لوک موسیقی اور منصور علی ملنگی کا فن
از، یاسر اقبال
تہذیبی عناصر میں فنون لطیفہ نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فنون لطیفہ جس کا تعلق انسانی نفسیات سے گہرا رہا ہے اور جملہ فنون میں سے فنِ موسیقی نے سب سے زیادہ براہِ راست انسانی نفسیات کو متاثر کیا ہے۔فنِ موسیقی ایک ایسا فن ہے جس میں بلا کی ہمہ گیریت ہے اور جس میں گہرائی اور گیرائی کے دونوں پہلو کار فرما ہیں۔ ارتقائی لحاظ سے اس فن کا سلسلہ لامتناہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس فن کی مختلف شکلوں میں نمو ہوتی آ رہی ہے،کبھی کلاسیکل شکل میں کبھی نیم کلاسیکل میں اور کبھی لوک موسیقی کی شکل میں اس فن نے تہذیب کی آبیاری کی ہے۔
اس مضمون میں موسیقی کی جملہ اقسام کی بجائے لوک موسیقی ہی دائرہ موضوع رہے گی۔ لوک موسیقی کیا ہے؟ اور کسی خطے کی مقامی تہذیب میں یہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔ نیز جنوبی پنچاب کے سرائیکی خطے کی لوک موسیقی اور لوک فنکا ر منصور علی ملنگی کے حوالے سے کچھ تاثرات پیش کیے جائیں گے۔
لوک موسیقی کا کسی بھی خطے کی مقامیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔لوک موسیقی ایسے گانوں ، ٹپوں، ماہیے اور دوہڑوں کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں مغنی اونچے سروں کو الاپتے ہوئے مقامی انداز میں لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ لوک موسیقی جس کا براہ راست تعلق مقامیت کے ساتھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں عوام کے ملے جلے جذبات کی چاشنی کار فرما ہوتی ہے اور اس میں مقامیت کا سوزو گداز رچا بسا ہوا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ لوک گیت بھولے بھالے دلوں سے نکلتے ہیں اس لیے اپنے اندر ایک دل آویز بھول پن اور معصومیت لیے ہوتے ہیں۔ان کا خالق کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ لوک موسیقی جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور یہ الہڑ چراواہوں، نوجوان گڈریوں، ستم زدہ کسانوں اور ساربانوں کی تخلیق ہوتی ہے اور یہ مقامی سطح پر پورے سماج کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس لیے صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کی کشش میں کبھی کمی نہیں آئی۔ لوک موسیقی کی شاعری میں عجز و انکسار، محبت و اخلاص اور رومانیت کا بھرپور اظہار نظر آتا ہے۔ جس میں سادہ لوح مقامی لوگوں کے خوشی اور غمی کے معصوم جذبات شامل ہوتے ہیں۔
ہر خطے کی لوک موسیقی وہاں کے مقامی کلچر کا آئینہ دار ہوتی ہے اور ہمارے ملک کے چاروں صوبوں بشمول کشمیر و گلگت کی لوک موسیقی نہ صرف ہماری تہذیب کی نمائندہ ہے بلکہ اپنے اندر لوک دھنوں کا عجیب طلسم باندھے ہوئے ہے۔ ہمارے ملک کے جنوبی خطے کی سرائیکی لوک موسیقی جس کے اندر سوز و گداز کا اثر انگیز رچاؤ ہے۔ جس میں رومانیت سے بھرپور تاثر بھی ہے اور ہجر و وصال سے لبریز تانیں بھی ہیں۔
سرائیکی لوک موسیقی ویسے تو کئی لوک فنکاروں کے ذریعے آگے بڑھتی رہی ہے۔ اس حوالے سے سب کا نام لینا مشکل ہو جائے گا اور مضمون میں بھی بے جا طوالت پیدا ہو جائے گی۔ لیکن اس خطے کے لوک موسیقی میں ایک نام ایسا بھی نظر آتا ہے جو سب ناموں سے منفرد نام ہے۔ وہ نام ہے منصور علی ملنگی کا۔
منصور علی ملنگی سرائیکی زبان کے وہ مغنی ہو گزرے ہیں جن کے گیت اور ماہیوں کے بول آج بھی سب چھوٹے بڑوں کی زبان پر زندہ ہیں۔ ملنگی حقیقت میں سرائیکی لوک موسیقی کے نمائندہ فنکار تھے اور ایسے فنکار تھے جن کی آواز میں اس خطے کی مقامیت کا سوز و گداز چھلکتا تھا۔ بلاشبہ ملنگی نے سرائیکی لوک موسیقی کی ایسی شکل متعارف کروائی جس میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی دھنوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ اور ایسے سرائیکی لوک گیت پیش کیے جن میں سرائیکی خطے کی رومانیت سے لبریز دلشاد نظارے بھی ہیں اور عشقیہ داستانوں کی روایت بھی،ہجر وفراق میں ڈوبی ہوئی تانیں بھی ہیں اور خوشیوں سے بھر پور اڑانیں بھی، رِیت اور روایت کے حوالے بھی موجود ہیں اور علاقائی رسوم و رواج کی منظر کشی بھی۔ ملنگی ایک دوہڑے اور ماہیے میں ان خصوصیات کو اس طرح گا کر پیش کرتے ہیں:
دوہڑہ: ایں سال وی پورا وعدے دا، ناں آئیوں عید تے ھانڑِیں
اُتھ نویں کوئی سجنڑ بنڑا لے نی یا بھل گئی ہی سنگت پرُانڑِیں
میکوں کیوں پابند تا سیل کیتائی،جے تیں کوئی نائی توڑنبھانڑِیں
سال تو ں بعد تاں قبراں تے بندے تروک چھنڑیندن پانڑِیں
(اس بند میں جدائی کے جذبات کا ذکر ہے ، کہ اے میرے محبوب وعدے کے مطابق تو تم عید پہ نہیں آئے کیا وہاں پردیس دل کو بھا گیا ہے جو اپنے وسیب کے سبھی رشتوں کو بھلا دیا ہے یا میری محبت کو بھلا دیا ہے۔)
ماہیا: تارا گول ہوے
کعبے دا حج منیئم، متاں ملدا ڈھول ہوے
منصور ملنگی کا فن جس میں خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کی جو عکاسی ہے وہ دلوں کے تار چھیڑ دیتی ہے۔ اور سننے والوں کو سرشار کردیتی ہے۔ ان کا مشہورِ زمانہ گیت جو ان کی شہرت کا سبب بنا:
اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ گانا سدا بہار ہے ۔اس گانے کی دھن راگ بھیرویں میں ہے جو راگوں میں خود ایک سدا بہار راگ سمجھا جاتا ہے اور اس راگ کے اثر میں بلا کی لطافت موجود ہے۔ اس گانے کو ملنگی نے بڑے رچاؤ کے ساتھ نبھایا ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے یہ گانا ٹپے کی صورت میں ہے جس میں ’’نی اک پھل موتیے دامار کے جگا سونڑی اے‘‘والا مصرع ہر ٹپے کے آخر میں ٹیپ کے مصرعے کے طور پر ادا کیا گیا ہے۔
دراصل ملنگی سرائیکی لوک فنکاروں میں وہ واحد فنکار تھا جسے موسیقی کے مبادیات کا پورا ادراک حاصل تھا۔ جو بھی گانا پیش کرتا تھا اس کے راگ کے آہنگ کو خوب نبھاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی گائیکی میں’’ پکا گانا‘‘ کے آثار واضح نظر آتے تھے۔ یہی لوک فن کاروں میں ان کی انفرادیت تھی کہ ہر گانے کو اس کے راگ سے مربوط کر کے پیش کرتے تھے اور ایسا لوک فنکاروں میں کم دیکھنے میں ملتا ہے کہ وہ موسیقی کے قواعد و ضوابط کے ساتھ گانا پیش کریں۔ لیکن جب ہم ملنگی کے فن کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی گائکی کلاسیکل موسیقی کی جملہ خوبیوں سے مزین نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ گانے سے پہلے دوہڑا الاپتے ہیں تو اکثر تان، مرُکی یا زمزمہ کی زیادہ نہیں تو ہلکی پھلکی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔
گائیکی کے ساتھ اُنھیں سرائیکی زبان کی ادائیگی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ہر لفظ کو اس کی مکمل صحت کے ساتھ ادا کرتے تھے اور لفظوں کی ادائیگی میں اس قدر خیال رکھتے تھے کہ لفظ کی ادائیکی ان کے گلے سے پہلے نکلتی تھی جبکہ اس لفظ کےُ سر بعد میں، مطلب لفظ کی ادائیگی کو سر میں غائب نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر مصرع واضح اور صاف سمجھا جاتا تھا کبھی سرُوں یا سازوں کی آواز میں نہیں دبتا تھا۔مثال کے طور پر اُ ن کا ایک اور مشہور گانا:
اس گانے میںُ سر کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ لفظوں کی ادائیگی کا بھی پورا پورا التزام رکھا گیا ہے۔گانے کے ہر لفظ کو اس کی مکمل صحت کے ساتھ ادا کیا گیا ہے
ملنگی کی گائیگی کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ گانے کو پھیلا کر گاتے تھے۔یعنی گیت گاتے ہوئے اس میں گیت کے موضوع کی مناسبت سے دوہڑے اور ماہیوں کا ایک تسلسل قائم کر لیتے تھے۔ جس سے گیت، دوہڑے اور ماہیوں کے مابین گانے کے اختتام تک ایک موضوعاتی تسلسل قائم رہتا تھا۔ مثلاً گیت اگر ہجرو فراق کے موضوع پر ہے تو دوہڑے اور ماہیے میں بھی ہجرو فراق کی کیفیات نظر آتی تھیں۔ اس سے ایک موضوعاتی تسلسل قائم ہو جاتا تھا جو سامع کو گانے کے آغاز سے لے کر اختتام تک سحر میں جکڑے رہتا تھا۔ مثال کے طور پر:
اس گانے میں مکمل طور پر موضوعاتی تسلسل آغاز سے اختتام تک قائم رہتا ہے۔ ملنگی کو دوہڑے ماہیے کا شہنشاہ کہا جاتا تھا، حاضر جواب اور موقع شناس فنکا ر تھے۔ محفل میں گانے کے دوران موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوراً ماہیا بنا لیتے تھے۔ اس طرح کے فی البدیع ماہیے کاچلن ان کی گائیگی میں عام نظر آتا تھا، یہ بھی ان کی ایک فنکارانہ صلاحیت تھی۔
ملنگی کی آواز میں جو سووز و گداز تھایہی وجہ ہے کہ ان کے گائیکی میں جدائی اور ’’چاکِ گریباں‘‘ کی کیفیت زیادہ نظر آتی ہے۔جس سے ہجر و فراق کے مارے ہوئے عاشق کی فریاد سننے والے کی آنکھ کو بھی نم کر دیتی ہے۔ اور سامع دیر تک اس کیفیت میں ڈوبا رہتا ہے۔اس کی مثال ان کے گانے: [کڈنڑولسو سونڑاں سانولا،وطن ساڈے غریباں دے] میں زیادہ نظر آتی ہے۔ اس گانے میں منصور علی ملنگی کا صوتی لہجہ ہجرو فراق میں ڈوبا ہوا معلوم ہوتا ہے۔جس سے سامع کا دل مغموم اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
کچھ عرصہ ہوا منصور علی کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیے ہوئے ۔موت نے منصور علی کو تو لے لیا لیکن ’’ملنگی ‘‘آج بھی اپنے فن کے ذریعے زندہ ہے اور سرائیکی وسیب میں آج بھی ان کی آواز کُوک رہی ہے۔ منصور علی ملنگی کی گائیکی کو اگر علمِ موسیقی میں پرکھا جائے ان کی گائیکی میں بلا کی پختگی تھی۔ کچے سُر ان کی آواز میں کبھی ادا نہیں ہوئے۔ در حقیقت ملنگی ایک پکے گائیک کی جملہ خوبیوں سے مزین تھے۔ انھوں نے سرائیکی گیتوں اور سرائیکی غزلوں کو جس نزاکت اور نفاست کے ساتھ نبھایا ہے اس حوالے سے ان کا ہُنر بے مثال ٹھہرتا ہے۔ میں جب ان کی گائیکی اور زبان کی ادائیگی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو اردو غزل گائیکی میں مہدی حسن کا مقام ہے وہی مقام سرائیکی گائیکی میں منصور علی ملنگی کا ہے۔ فنی پختگی اور فنی نفاست کی بنا پر بے شک وہ سرائیکی گائیکی کے مہدی حسن تھے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.