ملالہ یوسفزئی کا ٹویٹر اکاؤنٹ کھلتے ہی حاسدان کی ٹویٹری گولہ باری
(سمیع خان)
کل سیکنڈری سکول کے امتحان کا آخری پرچہ دیا اور کل ہی سوشل میڈیا پہ ٹویٹر کا اکاؤنٹ کھولا۔ ٹویٹر والوں نے خوش آمدید اور دنیا کے بڑے نامی گرامی لوگوں نے حوصلہ دیا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں فالوورز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ جہاں باقی کی پوری دنیا نے ملالہ کو سراہا، وہاں کرہِ ارض پہ ایک ملک پاکستان کے باشندوں نے مختلف منفی القابات سے نوازا۔
کسی نے عارفہ کریم سے موازنہ کیا، تو کسی نے عافیہ صدیقی سے۔ کسی نے دائِیں اور بائِیں پیشانی پہ گولی کی نشانی کی نشاندہی کی تو کسی نے وطن واپسی کا مشورہ دیا۔ کسی نے ملک کی غدار کے لقب سے نوازا، تو کسی نے یوسفزئی قوم کی بدنامی کا باعث ٹھہرایا۔ کسی نے پاکستان کی بجائے افریقہ اور شام میں لڑکیوں کی تعلیم کا طعنہ دیا، تو کسی نے داڑھی رکھنے کی ممانعت پہ مجرم قتل ٹھہرایا۔
کسی نے قوم کی اصلی بیٹی نہ ہونے کا طعنہ دیا، تو کسی نے جات پکش کے حصول کے لیے ڈرامہ کوئین کا لقب دیا۔ نیز یہ کہ سوشل میڈیا کے کچھ گمنام اداکاروں نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ ملالہ نے ٹویٹر اکاؤنٹ تو بنایا، اب وہ اسے براہِ راست گالیاں دے کر شدت پسندوں سے اپنی محبت کا اظہار کر سکیں گے۔
یہ سوشل میڈیائی جنگ قوم کی بیٹی کے انتخاب پہ آ کر ٹھہری:
مسلم لیگوں کے لیے مریم نواز قوم کی بیٹی ٹھہری، جماعت اسلامی والوں کے لیے عافیہ صدیقی، کچھ انصافیوں کے لیے عارفہ کریم، پیپلز پارٹی والوں کے لیے آصفہ بھٹو اور ہماری ملالہ سرے سے ہی فہرست میں شامل نہیں ہوئی۔ الله الله خیر سلا۔
چلیں کوئی بات نہیں، ملالہ اس قوم کی ایک غدار نو عمر بچی ہے، پانامہ کیس میںJIT بھی تو ان کے خلاف ہی بنی ہے، اسلام آباد کے F/7 سیکٹر میں ایک پلاٹ ملا ہے، بحریہ ٹاؤن کے جنوب میں اپنے نام کا ایک سینما چلا رہی ہیں، برہاں وانی کی شہادت ان کی وجہ سے ہی ہوئی ہے، مسئلہِ کشمیر ان کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے، پاک چائنہ راہداری کےخلاف عالمی کورٹ آف جسٹس میں کیس بھی تو انہوں نے ہی دائر کیا ہے۔
عارفہ کریم اور عافیہ صدیقی کے خلاف منفی پروپیگنڈا بھی انہی کا کیا دھرا ہے، طالبان کی گولی کھانے سے پہلے بے نظیر قتل منصوبہ اسی نے ہی بنایا تھا، گولی کھانے کے بعد 126دن کے لیے دارالحکومت کو یرغمال بنایا تھا۔ تھر میں خشک سالی اور کچے مکینوں پہ قیامت ٹھہری، مفتی قوی کو قندیل بلوچ کی قتل کی سپاری اس نے دی تھی۔
قانون سازی کے ایوانوں میں ٹرک اور ٹرالی جیسے ناموں کی موجد ہے، مملکتِ خداد کے امیج کو اُسامہ سے ملالہ کی طرف اس نے موڑا تھا۔ اور ملالہ کا گناہِ کبیرہ یہ بھی تو ہے کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھائی ہے۔ نیز یہ کہ جب مملکتِ خداد پاکستان کے باسیوں کی جانب سے ملالہ کا موازنہ دنیا و آخرت کی عظیم سائنسدان عافیہ صدیقی سے کیا جا رہا تھا، گالیاں اور عجیب الخلقت القابات سے نوازا جارہا تھا، عین اسی وقت ملالہ کی ایک اور ٹویٹ آئی:
“شکریہ کہ آپ لوگوں نے اتنی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔”
تو اے میرے عزیز ہم وطنو! ملالہ اس قوم کی مجرم ہے، اسے گالیاں دیں، وطن واپسی کا مشورہ دے کر، مشعال اور فرخندہ کی طرح سنگسار کریں۔