
منٹو، ہم اور ہمارا عہد
از، از، ڈاکٹر اشرف لون، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
اگر یہ کہا جائے کہ یہ عہد سعادت حسن منٹو کا عہد ہے تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ آئے دن جس طرح معصوم لوگ مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس عہد ایک منٹو کی بہت ضرورت ہے۔ اتنی ضرورت جتنی شاید 1947 میں ہندوستان یا پاکستان کو بھی نہ تھی۔ وہی منٹو جو نہ صرف اردو، بل کہ دنیائے ادب کا بڑا افسانہ نگار ہے اور جس نے اپنے افسانوں میں نہ صرف مظلوم عورتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں، بل کہ ہندوستان کی تقسیم اور فساد پر شاہ کار افسانے لکھے اور ان افسانوں میں انسانی بہیمیت اور درندگی کے ہزار ہا چہرے نقش کیے۔ وہی منٹو جس نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کو شرم سار ہوتے دیکھا اور پھر اس شرم سار ہوتی ہوئی انسانیت کو نہ صرف اپنی کہانیوں میں قلم بند کی، بل کہ اس کی نکتہ چینی بھی کی۔ منٹو تو آج زندہ نہیں ہیں لیکن اس کی تحریریں نہ صرف آج زندہ ہیں اور پہلے سے زیادہ معنوِیّت رکھتی ہیں۔
مذہب کے نام پر لوگوں کا قتلِ عام اب معمول بن گیا ہے۔ اب معاشرے کے ہر فرد کو کسی دوسرے فرد کا مذہب ایک ناسور جیسے لگتا ہے اور وہ اس کو مٹانے پر تُل جاتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی نے اب پہلے سے زیادہ بھیانک شکل اختیار کی ہے، اور یہ شکل دن بہ دن اور بھیانک ہوتی جارہی ہے۔ فریقوں کا قتل اب قتل یا جرم نہیں، بل کہ ثواب کا کام جیسے لگنے لگا ہے۔ مذہب کی تعلیم کی تشریح کے اب نئے طریقوں نے جنم لیا ہے جس کے مطابق مختلف مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے یقینی دشمن قرار پاتے ہیں۔ اب جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنے مذہب کو اعلیٰ مانتا ہے اور دوسرے مذہب کو نیچا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، عراق، امریکہ، فرانس میں اب یہی ہو رہا ہے۔ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل ہو رہا ہے۔ جہاں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں مذہبی انتہا پسندی اور عدمِ رواداری کا ایک الگ رخ ہے جس میں اعتدال پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں وہیں امریکہ، فرانس، اور دوسرے یورپی ممالک میں مذہب کی توہین کر کے اس انتہا پسندی کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔
منٹو نے فسادات اور تقسیم پر بڑے کام یاب افسانے لکھے ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں فسادات اور تقسیم سے زیادہ فساد اور تقسیم کے ذمے دار انسانوں پر چوٹ کی ہے۔ اس مذہبی انتہا پسندی اور عدمِ رواداری پر چوٹ کی ہے جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا اور انسانوں کا خونِ ناحق بہایا۔ ”ٹھنڈا گوشت“ کہانی میں منٹو نے انسانی بہیمیت کی ایک انوکھی تصویر کَشی کی ہے اور ایسی تصویر کشی منٹو ہی کر سکتے تھے:
“کتنی سندر تھی… میں اسے بھی مار ڈالتا پر میں نے کہا، ”نہیں، ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔ ”… میں نے پتا پھینکا… لیکن… لیکن… ”…. ”وہ… وہ مری ہوئی لاش تھی… بالکل ٹھنڈا گوشت…۔”
اور اس طرح ایشر شنگھ ٹھنڈا گوشت کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے ارتقا میں نا مرد ہو جاتا ہے۔ اور پھر اپنی بیسوا سے قتل بھی ہو جاتا ہے۔ منٹو نے تو صرف ایک ایشر سنگھ کی کہانی بیان کی ہے اور منٹو کا ایشر سنگھ تو اقبالِ جرم بھی کرتا ہے، لیکن آج ہندوستان میں ہر طرف ایشر سنگھ ملیں گے اور جو اپنا اقبالِ جرم بھی نہیں کرتے، بل کہ الٹا اپنے گھناؤنے افعال پر فخر بھی کرتے ہیں۔ منٹو کے وقت میں قتل ہونے والے کو تو پتا تھا کہ کس لیے قتل ہو رہا ہوں اور لوگ کیوں قتل ہو رہے ہیں لیکن آج شاید ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی گئی ہے کہ نہ قاتل کو پتا ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ قتل ہونے والے کو پتا ہو گا کہ اس کا قتل کیوں ہوا۔ اسی لیے تو اکثر کہا جاتا ہے کہ آج منٹو کو دوسرے جنم میں آنا ہو گا اور آ بھی گیا تو اس کا رویہ کیا ہو گا۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
منٹو کے وقت میں بھی عورت کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں، عِصمتیں لٹیں، عورتوں کا قتل ہوا لیکن آج کی طرح ان مظالم کے ویڈیو نہیں بنائے گئے۔ آج مظالم اور انسانی درندگی نے نئی نئی شکلیں اختیار کی ہیں۔ فسادات اور تقسیم پر منٹو کی ایک اور کہانی”کھول دو“ قابلِ ذکر ہے۔ بوڑھا سراجُ الدّین بٹوارے کے دوران میں اپنی بیٹی سکینہ کو کھو دیتا ہے اور اس کے ہوش و ہواس اڑ جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر سکینہ گئی کہاں۔ سراج الدین سکینہ کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کرتا ہے، لیکن ناکام ہو جاتا ہے اور بالآخر رضاکاروں سے اسے ڈھوندنے کے لیے کہتا ہے۔ رضاکار تو سکینہ کو ڈھونڈتے ہیں لیکن اس کو اپنی ہوَس کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہاں منٹو نے دکھایا ہے کہ کس طرح فسادات کے دوران میں انسان کی انسانیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایک درندہ بن جاتا ہے۔ منٹو نے اس درندگی اور سکینہ کے باپ کی بے چارگی کی عکّاسی آخر میں کچھ اس طرح کی ہے:
”ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا: ”کھڑکی کھول دو…۔”
مردہ جسم میں جُنبش ہوئی۔
بے جان ہاتھوں نے آزار بند کھولا، اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا: ”زندہ ہے۔ ۔ میری بیٹی زندہ ہے۔”
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔”
یہ جملے پڑھ کر نہ صرف ڈاکٹر، بل کہ ساری ا نسانیت پسینے میں غرق ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح گجرات اور مظفر نگر میں بھی انسانیت پسینے میں غرق ہو گئی، بل کہ پوری طرح انسانیت کا قتل ہو گیا جب درندہ صفت انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، عورتوں کی عِصمتیں لوٹیں۔ ”کھول دو“ کے رضاکاروں نے تو عصمت دری کے بعد سکینہ کو پھر بھی زندہ چھوڑا تھا، لیکن یہاں تو عِصمت دری کے بعد زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے اور کچھ کو زندہ جلا دیا گیا۔ یہ ایسے منظر تھے کہ جس کی منظر کَشی کرنے میں شاید منٹو کا قلم بھی کانپ اُٹھتا۔ لیکن پھر بھی اس وقت کو منٹو کی ضرورت ہے جو اس انسانیت سوز واقعے کو اپنی کہانی کا موضوع بنائے۔ منٹو کے ہندوستان اور پاکستان میں آج ہزاروں سکینائیں ہیں، لیکن بس صرف نہیں ہے تو اُن کے درد و کَسک کی کہانی لکھنے والا منٹو۔
منٹو نے مذہب کا مذاق کبھی نہیں اڑایا لیکن ظاہر پرست مولویوں اور مذہبی ٹھیکے داروں سے اُن کو بہت چِڑ تھی۔ جس طرح آج مذہب کے ٹھیکے دار معصوم لوگوں کا استِحصال کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر انتہا پسندی پھیلا رہے ہیں ویسے ہی منٹو کے عہد میں بھی تھا، لیکن اُس وقت منٹو جیسا نابغہ اس انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں تھا لیکن آج کوئی نہیں۔ ہاں کچھ کہانی کار تو ہیں لیکن یہ لوگ مذہبی انتہا پسندی مذمت کرنے سے زیادہ مذہب کی توہین کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہیں انسانیت سے زیادہ لگاؤ اپنی کتابوں کی فروخت سے اور پیسا کمانے سے ہے۔ اسی لیے یہ لوگ منٹو کا مقابلہ تو دور منٹوکے قد کے سامنے ٹک بھی نہیں سکتے۔
منٹو نے جہاں اپنی کہانیوں میں انسان کی بہیمیت اور درندگی کا چہرہ بھی دکھایا ہے وہیں انہوں نے انسان کی ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت کو بھی دکھایا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مذہب کی ظاہر پرستی اور مذہبی انتہا پسندی پر بھی تیکھا وار کیا ہے۔ ”موذیل“ منٹو کا ایسا ہی ایک افسانہ ہے جس میں انہوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی محبت کو دکھایا ہے وہیں مذہب کے نام پر انسان کس طرح انسان کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے اس حقیقت کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ افسانے میں منٹو کے خیالات کی عکاسی ’موذیل‘ کردار سے ہوئی ہے جو ترلوچن سے تو بہت محبت کرتی ہے لیکن اس کی ظاہری مذ ہب پرستی سے بہت نفرت کرتی ہے۔ شاید یہ نفرت اس وجہ سے ہے کیوں کہ موذیل نے مذہب یا مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے تقسیم و فسادات کے دوران میں لوگوں کو مرتے مارتے دیکھا ہے۔ اس نے بے قصوروں اور معصوموں کا خون بہتے دیکھا ہے۔ اور آج تو ہزاروں میں موذیل جیسے کردار ہمارے آس پاس ہیں جو اپنے دوستوں کے لیے جان دیتی ہیں اور جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے دیکھا۔ شاید ان موذیلوں کو اپنی کہانیوں سنانے کے لیے کسی منٹو کا انتظار ہے اور یہ بوجھ وہ کئی دہائیوں سے اپنے سینے پر لیے بیٹھی ہیں۔ یہ موذیلیں بغداد، بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان، برما ہر جگہ موجود ہیں۔
”موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو اک دل فریب جھٹکا دیا۔ تم شیو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑو تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوب صورت ہو۔ ”
موذیل فساد کے دوران میں کرپال کور کو بچا لیتی ہے، لیکن خود موت کے مُنھ میں چلی جاتی ہے۔ مرتے مرتے اس کے یہ جملے اس کی مذہب بے زاری کو سامنے لاتے ہیں:
”موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔ ۔ ’لے جاؤ اس کو۔ ۔ ۔ اپنے اس مذہب کو۔”
موذیل کو در اصل مذہب کے ظاہری نشانات سے نفرت ہے۔ اسے ظاہر پرستی سے نفرت ہے اور ترلوچن کے بالوں اور پگڑی سے نفرت ہے نہ کہ ترلوچن سے۔
مذہب کے نام پر آج پہلے سے زیادہ خون خرابہ ہو رہا ہے۔ لیکن آج کا انسان اب اس خون خرابے کا اتنا عادی ہو گیا ہے کہ اسے اب یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے آس پاس کتنے لوگ مر رہے ہیں۔ شاید وہ بے حس ہو گیا ہے۔ آئے دن بچے، عورتوں، بزرگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ دائش، بوکوحرام، تحریکِ طالبان پاکستان، ہندتوا جیسی تنطیموں نے مذہب کی اپنی اپنی خود ساختہ تشریحیں اور تعبیریں پیش کی ہیں۔ اور ان تشریحوں کے مطابق مخالف فرقے یا اختلاف رائے والے لوگوں کی سزا صرف موت ہو سکتی ہے۔
یہ تنظیمیں مکالمہ کرنے میں یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان کے پاس مکالمہ کرنے کے لیے کچھ ہے۔ ان کا کام صرف قتل و غارت گری ہے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری کرنا ہے کہ کوئی بھی مذہب خون خرابے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن انسان ابتدا ہی سے مذہب کی غلط تعبیر پیش کر کے اسے اپنے مفاد اور معصوم عوام کے استِحصال کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور یہ استحصال برابر آج تک جاری ہے، لیکن آج نہیں ہے تو وہ ہے منٹو جو مذہب کی اس غلط تعبیر کے خلاف اپنا قلم چلاتا۔