منٹو پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا

picture of author
زمرد مغل

منٹو پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا

از، زمرد مغل

منٹو جیسے عظیم افسانہ نگار پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا۔

اگر آپ نوازالدین کے فین ہیں تو اس فلم کو ضرور دیکھیں اور اگر آپ رسیکا دگل کے فین نہیں ہیں تو اس فلم کو ضرور دیکھیں۔ نواز اور رسیکا نے اس فلم میں کمال کیا ہے۔ اور اگر منٹو کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس فلم کو نہ دیکھیں آپ کے پیسے اوروقت برباد ہو گا۔ نندیتا کی تعریف کرنی ہو گی کہ ستر سال پہلے کی دنیا کو بڑی خوب صورتی سے دکھایا ہے۔ پرانی عمارتیں، گاڑیاں، بازار پارٹیاں سب کچھ بہت اچھا ہے۔ لیکن نندیتا بہت کچھ جلدی جلدی دکھانے کے چکر میں کہانی پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کر پائیں۔

انٹرول سے پہلے تو ایسا لگا کہ ہم منٹو پر کوئی دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔ ہاں انٹرول کے بعد فلم پہلے ہاف کے مقابلے میں کچھ بہتر ہے۔ فلم دیکھنے والے بھی سنیما گھروں میں بہت زیادہ نہیں پہنچ رہے ہیں۔ وہی لوگ فلم دیکھنے جا رہے ہیں جنہوں نے منٹو کا نام پہلے سے سن رکھا ہے، یا منٹو کو پڑھا ہے۔

یہ جو دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اسی بہانے منٹو زیادہ لوگوں تک پہنچے گا تو عرض کرتا چلوں کہ منٹو انہی تک پہنچا ہے جہاں منٹو پہلے سے موجود تھا۔ ویسے منٹو کہاں موجود نہیں تھا جہاں جہاں ادب کو پسند کرنے اور پڑھنے والے موجود ہیں منٹو وہاں وہاں موجود ہے۔

اس فلم میں آزادی اور بٹوارے سے کچھ سال پہلے منٹو کی ممبئی کی زندگی اور پھر منٹو کے پاکستان چلے جانے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ بیچ بیچ میں منٹو کی کچھ کہانیوں کو ذکر بھی ہوتا ہے جن پر مقدمے چلے۔ جیسے ٹھنڈا گوشت افسانے اور اس پر چلے مقدمے کو اس فلم میں دکھایا گیا۔ یہاں ایسا لگا کہ نندیتا بہت جلدی میں ہیں اور اس پر سے سرسری گزر جانا چاہتی ہیں۔

فلم میں نواز اور رسیکا دگل ہی دو ایسے کردار ہیں جن کو نندیتا ابھارنے میں کچھ حد تک کام یاب ہوئی ہیں۔ مجھے ہندی سنیما کے بڑی ستارے عرفان خان یاد آئے کہ 2016 میں میری دِلّی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ ہم ہوٹل لی میریڈین میں بیٹھے تھے۔ ہمارے ساتھ اس ٹیبل پر پاکستان سے تشریف لائے سرمد سلطان کھوسٹ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرا تعارف کروائیے۔ میں نے عرفان خان سے کہا یہ سرمد ہیں۔ انہوں نے منٹو پر فلم بنائی ہے۔

عرفان نے سرمد سے ہاتھ ملایا اور کہا بہت خراب فلم بنائی ہے آپ نے۔ یہ یاد رہے کہ اس وقت تک ہندوستان میں یہ بات کافی حد تک مشہور ہوگئی تھی کہ نندیتا منٹو پر جو فلم بنا رہی ہیں اس میں منٹو کا کردار عرفان ادا کریں گے۔

منٹو پر جب بات اور آگے بڑھی تو عرفان خان نے کہا کہ منٹو پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا۔ اس عظیم افسانہ نگار پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتی اور اگر فلم بنتی ہے تو منٹو کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے گی۔ یہی ہوا بھی۔ نندیتا داس نے اس فلم کو بنانے میں چھ سال محنت کی۔ اس کی پروموشن کے لیے وہ سب کیا جو کوئی بھی اپنی فلم کی مارکیٹنگ کے لیے کرتا۔

وائیات رَیپ سونگ، منٹو کی کہانیوں کی کتاب انگریزی اور ہندی میں شائع کی جس پر سےمنٹو کی تصویرغائب تھی؛ اور اس کی جگہ نواز الدین کی تصویر تھی۔ فلم کی پروموشن کے طور طریقوں پر اگر دھیان دیں تو ایسا لگتا ہے۔


مزید و متعلقہ: ایک ایکٹر، ایک ایکٹریس اور منٹو کی آنکھ  از، پرویز انجم


آپ منٹو کو نہیں نواز کو دکھانا چاہتی تھیں اور بڑی حد تک اس میں کام یاب رہیں۔ نواز اپنے اس کردار کے لیے یاد رکھے جائیں گے اور آپ اس لیے یاد رہیں گے۔ بہ ہر حال آپ نے ہمت تو کی منٹو پر فلم بنانے کی۔ منٹو کو آپ نے جو دکھایا وہ بس اتنا ہے کہ منٹو جو دیکھتا ہے وہی لکھتا ہے۔ اپنے آس پاس جو ہو رہا ہے اسی کو منٹو اپنی کہانیوں میں پیش کرتا رہا۔

اگر ایسا ہے تو منٹو کہانی نہیں خبر یا واقعے کا ذکر کر رہا تھا۔ منٹو نے جو یہ کہا کہ اگر میری کہانیاں نا قابلِ برداشت ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ زمانہ ہی نا قابلِ برداشت ہے۔ اصل میں مقصد قاری کا امتحان لینا تھا کہ وہ میری کہانی کو سمجھتا ہے یا پھر میرے اس بیان میں ہی کہانی تلاش کرتا ہے۔

نندیتا نے منٹو کی کہانیوں کو نہیں بَل کہ منٹو کے اس بیان کی روشنی میں منٹو کو سمجھا اور ہمیں دکھانے کی کوشش کی۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اس فلم کو ایک بار ضرور دیکھیں اور اگر آپ کے ذہن میں منٹو جیسے بڑے تخلیق کار پر مستقبل میں فلم بنانے کا ارادہ ہو تو اسے ابھی سے ترک کر سکیں۔