ملکۂ ترنم نور جہاں، سر جہاں آ کے ٹھہرے

مصنف: پروفیسر شہباز علی
ترنم نور جہاں، سر جہاں آ کے ٹھہرے
از، پروفیسر شہباز علی
ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز وہ آواز تھی جو اپنے پیار کی صدا بن کر فضا کو معطر کر دیتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جس کے زمزمے ہواؤں اور فضاؤں میں رچے بسے ہوئے تھے۔ یہ وہ آواز تھی جو محبت کا نغمہ تھی۔ یہ وہ آواز تھی جو دل کا دیا جلانے کا گُر اور سلیقہ جانتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جو چاندنی راتوں میں جاگ کر تاروں سے باتیں کیا کرتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جو وطن کے سجیلے جوانوں کو اپنے نغموں سے جذبۂِ شوقِ شہادت کا رس گھول کر پلایا کرتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جس نے اپنے بارے میں اپنی زندگی ہی میں پیش گوئی کر دی تھی کہ دُنیا میرے گیت گایا کرے گی کیوں کہ میں نے اپنے گیتوں میں سُریلے اور سچے رنگ بھر دیے ہیں ۔۔۔۔۔۔ آہ! دنیا سے رخصت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہریے کیا ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز کبھی مر سکتی ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ نہیں یہ آواز کبھی نہیں مر سکتی کیوں کہ اس آواز میں راگ کی چاشنی، سُرکی لطافت اور تال کی کھنک تھی۔
میونسپل کمیٹی قصور کے پیدائش رجسٹر کے مطابق ملکۂ ترنم نور جہاں نے ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۶ء کو قصور کے محلہ کوٹ مُراد خان میں جنم لیا۔ ملکۂ ترنم کے والد کا نام مدد علی جیونا اور والدہ کا نام فتح بی بی تھا۔ محلہ کوٹ مُراد خان جہاں ملکۂ ترنم کی پیدائش ہوئی اس زمانے کا ’’بازارِ حسن‘‘ تھا۔ ملکۂ ترنم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اُس گھرانے کا آبائی پیشہ گانا بجانا تھا۔ ملکۂ ترنم کی ایک پھوپھی الٰہی جان اپنے وقت کی مشہور گانے والی تھی۔ الٰہی جان نے اپنی بھتیجی کو گُڑھتی دیتے وقت جب اُس کے رونے کی آواز سنی تو اپنے بھائی مدد علی سے کہا کہ یہ بچی تو سُر میں رو رہی ہے۔ اس طرح ملکۂ ترنم کی پھوپھی کو اس وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بچی ضرور گائے گی۔ ملکۂ ترنم کی پھوپھی الٰہی جان نے ہی ملکۂ ترنم کا نام ’’اللہ وسائی‘‘ رکھا تھا۔
ملکۂ ترنم جب پانچ برس کی ہوئیں تو ان کی موسیقی کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس دور کے مشہور سارنگی نواز اُستاد غلام محمد عرف گامے خاں ملکۂ ترنم کی تعلیم پر مامور ہوئے اور سارے گاما سے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم شروع ہوئی۔ اُستاد نے کھرج کے لیے ’’پانچویں کالے‘‘ کا انتخاب کیا اور اسی سُر سے ریاضت کا آغاز کروایا۔ چھے سات سال کی ریاضت اور اُستاد غلام محمد کی ان تھک محنت کے باعث ملکۂ ترنم صرف گیارہ برس کی عمر میں کلاسیکل گانے کے قابل ہو گئیں۔ اُس وقت جس کسی نے بھی انھیں سُنا حیران رہ گیا کہ اتنی چھوٹی سی بچی اور اس قدر پختگی اور مہارت سے کلاسیکل گا رہی ہے۔
ملکۂ ترنم سے پہلے ان کی دو بڑی بہنیں عیدن، حیدر باندی اور ایک کزن پشپا رانی نے تھیٹر کی دنیا میں قدم جما رکھے تھے اور لاہور کے تھیٹر پر کام شروع کر رکھا تھا۔ ملکۂ ترنم نے صرف سات سال کی عمر میں اپنی بہنوں اور کزن پشپارانی کے ہمراہ لاہور کے مہابیر تھیٹر پر اپنی پہلی پرفارمنس دی۔ اس حوالے سے محمد شکیل لکھتے ہیں:
’’اس وقت اللہ وسائی کو اختری بائی فیض آبادی اور مختار بیگم کی غزلوں کے علاوہ چند فلمی نغمات یاد تھے جنھیں وہ سٹیج پر پیش کرتی۔ اس چھوٹی سی بچی کی آواز، سُر اور لَے سُن کر سبھی سننے والے متاثر ہوتے تھے۔ اسی دوران اللہ وسائی کے والد اسے جی۔ اے چشتی مرحوم کے پاس لے گئے اور کہا کہ اس بچی کی سرپرستی کریں۔ جی ۔اے چشتی اُن دنوں باقاعدہ موسیقار تو نہ بنے تھے البتہ سٹیج پر فارمنس کرتے اور گانوں کی دُھنیں بھی تیار کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ وہ ایچ۔ ایم۔ وی کمپنی کے ساتھ وابستہ تھے۔ بقول جی۔ اے چشتی مرحوم کے اس چھوٹی سی بچی کی فنی صلاحیتیں دیکھ کر انھوں نے اس پر خاصی محنت کی۔ انھوں نے اس بچی کو ایک نعت ’’ہنستے ہیں ستارے یا شاہِ مدینہ‘‘ یاد کرائی۔ اس نعت کی طرز اتنی متاثر کن تھی کہ جب اللہ وسائی نے یہ نعت سٹیج پر پیش کی تو اسے بہت پسند کیا گیا۔ اس سے اللہ وسائی کو اتنی مقبولیت ملی کہ پھر اس کے بغیر ہر سٹیج ادھورا دکھائی دیتا تھا‘‘۔ ۱؂
پاکستانی فلمی صنعت کے معروف کہانی نویس ملک رحیم خان المعروف سکے دار نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’ ہوک‘‘ میں ملکہ ترنم نور جہاں کے متعلق اپنے بچپن کی خوش گوار یادوں کو بہت ہی دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ یہ وہی سکے دار ہیں جنھوں نے جبر و ، ملنگی ، انورا اور اکبرا جیسی لافانی فلمی کہانیاں لکھ کر اپنے نام کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ سکے دار کی خود نوشت ، سوانح عمری ’’ ہوک‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ۔ اس سوانح عمری کے مطالعے کے دوران قیام پاکستان سے قبل کے لاہور کی ثقافتی اور تہذیبی زندگی ، میلوں ٹھیلوں اور گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے والے عام کرداروں کی نفسیات اور مشاغل کی جھلک انتہائی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملکہ ترنم ’’ بے بی نور جہاں ‘‘کے نام سے لاہور کے تھیٹر پر کام کرتی تھیں۔ ملکہ ترنم کا ذکر کرتے ہوئے وہ ’’ ہوک ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ نور جہاں ’’ بے بی نور جہاں ‘‘ کے دور میں بھی اتنی ہی مقبول تھی جتنی بعد میں ’’ ملکہ ترنم نور جہاں‘‘ کے دور میں تھی۔ بے بی نور جہاں کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ سن بلوغت کے عالم میں بھی اسے ’’ بے بی نور جہاں ‘‘ لکھا جاتا۔ اچانک فلموں کے ساتھ زندہ ناچ گانے کا رواج شروع ہو گیا۔ ناچ کی وجہ سے فیل ہوجانے والی فلمیں بھی چل جایا کرتی تھیں۔ زندہ ناچ گانے کے لیے فلم میں دو تین وقفے کیے جاتے تھے۔ ان وقفوں میں ناچ گانے والی پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام پیش کرتیں۔ بے بی نور جہاں بھی ایک ایسی پارٹی میں شامل ہو گئی ۔ ان فلموں کے اشتہار کچھ یوں ہوا کرتے تھے ’’ فلم مدن منجری کے ساتھ طمنچا جان کا زندہ ناچ گانا۔ ‘‘ اشتہار پر بے بی نور جہاں کا زندہ ناچ گانا لکھا گیا تو لوگ چوک ہیرا منڈی کے سینما پر ٹوٹ پڑے۔ بے بی کے اسٹیج پر آنے سے پہلے ایک اونٹ لایا گیا ۔ اونٹ پر ایک باریش آدمی عربی لباس پہنے بیٹھا تھا۔ اونٹ کے بعد بے بی نور جہاں اسٹیج پر آئی اس نے کالا لباس پہن رکھا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ گانا نعتیہ تھا۔
سُن لے شتر سوار
جب تو پہنچے کالی کملی والے کے دربار
بے بی نور جہاں کے منہ سے روتی آنکھوں کے ساتھ نعتیہ کلام سُن کر تماشائیوں کی آنکھیں بھی پرنم ہو گئیں۔ اس گانے کی وجہ سے ناکام فلم کے ٹکٹ ، بلیک میں بکنے لگے اور مُلا ، صوفی ، حاجی ، نمازی سینما ہال میں دیکھے جانے لگے۔
زندہ ناچ گانے والی فلم میں تھرڈ کلاس کی نشستیں آخر میں رکھ دی جاتی ہے ۔ اس لیے میں بے بی نور جہاں کا چہر اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکا تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی مجھے۔ کچھ عرصے بعد بے بی نور جہاں چیت رام روڈ پر چلی آئی۔ اس کا چھوٹا بھائی عنایت کھیلنے کودنے کی لیے میدان میں آیا تو میں نے اسے دوست بنا لیا۔ خدا نے دوست بنانے کی صلاحیتیں مجھے بڑی فراخ دلی سے عطا کر رکھی تھیں۔ عنایت نے مجھے گھر لے جانے کا وعدہ تو کر لیا مگر لے جا نہ سکا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر میں اس کی نہیں چلتی تھی۔ ٹکسالی بازار میں مہر خدا بخش نان ٹکیا ں بیچا کرتا تھا وہ بھی بے بی نورجہاں کا بڑا شیدائی تھا۔ میں نے عنایت کا تعارف مہر سے کروایا۔ مہر نور جہاں کا نام سُن کر دکان سے نیچے اُتر آیا۔ عنایت کو گلے لگا کر بھینچ لیا اور سرد آہ بھری ’’ اج تمنا پوری ہو گئی اے‘‘ اس کے بعد عنایت جب بھی مجھ سے ملنے آتا ، میں اسے مہر کی دکان پر لے آتا۔ مہر عنایت کے ساتھ مجھے نان ٹکیاں کھلاتا اور ہر دفعہ عنایت کو گلے لگا کر آہ بھرتا۔ جب تک بے بی نور جہاں چیت رام روڈ پر رہی ، مہر عنایت کے گلے ملتا رہا ہے۔‘‘ ۲ ؂
لاہور کے تھیٹر پر کام یابی حاصل کرنے کے بعد ملکۂ ترنم، عیدن اور حیدر باندی کلکتہ کے لیے عازم سفر ہوئیں۔ یہ ۱۹۳۳ء یا ۱۹۳۴ ء کا زمانہ تھا جب ان تینوں بہنوں کا گروپ کلکتہ وارد ہوا۔ کلکتہ میں اُس وقت مختار بیگم کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ کلکتہ کے کورنتھین تھیٹر پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ ملکۂ ترنم مختار بیگم کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی تھیں اور ان کی طرح تھیٹر پر مشہور ہونا چاہتی تھیں۔ مختار بیگم سے ملاقات کر کے ان تینوں بہنوں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ ان کی ملازمت کے لیے اپنی تھیٹریکل کمپنی کے مالک سے بات کریں۔ روایات کے مطابق مختار بیگم کے توسط سے انھیں کمپنی میں ملازمت مل گئی اور پنجاب سے تعلق ہونے کی بناء پر ان کے گروپ کو ’’پنجاب میل‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اسی تھیٹر کے مالک سیٹھ سکھ لال کرنانی نے ملکۂ ترنم کا نام ’’ اللہ وسائی‘‘ سے تبدیل کر کے ’’بے بی نور جہاں‘‘ رکھا تھا۔
بے بی نور جہاں کی بطور مغنیہ سب سے پہلی فلم ہدایت کار کے۔ ڈی مہرہ کی ’’شیلا عُرف پنڈ دی کڑی‘‘ تھی۔ یہ فلم ۱۹۳۵ء میں بنی تھی۔ اس فلم میں بے بی نور جہاں نے نو برس کی عمر میں ایک پنجابی گیت گایا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے:
لنگھ آ جا پتن چناں دا او یار
’’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘‘ کے ہیرو اور موسیقار کلاسیکی گائک اُستاد مبارک علی خاں تھے۔ یہ فلم برصغیر کی سب سے پہلی پنجابی فلم بھی تھی اور اسی فلم سے پنجابی فلمیں بننے کی ابتداء بھی ہوئی تھی۔ یہ بات حیران کن ہے کہ برصغیر کی سب سے پہلی پنجابی فلم پنجاب میں نہیں بلکہ کلکتہ میں بنی تھی۔ ۱۹۳۵ء تا ۱۹۳۸ء بے بی نور جہاں نے کلکتہ میں مصر کا ستارہ، آزادی، مسٹر اینڈ مسز بمبے، امپریل میل، فخر اسلام، تارن ہار، مسٹر ۴۲۰ اور ہیر سیال جیسی فلموں میں گیت بھی گائے اور اداکاری بھی کی۔ کلکتہ میں تقریباً چھے سال گزارنے کے بعد ملکۂ ترنم اور اُن کی بہنیں واپس لاہور آ گئیں اور از سرِ نو کام کی تلاش شروع کر دی۔
۱۹۳۹ء کا سال ملکۂ ترنم کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال ملکۂ ترنم کی ایک پنجابی فلم’’گل بکاولی‘‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ لاہور میں سیٹھ دَل سُکھ ایم پنچولی، پنچولی آرٹ کے نام سے اپنا ایک فلم ساز ادارہ بنا چکے تھے۔ ’’گل بکاولی‘‘ اسی ادارے کی پیش کش تھی اور اس کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔ اس فلم میں ملکۂ ترنم (بے بی نور جہاں) کے گائے ہوئے دو پنجابی گیتوں نے پورے برصغیر میں دھوم مچا دی اور ملکۂ ترنم کو ایک ہی جست میں شہرت کی منازل طے کرا دیں۔ اس فلم کا جو گیت سب سے زیادہ مقبول ہوا اس کے بول کچھ یوں ہیں:
شالا جوانیاں مانیں
گیت نگار: ولی صاحب
آکھا نہ موڑیں پی لَے اکھیاں وچ اکھیاں پا کے توبہ نوں پھائی لا کےپگلی ہوئی جنت پی جا کلیاں دی عصمت پی جاجی لے دو چار دیہاڑے جی لے، جی لے
دوسرے گیت کے بول ملاحظہ ہوں:
پنجرے دے وچ قید جوانی
قید جوانی، قید جوانی مستانی
آپے ہسنا، آپے رونا
آپے ہنجواں ہار پرونا
آپے کہنی، آپے سہنی، ہنجواں بھری کہانی’’گل بکاؤلی‘‘ ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ ملکۂ ترنم کی پہلی فلم تھی۔ ماسٹر غلام حیدر نے جب پہلی بار ملکۂ ترنم کو دیکھا تو حیرت سے کہا کہ کیا نو دس سال کی یہ بچی میری بنائی ہوئی دُھن گالے گی؟۔ دراصل ماسٹر غلام حیدر نے اپنے گیت کے بول ’’جوانیاں‘‘ پر ایک مشکل تان رکھی ہوئی تھی، اس لیے انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ بچی ان کی بنائی ہوئی تان ادا کر پائے گی۔ لیکن جب ریہرسل شروع کی گئی تو بے بی نور جہاں نے وہ تان اتنی پختگی اور مہارت کے ساتھ گلے سے ادا کی کہ ماسٹر جی دم بخود رہ گئے اور اُسی وقت ملکۂ ترنم کے متعلق پیش گوئی کر دی کہ یہ بچی ایک دن ضرور برصغیر میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے گی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا اور ماسٹر غلام حیدر کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔

۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۱ء ملکۂ ترنم نے مرزا صاحباں،یملا جٹ اورچودھری میں اداکاری اور گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم ’’چودھری‘‘ میں ملکۂ ترنم نے سیکنڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۴۲ء میں ملکۂ ترنم کی ایک اور معرکتہ آلارا فلم ’’خاندان‘‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی تھے۔ سید شوکت حسین رضوی بنیادی طور پر فلم ایڈیٹر تھے مگر ’’خاندان‘‘ میں انھیں سیٹھ دَل سُکھ ایم پنچولی نے پہلی بار ہدایت کاری کا موقع دیا تھا۔ ’’خاندان‘‘ کے موسیقار بھی ماسٹر غلام حیدر تھے۔ اس فلم کے جس گیت نے برصغیر میں تہلکہ مچایا، اُس کے بول تھے:

تو کون سی بدلی میں مرے چاند ہے آجا
تارے ہیں میرے زخمِ جگر اُن میں سما جا

’’خاندان‘‘ کی تکمیل کے دوران ہی ملکۂ ترنم اور سید شوکت حسین رضوی کے درمیان معاشقے کا آغاز ہوا اور دونوں شادی پر آمادہ ہو گئے۔ ملکۂ ترنم کے خاندان والے اس شادی کے قطعی طور پر مخالف تھے مگر اس مخالفت کے باوجود دونوں ۱۹۴۲ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ۱۹۴۳ء میں ملکۂ ترنم کی تین فلمیں دُہائی،نوکر اورنادان نمائش کے لیے پیش ہوئیں لیکن یہ تینوں فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔

۱۹۴۴ء تا ۱۹۴۷ء ملکۂ ترنم نے دوست، لال حویلی، زینت، گاؤں کی گوری، بڑی ماں، بھائی جان، دِل، انمول گھڑی، ہم جولی، صوفیہ، مرزا صاحباں اور جگنومیں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فلموں میں ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ نے خوب صورت کہانی، موسیقی اور ہدایت کاری کے باعث کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ’’انمول گھڑی‘‘ کی موسیقی موسیقارِ اعظم نوشاد علی نے مرتب کی تھی اور اس کے ہدایت کار محبوب خان تھے۔ ’’انمول گھڑی‘‘ کے یوں تو سب ہی گیت مقبول ہوئے مگر یہ گیت خاص طور پر مقبول ہوا:
آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے
آباد میرے دل میں اُمید کا جہاں ہے
دُنیا میری جواں ہے
(تنویر نقوی)

جگنو میں ملکۂ ترنم کے ہیرو دلیپ کمار (یوسف خاں) تھے اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ اس فلم کے بھی سب ہی گانے مقبول ہوئے مگر ملکۂ ترنم کا محمد رفیع کے ساتھ گایا ہوا یہ گانا بے حد مقبول ہوا:
یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
محبت کر کے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکا ہے
(آذر سرحدی)

دلیپ کمار اور محمد رفیع کی شہرت کا آغاز بھی فلم ’’جگنو‘‘ ہی سے ہوا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد ملکۂ ترنم کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی۔ ’’چن وے‘‘ کی ہدایت کار ملکۂ ترنم خود تھیں اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ ’’چن وے‘‘ ۱۹۵۱ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور یہ باکس آفس پر سُپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ’’چن وے‘‘ کا یہ گیت بہت مقبول ہوا:

وے منڈیا سیالکوٹیا، وے منڈیا سیالکوٹیا
تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے
ساڈا کڈھ کے لے گیا دل وے

’’چن وے‘‘ کے بعد ملکۂ ترنم نے ۱۹۶۱ء تک ڈوپٹہ، گلنار، پاٹے خاں، لخت جگر، انتظار، نوراں، چھومنتر، انار کلی، پردیسن، نیند، کوئل اور غالب میں کام کیا۔ بطور مغنیہ اور ہیروئن ’’غالب‘‘ ملکۂ ترنم کی آخری فلم تھی۔ ’’غالب‘‘ کے بعد انھوں نے اداکاری ترک کرنے اور اپنے آپ کو صرف فلموں کی پس پردہ گلوکاری تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا اور آخرتک اپنے اس فیصلے پر قائم رہیں۔

سید شوکت حسین رضوی سے ملکۂ ترنم کی رفاقت ۱۹۴۲ء تا ۱۹۶۱ء تک رہی۔ اس دوران سید شوکت حسین رضوی سے ملکۂ ترنم کے دو بیٹے، اکبر رضوی، اصغر رضوی اور ایک بیٹی ظلِ ہما پیدا ہوئیں۔

سید شوکت حسین رضوی کو پنچولی آرٹ کے سیٹھ دل سکھ پنچولی نے نصیحت کی تھی کہ نور جہاں سے شادی نہ کرنا اور اس کھیل کو کھیل ہی سمجھنا۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں نے بھی شوکت حسین رضوی کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا لیکن محبت تو اندھی ہوتی ہے۔ وہ اپنا فائدہ اور نقصان کب دیکھتی ہے۔ سید شوکت حسین رضوی ملکۂ ترنم سے اپنی محبت اور دوسُروں کی تنبیہ کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’مجھے اُس سے واقعی پیار تھا تبھی تو میں نے کسی جوتشی، نجومی، پامسٹ یا قیافہ شناس کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ ورنہ کئی ایک نے مجھے کہا بھی شوکت صاحب یہ آپ کے پاس نہیں رہے گی۔ مثال کے طور پر بمبے میں منو کاترک ساؤنڈ ریکارڈسٹ تھا، پارسی تھا،جتنے گانے تھے اس کے ہاں ریکارڈ ہوتے تھے اب تو اور بھی لوگ آ گئے ہوں گے۔ منو کاترک ہاتھ بڑا اچھا دیکھتا تھا۔ میرا بڑا دوست تھا۔ اس نے مجھ سے کہا یہ عورت تمھارے پاس نہیں رہے گی۔ خدا جانتا ہے اُس نے کہا تھا نہیں رہے گی۔ کراچی کے پاکستان چوک میں ایک پارسی بابا رہتا تھا فوت ہو چکا ہے، اس نے بھی کہا تھا کہ نور جہاں تمھارے پاس نہیں رہے گی۔ لیکن مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ یہاں لاہور میں شارع فاطمہ پر فائر بریگیڈ کے سامنے الیکٹرک کے ایک آفیسر رہتے تھے۔ بھلا سا نام تھا اُن کا۔ ان کے ایک رشتہ دار فقیر شاہ بھی وہیں رہتے تھے۔ وہ بھی بہت اچھا ہاتھ دیکھتے تھے انھوں نے بھی یہ کہا! صاحب یہ آپ کے پاس نہیں رہے گی۔‘‘۳؂

۱۹۶۱ء میں سید شوکت حسین رضوی سے طلاق لینے کے بعد ملکۂ ترنم نے اُس وقت کے خوب رُو ہیرو اعجاز درّانی سے شادی کر لی۔ اعجاز درّانی سے ملکۂ ترنم نور جہاں کی تین بیٹیاں حنا، شازیہ اور تانیہ ہیں۔

اعجاز درّانی سے ملکۂ ترنم کو سچی محبت تھی۔ ملکۂ ترنم نے اعجاز درّانی کی خاطر اپنی سماجی زندگی کو ترک کر دیا اور ایک گھریلو خاتون بن کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا بلکہ یہاں تک کَہ دیا کہ اگر اعجاز کہیں تو میں ان کی خاطر اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع ’’گلوکاری‘‘ بھی چھوڑ سکتی ہوں۔ اعجاز درّانی سے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہوئے ملکۂ ترنم کہتی ہیں:

’’اعجاز کے سوا میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔ یوں تو زندگی نت نئے تماشے دکھاتی ہے لیکن مجھ پر یقین کریں میں نے محبت صرف اورصرف اعجاز سے کی ہے۔ سوچتی ہوں محبت کرنا بھی ایک احمقانہ فعل ہے، پھر سوچتی ہوں مفت کچھ ہاتھ نہیں آتا، کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ دُکھ لاتی ہے‘‘۔ ۴؂

ملکۂ ترنم اور اعجاز دُرّانی کی شادی شدہ زندگی کے خاتمے کی وجہ فردوس جیسی دراز قد اور حسین ہیروئن بنی۔۔۔ اعجاز درّانی اور فردوس فلم ’’مرزا جٹ‘‘ میں ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔ ان کی یہ قربت روز بروز بڑھتی چلی گئی اور فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کی تکمیل کے دوران ان کا عشق انتہا کو پہنچ گیا۔ ملکۂ ترنم نے اعجاز درّانی کو راہِ راست پر لانے کی بہت کوششیں کیں لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کی راہیں جُدا ہو گئیں۔

اعجاز درّانی سے ملکۂ ترنم کی شادی فلمی دُنیا کے لوگوں کے لیے ایک اچنبھے کی بات تھی۔ نام ور فلمی صحافی علی صفیان آفاقی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اعجاز کی ملکۂ ترنم نور جہاں سے شادی ہو کر پُرانی ہو چکی تھی اور سَر سے نور جہاں کی محبت کا نشہ اُترنے لگا تھا۔ بلکہ شرابیوں کی اصطلاح میں وہ ایک ہینگ اوور Hang over کا شکار تھا۔ نور جہاں اور اعجاز کی شادی ایک غیر متوقع خبر تھی جس نے سارے ملک کو چونکا دیا تھا۔ اس شادی میں اعجاز سے زیادہ ملکۂ ترنم کی کوشش کا دخل تھا۔ محبت میں پہل بھی انھی کی طرف سے ہوئی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ بعد میں بے شمار اُتار چڑھاؤ سے گزرنے کے باوجود ملکۂ ترنم کے دل سے اعجاز کی محبت کا داغ نہیں مٹ سکا۔ اعجاز ایک خوب رُو، صحت مند اور مردانہ اوصاف کا حامل ضدی قسم کا آدمی ہے۔ نور جہاں کے ساتھ ’’ ہنی مون‘‘ کا مختصر اور رنگین عرصہ گزارنے کے بعد وہ شاید اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہا تھا‘‘۔ ۵؂

ملکۂ ترنم نے ایک مغنیہ کی حیثیت سے انتہائی کام یاب اور بھرپور زندگی گزاری لیکن ان کی ازدواجی اور گھریلو زندگی ناکامیوں سے دوچار ہوئی۔ اس ضمن میں فیاض حسین لکھتے ہیں:

’’ایک طرف بطور مغنیہ انھوں نے برصغیر کی دنیائے موسیقی پر نصف صدی سے زائد حکومت کی تو دوسری جانب ازدواجی زندگی میں وہ بُری طرح ناکام ہوئیں۔ ساری زندگی دولت و شہرت گھر کی باندیوں کی مانند ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہی لیکن انھیں گھریلو مسرت اور سکون نہ مل سکا۔ ان کی ذاتی زندگی ہمیشہ متنازعہ رہی اور اسکینڈلز کا لا متناہی سلسلہ ساری عمر ان کا پیچھا کرتا رہا۔ شادیاں طلاقوں کی نذر ہوئیں حتی کہ ان کی بیٹیوں کو بھی طلاقوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی ازدواجی زندگی کی ناکامی کا اعتراف انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں اس طرح کیا ’’شادی ایک جوا ہے کوئی جیتتا ہے تو کوئی ہارتا ہے اور اس جوئے میں مجھے ہار ہوئی۔ میں اس سلسلے میں اپنے شوہروں کو کوئی الزام نہیں دوں گی۔ کیونکہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ مجھے نہیں سمجھ سکے اور میں انھیں نہیں سمجھ سکی‘‘۔ ۶؂

ملکۂ ترنم کی شخصیت مجموعہ اضداد تھی۔ وہ اگر کسی پر مہربان ہوتیں تو اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیتیں اور اگر کسی سے ناراض ہوتیں تو باقاعدہ دشمنی پر اتر آتیں۔ موسیقار نثار بزمی ملکۂ ترنم کے عتاب کا شکار ہوئے اور لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کراچی میں سکونت پذیر ہو گئے۔ مگر سخت گیر اور ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ غریب پرور بھی تھیں۔ انھوں نے بہت سے غریب لوگوں کے ماہانہ وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ وہ غریبوں کی اس طرح سے مدد کرتیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتی تھیں۔ اس حوالے سے ملکۂ ترنم کے دو رفقاء کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ایک ان کے اُستاد غلام محمد قصوری اور دوسرے ان کے ہارمونیم نواز محمد علی منو۔ وہ اپنے ہر فلمی گانے پر فلم ساز سے انھیں معقول معاوضہ دلاتی تھیں۔

ملکۂ ترنم کی متلون مزاجی اور ضد کے متعلق معاذ حسن لکھتے ہیں:

’’نور جہاں ایک موڈی، جذباتی مگر بے حد کاروباری عورت تھی لیکن قدرت نے انھیں ایک فن کار کا حساس دل بخشا تھا۔ ان کا مزاج ’’پل میں تولہ، پل میں ماشہ‘‘ والا تھا۔ جس پر مہربان ہو اس کو سات خون بھی معاف لیکن اگر برہم ہو جائے تو خدا کی پناہ۔ نور جہاں کو خدا نے بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان میں ایک خود پسندی بھی تھی۔ نور جہاں نے ایک بار ڈھاکا کے ایک ہوٹل کے بیروں کو گانا سنانے کے لیے گورنر کی پارٹی میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا اور کوئی اسے فیصلہ بدلنے پر مجبور نہ کر سکا‘‘۔ ۷؂

دراصل فن کار کی طبیعت میں ایک طرح کا ہیجان ہوتا ہے اور اسی ہیجان کے باعث وہ اپنے مزاج کو ایک سطح پر نہیں رکھ سکتا۔ متلون مزاجی صرف ملکۂ ترنم میں ہی نہیں تھی بلکہ اکثر فن کاروں کا مزاج ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے فن کار کو ’’حساس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ذرا سی بات بھی اُس کے مزاج کے خلاف ہو جائے تو وہ بعض اوقات طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ نام ور فن کار اس کا کچھ زیادہ ہی شکار ہوتے ہیں کیونکہ شہرت، دولت اورحُسن جب اکٹھے ہو جائیں تو مزاج کو یکساں رکھنا خاصہ دشوار ہو جاتا ہے۔ ملکۂ ترنم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا بقول شاعر:
نزاکت نازنینوں کو سکھانے سے نہیں آتی
خدا جب حُسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ملکۂ ترنم نے جذبہ حب الوطنی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے یادگار ملی نغمے گائے۔ ان کے گائے ہوئے ملی نغموں نے فوجی جوانوں کے عزم میں ایک نئی روح پھونک دی، مثلاً
اے وطن کے سجیلے جوانوں
جمیل الدین عالیؔ
میرے نغمے تمھارے لیے ہیں

ایہہ پُتر ہٹاں تے نیءں وکدے
صوفی غلام مصطفی تبسم
کی لبھدی ایں وچ بازار کڑے

ایہہ دین اے میرے داتا دی

نہ ایویں ٹکراں مار کڑے

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
صوفی غلام مصطفی تبسم
اج تکدیاں تینوں سارے جگ دیاں اکھاں

ملکۂ ترنم نے خود ریڈیو پاکستان لاہور فون کر کے ملّی نغمے گانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ملکۂ ترنم کی بیٹیاں اس وقت بہت چھوٹی تھیں اور بعض اوقات ماں کی عدم موجودگی میں بیمار ہو جاتی تھیں۔لیکن اپنے بچوں کی بیماری کی پروا کییبغیر انھوں نے سترہ روزہ جنگ کے دوران کمال جذبہ خدمت سے ملکی دفاع کے لیے اپنی آواز کو پیش کیا تھا۔

جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ملکۂ ترنم کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں ’’ حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ‘‘ اور ’’ملکۂ ترنم‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ پی۔ ٹی۔ وی ورلڈ نے انھیں بیسویں صدی کی عظیم مغنیہ کا میلینیم ایوارڈ دیا تھا۔ ان اعزازات کے علاوہ ملکۂ ترنم نے پاکستان کے تمام ثقافتی ایوارڈز حاصل کیے تھے۔

ملکۂ ترنم نے ۱۹۵۸ء میں تاش قند کے فلمی میلے میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں انھوں نے جاپان اور سری لنکا کا بھی دورہ کیاجہاں انھیں بے حد پذیرائی ملی تھی۔ ۱۹۸۲ء میں ملکۂ ترنم نے بھارت کا غیر سرکاری دورہ کیاتھا۔ اس دورے میں انھوں نے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت ملاقات کی تھی۔ بمبئی کی فلمی صنعت نے ان کے اعزاز میں ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کی میزبانی کے فرائض دلیپ کمار نے سرانجام دییتھے۔ اس موقع پر دلیپ کمار نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’ہم نے ٹھیک پینتیس برس ملکۂ ترنم نور جہاں کا انتظار کیا ہے‘‘۔ اس تقریب میں موسیقار اعظم نوشاد صاحب نے بھی ملکۂ ترنم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

ملکۂ ترنم آکار کا گانا گاتی تھیں اور کھلا آواز لگاتی تھیں۔ ان کا گانا سینے کا گانا تھا رَگی نہ تھا۔ انھیں راگ داری، الاپ اور اس کی بڑھت اور ہر طرح کی تان لگانے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ ایک سُر پر بہت دیر تک قیام کر سکتی تھیں۔ مُرکی، بہلاوا، گٹکری، زمزمہ غرض یہ کہ موسیقی کے تمام لوازمات ان کے گلے کی دسترس میں تھے۔ برصغیر میں ایسی مکمل آواز شاید پھر کبھی نہ پیدا ہو سکے۔ تقریباً پینتالیس برس کی عمر کے بعد ملکۂ ترنم کی آواز قدرے بھاری ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی آواز کی تازگی اور پختگی میں تادم مرگ کوئی فرق نہیں آیا۔

۱۹۸۴ء میں مجھے ایک ثقافتی تنظیم کی ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ تقریب ہلٹن ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی اور اس میں فلمی صنعت کے تمام بڑے اداکار اور اداکارائیں شریک ہوئیں۔ ملکہ ترنم کو بھی اس تقریب میں شرکت کرنا تھی مگر بعض وجوہ کی بنا پر وہ شرکت نہ کر سکیں ۔ اس تقریب میں محفلِ موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس کے منتظم پی۔ٹی۔وی اسلام آباد کے کمپوزر ایم۔عبداللہ تھے۔ میں نے بھی اس محفل میں عبداللہ صاحب کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں کچھ غزلیں گائیں۔ اسی تقریب میں عبداللہ صاحب کے ایک دوست نے ہمیں ایورنیو سٹوڈیو آنے کی دعوت دی اور بتایا کہ کل ایورنیو سٹوڈیو میں ملکۂ ترنم نورجہاں کے گانے کی ریکارڈنگ ہے۔اگر آپ آنا چاہیں تو آ۔سکتے ہیں ۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور عبداللہ صاحب کو آمادہ کیا کہ سٹوڈیو ضرور جائیں گے۔

اگلے روز مقررہ وقت پر ہم سٹوڈیو پہنچے تو پتا چلا کہ موسیقار طافو کی ترتیب دی ہوئی دھن میں ملکۂ ترنم پنجابی گانا ریکارڈ کروائیں گی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ملکۂ ترنم سٹوڈیو تشریف لے آئیں۔ ریکارڈنگ ہال میں موجود تمام سازندے اُن کے ادب میں کھڑے ہو گئے۔وہ سب کی خیریت پوچھتے ہوئے ریکارڈنگ روم میں چلی گئیں۔ مجھے ملکۂ ترنم کو قریب سے دیکھنے کا اور اُن سے بات کرنے کا بچپن سے ہی اشتیاق تھا۔ میں بچپن سے ہی ان کی گائکی پر فدا تھا اور میں نے گانے کی ابتدا ء انھی کے گانوں سے کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اُس روز اپنی محبوب مُغنیّہ کو اپنے سامنے پاکر خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔میں نے عبداللہ صاحب سے کہا کہ ملکۂ ترنم سے گفتگو بھی کرنا ہے لہذا کوئی ترکیب نکالیں۔عبداللہ صاحب نے میری اس خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طافو صاحب سے اپنا اور میرا تعارف کروایا اور کہا کہ ہم ملکۂ ترنم کے بھتیجے محمد سلیم (مینیجر سنگیت سنیما راول پنڈی ) کے دوست ہیں اور ملکۂ ترنم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔طافو صاحب نے ریکارڈنگ روم میں ملکۂ تر نم سے ہمارا ذکر کیا کہ پنڈی سے آپ کے بھتیجے کے دوست آئے ہیں اورآپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملکۂ ترنم نے ہمیں اند ر بُلا لیا حالانکہ سٹوڈیو کے قوانین کے مطابق (سوائے میوزک ڈائریکٹرکے) کسی کو ریکارڈنگ روم میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خیر ہم ملکۂ ترنم سے ملے اور ان سے اپنا تعارف کروایا اور انھیں بتایا کہ ہم ان کے بھتیجے محمد سلیم کے دوست ہیں۔ملکۂ ترنم نے محمد سلیم صاحب کے حوالے سے ہماری بہت عزّت افزائی کی اور بہت محبت آمیز سلوک کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ ملکۂ ترنم سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ وہ بہت بااخلاق، بامروّت ، مہذب اور زیرک خاتون تھیں۔ میرے تجسّس اور بات کرنے کے انداز سے انھیں اندازہ ہو گیا کہ میں بھی موسیقی سے شغف رکھتا ہوں۔ مُجھ سے انھوں نے پوچھا بیٹا آپ بھی گاتے ہو۔ میں نے کہا! جی ہاں کچھ تھوڑا بہت گا لیتا ہوں اور راول پنڈی ریڈیو سے پروگرام بھی کرتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگیں بہت اچھا شوق ہے ، جاری رکھیں۔ ملکۂ ترنم نے عبداللہ صاحب کے بھائی وائلن نواز ظہیر کی بہت تعریف کی۔

ملکۂ ترنم نور جہاں کی خوش بختی تھی کہ انھیں اپنے ابتدائی ایام میں ہی باکمال اور صاحبِ طرز موسیقار ملے ۔ قیامِ پاکستان سے قبل ماسٹر غلام حیدر، رفیق غزنوی ، کے ۔دتہ، سجاد حسین، شیام سُندر ، نوشاد علی اور فیروز نظامی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بابا جی۔ اے چشتی، رشید عطرے ، ماسٹر عنایت ، خواجہ خورشید انور، سلیم اقبال، نثار بزمی، اختر حسین اکھیاں، نذیر علی اور بہت سے۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ملکۂ ترنم دو عطائی موسیقاروں خواجہ خورشیدانور اور سلیم اقبال کی صلاحیتوں کی بہت معترف تھیں۔ عمومی طور پر پیشہ ور گانے والیاں اور گانے والے ’’عطائی فن کاروں‘‘ کی تعریف کرنے میں روایتیتعصب اور بخل سے کام لیتے ہیں لیکن ملکۂ ترنم میں یہ تعصب بالکل نہیں تھا۔ وہ بطور خاص خواجہ خورشید انور صاحب کی دھنوں کی بہت تعریف کرتی تھیں اور ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب کی دُھن بظاہر بہت آسان دکھائی دیتی ہے لیکن گانے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب اپنی دھن میں مینڈھ سے بہت کام لیتے تھے اور تیزی طراری کے برعکس سُر پر ٹھہراؤ اور قیام کے قائل تھے۔

موسیقی کے معروف محقق سعید ملک اپنی انگریزی کتاب “Lahore Its Melodic Culture” کے صفحہ ۱۲۳ پر ملکۂ ترنم کی فنی خوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Very few singers have earned such over whelming praise from music buffs as did Noorjehan, who can be deservedly called the true spokesperson of Pakistani melodic culture. From professional musicians to connoisseurs and uninitiated music buffs, she won ebullient praise. The sonic quality of her voice and the hypnotic spell it can cast on her audiences had a few parallels. The manner, in which she rendered all kinds of songs so feelingly, took her fame to unparalled heights not only in Pakistan, but also in neighbouring India.

ملکۂ ترنم نے پی۔ٹی۔ وی ورلڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی بیٹی ظل ہما کو اپنا ’’فنی وارث‘‘ قرار دیا تھا۔ میرے خیال میں انھوں نے بیٹی کی محبت میں سرشاری کے باعث ایسا کہا ہوگا۔ ورنہ حقیقتاً ظل ہما گائکی میں ملکۂ ترنم کی وارث نہیں ہو سکتیں۔ اگر ظل ہما کو واقعی ملکۂ ترنم کا وارث بننا ہے تو پہلے اُسے اپنی ماں جتنا کلاسیکل سیکھنا ہوگا اور پھر اتنی ریاضت کرنا ہوگی جتنی ’’ملکۂ ترنم‘‘ بننے کے لیے اس کی ماں نے کی تھی۔

ملکۂ ترنم ۱۹۸۵ء میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئیں۔ پاکستان کے علاوہ لندن اور امریکا میں بھی ان کا علاج ہوا۔ علاج سے وہ وقتی طور پر صحت یاب توہو گئیں لیکن کچھ عرصہ بعد انھیں دوبارہ مختلف امراض نے گھیر لیا۔ ان کی زندگی کے آخری چار سال کراچی میں شوگر، جگر اور گردوں کا علاج کروانے میں گزرے۔ ملکۂ ترنم نے اپنے علاج پر تقریباً چار کروڑ روپے خرچ کیے لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں ۔۔۔۔۔۔ آخر کار ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ملکۂ ترنم ۲۳ ؍دسمبر ۲۰۰۰ء بمطابق ۲۶ رمضان المبارک کو سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئیں۔ انھیں رمضان المبارک کی ستائیس ویں شب ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کے جنازے میں بہت کم افراد شریک ہوئے۔

لاہور کے فن کاروں کا مطالبہ تھا کہ ملکۂ ترنم کو لاہور میں دفن کیا جائے جبکہ کچھ لوگوں کا بیان ہے کہ ملکۂ ترنم نے اپنے آبائی شہر قصور میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ملکۂ ترنم کے داماد حسن سردار کا کہنا ہے کہ ملکۂ ترنم نے کراچی میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملکۂ ترنم کی تدفین کے سلسلے میں ان کے بیٹے اور بیٹیوں میں تضاد پایا جاتا تھا۔ بہرحال حقیقت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن حق تو یہ تھا کہ ملکۂ ترنم کو لاہور میں یا ان کے آبائی شہر قصور میں دفن کیا جانا چاہیے تھا۔

ملکۂ ترنم نے اپنی زندگی کا آخری مشہور گیت اپنی وفات سے چار سال قبل۱۹۹۶ء میں فلم ’’سخی بادشاہ‘‘ کے لیے موسیقار طافو کی ترتیب دی ہوئی دُھن میں گایا تھا۔ ان کا یہ گیت انسان کی اصل حقیقت یعنی فنا اور ایک دوسرے سے محبت اور رواداری کا پیامبر ہے۔ گیت کے بول ملاحظہ ہوں:
کی دم دا بھروسا یار، دم آوے نہ آوے
چھڈ جھگڑے تے کریئے پیار، دم آوے نہ آوے
ملکۂ ترنم کا آخری گیت جو انھوں نے اپنی وفات سے دو سال قبل ۱۹۹۸ء میں ایورنیو سٹوڈیو میں ریکارڈ کروایا یہ تھا:
لڑکی پھنسا لی تو نے تلے دے تار جیسی
کمرے میں لے جا سجناں، آ جا اب دیر کیسی
۲۳ ؍دسمبر ۲۰۰۰ء ملکۂ ترنم کی جسمانی موت کا دن ضرور ہے لیکن ان کی مترنم آواز کی موت کا دن کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ دُنیا قائم و دائم ہے ملکۂ ترنم کے گیت کانوں میں رس گھولتے رہیں گے۔

کتنی راتیں جاگ گزاریں
کتنی خوشیاں ان پر واریں
گیتوں میں تب یہ بول ڈھلے
گائے گی دنیا گیت میرے


حوالہ جات:

۱؂ محمد شکیل، مادرِ موسیقی نور جہاں، حیدر پبلی کیشنز، ۳۸ غزنی سٹریٹ اُردو بازار لاہور، ۲۰۰۱ء ، ص ۲۸
۲؂ سکے دار ، ہُوک ، مطبوعہ حکایات ،F / ۳ ، اکرم آرکیڈ/B ۲۹ٹیمپل روڈ، چوک صفاں والا، لاہور ، اشاعت اول اگست ۲۰۰۳ء ، ص ۷۵،۷۴،۷۳
۳؂ احمد منیر،حوالہ مذکور، ص ۸۶
۴؂ طفیل اختر، نور جہاں کی زندگی، پرائم ٹائم پبلی کیشنز، ماڈل ٹاؤن لاہور، جنوری ۲۰۰۱ء، ص ۴۸
۵؂ علی سفیان آفاقی، سُر چھایا، سارنگ پبلی کیشنز، پٹیالہ گراؤنڈ ۱۴ لنک روڈ لاہور، ۲۰۰۱ء ص ۱۰۰، ۹۹
۶؂ فیاض حسین، گانوں اور گناہوں کی ملکہ، فاتح پبلشرز اُردو بازار لاہور، جنوری ۲۰۰۱ء ، ص ۱۴۲
۷؂ معاذ حسن، ملکۂ ترنم نور جہاں، فن و شخصیت اور سدا بہار گیت، آفتاب پبلی کیشنز ٹبّا بابا فرید ضلع کچہری لاہور، ۲۰۰۱ء، ص ۶۴

About پروفیسر شہباز علی 12 Articles
پروفیسر شہباز علی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں اردو زبان و ادب کے مدرس ہیں۔ ان کا شمار نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ وہ PNCA اور ہنر کدہ سمیت بہت سے اداروں میں موسیقی کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے قاضی ظہور الحق اور ماسٹر محمد صادق پنڈی والے سے کسب فیض کیا اور بعد ازاں مہدی حسن خان صاحب کی شاگردی بھی اختیار کی۔ ٹی وی سے موسیقی کے تین سو سے زائد لائیو پروگراموں بطور ماہر۔موسیقی شرکت کر چکے ہیں۔

1 Comment

  1. ڈاکٹر صاحب آپ نے مختار بیگم کا تزکرہ کیا لیکن نور جہان کو نور جہاں بنانے والی کجن بیگم اور برکت نظامی کو یکسر بھلا دیا مضمون میں کوئی خاص وجہ اس کی ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.