ملیر کا مجرم کون؟

ملیر کا مجرم کون؟

ملیر کا مجرم کون؟

از، آدرش حفیظ

دوستو قافلہ درد کا اب کیا ہو گا ؟

اب کوئی اور کرے پرورش گلشن غم

دوستو ختم ہوئی دیدہ تر کی شبنم

تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ

فیض احمد فیض

دوست پوچھتے ہیں کہ ایک ہی بات کو بار بار دہرا کر کیوں لکھتے ہو ـ گڈاپ ملیر کراچی بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے ریتی بجری وغیرہ وغیرہ گردان کرتے رہتے ہو ـ جواب میں کچھ نہیں کہتا اور کہوں بھی کیا جہاں پیدا ہوا پلا بڑا، جو دیکھا سنا پڑھا اب ان سب کو مٹتا برباد ہوتا دیکھتا ہوں تو درد ہوتا ہے جب انسان تکلیف میں ہو تو چیختا ہے فریاد کرتا ہے اور یہی میری چیخیں میری الفاظ میں ڈھلتی ہیں تو فریاد بن جاتی ہیں۔

بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ تم ترقی کے مخالف کیوں ہو میں کیسے کہوں کہ کون سا انسان ہوگا کہ ترقی نہیں چاہے گا یہ انسانی جبلت ہی ہے کہ وہ اپنی بہتر زندگی کے لیے شب روز بھاگتا رہتا ہے۔ مگر یہ کیسی ترقی ہے جو میرے اور یہاں صدیوں سے آباد عام مسکین اور غریب لوگوں کے لیے نہیں  یہ کیسی ترقی ہے جو سرمایہ دار دوسرے سرمایہ دار کے لیے کر رہا ہے اور مجھے کہا جائے کہ یہ تمہاری ترقی ہے آنکھیں بند کر کے دوزخ کو کیسے جنت سمجھوں۔

کل آس پاس بڑی بڑی محلیں بنی گی کشادہ روڈیں ہوں گی بڑے بڑے اسکول ہسپتال ہوں گی مگر مجھے اور مجھ جیسے عام لوگوں کو وہاں جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی کیونکہ وہاں جانے کے لیے بڑی گاڑی بہت سارا پیسہ چاہیے ہوگا جو میرے لوگوں کے پاس نہیں ہوگا۔ میرے اور میرے لوگوں کے لیے وہی سرکاری نقل زدہ تعلیمی نظام وہی بقائی، طبری جناح اور سِول ہسپتال ہوں گے وہی ٹھوٹی پھوٹی سڑکیں ہوں گی۔ پھر یہ ترقی میرے لیے کیسے ہوئی۔

دل ہے نہ سنگ خشت درد سے بھر آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں دلائے کیوں

غالب

چلو آج نئی باتیں کرتے ہیں ہمارے اس حال کا اور ملیر کی بربادی کا زمہ دار کون؟

چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی مگر کیا کروں بن کہے بھی رہ نہیں سکتا۔

میری یاداشتیں ضیاء کے دور سے شروع ہوتی ہیں وہی 80 کی دہائی جونیجو جب وزیر اعظم بنا تب میرے گاؤں کے آس پاس درخت تھے۔ آباد زمینیں تھیں مون سون کی بارشیں خوب برستے تھیں ـ ملیر کی ندیاں کشمیر کے بہتے دریاؤں کی طرح بہتی تھیں  کنویں پانی سے بھرے رہتے تھے مول تھدو جھلندرو اور دوسری ندیاں گوربان سے لے کر للوپڑھ گڈاپ اس سے آگے ملیر کی شہری آبادی تک ملیر  خوبصورت منظر پیش کرتا تھا۔ ہریالی سرسبز زمینیں پھاڑ  جیسے وادی کشمیرـ  کیا کیا نہ تھا ٹنوں کے حساب سے ملیر سبزیاں میوہ جات کراچی کو سپلائی کرتا تھا لوگ آباد تھے زراعت تھی باہر سے لوگ مزدوری کرنے گڈاپ کاٹھور موئیدان موکی ڈملوٹی کوٹیئڑو درسانہ آتے تھے خوشحالی تھی سب برابر تھے نہ طبقات تھے نہ گروہ سب ملیری تھے ـ  اس کے چلتے 88 کے الیکشن ہوتے ہیں اور پی پی پی کے امیدوار ہمارے ملیر سے منتخب ہو کر قانون ساز اسیمبلیوں میں بیٹھتے ہیں اور پھر شروع ہوتی ہے ملیر کی بربادی کی داستان

جس نگاہ ناز سے امیدیں تھی بہت

اسی شوخ نے تباہ کیا میرا وجود

ریاست پاکستان میں قانون سازی کے لیے قومی اور صوبائی اسیمبلیاں اور سینٹ جیسے بڑے ادارے جہاں نمائندے بیٹھ کر اپنے اپنے حلقے لوگوں کے لیے بات کرتے ہیں قانون سازی کرتے ہیں اور بلدیاتی ادارے کو فنڈ فرائم کرتے ہیں پھر بلدیاتی ادارے ترقیاتی کام کراتے ہیں مگر قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہمارے رہبر رہنما ہمارے ووٹوں سے منتخب نمائندے گونگے بہرے بن کر صرف خاموش تماشائی بنے ہمیں لٹتا دیکھتے رہے جنہیں ووٹ دے کر بیجھا تھا کہ ہمارے لیے ملیر کی بہتری کے لیے قانون  سازی کرتے صرف مراعت اور تنخواہ لے کر اپنے لیے دولت کمانے لگے وہ کہتے ہیں نہ یہاں سے گئے عام لوگ بن کر وہاں جاگیرداروں سرمایہ داروں میں بیٹھ کر انہیں کے رنگ میں رنگ گئےـ

90,  93,  97,  الیکشن میں جو بھی منتخب ہو کر گئے سب صرف اپنے لیے کام کرتے رہے خواجہ محمد اعوان شیرمحمد بلوچ حلیم عادل شیخ حکیم بلوچ اگر میں بھولا نہیں یہی لوگ منتخب ہو کر گئے اور مالا مال ہو کر واپس آ گئے  ملیر کی ندیاں برباد ہوتی رہیں درخت کٹتی رہے زمینیں بنجر بن گئیں  گڈاپ ملیر لٹتا رہا اور یہ سب صرف سیاست کرتے رہےـ

 بجلی گیس اسکول علاقوں کو ملے مگر یہ بنیادی سہولتیں ہیں یہ احسان نہیں اور حقیقی لیڈر کبھی بھی اسکول گیس بجلی روڈ کا کریڈٹ نہیں لیتا بات تب بنتی جب یہ لوگ ملیر کے لوگوں کے لیے ذراعت کو بچانے کے لیے قانون سازی کرتے ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرتے  کالج یونیورسٹی ہسپتال بناتے بہتر تعلیم شعور اور آگہی کے لیے اقدامات کرتے مگر نہیں آج تک یہی طعنہ ملتا ہے کہ گیس اسکول روڈ بجلی ہم نے دیےـ  میں تو کہتا ہوں یہ بجلی گیس روڈ سب لے لو ہمیں ہمارا پرانا ملیر لوٹا دو سرسبز آباد ملیر ماروی کا ملیر ہمیں نہیں چاہیے ترقی بس ہمیں ہمارے درخت ہماری زمینیں ہماری ذراعت لوٹا دو ہم لالٹین کی روشنی میں گذارا کر لیں گے لکھڑیاں جلا کر کھانا پھکائیں گے ـ

وقت رنگ بدلتا رہا جنرل پرویز مشرف کا دور آیا نیا بلدیاتی نظام آیا نئے الیکشن ہوئے ملیر گڈاپ سے ساجد جوکیو شیرمحمد اور عبداللّٰہ مراد منتخب ہوکر قانون ساز اسیمبلیوں میں منتخب ہو گئے تب ملیر کے لوگوں نے خواب دیکھنا شروع کیے امید بندھی کہ شاید اب پرانے دن لوٹ کر آنے والے ہیں صوبائی اسیمبلی میں ملیر گڈاپ کا نوحہ گونجنے لگا عبداللّٰہ مراد مسیحا بن کر ملیر کے لوگوں کی آواز بن گئے  اپوزیشن کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ریتی بجری اٹھانے کے خلاف قانون بنائے ریتی اٹھانے پر دفعہ 144 لگایا اور اس کو نافذ کرنے کے لیے دن رات محنت کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملیر کی ندیوں سے ریتی نکلنا بند ہو گیا۔

عبداللّٰہ مراد نے ایوان میں بیٹھ کر تن تنہا یہ سب کچھ کیا پھر تعلیم اور روزگار کے لیے کوششیں شروع کردیں جو کام سالوں میں نہیں ہوئے وہ دنوں مہینوں میں ہونے لگے ملیر کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ وقت کے ظالموں نے عبداللّٰہ مراد کو ہم سے چھین لیا 6 مارچ 2004 کو ملیر کے شیر جوان کو شھید کردیا جیسے ملیر کے سر سے سایہ چھن گیا ـ 2002 سے لے کر 2004 تک شھید عبداللّٰہ مراد نے ملیر کی وہ خدمت کی جو کئی سالوں میں ہمارے نام نہاد نمائندے نہ کر سکےـ

عبداللّٰہ مراد کی شھادت کے بعد جیسے ملیر یتیم ہوگیا ملیر کو لوٹنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا ریتی بجری کے خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی دن دھاڑے ریتی بجری چوری کا سلسلہ ریاستی سرپرستی میں ہونے لگا زمینیں بنجر ہونے لگی ـ  اس لوٹ مار کے چلتے 2008 کے الیکشن ہوتے ہیں ملیر سے قومی اسیمبلی کی نشست سے شیرمحمد بلوچ اور صوبائی اسیمبلی کی نشست پر ساجد جوکیو  منتخب ہوتے ہیں 2008 سے لے کر 2013 تک ملیر لٹتا رہا اور ہمارے منتخب نمائندے چپ چاپ حکومت میں رہتے بس مراعات لیتے رہے اسی دوران ایشیا کی بڑی سیمنٹ فیکٹری نے کام شروع کیا جس نے مقامی لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی قانون کے حساب سے جو مقامی لوگوں کا کوٹہ بنتا تھا وہ نہیں دیا ہمارے نمائندے اہنا حصہ لے کر خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے رہےـ

اسی دوران بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے جیسے سرمایہ دارانہ رہائشی منصوبے لانچ ہوئے جنہوں نے غیر قانونی ھتکھنڈوں سے زور زبرستی سے زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا مگر ہمارے نمائندے چپ کا روزہ لگائے بس دیکھتے رہے اگر کوئی فریادی ان کے پاس جاتا تو یہ کہتے بابا طاقت ور ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے اب کوئی مجھے سمجھائے کہ لاکھوں لوگوں کا ووٹ لے کر ایوانوں میں اپنی تنخواہ اور مراعت لینے  والا اتنا کمزور اور بے حس کیسے ہو سکتا ہے؟

بہرحال ان سب کے چلتے 2013 کے الیکشن ہوتے ہیں تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکیم بلوچ قومی اسیمبلی کا رکن منتخب ہوتے ہیں اور صوبائی اسیمبلی کی نشست پر بڑی مشکلوں سے ساجد جوکیو اپنا سیٹ بچانے میں کامیاب ہو کر منتخب ہو جاتے ہیں حکیم بلوچ مسلم لیگ کی حکومت میں وفاقی وزیر بن جاتے ہیں اور ساجد جوکیو صوبائی حکومت کی سرکاری بینچوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر شاید ملیر کی قسمت میں صرف دو ہی جملے لکھے تھے: “میں کیا کر سکتا ہوں میرے پاس کچھ نہیں”، ” میں کیا کر سکتا ہوں میرے پاس اختیار نہیں”  عجیب منتق ہے دونوں نمائندے حکومتی بینچوں کا حصہ تھے اور ایک وفاقی وزیر پھر بھی ملیر کا دامن خالی اور ان کو سب کچھ حاصل۔

ملیر بنجر بن گیا ملیر کی زمینیں سرمایہ دار صنت کار ہڑپنے لگے ملیر کے لوگ غربت کے اندھیروں میں گم ہونے لگے  بجلی روڈ اسکول تباہ سے برباد ہونے لگے صحت کے حوالے سے بہت ساری امراض پھیلنے لگے نقل زدہ سسٹم سے تعلیمی نظام تباہ ہوگیا اور ہمارے نمائندے یہی راگ الاپتے رہے اور مال بناتے رہے ـ لوگ طبقاتی حوالے سے تفریق کا شکار ہوتے چلے گئے جن کے اثرات 2015 کے بلدیاتی الیکشن میں سامنے آئے لسانی گروہی حوالے سے ملیر فرزند آپس میں دست گریبان ہو گئے ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے تباہ حال ملیر واسیوں کو استعمال کرنے کی کوششوں میں لگا رہا بلدیاتی الیکشن کے کچھ مہینوں بعد سارے بلدیاتی نمائندے ایک ہوگئے اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی  کیا حکومت کیا اپوزیشن ـ

پھر وہ ہوا جس کا خدشہ تھا اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کے لیے حکیم بلوچ مسلم لیگ اور قومی اسیمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر پھر سے پ پ پ میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے منتخب ہو کر قومی اسیمنلی میں اپوزیشن کی نشست میں بیٹھ جاتے ہیں ـ بحریہ اور ڈی ایچ اے میں کام جاری رہتا ہے زمینوں کی لوٹ مار گاؤں آثار قدیمہ جو ملیر اور گڈاپ کے شناخت تھے تباہ کر دیے جاتے ہیں اب تو یہ حال ہے کہ  جو ندیاں ملیر کی شان ہوا کرتی تھیں ان کو بھی کھود کر رہی سہی کسر پورا کیا جا رہا ہے

ملیر اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے گڈاپ تباہی کے دہانے پر کھڑا اپنے مجرموں کو ڈھونڈ رہا اور  ملیر میں صدیوں سے آباد مقامی لوگ کے شناخت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ـ

اب مجھ جیسے کم عقل کم فہم رونے کے سوا کیا کر سکتے ہیں اور جب روتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ایک ہی درد پر بار بار کیوں روتے ہو؟

یہ نوحہ نہیں وہ ناسور اور زخم ہیں جو اپنوں نے لگائے ہیں اس ریاست نے لگائے ہیںـ کچھ سالوں بعد جب ہم اپنے آبا و اجداد کی بنائی سرزمیں پر اجنبی بن کر بےدخل کر دیے جائیں، ہماری عورتیں ان امیروں کی محلوں میں ماسی یا آیا بن کر کام کرنے پر مجبور ہو جائیں، ہمارے نوجوان چور ڈکیت بن جائیں یا منشیات عادی بن کر تل تل مرجائیں تو تاریخ ان سب کو عبرت کا نشان بنا دے گی جو اس سب کے ذمہ دار ہیں۔ اب بھی وقت ہے ملیر کے لوگ طبقاتی لسانی گروہی تفریق سے بالا تر ہو کر آپس میں اتحاد کر کے اپنے اپنے نمائندوں اپنے بڑوں کے  کرتا دھرتاؤں کا احتساب کریں۔ شاید میں غلط ہو سکتا ہوں، مگر جو ملیر کا حال ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہےـ