مخوٹے تھیٹر کے نوجوان فنکار
انٹرویو: سلمان درانی
“مخوٹے” لاہور شہر میں طلباء کا ایک گروپ ہے جو کہ پرفارمنگ آرٹس کرتے ہیں۔ مخوٹے کے سرکردہ جناب سبطِ حسن جو کہ خود پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم ہیں، سیاسی کارکن بھی ہیں اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ طلباء کے اس گروپ نے معاشرے میں شعور بیدار کرنے کے لیے آرٹ کی اس قسم کا انتخاب کیا۔ مخوٹے کے حوالے سے سیاسی و سماجی کارکن سبط حسن سے تفصیلی انٹرویو ملاحظہ ہو:
س- مخوٹے دراصل ہے کیا، اس کا مقصد کیا ہے؟
ج- مخوٹے لاہور کا ایک اسٹوڈنٹ گروپ ہے، اس کے جتنے بھی ممبر ہیں وہ طلباء ہیں۔ ہم لوگ تھیٹر کرتے ہیں، اور اس کے ذریعے سے معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ اسٹریٹ تھیٹر ہو یا فیچر پلے، ہم دیکھنے والوں کو کوئی نہ کوئی سوشل میسج ضرور دینا چاہتے ہیں۔ اس میں ہم مختلف اہم سوشل ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے ہم نے ایک مہم چلائی تھی جس میں ہم نے کرپشن، مورل پالیسی، خواتین کے حقوق، نوجوانوں کے مسائل، بے روزگاری، شدت پسندی، نفرت انگیزی اور یوتھ ایکٹیوزم وغیرہ کو چھوا تھا۔ حال ہی میں ہم اوکاڑہ میں ایک پرفارمنس کرکے آئے ہیں، اس میں ہم نے ورکنگ کلاس فیملی دکھائی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم خود ہی ایسے ایشوز پر بات کرتے ہیں جن کو عوام خود سے ریلیٹ کرپاتے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ، میوزک کے ساتھ ساتھ ایک ایسا سوشل میسج بھی ضرور ہوتا ہے تاکہ عوام ہمارے پلیز سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر جائیں۔
س- آپ کو کیوں لگا کہ آپ کو یہ کچھ کرنا چاہیے؟
ج- ہمارے برصغیر کا کلچر جو ہے، خاص کر پاکستان کا، وہ بڑا ہی رِچ ہے اور بڑا ہی مضبوط ہے۔ اس کلچر کے کئی ایسے شیڈز ہیں جو کہ ہماری شہری سوسائٹی تک نہیں پہنچتے۔ایک تو یہ کہ پہلی بار جب کوئی شہری دیکھتا ہے تو وہ بڑا متاثر ہوتا ہے، وہ کیونکہ یہ اس کےاندر کی چیز ہوتی ہے۔ ثقافت اور پرفارمنگ آرٹس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ہم جو کہانیاں پیش کرتے ہیں، ہم جو کردار پیش کرتے ہیں وہ اس سوسائٹی سے ہوتے ہیں اس کلچر سے ہوتے ہیں۔ جب ان کہانیوں کو ہم اپنی اداکاری کے ذریعے قدرتی انداز میں اسٹیج پر یا بازار میں پرفارم کرتے ہیں تو وہ کہانیاں سامنے بیٹھے حاضریں کو اپنا آپ ہی لگتی ہیں۔ دراصل اس میں آگے پہنچانے کا پیغام بھرپور ہوتا ہے۔ تو یہی ہے کہ آپ آرٹ کے ذریعے سے اپنا پیغام پڑی آسانی کے ساتھ پہنچا سکتے ہیں۔
س- آپ خود کو اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب دیکھتے ہیں؟
ج- ہمارا مقصد معاشرے میں مثبت تبدیلی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہر چیز میں اچھے اور بُرے اقدار میں فرق واضح کرنا ہے۔ ہمارے عوام زیادہ تر سیاست سے نالاں نظر آتے ہیں۔ اب چونکہ معاشرہ اتنا زیادہ depoliticise ہوچکا ہےتو معاشرے میں اب کوئی ایسا ادارہ نہیں بچ گیا کہ جو ان کہانیوں کو دیکھ سکے، ان مسائل کی حل جوئی کرسکے۔ ساری صورتحال کو جاننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک تھیٹر گروپ بنایا جائے گا اور اسی لمحے سے کام شروع کردیا۔ ہمیں تقریباً بیشتر جامعات اور کالجز میں پرفارم کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہاں جب ہم جاتے ہیں اور کوئی نئی چیز رکھتے ہیں۔ حاضرین کی طرف سے اس قدر غیر یقینی فیڈ بیک ملتا ہے کہ اظہار کے الفاظ نہیں۔ ہم سے سوال بھی پوچھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات چیزوں کو حقیقت سے آگے لے جانا پڑتا ہے تو اس پر بھی سوال آتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیوں کیا جب کہ حقیقت سے تو اس کا کوئی تعلق نہیں۔ تو جناب سوال اٹھنا ہی ہماری سب سے بڑی جیت ہے۔ بہت سے تجربات میں ہم نے لوگوں کے نقطہ نظر بدلتےبھی دیکھا ہے۔ یہی ہماری جیت ہے۔
س- ٹیم ممبران مستقل مزاج کیسے رہ پاتے ہیں؟
ج- ہماری ٹیم کے تمام ارکان خود سماجی کارکن بھی ہیں اور مختلف سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور جن جن اداروں سے میرے دوست احباب منسلک ہیں وہ وہاں پر سوسائٹیز چلا رہے ہیں تو سیاسی طور پر متحرک ہونا ان کی مستقل مزاجی کا سبب بھی ہے۔ ہم ابھی تک تو 16 لوگ یکجا ہوکے کام کررہے ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کی جانب سے ٹیم میں شامل ہونے کے حوالے سے response بہت زیادہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنا potential موجود ہے اتنے کام کرنے والے موجود ہیں اتنے تخلیقی لوگ موجود ہیں مگر پلیٹ فارم بہت کم ہیں جس کی نہ تو کبھی حکومت نے سرپرستی کی ہے اور نہ کسی نے اس طرح کی سرگرمیوں کو سراہا ہے۔ اگر حکومت ایسی سرگرمیوں کی سرپرستی کرے تو یقین کیجیےیہ سرگرمیاں معاشرے کو امن محبت اور رواداری کی طرف لے جانے میں بہت ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
س- بازار میں پرفارم کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟ کیا یہ پاگل پن یا جنونیت نہیں؟
ج- یہ پاگل پن نہیں یہ تھیٹر کی ایک پوری قسم ہے۔ جتنے بھی بڑے ایکٹرز ہیں یا اسٹیج رائیٹرز ہیں اور اب بھی فلم کے بہت سے لوگ ہیں یہ سب کیوں کہتے ہیں کہ تھیٹر جتنے بھی پرفارمنگ آرٹس ہیں ان سب کی ماں ہے۔ اور ایک آرٹسٹ ہمیشہ یہ چاہتا ہےکہ وہ تھیٹر کبھی نہ چھوڑے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھیٹر میں آپ کو فوراً رسپانس ملتا ہے۔ جب آپ انہی لوگوں کی کہانی انہی کی زبانی اسی انداز میں انہی کے سامنے پیش کرتے ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں آپ کے سامنے بیٹھے یا کھڑے ہوتے، اس سے جو آپ کو انرجی ملتی ہے وہ being an artist آپ کو مزید پُرجوش کرتی ہے۔ اور ہاں جس وقت آپ اپنی بات جوں کی توں سمجھانے اور لوگوں کے اندر ایک تاثر کی طرح اُتارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس وقت ایک آرٹسٹ کے لیے اطمینان کا جو عالم ہوتا ہے اس احساس کا واقعی میں نعم البدل کوئی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ بازار میں ایکٹ کرنے کا تجربہ بڑا ہی مختلف اور منفرد رہا۔ ہم نے شاپنگ کے لیے آئی فیملیز کو کھڑے ہوکر پورا پورا ایکٹ دیکھتے ہوئے پایا ہے۔ وہاں ہر کلاس ہر گروپ کا فرد آپ کی audience ہوتا ہے۔ ایک ریڑھی بان اور ایک مرسڈیز کا مالک دونوں ہی اگر شاپنگ کے لیے آئے ہوئے ہیں تو وہ دونوں ہی رُک کر دیکھ رہے ہیں۔ تو بازاروں میں جو ہمیں حاضرین اور تماشائیوں کی ورائٹی ملتی ہے ہمارے لیے وہ لمحات بہت پُرجوش ہوتے ہیں۔
س- سیاسی حلقوں کی جانب سے اب تک کوئی دلچسپی دکھائی گئی؟
ج- اس حوالے سے پیپلزپارٹی ایک ایسی جماعت ہے جس نے ہمیں اور ہمارے کام کو کم از کم سراہا تو ہے۔ باقی مختلف اسٹوڈنٹ فیڈریشنز ہمیں سپورٹ کرتی تو ہیں مگر کسی سے بھی اس طرح سے سنجیدگی کا اظہار ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ ‘دِل سے پاکستان’ ایک معاشرے میں بہتری کے لیے کام کرنے والا گروپ ہے جو ہمیں ہرطرح سے سپورٹ کررہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے دل سے پاکستان کے بھرپور تعاون سے ایک مہم کروائی، ہم نے وہاں بھی پرفارم کیا۔
س- خواتین بھی آپ کی ٹیم کا خاص حصہ ہیں۔ اس سے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ج- ہمارا پیغام امن کا ہے، دوستی کا ہےاور اس میں ہم کسی gender discrimination پر یقین نہیں رکھتے، احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم پوری ٹیم ایک فیملی کی طرح کام کرتے ہیں لڑکیوں کی جانب سے بڑی زبردست قسم کی input آتی ہے۔
س- لوگوں کےresponse کو دیکھتے ہوئے ان سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی لائحہ عمل؟
ج- ہم جتنا اس کو عوام کی زبان میں پیش کریں گے، عوام کے رنگ میں اور ان کے جذبات میں پیش کریں گے acceptance تو خودبخود بڑھتی چلی جائے گی۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ’ آرٹ برائے آرٹ، ‘ادب برائے ادب’ اور ‘ادب برائے زندگی’۔ ہمارا یقین ‘ادب برائے زندگی’ پر ہے، اس میں جتنی بھی حقیقتیں ہیں لوگوں کے حالات زندگی ہیں، ہم اس کو جوں کا توں عوام کے ہی رنگ میں انہی کی زبان میں ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔