(ساجدہ زیدی)
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کی اچھی بری، پختہ نا پختہ،ادبی، غیر ادبی، ہر طرح کی تحریروں کا علاحدہ سے جائزہ لینا ہی تانیثی تنقید کا مقصد و منصب ہے۔لہٰذا اکثر جوش تانیثیت میں ان تحریروں کی بھی بڑی پذیرائی ہوتی ہے جو کسی لحاظ سے ادب کے زمرے میں شامل ہونے کے لائق نہیں۔ محض اس بنا پر کہ ان میں کسی نہ کسی قسم کا نسوانی احتجاج شامل ہے یا صرف اس لئے کہ وہ عورتوں کی تحریریں ہیں۔احتجاجی شاعری اچھی شاعری ہونے کے امکانات یقیناًرکھتی ہے لیکن ہر نسوانی احتجاج شاعری نہیں ہوتا (اعلیٰ شعری منصب تک پہنچنا تو درکنا ر) شعر و ادب کو سب سے پہلے شعر و ادب ہونا چاہیے خواہ وہ مردوں کی تخلیق ہو یا عورتوں کی۔بحیثیت نقاد اولاً ہمیں عورتوں کی بہترین تخلیقات کی شناخت کرنا چاہیے۔جس میں فکشن،شاعری اور ڈرامہ سب شامل ہیں۔نقاد کو تانیثی ادب کے بہ نظر غائر مطالعے سے دریافت کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ خواتین کی تخلیقات میں کیا مخصوص ابعاد ہیں۔مثلاً ان کی محبتیں،نفرتیں،جنس وجذبہ،مامتا اور انسانی رشتوں کی نہج کس حد تک اور کس انداز میں نسوانیت کے آئینہ دار ہیں۔نیز ان کی تخلیقات میں عورت کا تصور ایک بھرپور و فعال شخصیت کے طور پر ابھرا ہے یا ایک شے کی حیثیت سے۔ کیا ان کے منفرد جذبات و خیالات کو دکھ درد اور مسرتوں کو، ان کے تخیل کی اڑانوں کو پیش کیا گیا ہے، یا وہ محض پرچھائیاں ہیں جو سیاسی اور سماجی اتھل پتھل اور دنیا کے ہنگاموں سے بیگانہ،چراغ خانہ ہیں،’’جیسے وہ کشمکش زیست میں شامل ہی نہیں ‘‘ کیا یہ تصور کیفیات و احساسات کے ہر شیڈ کا اہل ہے،فکر و نظر کی صلاحیت کا اس میں امکان ہے،یعنی کیا یہ کردار کا ر زار حیات میں شامل ہیں یا اس کی مجہول تماشائی ہیں۔
مختصر یہ کہ عورت عورت کو کس طرح پیش کرتی ہے ؟ مروجہ تصورات و تعصبات کے تانے بانے سے اس کی تصویر بناتی ہے یا اسے ایک جیتی جاگتی متحرک مخلوق کی طرح پیش کرتی ہے ؟ اس کی وہ امیج بناتی ہے جو مرد کے احساس برتری کو تقویت دے اور اس کی لذت کوشی،حسن پرستی اور جنسی ہوس کو تسکین دے یا عورت کو اس کے وجود کے تمام امکانات کی حامل سمجھتی ہے ؟ خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے یا ماحول سے ہواور اس کا ایک بھرپور تصور پیش کرتی ہے۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ عورتیں عورت کا آئیڈیل تصور پیش کریں ہرگز نہیں۔ بلکہ قابل اعتناوہ تحریریں ہیں جس میں عورت بھی مرد کی مانند ایک فعال اور جیتی جاگتی مخلوق ہو محض نسائیت کا منفعل مجموعہ نہ ہو۔
پھر یہ بھی ہے کہ جن نسوانی تحریروں میں شعر و ادب کے معیارات مجروح نہ ہوں ان کو معرض بحث میں لانے کا کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ شعر میں رمزیت،اشاریت، ایمائیت،استعارہ و علامت اور باریک سا ابہام کا پردہ نہ ہو،محض عریاں بیانی ہو تووہ تخلیق نہیں محض کتھار سس ہوتا ہے۔ راست بیان یا عریاں بیانی، زبان کا بھونڈا استعمال، یا ڈکشن میں نظم و تناسب کا فقدان تحریر کو تخلیق کے زمرے سے ہی خارج کر دیتا ہے پھر اس کی قید چہ معنی دارد اور اس میں نسوانی احتجاج تلاش کرنا بے سود۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ جب کبھی نقاد عورتوں کی تحریروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو عموماً نسائی حسیت کی دہائی دے کر ایسی تخلیقات کی بڑی پذیرائی کرتے ہیں جن میں آنچل،سہاگ، سیندور، مہندی،چوڑی وغیر کا ذکر ہو یا دوسرے انداز میں منفعل قسم کی نسوانیت کا راگ الا پا گیا ہو،اس قسم کی نسائی حسیت کا راگ بھی ایک طرح سے مردانہ ایگو (EGO) کی تسکین کا ذریعہ بن جاتا ہے،کیوں کہ ان حربوں سے بھی عورت اپنے عورت پن کے ذریعے مرد کو مسحور یا متوجہ کرنے کے جتن کرتی اور خود کو منفعل محسوس کرتی ہے یا ایک شے کی طرح پیش کرتی ہے۔
نسائی حسیت عورت کی زندگی اور تخلیق کا ایک پہلو یقیناً ہو سکتا ہے لیکن اس کا صرف یہی مفہوم نہ لینا چاہے۔نسائی حسیت کا اظہار تو عورت کے جذبات و تجربات کی پوری رینج میں ہوتا ہی ہے جس کا عکس اس کی شاعری میں نظر آنا ضروری ہے۔لیکن نسوانیت کے چند پیش پا افتادہ کلیشوں کو نسوانیت کی معراج سمجھنا اور ظاہر کرنا اور نازو غمزہ کو نسوانیت کا استعارہ سمجھنا بھی پرانی شراب کو نئے شیشے میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔وہی شاعری قابل اعتنا ہو سکتی ہے جو معیاری ادب کی کسوٹی پرپوری اترے اور جس میں عورت اپنی مکمل موضوعیت اور اپنے وجود کے تمام نشیب و فراز کے ساتھ ابھرے۔تنقید کا رخ اس سمت موڑا جائے تو معتبر تنقید وجود میں آسکتی ہے۔ ایسی تنقید جس میں عورت بحیثیت فرد اور بحیثیت مصنف اور وجود کی پوری معنویت کا استعارہ بن سکے۔اپنے امکانات کے روبرو آسکے۔
ایک مرد اساس معاشرے میں جہاں عورت کو صدیوں سےایک کمتر،کمزور،مجہول اور ناقص العقل مخلوق سمجھا گیا ہو، جہاں فی زمانہ اپنے حسن وجمال کی بنا پر اسے ایک شے میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔جس کی معراج ہمارے موجودہ معاشرے میں ماڈل گرلز(MODEL GIRLS)،طوائفیں،کمرشل فلموں کی ہیروئین،حسن کے مقابلے میں شریک ہونے والی عورتیں ہیں اور فلموں میں جنس کے عام مثالیں ہیں۔ احتجاج کم از کم دانشور و فن کار عورتوں کا ایک فطری عمل ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس طور پر عورت کو ’’استعمال کی شے‘‘ بنانے کی کوشش ہے بلکہ تجارتی زندگی کے تانے بانے میں اسے شئیت کا درجہ دے کر منافع خوری کا آلۂ کار بھی بنایا جاتا ہے،اس صورت حال کے پیش نظر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ تانیثی تنقید میں احتجاجی اظہارات کی کیا اہمیت ہے؟
احتجاجی اور مزاحمتی ادب کی اہمیت سے انکار تو ممکن نہیں لیکن اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ محض احتجاجی تحریروں سے عورت کی پوری شخصیت کا اثبات ممکن نہیں۔ احتجاج کی لے کبھی اتنی تیز بھی ہو جاتی ہے کہ اس میں جوش و تندی آگے بڑھ کر تلخی اور جھلاہٹ کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسی شاعری (اور دوسری اصناف ادب ) کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، افراط و تفریط سے ہر رجحان نعرہ بن سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں جب کم از کم نظریاتی طور پرعورت کی آزادی اور مساوات کے تصور کو رد کرنا آسان نہیں رہا،خواتین کے احتجاج کی لے بھی مد ہم ہو تو زیادہ پر اثر ہو سکتی ہے اور احتجاج کا رخ بھی صحیح سمتوں میں موڑنا ضروری ہو گیا ہے۔عورت کے اثبات ذات اور اظہار ذات کا معاملہ مرد عورت کے درمیان دارو گیر کا معاملہ نہیں ہے۔ عورت تیر و تفنگ لے کر مرد سے بر سر پیکار ہو بھی جائے تو نہ وہ اپنی نوعی آزاد ی حاصل کر سکتی ہے نہ اپنے فطری بشری تقاضوں کی تکمیل کر سکتی ہے۔یہ معاملہ خود شناسی اور خود گری کا ہے جس کے لئے صالح لہجے کی ضرورت ہے۔یہ مسئلہ میدان کار زار کا نہیں ہے نہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جا سکتا ہے نہ بستر کو میدان کار زار سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔
عورت کا انفرادی اور نوعی اثبات وہی ادب کر سکتا ہے جو اس کی فردیت کی مکمل رینج پراصرار ہو۔ نہ صرف یہ کہ احتجاج اور طنز و تشنیع کی عمر کم ہوتی ہے، اس کا دائرہ اثر بھی محدود ہوتا ہے۔ اس سے متوجہ تو کیا جا سکتا ہے متاثر نہیں۔ لہجے کی ایسی جھلاہٹ جو کبھی کبھی گالم گلوچ کی سطح پراتر آئے، ادب نہیں ہو سکتی،احتجاج کا مقصد مردوں کو چڑانا نہیں بلکہ سماج کو جھنجھوڑنا ہے۔مردوں کو عورت کی فردیت اور موضوعیت کا احساس دلانا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عورت کا جھگڑا فرداً فرداً مردوں سے نہیں بلکہ معاشرے اور پدرانہ سماج کے ان رویوں،اقدار اور نظریات سے ہے جنہوں نے عورت کو محکوم بنا دیا اور مجبور ثابت کر دیا۔ جس کے لیے منجملہ اور اجبار کے مرد کی حفاظت کو بھی ضروری قرار دے دیا ہے۔ یہ رویے صرف مردوں ہی کی نہیں عورتوں کی سائیکی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں جن کی حدود انفرادی طور پرمردوں سے بہت آگے سماجی اداروں،سماجی و مذہبی،سیاسی اور اقتصادی نظاموں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ان اداروں کی جکڑبندیوں میں صرف مردوں کے ہی نہیں عورتوں کے ذہن بھی اسیر ہیں۔ یہ ادارے اپنی بعض صورتوں میں زیادہ زور پکڑ رہے ہیں اور دنیا کے تمام سماجوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تجارتیت کے فروغ نے بھی عورت کا بہت استحصال کیا ہے کہ منڈی معیشت کا تمام کاروبار اشتہاروں پرچلتا ہے جن کا الیکٹرونک میڈیا پرپورا کنٹرول ہے جو عورتوں کو لذت کوشی کی شئے بنانے میں بے روک ٹوک مصروف ہیں۔
کھلے ذہن سے سوچا جائے تو مرد اورعورت کا رشتہ تو دلکشی اور آسودگی کا سر چشمہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کے حریف نہیں حلیف ہیں۔ایک دوسرے کے لئے صرف طبعی اور جنسی سطح پرہی نہیں بلکہ جذباتی،نفسیاتی اور اقتصادی سطح پر بھی لازم و ملزوم ہیں۔مرد عورت کے رشتے کی حدود اس کے دردو نشاط تک پھیلی ہوئی ہیں، جس سے عشق و محبت،ہم آہنگی،ہمدردی،دوستداری،ہم خیالی،اختلافات و اتفاقات،بحث و مباحثہ،وصل و فراق کی لذتیں،المیے،طربیے سب ہی شامل ہیں اور جس میں افزائش نسل کا فطری جذبہ بھی اپنی تمام نیرنگیوں اور نفسیاتی تقاضوں کے ساتھ موجود ہے۔
مرد عورت صرف میاں بیوی ہی نہیں دوست اور رفیق یا روفیق کار بھی ہو سکتے ہیں۔ کہنہ بنیادوں کو ہلانے کے لئے سر عام نعرے لگانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ادب کا نہیں سماجی اداروں کا ہے۔ ادب کشف و ریاض چاہتا ہے۔ عورت کو اپنی تخلیقات، اپنے تصورات اور اپنے فکر و عمل کے ذریعے اس مسخ شدہ امیج کا سد باب کرنا ہے جو عورتوں کو تفویض کر دی گئی ہے اور جس نے عورت کے فطری رشتے کو بھی مسخ کر دیا ہے۔