قلم سے وعدہ : تجدیدِ عہدِ ثانی
از، اصغر بشیر
یہ سوال چند لوگ ہی خود سے پوچھتے ہیں کہ زندگی کس لیے ہے؟ یہ ایک شخصی سوال ہے جس کے متنوع الجہات جوابات دیے جا سکتے ہیں۔ ان جوابات کا عمومی جائزہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے ما بعد جدید دور میں انسان کی کائنات سُکڑ کر چند فیصلوں تک محدود ہو گئی ہے۔ مؤثر معاشروں میں یہ اختیار انسان کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکے۔
روایات کی زنجیروں میں قید معاشرے لگے بندھے اصولوں کا ایک سیٹ فراہم کرتے ہیں۔ جن کے تحت انسان اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ ان اصولوں سے انحراف شدید ترین خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے دور میں چند شعبوں سے منسلک لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھے تجزیہ کرتے رہیں اور ان تجزیات کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں۔ معاشروں کے مستقبل کے فیصلے انہی شعبوں سے منسلک اذہان کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے المیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے ہر چیز پر بہ راہِ فروخت کا لیبل لگا دیا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ نے زر کی پیدائش کے ایسے اصول وضع کر دیے ہیں کہ انسانوں کے درمیان تعامل کے ہر عمل کو زر کے تناظر میں ماپا جا سکتا ہے۔ کچھ تعاملات کی معاشرہ اجازت دیتا ہے تو دوسرے تعاملات ڈارک ویب کے ذیل میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر چِہ اس کے فوائد بھی ہیں جو کہ زر کے حصول پر مُنتج ہوتے ہیں، لیکن اس کے نقصانات معاشرے کی بقاء کے لیے بالخصوص اور افراد کے لیے بالعموم دیر پا ہیں۔
کنٹینٹ تخلیق کرنے والے content developers جب لکھاری کا روپ دھارتے ہیں تو نیم حکیم ثابت ہوتے ہیں۔ یہ قابض قوتوں کے آلۂِ کار کے طور پر کام کرتے ہوئے تمام ذرائع معلومات کو قابو میں رکھنے اور عوامی رائے کو مخصوص سمت میں موڑنے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کے معاشروں کی تخلیقی قوتوں کا آج کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔
اب یہ مہا بیانیے کا مسئلہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا رخ کس طرف ہے۔ ہم کس نقطۂِ نظر سے اپنے فیصلوں کو دیکھتے ہیں اور کون سے عوامل مجموعی طور پر ہمارے نقطۂِ نظر کو طے کرتے ہیں۔ مہا بیانیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ ان کے اثرات مِحوَر سے بعید ترین مقام پر سب سے واضح ہوتے ہیں۔ اس مقام کا جائزہ لینے کا لمحہ فیصلہ لینے کے لمحے سے بہت بعد میں میسر آتا ہے۔
لیکن آج کا انسان مجبور ہے کہ تمام تر ٹیکنالوجی کے با وجود وہ ابھی تک ایک ہی وقت کے دھارے میں اپنی زندگی گزارے۔ ڈی جا وو deja vous کے تحت حاصل ہونے والا ادراک چُوں کہ سائنس کے تحت ثابت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے معاشرے ابھی تک چند سوچنے والے اذہان کے محتاج ہیں کہ وہ معاشرے کی لائن آف ایکشن طے کرتے رہیں۔
مزید و متعلقہ: ہم کیوں لکھتے ہیں؟ از، ڈیوڈ ڈیورکن، ترجمہ: نجم الدین احمد
فسادِ خلق والی تحریریں از، کشور ناہید
یہ تمام کلمات لکھنے والا خود سے سوال کر رہا ہے ،جو کہ قاری کے ذہن میں بھی کلبلا رہا ہو گا، کہ یہ سب بے ربط باتیں آخر کیوں کہی جا رہی ہیں؟ چند مہینے پہلے قلم اور کتاب دونوں سے لڑائی نے ایسا زور پکڑا کہ اپنی شناخت سے انکار کر دیا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ جو نقاب چہرے سے اتارا ہے، یہ وہ خول تھا جو لکھنے والوں کے درمیان رہ کر اور فیس بک پر دانش وروں کی فلٹر زدہ تصاویر دیکھ کر ہنس کی چال چلتے ہوئے، خود پر چڑھا لیا تھا۔
اس دوران لکھنے کے لیے آنے والی ہر تحریک کو آفٹر شاکس سمجھتا رہا۔ جب میں نے سخت ترین اصول و ضوابط طے کرتے ہوئے خود کو دولت و شہرت کی چاہ میں بے کل اور فیس بک لائیکس کے لیے بے چین ذات ٹھہرایا تو میرے محسن نے کہا یہ میں نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا۔ انہیں کے دیے گئے مشورے کے مطابق اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے والے افراد سے اپنی شناخت پوچھی تو انہوں نے قلم اور کتاب سے لڑائی میں مجھے قصور وار ٹھہرایا۔
کسی اور زمانے کے بوڑھے لوگ، جن کو سیانے بھی کہا جا تا تھا، کہتے تھے کہ ٹوٹنے سے جھکنا بہتر ہے۔ ڈرتا ہوں کہ زر کی دوڑ میں اندر سے اتنا مردہ نہ ہو جاؤں کہ اپنوں کے بچھڑنے کا دکھ اور بچوں کو سینے سے لگا کر حاصل ہونے والی ٹھنڈک سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔
میں قلم سے معذرت کرتے ہوئے دوبارہ لکھتے رہنے اور پڑھتے رہنے کا عہد کرتا ہوں۔ اس موجود لمحے میں، دل شہرت (دولت) کی چاہ سے خالی ہے اور سوچتا ہوں کہ محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی شناخت لائیکس، تالیوں اور تقریبوں کی محتاج نہیں ہوتی۔
تجدیدِ عہدِ ثانی یہ ہے کہ معاشرے کے ایسے فرد کے طور پر لکھتا رہوں گا جو اپنی محدود سوچ کے مطابق معاشرے میں سدھار کی کوشش کرتا ہے۔ یہ میرا اپنے قلم سے وعدہ ہے۔