نیا پاکستان کیسے بنا
از، حسین جاوید افروز
’’ہماری کوشش ہوگی کہ اقتدار میں آنے کے بعد مدینے جیسی فلاحی ریاست قائم کریں۔ ہم احتساب کا بے لاگ نظام قائم کریں گے اور یہ عمل میری ذات سے شروع ہوگا۔ جن جن حلقوں کے حوالے سے دھاندلی کا شور اٹھتا ہے میں وہ تمام حلقے کھلوانے کو تیار ہوں۔ ملک میں ترقی کے لیے چینی ماڈل سے استفادہ حاصل کریں گے۔‘‘
25 جولائی کو عام انتخابات میں پاکستان کے طول و عرض میں شان دار کامیابی حاصل کرنی والی جماعت پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کا 26 جولائی کو قوم سے پہلا خطاب دنیا بھر میں نہایت دل چسپی اور انہماک سے سنا گیا۔ عمران کی یہ تقریر سادگی، خلوص اور بے غرض لگن کے جذبے سے بھرپور تھی جس کو ایک عالم نے ستائش سے نوازا۔
2018 کے چناؤ میں عمران خان کی جیت محض اس کے سِحَر کی بدولت ہی نہیں حاصل نہیں ہوئی بل کہ یہ اس کی 22 سالہ سیاسی جد و جہد اور کٹھن سے کٹھن مرحلے میں کبھی ہار نہ ماننے والے جذبے کا نتیجہ بھی تھی۔ وہ عمران خان جو 1997 میں تمام حلقوں سے شکست کھا گیا جو کہ 2002 میں محض میانوالی کی آبائی سیٹ ہی نکال پایا۔ جب کہ 2013 میں اس نے انتھک محنت کر کے تحریک انصاف کو ملک میں تیسری فورس کے طور پر لاکھڑا کیا اور ان پانچ سالوں میں حقیقی طور پر جاندار اپوزیشن کا کردار نبھایا۔
اگر چِہ اس سفر میں اس سے ہمالیائی غلطیاں بھی ہوئیں اور کئی ساتھی چھوڑ کر بھی چلے گئے مگر وہ ڈٹا رہا اور 2016 میں پاناما لیکس جیسے اس کے لیے ایک آسمانی تحفہ ثابت ہوا جس کی بنیاد پر اس نے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نا اہل کروا کر ہی دم لیا۔ جب کہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار عمران نے اپنی انتخابی حکمت عملی تبدیل کی اور ایسے منجھے ہوئے امید واروں کو پارٹی ٹکٹس الاٹ کی جن کو اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی گھوڑوں کی حیثیت حاصل تھی۔ اگر چہ اس بناء پر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر عمران کا مؤقف بھی اپنی جگہ وزنی تھا کہ ان انتخابی گھوڑوں کو پولنگ ڈے اور انتخابی مینیجمنٹ کی سائنس پر کامل گرفت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ گزشتہ الیکشن میں اسی انتخابی سائنس کی باریکیوں سے نا بلد پی ٹی آئی کے کار کنان کی بدولت پارٹی کو کئی حلقوں میں موثر ووٹ بینک ہونے کے با وجود شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ حالیہ انتخابات میں کراچی تا خیبر، تحریک انصاف کے کار کنان پولنگ ڈے پر شروع سے آخر تک چاق و چوبند دکھائی دیے اور یوں تحریک انصاف کی مقبولیت کو عمدگی سے ووٹوں میں تبدیل کرنے کا مشن بھی کامیابی سے مکمل کرلیا گیا۔ اگر چہ 25 جولائی کا دن حبس سے بھرپور تھا لیکن تقریباً 10 کروڑ رائے دہند گان نے اپنا حق رائے دہی قومی ذمہ داری سمجھ کر استعمال کیا یوں ٹرن آؤٹ 52 فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تحریک انصاف نے اس بار ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ حاصل کیے جب کہ مسلم لیگ ن ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ جمع کر پائی۔ جب کہ پیپلز پارٹی کو بھی 70 لاکھ کے قریب ووٹ ملے۔ مجموعی طور پرپی ٹی آئی نے 29 اضلاع، مسلم لیگ ن نے 7 جب کہ پی پی پی نے 16 اضلاع میں سویپ کیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اس بار ن لیگ کو 2013 کے مقابلے میں 20 لاکھ کم ووٹ ملا جب کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں 91 لاکھ ووٹ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جب کہ دوسری طرف ن لیگ کی نشستوں میں 49 فیصد گراوٹ آئی جب کہ پی ٹی آئی نشستوں میں 62 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان انتخابات میں تقریباً 9 ہزار امید واروں کی ضمانتیں ضبط بھی ہوئیں۔
تحریک انصاف مجموعی طور پر 116 نشستوں کے ساتھ مرکز، خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب، پوٹھوہار ریجن اور کراچی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ ہر بار کی طرح حالیہ الیکشن میں بھی کئی بڑے برج الٹ گئے جن میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، ندیم افضل چن، نذر گوندل، چوہدری نثار علی خان، عابد شیرعلی، رانا افضل، اویس لغاری، گیلانی فیملی، ذولفقار کھوسہ، بلیغ الرحمن، ہراج فیملی، فیصل صالح حیات، صمصام بخاری، سائرہ افضل تارڑ، سکندر بوسن، اسحٰق خاکوانی، آفتاب شیر پاؤ، سراج الحق، فضل الرحمن، اکرم درانی، اسفند یار ولی، امیر مقام، پشاور کی ارباب فیملی، غلام بلور، مصطفی کمال، آفاق احمد، فاروق ستار، منظور وٹو، وقاص اکرم، یعقوب ناصر، حافظ حمد اللہ جیسے آزمودہ کار سیاست دان شامل ہیں۔
مزید و متعلقہ: برطانوی لبرل سیاسی و سماجی اقدار، نوجوان نسل اور تحریک انصاف از، پروفیسر محمد حسین چوہان
دیکھنا کہیں شیر آ ہی نا جائے از، وسعت اللہ خان
اسی طرح جہاں اتنے بہت سے ہیوی ویٹ راہنماء پارلیمنٹ سے خارج ہو گئے وہاں کئی سیاست دان ایسے بھی ظہور پذیر ہوئے جن کو الیکشن سٹارز کا درجہ دیا جا سکتا ہے ان میں سرِ فہرست فواد چوہدری ہیں جنہوں نے ضلع جہلم میں پہلی بار مسلم لیگ ن کو چاروں شانے چت کیا۔ حماد اظہر جنہوں نے لاہور سے این اے 126 سے مہر اشتیاق کو شکست دے کر حیران کر دیا۔ سینئر صحافی جگنو محسن جو کہ پی پی 184 ضلع اوکاڑہ سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئیں۔ صداقت عباسی جنہوں نے مری سے سدا بہار شاہد خاقان عباسی کو شکست دے کر انتخابی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔ اسی طرح لاہور سے کرامت کھوکھر نے ن لیگ کے ظہیر کھوکھر سے سیٹ چھین لی۔ جب کہ این اے 64 چکوال سے ذولفقار دولہا، طاہر اقبال کو شکست دے کر اپنا لوہا منوایا۔ جب کہ نوجوان فرخ حبیب این اے 108 فیصل آباد سے ن لیگ کے دبنگ عابد شیر علی کا دھڑن تختہ کردیا۔
اسی طرح کراچی سے علی زیدی نے مفتاح اسمعیل اور رؤف صدیقی جب کہ فیصل واڈا نے شہباز شریف کو ہرا کر خود کو منوایا۔ جب کہ اولیاء کرام کی دھرتی ملتان سے نئے چہرے ابراہیم خان نے یوسف رضا گیلانی جیسے ہیوی ویٹ کو ناک آؤٹ کر دیا۔ جب کہ شکور شاد نے 1970 کے بعد لیاری کے حلقے سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا۔ یہاں ہم اسلم خان کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جس نے ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد سے صلاح الدین کو ہرا کر گویا میلہ ہی لوٹ لیا۔
جب کہ اگر جی ٹی روڈ کی بات کی جائے تو پشاور تا گجرات تک اس پر پی ٹی آئی قابض ہو چکی ہے جو کہ ن لیگ کے لیے لمحۂِ فکریہ ہے۔ کیوں کہ ایک جائزہ کے مطابق پچھلی بار ن لیگ نے سینٹرل پنجاب سے 81 فیصد ووٹ لیے تھے جو اس بار محض 40 فیصد ہی ووٹ لے سکی۔ جب کہ تحریک انصاف نے اس بار مرکزی پنجاب میں شگاف ڈالا جہاں 2013 میں محض 4 فیصد کے مقابلے میں 40 فیصدووٹ حاصل کیے۔ جب کہ فیصل آباد ڈویژن میں بھی 17 میں11 نسشتیں پی ٹی آئی نے جیت کر انتخابی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پنجاب نے شہباز شریف کے ترقی کے بیانیے اور نواز شریف کے مجھے کیوں نکالا کے منترا کو یک سَر مسترد کردیا۔
اسی طرح خیبر پختونخواہ، جس کا ووٹر کسی کو دوسرا موقع نہیں دیا کرتا اس نے بھی پہلے سے کہیں زیادہ اکثریت سے تحریک انصاف پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا بَل کِہ اس کو یوں بیان کرنا چاہیے کہ 2013 میں اس نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا جب کہ 2018 میں اس نے تحریک انصاف سے رومانس کیا اور ایم ایم اے، وطن پارٹی اور اے این پی کی چھٹی کر دی۔ اسی طرح شہر قائد نے بھی پی ٹی آئی کو فقید المثال کامیابی سے ہمکنار کیا اور قومی اسمبلی کی 21 سیٹوں میں 13 سیٹوں پر ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں ثابت ہوا کہ اہل کراچی نے اس بار لیاری سے نائن زیرو تک لسانیت، خوف اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو یک سَر فراموش کر دیا۔ اب اہل کراچی کے اعتماد پر کھرا اترنا عمران خان کے لیے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہو گا۔
سرائیکی وسیب میں پی ٹی آئی کی لہر نے اپنا بھرپور جلوہ دکھایا اور جنوبی پنجاب میں 26 قومی اور 44 صوبائی سیٹیں حاصل کر کے بلا شرکت غیرے خود کو وسیب کی نمبر ون جماعت ثابت کیا۔ ملتان، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں بھی تحریک انصاف نے سویپ کیا اور مخالفین کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوئی۔ لیکن اس کامیابی کے ساتھ اب تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبے کے طور پر قائم کرنے کا وعدہ بھی وفا کرنا ہوگا جس کا وعدہ انہوں نے جنوپی پنجاب صوبہ محاذ اور سرائیکی عوام سے کیا۔
بلوچستان میں بھی پارٹی نے دو قومی اور پانچ صوبائی نشستیں جیت کر خود کو ایک قومی جماعت ثابت کیا۔ اب صوبے میں پہلی بار تحریک انصاف، بلوچستان عوام پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے جا رہی ہے۔ جب کہ بلوچ عوام نے اس بار نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو یک سَر مسترد کر دیا ہے۔
بطور سیاسی لیڈر عمران خان نے 1996 سے اب تک ایک طویل سفر طے کیا ہے اور پاکستانی سیاسی سٹرکچر میں چند نئے مظہر متعارف کرائے جیسے پہلی بار مڈل کلاس انتخابی عمل میں اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دی۔ اسی طرح عمران نے اپنی جوشیلی اور جان دار سیاست سے اس نوجوان ووٹر برگر کلاس کو بھی پولنگ سٹیشن کی جانب راغب کیا جو سیاست اور الیکشن کو وقت کا ضیاع گردانتے تھے۔
عمران نے ایک حقیقی اپوزیشن لیڈر کے طور پر عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جس سے اسے بطور تبدیلی کے ایجنٹ عوام نے سَندِ قبولیت عطا کی۔ عمران کے تبدیلی کے نعرے پر ہم آج تنقید بھی کرسکتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ عوام کو عمران کی ذات پر بلا کا اعتماد ہے کہ یہ وقت آنے پر اپنی جماعتی اراکین کے خلاف بھی ایکشن لے سکتا ہے۔
عمران کی کامیابی پر سنجیدہ بھارتی صحافیوں نے بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا جیسے راجدیپ سر ڈیسائی کے مطابق عمران کی انتخابات میں کامیابی اس سیاسی دور کی اہم خبر ہے۔ ایم وینولکھتے ہیں کہ عمران کی کامیابی کے پیچھے اہم عامل نوجوانوں کا اس کی ذات پر بھروسا ہے۔ جب کہ سابق انڈین کرکٹر اور مشرقی پنجاب کے ایم پی نوجوت سنگھ سدھو برملا کہتے ہیں کہ عمران سماج کو کچھ دینے والا شخص ہے کچھ لینے والا نہیں اور وہ دنیا کو جوڑنا جانتا ہے۔
اب جب کہ پاکستان کی زَمامِ کار عمران خان کے ہاتھوں میں جا چکی ہے تو ہمیں امید ہے کہ وہ عوامی توقعات کا بار بخوبی اٹھا لیں گے کیوں کہ اب وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پانچ سال ان کے لیے نئے پاکستان کو تخلیق کرنے اور تاریخ میں نام چھوڑ جانے کا نادر موقعہ ہے۔ اورسنہرے موقع سے فائدہ کیسے اٹھایا جاتا ہے یہ عمران خوب جانتے ہیں۔