ایمانداری، تحمل اور جرأت کے ساتھ راستے کی مشکلات کا تخمینہ لگا کر آگے بڑھتا ہے اور وقار کے ساتھ موت کا مقابلہ کرتا ہے۔
ہیمنگوے کے کلیدی ہیروؤں کے اعمال میں موت کا تصور ہی کارِ فرما نظر آتا ہے۔ ’’دی اولڈ مین اینڈ دی سی‘‘ کے ہیرو سنتیاگو (Santiago) پر نظر ڈالیں تو وہ ایک ایسا آدمی نظر آتا ہے جو دباؤ کی صورتِ حال میں جرأت اور نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ناقدین نے اسے the idea of grace under pressure کا نام دیا ہے۔
سنتیاگو کی ٹریجڈی ولیم فاکنر) (William Faulkner کے ’’ریچھ‘‘ (The Bear) یا ہرمن میلول کے’’موبی ڈک‘‘ جیسی نہیں۔ گو کہ وہ اہاب جیسے بحری ہیرو کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی ندی کا ہیرو محسوس ہوتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک عظیم ہیرو ہے۔ اس کی ٹریجڈی کسی لرزہ خیز یا پیچیدہ انکشاف کے بجائے اپنے انداز کی ایک ترغیب و تمنا ہے جس کی سادگی اس نوع کی ہے جیسے رات کے وقت کوئی الارم بج اٹھے۔
سنتیاگو انسانی آزادی کا جویا ہے۔ مارلن کی طرح مارنے یا مر جانے کے ابدی قانون میں بندھا ہوا، فطرت کے خلاف لڑتا ہوا ایک تنہا انسان ہے۔ اس حوالے سے وہ ان کلاسیک ہیروؤں کے بالکل متوازی نظر آتا ہے جن کا زوال کسی الم ناک غلطی یا لاعلمی کے باعث ہوتا ہے یا پھر اس خوبی کی بنا پر جسے بے حد سراہا گیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ احساسِ تفاخر بوڑھے سنتیاگو کی مقدرانہ لاعلمی ہے تو یہ درست نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ جب شارکیں مارلن کو ہڑپ کر جاتی ہیں تو بوڑھا کائنات کی ’’حاکم قوتوں‘‘ سے بار بار معافی مانگتا ہے۔
دراصل سنتیاگو رمزی یا کوڈ ہیرو ہے۔ اس ضابطے میں اس کی مردانگی، ماہی گیری کا علم، موت تک مقابلے کی تمنا، قوتِ برداشت، فتح کا یقین، مثبت فہم، ہوس اور شہوت سے بے نیازی، دیگر مخلوقات کے ساتھ اُنس، شائستگی، ایمانداری، مافوق طاقتوں سے آگاہی اور دعا میں اعتقاد جیسے اوصاف شامل ہیں۔ مددگار لڑکے مینولن کے مطابق وہ سب سے اچھا مچھیرا ہے۔
عیسائی عقیدے کی امیجری میں دیکھیں تو وہ مصلوب ہیرو ہے۔ جس طرح یسوع مسیح نے دکھ جھیلے اور زخم اٹھائے اسی طرح سنتیاگو نے بھی صلیبِ حیات کو خوشی اور حوصلے کے ساتھ اٹھایا اور خود کو امر کر لیا۔
سارتر اور کامیو کے ہیرو وجودیت کی جس سطح پر پہنچے اور جن ناول نگاروں نے تعرض کے ساتھ اس میں نئے پہلو نکالے ان میں گنترگر اس اور سال بیلو کے ہیروقابلِ ذکر ہیں۔ سال بیلو کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ولیم فاکنر اور ہیمنگوے کی کمی کو پورا کیا۔
گنترگراس کے ناول ’’دی ٹن ڈرم‘‘ کا ہیرو آسکر (Oskar) اپنی فردیت کے لحاظ سے ایک متذبذ ب کردار ہے جو معاشرے کی لایعنی اور غیر اقداری فضا میں انسانوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو فہم میں لانا چاہتا ہے۔ منافقت اور مہملیت کے شور پر غلبہ پا کر انسانی روابط کی صحت مندانہ نمود چاہتا ہے۔ زندگی کی آزادی اور روح کی بے ساختگی کا احیاء اور ذہن کا ارتقا چاہتا ہے۔
جب وہ تین برس کا ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین اور ان کے ساتھی دکانداروں کی باتیں سن کر محسوس کرتا ہے کہ اس کے جسم کی پرداخت خود اس کے لیے نہیں دوسروں کے لیے ہے۔ وجود کی نشوونما کے لیے ایک جستجو یا ایک quest ضروری ہوتی ہے جو وقت سے نہیں انسان کے ارادے سے مشروط ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ اب اس کا قد کبھی نہیں بڑھ سکتا۔
لہٰذا وہ اپنی مختصر سی جسامت کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے کا تہیہ کر لیتا ہے اور بولنے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ اپنے مدعا کی ترسیل کے لیے ڈرم بجاتا ہے جس کی انوکھی اور احتجاجی تھاپ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جب اس سے ڈرم چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی زور دار چیخوں میں بھی ایسا ہی احتجاج آ جاتا ہے جس سے اطراف کی عمارتوں کے شیشے تڑخ جاتے ہیں۔
اظہار یا ابلاغ کے اس طریقے کو جرمن سوسائٹی سے منسلک کیا جا سکتا ہے جس نے نازی ازم اور اس کے اندر کے پیچیدگیوں کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ آسکر کا اپنی عمر کوایک مقام پر روک دینے کا فیصلہ ایک علامتی مفہوم رکھتا ہے اور فرد کے ذہن کو دانش ورانہ سطح پر اپنے بچپنے سے مربوط رہنے کا احساس عطا کرتا ہے۔
آسکر کے کردار میں اسی احساس کے باعث ایک طرفگی اور تحیرخیزی پائی جاتی ہے۔ نومولودگی سے تیسری سالگرہ تک اور تیسری سالگرہ سے دماغی ہسپتال میں لائے جانے تک وہ اپنی گروٹسک سطح کو قائم رکھتا ہے۔ جس مخبوط الحواس اور مضحکہ خیز معاشرے میں ناکردہ قتل کا الزام لگا کر اسے پاگل قرار دے دیا جاتا ہے خود وہ معاشرہ بھی گروٹسک ہے جو کسی فرد کی مافوق الفطری ذہانت کو برداشت نہیں کر سکتا۔
آسکر دماغی ہسپتال کے اندر خود کو محفوظ تصور کرتا ہے کیونکہ یہاں کی فضا باہر کی نارمل زندگی کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش ہے۔ ہر چند کہ نگہبان کی آنکھ اس پر ٹِکی رہتی ہے لیکن یہیں وہ اپنے قاری سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنی کہانی لکھنا شروع کرتا ہے۔ اپنے اور اپنے نگہبان کے بارے میں وہ کہتا ہے:
’’جہاں تک میرا اور میرے نگہبان کا معاملہ ہے میں بصد عِجز کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دونوں ہی ہیرو ہیں۔۔۔ بہت مختلف قسم کے ہیرو۔۔۔ وہ دروازے کے سوراخ کے اس جانب کا ہیرو ہے اور اپنی جانب کا میں ہوں اور اس وقت بھی جب وہ دروازہ کھول دیتا ہے، ہم دونوں ہی اپنی تمام تر دوستی اور تنہائی کے باوصف، بے نام ہوتے ہوئے بھی، بغیر ہیرو کا ایک انبار ہوتے ہیں۔‘‘
’’دی ٹن ڈرم‘‘ کے ہیروانہ تصور میں یہ نکتہ کارِ فرما ہے کہ فرد کا سوسائٹی کے ساتھ رشتہ بیج اور زمین کی مثال ہوتا ہے۔ یہ رشتہ مذہب، قومیت اور تہذیب کی نام نہاد روایتوں اور استحصالی نظریوں کی وجہ سے بنجر ہو جائے تو سوسائٹی فرد کی ذہنی اور روحانی نشوونما کے قابل نہیں رہتی اور یہی المیہ فرد کو سوسائٹی سے منحرف اور الگ کر دیتا ہے۔
ہیروانہ تصور کے اعتبار سے وکٹم، ہرزوگ، ڈینگلنگ مین، دی ایڈونچر آف دی اوگی مارچ اور سیز دی ڈے سال بیلو کے اہم ترین ناول ہیں جن کے ہیرو ذات کی شناخت، ادراک کی اسیری، وجود کی قربانی،انحراف و اقرار، خارج کے اثرات اور معاشرے سے مصالحت اور عدم مصالحت جیسے معاملات میں مبتلا نظر آتے ہیں مگر بالآخر انتخاب اور آزادئ ارادہ کے حوالے سے وجودیت کی کشادہ راہیں کھولتے ہیں۔ تخریب یا ناکامی، انتظار یا بحران، اکتاہٹ یا شک ہر حالت میں زندگی کا تحرک و تنوع ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ معاشرے سے ان کا رشتہ کسی طور نہیں ٹوٹتا۔جوزف، اوگی مارچ اور ہرزوگ بطورِ خاص اس تصورپر پورا اترتے ہیں۔