ماہِ کامل کو گہن لگ گیا (پہلا حصہ)
زاہدہ حنا
روہنگیاؤں پر ہونے والے ظلم و ستم پر ہر طرف سے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ان میں سب سے بلند اور اہم آواز بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کی ہے۔ انھیں امن نوبل انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ اسی لیے برما کی عالمی شہرت یافتہ اور امن نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی پر ڈیسمنڈ ٹوٹو کی تنقید کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ ان کے نام ایک کھلے خط میں ڈیسمنڈ ٹوٹو نے لکھا کہ اگر میانمار میں روہنگیاؤں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش رہنا، میانمار میں اقتدار پر آپ کے فائز رہنے کی قیمت ہے، تو یقین کریں کہ یہ بہت بھاری قیمت ہے۔
اس خط میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’سالہا سال سے آپ کی تصویر میری رائٹنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی، آپ انصاف اور حق گوئی کی علامت تھیں لیکن اب آپ کی تصویر پر کالک پھر گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے یہاں روہنگیاؤں کی نسل کشی ہورہی ہے اور کچھ اسے ’’قتل عام‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کی رہنمائی کرنا آپ جیسی انصاف پسند شخصیت کے لیے المناک بات ہے۔ ہم آپ سے استدعا کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں (حکومت) کی رہنمائی کریں اور انھیں دوبارہ درست راستے پر لائیں۔‘‘
ڈیسمنڈ ٹوٹو کا یہ خط آن سانگ سوچی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان پر ہونے والی تنقید میں ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ مغرب میں ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں۔ وہ برطانیہ کی بیوہ بہو ہیں۔ وہاں ان کے بیٹے رہتے ہیں اور ان کے محبوب شوہر کی آخری آرام گاہ بھی وہیں ہے۔ وہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے شوہر سے آخری ملاقات نہیں کرسکی تھیں کیونکہ برما کی حکومت نے شرط لگادی تھی کہ وہ وطن واپس نہ آسکیں گی۔ ان کے یہی اصول تھے جن کی دنیا گرویدہ تھی اور انھیں بے حد بلند مقام دیتی تھی۔ مجھ ایسے بہت سے لوگ پاکستان میں بھی تھے جو ان کو ایک ایسی عظیم شخصیت تصور کرتے تھے جس نے ذاتی خوشیاں اپنے لوگوں کے حقوق کی لڑائی میں قربان کردیں۔
چند برس پہلے تک وہ ماہِ کامل تھیں لیکن اب اس چاند کو گہن لگ گیا ہے اور یہ گہن مجھ ایسے لوگوں کے لیے ذاتی صدمے کا باعث ہے۔ ہمارے یہاں روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مذہبی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ یہ لوگ اس تاریخی حقیقت سے صرف نظر کرتے ہیں کہ برمی فوج کے منہ کو آج سے نہیں کئی دہائیوں سے انسانی خون لگا ہوا ہے اور اس میں مذہب اور فرقے کی کوئی تخصیص نہیں۔
دور کیوں جایئے 30 برس پہلے کے میانمار کو دیکھیے، میں نے وہاں کی صورت حال کے بارے میں لکھا تھا کہ: ’’ستمبر 1987ء سے برما میں جو سیاسی بے چینی شروع ہوئی، وہ 1988ء میں آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی۔ پہلے سیکڑوں، پھر ہزاروں اور اس کے بعد لاکھوں لوگ فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے لگے۔ ان دنوں جنرل نے ون کے اشارے پر ایک ایسے جنرل نے اقتدار سنبھال لیا جسے برمی ’’قصائی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس ’’قصائی‘‘ نے نہتے بھکشوؤں، طالب علموں، مزدوروں، ڈاکٹروں، عورتوں، مردوں، بچوں کے ساتھ چو کچھ کیا اس کے بارے میں انسانی حقوق کی ایک رپورٹ یہ کہتی ہے کہ 8 اگست اور 13 اگست 1988ء کی درمیانی مدت میں فوجیوں نے سائن لوئن کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف احتجاج کرنے والے پرامن اور نہتے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔ فوجیوں نے مظاہرین کا تعاقب کر کے انھیں ہلاک کیا اور تماشائیوں پر اور اردگرد کے مکانوں پر بھی اندھادھند فائرنگ کی۔
10 اگست کو فوجیوں نے رنگون جنرل اسپتال کے سامنے ڈاکٹروں، نرسوں اور دوسرے لوگوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کرکے کئی ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہلاک کردیا جو ان سے فائرنگ روکنے کی استدعا کررہے تھے۔ رنگون کے مضافات میں ایک کیپٹن کے حکم پر فوجی لوگوں کو قطار میں کھڑا کرکے مظاہرین پر لگاتار فائرنگ کرتے رہے۔
سب سے پہلے گولیوں کی زد میں آنے والی پانچ یا چھ نوعمر لڑکیاں تھیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں بینر اور برما کے مقتول قومی رہنما آنگ سان کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔ ان چند دنوں کے دوران اموات کی کل تعداد دو ہزار سے زیادہ رہی ہوگی۔ لیکن اصل تعداد کا کبھی پتہ نہ چل سکے گا۔ اکثر صورتوں میں فوجیوں نے فائرنگ کا کام ختم کرتے ہی اپنی گولیوں کا شکار ہونے والوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر لے جانا شروع کردیا تاکہ انھیں اجتماعی طور پر ٹھکانے لگا کر قتل ہونے والوں کی تعداد کو چھپایا جاسکے۔
برما میں 1988ء سے 1990ء کے دوران جنرل نے ون اور اس کے ساتھیوں نے سختی، نرمی، انتخابات، آزادی کے نام پر جو بھرپور ڈرامہ رچایا اس میں فوج نے اپنی پوری قوت سے برما کے شہریوں کو کچلا۔ ایک سوال دنیا کے مختلف صحافی اور دانشور بار بار کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک سادہ سوال ہے کہ برمی فوج جو کہیں باہر سے نہیں آئی، اس نے اپنے ہی لوگوں پر اتنے مظالم کیسے کیے اور اس قتل عام کے دوران یا بعد میں اس کے درمیان پھوٹ کیوں نہیں پڑی؟ اس کا سادہ اور مختصر جواب ایک امریکی تجزیہ نگار اسٹین سیسر نے A rich country gone wrong میں دیا ہے۔
سیسر کا کہنا ہے کہ نے ون فوج کو سب سے نچلے درجے کے سپاہی سے لے کر اعلیٰ ترین عہدے دار تک، ایک الگ تھلگ مراعات یافتہ طبقے کے طور پر قائم کرنے کی پالیسی کے فائدہ مند نتائج حاصل کرتا رہا۔ فوج کے اپنے اسکول تھے، اپنے الگ اسپتال، جن میں ضرورت کی تمام اشیاء لامحدود مقدار میں موجود ہوتی تھیں۔ ان کے خاص اسٹور جہاں وہ تمام چیزیں ملتیں جو کہیں اور نایاب تھیں۔ یہاں تک کہ فوج کے گولف کورس بھی الگ تھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں یونیورسٹی کا کوئی گریجویٹ بھی ڈھنگ کی ملازمت حاصل نہیں کرسکتا اگر اس کے والدین کی فوج یا حکومت میں رسائی نہ ہو، لیکن فوج کے کسی معمولی سپاہی کے لیے فوجی ملازمت تحفظ کی علامت تھی۔ افسر کے لیے فوج سے ریٹائر ہونے پر کسی سرکاری صنعت میں اونچے عہدے پر فائز ہونے کا موقع موجود تھا۔
رنگون میں فوج کے ایک کیپٹن کے بیٹے نے مجھے بتایا ’’ملٹری بیس پر رہائش مفت ہے، کوئی بیمار پڑ جائے تو اسپتال موجود ہے اور علاج کی سہولت کسی فوجی کے تمام رشتے داروں کو حاصل ہے، خوراک کا وافر راشن ملتا ہے اور خاص چیزیں مثلاً بدبودار مقامی دودھ کے بجائے نیسلے کا عمدہ دودھ، فوجی افسروں کے بیٹوں، بیٹیوں کو برما میں اچھی ملازمتیں ملتی ہیں یا پھر وہ برما کے سفارتخانوں میں ملازم ہوکر بیرون ملک جاسکتے ہیں۔‘‘
آپ ہی سوچیے کہ جن کے لیے تنخواہیں اور مراعات اتنی پرکشش ہوں اور جن کے مفادات اپنے ادارے سے اس قدر گہرائیوں میں پیوست ہوں وہ خود کو مالک اور اپنے ہم وطنوں کو غلام کیوں نہیں سمجھیں گے۔ برما میں جو کچھ ہوتا رہا اس کے بارے میں آپ حکمران قبیلے کے کسی اعلیٰ یا ادنیٰ فرد سے پوچھتے تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا ’’جو کچھ کیا گیا قانون کے مطابق کیا گیا۔‘‘
زیادہ بحث کیجیے تو وہ ’’حب وطن، قومی سلامتی‘‘ اور ’’ملکی مفاد‘‘ کی گردان شروع کردیتا۔ اس وقت 2017ء میں بھی روہنگیاؤں پر ہونے والے ظلم و ستم کی تاویل یہ کی جارہی ہے کہ عسکریت پسند روہنگیاؤں نے برمی افواج پر کئی شب خون مارے جن میں بہت سے فوجی جان سے گئے اور یہ فوج کی طرف سے اسی خون خرابے کا ردعمل ہے۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ آج کا نہیں دہائیوں پرانا ہے۔ 1940ء سے پہلے سے وہ خود کو ’’برما کا شہری‘‘ نہیں مانتے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے اور جب 1947ء میں ان کے کچھ لوگوں نے سابق مشرقی پاکستان کا رخ کیا اور برما سے علیحدگی کی تحریک چلانے کے لیے پاکستان کا کندھا استعمال کرنا چاہا تو بانی پاکستان نے ان کے اس رویے کی سختی سے مخالفت کی تھی اور انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ برما کو اپنا وطن سمجھیں اور ان کی سیاست کی بنیاد اپنے ملک سے وفاداری ہونی چاہیے۔
’مسلم امہ‘ کا خواب صرف برصغیر کے ہی نہیں جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کئی ایسے گروہ ہیں جو حقائق کا ادراک کیے بغیر خواب سراب کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے رہنما محفوظ رہتے ہیں اور ان کے غریب قتل ہوتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں، زندگی کیمپوں میں گزارتے ہیں۔ ان کی عورتیں بے حرمت ہوتی ہیں، ان کے بچے تعلیم اور طبی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں، ان کے اندر غم و غصہ پرورش پاتا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے بے زمین و بے آسمان ہوجاتے ہیں۔ (جاری ہے)
ماخذ: ایکسپریس اردو