منشا صاحب سلامت رہو
از، ڈاکٹر عبدالواجد
انسانی زندگی بھی عجیب و غریب واقعات کا مجموعہ ہے،کبھی خوشی سے خوش اور غم سے غم زدہ، کبھی اداس، کبھی تنہا، کبھی خاموش، کبھی گفتگو، سمجھ نہیں آتی کے انسان کو چین کس پل آتا ہے۔
میرے خیال میں اسے سکون اسی وقت آتا ہے کہ جب اس کی ظاہر کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور وہ ایک نقشِ بر آب کی صورت منظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس کی ساری خوشیاں بس اس یک لمحے میں تھیں اور جوں ہی یہ لمحہ ختم ہوا سب پس منظر کا حصہ بن گیا۔ اس کے بیچ میں سانحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے گزرتا رہتاہے، اور یہ اس کی مجبوری ہے، نہیں تو کس کا دل کرتا ہے کہ بیھٹے بیٹھے اپنی جان کو روگ لگائے جو اس کے وجود کو توڑ دے اور ہمیشہ ہمیشہ کا غم، رنج اور اندوہ اس کا مقدر بن جائے اور وہ اسے آہستہ آہستہ گھول گھول کرخاک میں ملا دے۔
انسان کا یہ ملال اس وقت دو چند ہو جاتا ہےکہ جب وہ کسی کو اتنا ٹوٹ کر چاہتا ہے کہ وہ اس کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے، یہ بھی کوئی ارادی عمل نہیں بلکہ وحی بن کر انسان کے دل میں اترتا ہے اور اس کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے، اور پھر انسان کا اپنا اختیار نہیں رہتا، نہیں تو کس کا دل کرتا ہے کہ خود کو عذاب میں ڈالے، پھر یہ ہوتا ہے کوئی کسی کے سوا رہتا نہیں ہے بلکہ جدائی، انتظار اور وصال سب اپنے ہو جاتے ہیں اور الگ سے کوئی وجود نہیں رکھتے۔
یہ محبت کی وہ اعلٰی و ارفع منزل ہے کہ جب محب محب نہیں رہتا اور محبوب محبوب نہیں رہتا،ایک ہی سانس کی ڈوری سے بندھے رہتے ہیں، ایک ہی دل سے دھڑکتے ہیں اور ایک ہی غم سے تڑپتے ہیں۔ یہاں تک کے ایک کی جدائی دوسرے کی موت بن جاتی ہے۔کوئی کہتا ہے ۔۔۔۔یہ عشق ہے، ۔۔۔۔۔کوئی کہتا ہے۔۔۔۔۔ یہ امر بیل ہے ۔۔۔۔۔جس وجود سے لپٹتی ہے اس کے ہرے تنے کا رس نچوڑ لیتی ہے اور اس میں خود کو بھی فنا کر دیتی ہے۔
مزید دیکھیے: جبل نور اور پاکستانی بھکاری
ڈاکٹر عبدالواجد تبسم کے ایک روزن پر شائع شدہ دیگر مضامین
کوئی کہتا ہے۔۔۔۔۔ آگ ہے جو لگائے لگتی نہیں اور بجھائے بجھتی نہیں، اور جسے لگ جائے اسے جلا کر خاکِستر کر دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ وہ اضطراب ہے جو ہر لمحے وجود کو بے چین اور نیم مردہ رکھتا ہے۔۔کوئی کہتا ہے۔۔۔یہ وہ آسیب ہے جس وجود سے لپٹتا ہے اس کی جان اس وقت چھوڑتا کہ جب تک اس کی جان نہ لے لے۔
غرض جو بھی ہو انسان جسے دیکھ دیکھ جیتا ہے اسی کے ہاتھوں مرتا ہے اور جب مرتا ہے تو ایسےسسک سسک کر مرتا ہے کہ اس کے وجود کی ریزگاری کائنات کے ہر نقش کو دوامیت بخش دیتی ہے۔ اس کا احاطہ انسانی سوچ اور فکر سے پرے ہے۔ بس ایک کیفیت ہے جسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ کچھ اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان سے کوئی کسی کو چھین لے، یا کچھ چھن جائے۔ مگر چھن جانا اور چھین لینا دو مختلف باتیں ہیں۔
چھیننے میں زور زبر دستی ہے کہ جس میں جان جانے کا ڈر رہتا ہے اور انسان اسی بات میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہےکہ اس سے پیچھا چُھڑا لو۔ مادی وجود ہے اور آ جائے گا۔ چلا بھی گیا تو کوئی بات نہیں۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ مگر چِھن جانا وہ کیفیت ہے کہ انسان چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ایسی کیفیت سے نہیں نکلتا جو اس کے وجود کا حصہ ہے، کیوں کہ وہ اسے زندگی کا حاصل سمجھتا ہے اور اس سے نکلنا اسے اپنی دائمی موت نظر آتی ہے۔
اسےچھوڑنا تو پڑتا ہے مگر چھوڑنے میں ہمیشہ ہمیشہ کا روگ انسان کا مقدر بن جاتا ہے اور یہ اس کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ لوگ اسے تقدیر کہتے ہیں اور جب یہ آ جاتی ہے تو پھر کسی کا بس چلتا نہیں ہے۔ اور سب کچھ بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے اور کسی کو ترک کر دینے ہی میں عافیت نظر آتی ہے۔ اس کےسوا چارہ بھی تو کچھ بھی نہیں۔
مجھے زندگی کا یہ پہلو بہت بھیانک نظر آتا ہے اور جب میں اس کے دیگر پہلوؤں پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ کبھی اتنی حسین نظر آتی ہے کہ دل کرتا ہے کہ اس کہ سارے نظاروں کو اپنے دل و دماغ میں بسا لوں۔ اس کے منظر کو بھی دیکھوں اور اس کے پس منظر کے تصورات میں کہیں دور نکل جاؤں کے پھر لوٹ کے نہ آ سکوں۔ مگر جب اس زندگی کی موت دیکھتا ہوں تو میرے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور میرے جذبات پر اوس پڑ جاتی ہے کہ بس ایک جھوٹا خواب تھا یا افسانہ یا فریب نظر کے جب آنکھ کھلی کچھ نہ تھا۔
مجھے موت کا تصورکبھی کبھی کسی نعمت سے کم نظر نہیں آتا کہ زندگی کے سارے ہنگامے افراتفری اس کی بدولت ہے اور کبھی کبھی اس کا ناگہانی پن اتنی تکلیف دیتا ہے کہ میرا وجود اتنا احتجاج کرنے لگتا ہے مگر میری آواز میرے سینے سے باہر نہیں نکل سکتی اور میں اگر ہمت بھی کر لوں تو کیا ہو گا۔ اگر خود کو احتجاج کے طور پر اس کے حوالے بھی کر دوں تو بھی کیا ہو گا، کچھ بھی تو نہیں ہوگا۔
مجھے یہ سب سہنا پڑتا ہے، اٹھانا پڑتا ہے۔ خود کو جلانا پڑتا ہے۔ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جوج ماجوج کی طرح ہر روز اَز سرِ نو غموں کی اس دیوار کو چھاٹنا پڑتا ہے اور اسی میں میرا سکون ہے اور اسی میں میری موت کہ میں اس میں لگا رہوں اور زندگی کے غموں کواٹھا اٹھا کے اپنی کمر کو دہرا کرتا رہوں اور زندگی کی بھیڑ میں ایسے گم ہو جاؤں کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ اور جب دوستوں کی محفل میں بیٹھوں تو اتنے زور زور سے ہنسوں کہ میری آنکھیں اشکبار ہو جائیں اور دنیا یہ سمجھے کہ اسے کوئی غم نہیں ہے، ہر وقت ہنستا رہتا ہے۔
یہاں تک کہ تقدیرِ ازل کا ساقی اس بوجھ کو میری کمر سے اٹھا دے اور کہے لے اب تیری باری، کل تک دوسروں پر روتا تھا آج تجھ پر دوسرے روئیں گے۔ منشا صاحب۔۔ آج اپنی نو خیز کلی کو روتے ہو۔ جس نے ابھی کھل کر گلاب ہونا تھا اور اپنی رنگینیوں سے دنیا کو گل و گلزار کرنا تھا اور اس کے عِطر سے ہر سُو مہکنا تھا اور جب سارا جگ مہک اٹھتا تو کہتے یہ وہ تناو ردرخت ہے کہ جس کی آبیاری میں نے اپنے خونِ دل سے کی ہے، یہ میرے ارمان ہیں۔
میرے جگر کے ٹکرے ہیں، میں نےاسے اپنے من میں سِینچا ہے، میرے خواب اس میں پلتے رہیں ہیں۔ لو دیکھو آج اس کی حقیقت۔ اس گُلشن کا سب سے حسین درخت یہی ہے کہ جس کی چھاؤں میں ہر ایک کو سکون ہے۔ اس کے سینے میں بھی کتنے ارمان ہوں گے، کتنے خواب ہوں گے۔ ۔۔۔کتنی تمنائیں ہوں گی کے لو اب میرے ثمر بار ہونے کا وقت آ گیا۔۔۔۔۔پر کیا ۔۔۔۔یہ آرزوئیں ۔۔۔۔یہ خواب بھیانک حقیقت بن گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے انسان اپنی مشت میں خاک ڈال کے اسے زور سے دبائے رکھتا ہے کہ اسے اب کہیں جانے نہیں دوں گا مگر وہ پھر بھی رستے رستے اپنا اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے اور آخرِ کار خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
میں نہیں کہتا کہ رو نہیں، غم نہ کرو رنج نہ کرو، صبر کرو بلکہ اتنا رو کہ کہ تمھارے درد سے کائنات کی چُولیں ہِل جائیں مگر کیا ہو گا کچھ بھی تو نہیں ہوگا۔
میں کہتا ہوں سلامت رہو۔ ابھی اور بھی تو غم دیکھنے ہوں گے، کسی اور کو بھی تو اپنی منشا کے خلاف اس کے حوالے کرنا ہوگا۔ ابھی کچھ اور خواب بھی تو ٹوٹنے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ اور ارمانوں کا بھی تو خون ہونا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اور بھی کچھ ہری ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹنی ہوں گی۔ ۔۔۔۔ ابھی آنسو بچا لو۔ اس لیے کہتا ہوں سلامت رہو ۔۔۔۔۔۔۔ پھر خود ہی کہو گے کہ اس کی رضا میں کسے دم مارنے کی مجال ہے۔ ۔۔۔۔۔ وہ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہو گا۔