محمل کا رخ
از، نصیر احمد
زاشک چشم مجنوں بی خبر بود
کہ لیلٰی سوئے ھامون راند محمل
سعدی شیرازی
اقلیت دشمنی کی طرف جب محمل رخ لیتا ہے تب چشم تر غیر مؤثر سی ہو جاتی ہے۔ لالچ، حرص، خوف، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی آرزو، نام اونچا کرنے کی خواہش، آگے بڑھنے کی اچھا، تالیوں کے ہجوم میں ساتھ والوں کی نگاہوں میں پسندیدگی، قبیلے کے ساتھ شانہ بہ شانہ گونجتے نعروں کی سرخوشی، تقریر کے زیر و بم کے سنگ بندھا دل، ایک عظیم شاہ کار کی پرفارمنس میں موجودی کی طمانیت، ہجوم میں تحفظ کا ایک گہرا احساس، اور ہر طرح کے مچلتے، تڑپتے، بھڑکتے، اچھلتے، کودتے جذبات اس بات کی طرف توجہ جانے ہی نہیں دیتے کہ محمل نے غلط سمت اختیار کر لی ہے۔ اور کبھی اس طرف توجہ چلی بھی جائے تو دل کی تسلی کے لیے کئی بہانے تراش لیے جاتے ہیں۔
کبھی اقلیتوں کے جرائم کے ارد گرد کَتھا کویتا مرتب ہو جاتی ہے کہ اگر یہ ایسے نہ ہوتے تو ان کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہی کیوں۔ میزبانی کو پامال کیا، اکثریت پر راج کرنے چلے تھے، ہمارے بچے قتل کیے، عورتوں کو پامال کیا، ہمارے اموال پر قبضہ کیا۔ طرح طرح کے جواز تراشتے ہوئے اپنی انسانی ذمہ داریوں اور حقائق سے کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
کبھی ان کی انسانیت سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے، کہ دکھ اسی کا ہوتا ہے جو انسان ہے۔ جو انسان ہی نہیں اس کا کیسا دکھ؟
انسانیت کے انکار کے بعد اقلیتوں میں غول و دیو، عِفرِیت و شیطان گھسا دیے جاتے ہیں۔ اخباروں میں ان کی بگڑی اور بد تر شکلیں دیکھ دیکھ کر ان سے انسانی رشتہ ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ جو اخباریں نہیں کر پاتیں اس کی کمی کے لیے تخیل کی مدد لی جاتی ہے۔
کبھی تاریخی، فطری، ازلی یا ابدی، سماجی، سیاسی اور ریاستی قوتوں کے سامنے اپنی بے بسی، بے وقعتی اور بے بِضاعَتی میں پناہ لی جاتی ہے۔ اور دل پتھر ہو گیا ہو یا فائدے کی راہ سنگ دلی کی طرف لے جائے تو اقلیت دشمنی تقدیر کا فتوٰی بن جاتی ہے۔
وہ جیسے کہتے ہیں دل بے ایمان ہو تو بہانوں کی کیا کمی۔
لیکن یہ سب بہانے ہی ہوتے ہیں۔ ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تھوڑی سی جستجو کے بعد سمجھ آ جاتا ہے کہ محمل کسی غلط راستے پہ ہے لیکن اس وقت جیسے ان کے گھر والے آئے تھے، سب کچھ اچھا لگ رہا تھا والی صورتِ حال ہوتی ہے اور محمل کے رخ کی سمت دیکھنا موجود کا لطف ضائع کرنے جیسا لگتا ہے۔
پڑھے لکھے پروفیشنل ہوں تو محمل کی سہولتوں کے لیے پورے خلوص سے کام بھی کیا جاتا ہے۔ محمل کے بے تکے احکام کو قوانین کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ محمل کی بربریت کو دانائی کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ محمل کو جنوں کا سولہ کلاؤں کے ذریعے سولہ سنگھار کیا جاتا ہے۔ محمل کی شان میں قصیدے لکھے جاتے ہیں۔
محمل کے رہنماؤں کو ایسے ایسے انتظامی بند و بست سکھائے جاتے ہیں کہ اقلیتیں شہر میں نظر ہی نہیں آتیں۔ محمل کی خون آشامی بڑھانے کے لیے ایسی ایسی تجویزیں دی جاتی ہیں کہ اپنی ہی ذکاوت پر حیرانی ہوتی ہے۔
یہ سب کَشٹ اٹھانے کے بعد بھی اگر محمل کا رخ درست سمت میں نہ ہو تو باری سب کی آ جاتی ہے۔ دین داروں کو خدا نہیں ملتا، نہ پادری کے وعظ میں، نہ کلیسا کی گھنٹیوں میں، نہ خداوند کی شبیہوں میں اور نہ مریم عذرا کے دامن میں۔ جب دل میں انسانیت نہ رہے پھر خدا کہاں سے ملے۔
مزید دیکھیے: اقلیتیوں کی بابت سنگ دلی اور منافقت
پاکستان کا فکری منظرنامہ، چند معروضات
عصری رجعت پسندی اور ترقی پسند نقطہِ نظر
پروفیشنل کو بھی ہزار ترقیوں کے باوجود چین نہیں ملتا کہ پیشے کی اخلاقیات ستاتی ہیں۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی روح فروخت نہیں کرتے۔ ان پر غصہ بھی آتا ہے، ان سے گِھن بھی آتی ہے، ان پر جھنجھلاتے بھی ہیں لیکن ان کے دلائل غائب نہیں ہوتے۔
دہریوں کو خدا یاد آنے لگتا ہے کہ بتوں کی پوجا کے بعد اپنی شکل آیئنے میں دیکھنے کا من نہیں کرتا۔ کچھ کو تاریخ ستاتی ہے کہ ملکہ ممالک کی بیوگی کے خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ہم وہ لوگ تھے جن کا تھیٹر دیکھنے دنیا آتی تھی۔ جن کا نغمہ دلوں میں رچ بس جاتا تھا۔ جن کی تصویریں ایسی ہوتی تھیں کہ دنیا بھر کے مصور خراجِ عقیدت پیش کرتے تھے۔
جن کے فلسفیوں کے نام ہر کوئی جانتا ہے۔ جن کے شاعر امن اور آشتی کے پیام بر تھے۔ جن کے بادشاہ در در کے دھتکارے ہوئے دانش وروں کو نہ صرف پناہ دیتے بَل کِہ ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔
یہ میرے دادا تھے جنھوں نے اقلیتوں کو نوکریوں میں برابر کا حصہ دلوانے کی قانون سازی کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔ میری دادی کی بہن تھیں جو اقلیتی افراد کو ادا کاری سکھاتی تھیں۔ اب میں کیا کر رہاہوں؟ گڑھوں میں پڑی لاشوں پر کرین سے مٹی ڈال رہا ہوں۔ پھر کسی کانچے چینے کو گالیاں کہ ہم پڑھوں لکھوں کو اس نے کیسا بنا دیا؟
یہ تو جذبات کی کیفیت ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی احتساب بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بہت بڑے فلسفی ہیں، اقلیتی لڑکی سے محبت کرتے تھے، اب اقلیتوں کی فطری کم تری کے لیے دلائل گھڑتے ہیں۔
یہ معرکوں کے غازی تھے، انھی کی یونٹ اقلیتوں کو ریوڑ کی طرح ہانک کر قتل گاہ میں لائی تھی۔ یہ بہت بڑے معیشت دان ہیں، انھوں نے ہی تو تجویز کیا تھا کہ اقلیتوں سے روٹی کے چند ٹکڑوں کے بدلے ان سے ان کی ساری جمع پونجی چھینی جا سکتی ہے۔
یہ ڈاکٹر ہیں، بُقراط کی قسم کھائی تھی، لیکن محمل کے سپاہیوں کو تشدد کرنے کے نت نئے ہتھکنڈے سکھاتے تھے۔ یہ سرکاری افسر ہیں، انھوں نے قتل گاہوں کے نقشے تعمیر کرنے میں محمل کی مدد کی تھی۔
یہ اشرف ہیں، صدیوں سے اشرف چلے آ رہے ہیں، انھوں نے اقلیتی لوگوں کو پناہ کے بہانے قاتلوں کے حوالے کر دیا تھا۔ جن کا احتساب نہیں ہو پاتا، ان کی ساری زندگی اپنے جرم کے سراغ چھپانے میں گزر جاتی ہے۔ لیکن سزا ملے نہ ملے، جرم نہیں چھپتا۔
اس لیے جب محمل کسی غلط سَمِت رخ اختیار کرے تو اسی لمحے لالچ، خوف، حرص، شہرت کی آزرو، پسندیدگی کی خواہش کو تیاگتے ہوئے محمل کی کچھ روک تھام کی تگ و دو کرنی چاہیے کہ یہ چند لمحے ہوتے ہیں جب محمل کی سمت درست کی جا سکتی ہے ورنہ اگر محمل کا غلط سمت رخ طرزِ حیات بن جائے تو معاملات سدھارنا مشکل ہو جاتا ہے۔