بچوں کو کتاب پڑھنے پر لگانا اور باریک بِین بنانا، پر کیسے؟
از، یاسر چٹھہ
بچوں کے سامنے بیٹھ کر پڑھیں۔ ایسی چیزوں کو اپنی گفتگو اور کلام میں مناسب وقت دیں۔ ان چیزوں پر بات اور سوال اٹھائیں، اس مشق کو زندگی بنائیں۔ زندگی پر طاری شدہ بیرُونیہ externality، نا بنائیے۔
چیزوں، کاموں، رسموں، عادات کو ہم محض بیرُونیہ، اور آنکھ کا منظرِ پُر کشش، optical luxury and the visible for the sake of visibility بنانے میں بہت دل چسپی رکھتے ہیں، اور رغبت دکھاتے ہیں؛ یہ شناخت کے بحران کا شکار معاشروں اور اپنی شخصیت کی اُستواری کے دردِ زِہ کا شکار افراد میں سے بہت ساروں کو پاگل کیے رکھتا ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ دیکھیے پھر بچے کیسے قاری نہیں بنتے۔ کیسے گہرے مشاہدہ کار اور باریک بِین نہیں بنتے۔
ہمارے یہاں والدین بس preachers of the good بنتے ہیں، practitioners and humane inspiring characters نہیں بنتے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بھلا کام ایک ایسے مقامِ عالی، pedestal، پر براجمان رہتا ہے؛ وہ تقدُّس کا درجہ تو بَہ آسانی حاصل لیتا ہے، وہ احساساتِ تحریمہ، the piety feels، سے مشرُّف تو ہو جاتا ہے، اور یہ احوال بَر قرار رکھتا ہے، پَر صرف احترام و تقدس کے بالا خانے پر غلاف اوڑھے پڑا رہتا ہے۔
میں جب بھی کتاب پڑھنے کا ذکر کرتا ہوں تو اس سے مراد صرف کاغذ والی روایتی کتاب نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہ صرف اور صرف روایتی مُطالَعَہ ہوتا ہے۔ ایسا کہنے کا مطلب اپنی دل چسپی کو متنوُّع رکھنے، اور ہر مختلف متن، اور ہر مختلف پلیٹ فارم سے میسر متن، مناظر، ڈیجیٹل سپیسز، digital spaces پر موجود مواد کا مُطالَعَہ و مشاہدہ ہے۔
زندگی اپنا مختلف صورتوں اور عادتوں سے نَظّارہ کراتی ہے۔ اِسی طرح cognition کئی ایک مشاہدات، تجربات، اور دوسروں کی ہَڈ بِیتیوں کے مختلف انداز اور طریقوں سے ہم تک منتقلی سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔
آپ کے گھر میں موجود، محلے community، میں آس پاس موجود ضعیفُ العُمر افراد اپنی ذات، اپنے سر انجام افعال اور اپنی یاد داشتوں میں ایک لائبریری ہوتے ہیں۔ ان کی بِپتاؤں کی سماعتیں، اور ان کی زندگی کی گزران اور کار گزاریوں کے سننے میں علم کے ذخیرے ہوتے ہیں۔
اس راقم کا وفاقی نظامتِ تعلیمات، Federal Directorate of Education میں بَہ طور ادنیٰ سے ذمے دار کے طور پر یہ منصوبہ تھا کہ ہر تعلیمی ادارے کی جانب سے سینئر سِیٹیزَنز کا ایک ریسورس پُول بنانے، اور ان کی جانب سے طُلَباء کو اپنی زندگی کے بیانیے، narratives سنانے کے رسمی انتظام، formal arrangement، بنانے کو کسی ادارے کے Quality measuring indicator and tool کے طور پر متعارف کرانا ہے۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ پاکستان کے وفاق میں شامل مختلف اکائیوں میں کسی educational monitoring mechanisms میں بَہ طورِ quality indicator tool یہ موجود نہیں تھا۔ لیکن یہاں اسلام آباد میں ایسا کرنے سے پہلے ہمیں تعلیم دوستوں کے ہاتھوں شہادت نصیب ہو گئی۔ (پَر، on a lighter note، یاد رکھیے کہ شہید مرتا نہیں، صرف مقام بدل لیتا ہے۔)
خیر کہنا یہ ہے کہ ہر رنگ جِئیں، اور ہر رنگ و آہنگ سے نہ صرف خود بَغل گیر ہوئیے، بَل کہ، اپنے آس پاس، اپنی ذمہ داری میں موجود افراد کو بھی اس کی ترغیب دینا بہت مثبت امکانات جَنما سکتا ہے۔