مالک رام سے ملاقات
(سید کاشف رضا)
رمضان کے مہینے میں لوگوں کو خواب میں نورانی ہستیوں کی زیارت ہوتی ہے۔ ہمیں ابھی صبح خواب میں اردو کے نام ور محقق جناب مالک رام کی زیارت ہوئی۔
قصہ یوں ہوتا ہے کہ کراچی کے کسی دور دراز میدان میں ایک ادبی تقریب میں مالک رام کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ مالک رام شیروانی پہنےتشریف لاتے ہیں اور انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کوئی سو برس کے ہو چکے ہیں۔ انھیں دیکھ کر ہم دل ہی دل میں سوچنے لگتے ہیں کہ ان آنکھوں نے علامہ اقبال کو دیکھ رکھا ہے۔ سوچتے سوچتے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
پھر وہ اسٹیج سے پیچھے کی جانب جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کا دوست محمود الحسن فوری طور پر کہیں سے آن موجود ہوتا ہے اور ہمارے دل کا مدعا و منشا جان کر عرض کرتا ہے کہ مالک رام صاحب سے بات چیت آپ کیجیے گا، آپ کے موبائل سے تصویریں میں بناتا رہوں گا۔ مالک رام ایک غار میں بنی کھنڈر نما بیٹھک میں تشریف فرما ہیں جس کی دیواروں کی مٹی بھربھری ہو چکی ہے۔
دیوار میں بنی ہوئی الماریوں میں مورتیاں اور ان سے اوپر دیوار پر قرآنی خطاطی کے نمونے لگے ہیں۔ مالک رام ایک اونچی فرشی نشست پر بیٹھے ہیں اور ان کے قریب زمین پر کتابوں کا ایک چھوٹا سا مینار ہے جسے ہم عادتا” اس نیت سے دیکھ رہے ہیں کہ کون سی کتاب مالک رام سے مانگ لی جائے۔
“حضور آپ کی آنکھوں نے علامہ اقبال کو دیکھ رکھا ہے؟” میں پوچھتا ہوں۔ جواب میں ان کے ہونٹوں ہر ایک دلآویز مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔
میری نظر ایک شجرے پر پڑتی ہے جس میں مالک رام کے والد کے طور پر ایک مسلم نام درج ہے جس میں “سید” بھی لکھا ہے۔ ہم پوچھنا تو چاہ رہے ہیں مگر پوچھ نہیں پاتے کہ صاحب والد مسلمان تھے تو آپ کیوں نہ ہوئے۔ پھر خیال آتا ہے کہ مالک رام اندر سے اسلام کے قائل ہیں، جبھی تو انھوں نے کتاب “اسلام اور عورت” لکھی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ یہ والد کا مکان تھا۔ تقسیم کے وقت ہم چھوڑ گئے۔ یہاں “عثمانیہ ریسٹورنٹ” بننے لگا تو اس کی بنیادوں میں یہ گھر نمودار ہوا۔ کسی نے دہائی دی تو حکومت پاکستان نے اس گھر کو میوزیم ڈیکلیئر کر دیا۔ ہم مسلسل ان کی کتابیں دیکھ رہے ہیں۔ ایک کتاب ہندو دیومالا پر ہے۔ میں اسے ہاتھ میں لیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اس میں قصے بہت مخرب اخلاق ہیں۔
اس پر شوق فراواں ہو جاتا ہے اور وہ میرے دل کی بات بھانپ کر کہتے ہیں کہ دو تین دن میں واپس کر دیجیے گا۔ میں فورا” کتاب نکالتا ہوں اور اس کے ساتھ پڑی ایک اور کتاب بھی۔ وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ دو کتابیں مل چکیں، محمود الحسن تصویریں بنا چکا۔ اب کسی لٹیرے کے مانند یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ نکل چلیں اور ہاتھ آئے اس مال و متاع کو دیکھیں۔ ہم دونوں ان سے اجازت مانگتے ہیں اور اس غار نما کھنڈر سے باہر نکل آتے ہیں۔