آم کے آم… عادتوں کے دام
“ملتان میں تو اگلوں نے آموں کے باغوں کو بَہ طورِ احتیاط فتح کر لیا، بہاول پور کے آمیانہ باغ بھی فتح ہو جائیں گے، اور پھر جبڑا تمہارا سب کچھ چباتا جائے گا۔ اور تم لوگوں کا مستقبل، حال و ماضی کی سُولی چڑھتا جائے گا،” وہ نیم وا آنکھوں سے بولتا گیا۔
دوسرا، جس کی گھڑی میں جب برسات کا پانی پڑا تھا، یا شاید حبس کی وجہ سے آنے والا پسینہ پڑا تھا، تو اس نے اس گھڑی کو اپنے گھر کے اندر کی دو طاقچی الماری میں رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد اسے جب کبھی وقت بھالنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو وہ پاس سے گزرتے کسی بندے بشر سے پوچھ لیا کرتا تھا۔
اپنی دو طاقچی الماری میں پانی سے شکم بھری گھڑی رکھ کر بھول جانے والے نے جب ملنگ کی بات سنی تو پہلے اپنے کانوں کی کناریوں کو کُھجایا، پھر پلکوں کو دو ایک بار اضطراری حالت میں مسلا، پھر بولا:
“کیا کہتے جاتے ہو ملنگ جی…؟”
ملنگ اپنی بَہ ظاہر کی گُم شدگی سے جاگا، اور پھر سے بولا:
“تم بے وقوف بت پرستوں کو بتانے کا فائدہ بھی آخر کیا ہے۔ تم تو حج کرنے جاتے ہو تو سمجھتے ہو جس کو کنکریاں مار رہے ہو، وہ ہی شیطان ہے۔ وہ شیطان ہی کیا جو تمہارے ہَتھ پَلّے میں آ جائے۔ تم بس اپنی سات کنکریاں مارو اور سکون کرو؛ اور پھر جبڑا تمہارا سب کچھ چباتا جائے گا؛ اور تم لوگوں کا مستقبل، حال و ماضی کی سُولی چڑھتا جائے گا،” وہ نیم وا آنکھوں سے بولتا گیا۔
سننے والے کی خارش کی ترتیب پھر سے شروع ہوئی۔ لیکن سہلایا کچھ نا جا سکا۔
از، یاسر چٹھہ