سانحہ مردان ، سوشل میڈیا اور سرکاری مشینری
(طارق ہاشمی)
بہت دنوں تک پریس کانفرنسوں میں لہو گرمایا جاتا رہا اور پھر مردان میں وہ حادثے رونما ہو گیاجس کا خدشہ بلکہ دھڑکا تھا۔ اگرچہ بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے مقتول کے حق میں کچھ نہیں کہنا۔ افسوس اس امر کا ہے کہ سرکاری مشینری کے پاس کوئی ایسی حکمت عملی نہیں ہے، جس سے بعض سماجی معاملات کو سمیٹا جا سکے یا فکری مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ سرکاری مشینری کے اہل کار خود کو سکرین پر رکھنے کے لیے یا مارکس سکورنگ کے لیے بعض ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے مسائل حل ہونے کے بجائے بعض نئے اور پہلے سے موجود مسائل سے زیادہ پیچیدہ مسائل جنم لے لیتے ہیں۔
سرکاری اشرافیہ کے اربابِ حل و نقد کا حال (جو کوئی نہیں) سمجھنے کے لیے بہت پہلے سے ہوئے ایک لطیفے کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ کہتے ہیں ایک شخص نے لوگوں کو بگلا پکڑنے کی ترکیب یہ بتائی کہ جب بگلا دھوپ میں کھڑا ہو تو اُس کے سر پہ موم رکھ دی جائے۔ یوں دھوپ کی وجہ سے جب کچھ دیر بعد موم پگھلے گی تو وہ اُس کی آنکھوں پہ آجائے گی جس سے بگلے کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ یوں اُسے بڑی آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ اس ترکیب کو سننے والوں میں کسی نے کہا کہ جب بگلے کے سرپر موم رکھنے جائیں تو اُسی وقت کیوں نہ پکڑ لیں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ اگر اس طرح پکڑ لیں گے تو پھر اُستادی تو نہ ہوئی ناں۔ہماری سرکاری اشرافیہ کی بھی یہی صورتِ حال ہے کہ وہ مسائل کے سامنے کے حل اور آسان حل کے بجائے استادیاں دکھانے کو ترجیح دیتی ہے اور کسی مسئلے کو بہت بڑا کر کے پیش کرنے کی عادی ہے۔
مردان میں ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا بہت منفرد واقعہ ہے اور اس کے پس منظر میں ایک خاص ذہن سازی کارفرما ہے جو گزشتہ چند ہفتوں سے ہو رہی تھی۔ میری مراد وہ مخصوص اسباب نہیں ہیں جن کا تعلق عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے معروضی حقائق سے ہے بلکہ وہ ذہن سازی ہے جو سرکاری اشرافیہ کے ذریعے میڈیا پر کی جا رہی تھی اور ہمارا میڈیا بھی ایک خاص مزاج رکھتا ہے جو کبھی شدت پسندوں کو نماز پڑھتے دکھاتا ہے توکبھی اُن کے انٹرویو نشر کرتا ہے۔ ہمارے میڈیا کا مزاج کیا ہے، اس کے لیے اُن کا خبروں کی ترسیل کا اسلوب بھی سمجھنا چاہیے۔ مثلاً امریکہ میں ایک خاتون جج کے قتل کی خبر ان الفاظ میں نشر کی گئی ’’امریکہ میں پہلی مسلمان خاتون جج کا قتل۔‘‘ اب میڈیا سے کون پوچھے کہ ایک دوسرے ملک میں ہونے والے قتل کے آپ کتنے اسباب جانتے ہیں اور اس خبر میں مقتولہ کے مذہب کا اعلان آپ کیوں کر رہے ہیں نیز اس رویے سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
سرکاری اشرافیہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے بعض حساس مسائل کو جس طرح پیش کیا، مردان میں ہونے والا واقعہ اُس کا منطقی نتیجہ ہے۔ سرکاری اشرافیہ نے اس مسئلے کے حل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی بجاے ایک عجیب تصادم آمیز ماحول بنا دیا گیا۔ نیز یہ دھمکی بھی دے دی گئی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا بندکردیاجائے گا۔
سوشل میڈیا پر کوئی قابلِ اعتراض مواد کی موجودگی کوئی تازہ ایشو نہیں ہے۔ بلکہ جب سے یہ میڈیا معرضِ وجود میں آیا ہے اس پر ہر طرح کا مواد اپ لوڈہوتا رہتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر مواد کی اپلوڈنگ اور ڈیلیٹنگ یعنی ہٹائے جانے کے عمل کا ایک ضابطہ اخلاق اور طریقہ کار بھی موجود ہے کہ سوشل میڈیا پر مواد کی اپلوڈنگ اس طرح نہیں ہوتی جیسے کسی چوک پر کسی بل بورڈ کا نصب ہونا یا بازاروں میں ناجائز تجاوزات، جنھیں ہٹانے کے لیے آپ متعلقہ لوگوں سے بات کرتے ہیں اور بعدازاں اُسے ہٹانے کے لیے کارروائی کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہر سیکنڈ میں لاکھوں تصاویر یا ویڈیوزاَپ لوڈ ہوتی ہیں اور انھیں میڈیا کی انتظامیہ اَپ لوڈ نہیں کرتی بلکہ استعمال کرنے والے کرتے ہیں۔ انتظامیہ نے البتہ ایک طریقہ کار ضرور دیا ہوا ہے۔ نہ صرف اپ لوڈ کرنے کے لیے بلکہ مواد کے ناظرین یا سامعین کے لیے بھی۔ اپ لوڈ ہونے والی تصویر یا ویڈیو کے بارے میں ایک پورا رپورٹنگ سسٹم موجود ہے۔ اور جب ناظرین و سامعین کسی مواد کے بارے میں منفی رائے دیتے ہیں تو وہ انتظامیہ اپنے ضابطۂ اخلاق کے مطابق اُسے خود ہی ہٹا دیتی ہے اور اِسے ہٹانے کے لیے ایک پورا میکنزم موجود ہے۔ لیکن ہماری اشرافیہ اس طریقۂ کار کو سمجھنے کے بجائے سفیروں کے اجلاس بلا رہی ہے۔ عالمی تنظیموں کو دعوت دے رہی ہے نیز آئے روز پریس کانفرنس کے ذریعے اس حساس مسئلے پر جذباتیت ابھار رہی ہے۔
ہماری اشرافیہ کو شاید انٹرنیٹ کے میکنزم یا ضابطۂ اخلاق کا پتا ہی نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں شاید گوگل یا دیگر سرچ انجنز کا سفارت خانوں کی طرح کوئی دفتر ہے جہاں احتجاج ریکارڈ کرا کے یا درخواست دے کے قابلِ اعتراض مواد کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ صورتِ حال اس سے قطعی مختلف ہے۔ انٹرنیٹ پر جن گستاخانہ خاکوں کے خلاف پاکستان میں احتجاج ہوئے اور اپنے ہی انفراسٹرکچر کی ہم نے اینٹ سے اینٹ بجا دی، وہ خاکے آج بھی موجود ہیں۔
ہماری سرکاری اشرافیہ کا ایک بڑا مسئلہ قانون سازی میں کمزوری بھی ہے۔ پاکستان میں نیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولت ایک عرصے سے ہے اور اس ملک کے لاکھوں شہری نیز ادارے اس سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن سائبرکرائم بل چند ماہ قبل پاس ہوا ہے اور اس بل کے پاس ہونے پر بھی بعض طبقات نے بڑی لے دے کی۔ اس طرح ملک میں دہشت گردی نے ادارے برباد کر دیے اور لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا لیکن قانون سازی کا عمل صفر ہے۔ نتیجتاً انصاف کا عمل عسکری اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اب اُن کو دوسری مدت کے لیے بھی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔
یوٹیوب پر جب قابلِ اعتراض فلم کو ہٹائے جانے کا معاملہ متعلقہ انتظامیہ کے آگے اٹھایا گیا تو اُن کا جواب یہی تھا کہ ہم یہ مواد آپ کے ملک کے کس قانون کے تحت ہٹادیں یا اسے اس خطے میں نہ دکھائیں اور یہ امر افسوس ناک تھا کہ اس حوالے سے ہم نے کوئی قانون نہیں تشکیل دیا ہوا تھا ، جس سے وہ ہماری درخواست پر غور کرتے۔
ہماری اشرافیہ کو اجلاس بلانے اور کمیٹیاں تشکیل دینے کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق عالمی سطح پر بھی کم نہیں لیکن کرنے والے کام کم ہی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اسلامی ممالک کی تنظیم یہ کیوں نہیں کرتی کہ مذہبی معاملات کے بارے میں قانون سازی یہ ممالک مشترکہ طور پر کریں۔ اگر تمام اسلامی ممالک ہیں تو مذہب اور اس کے مسائل بھی مشترکہ ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قوانین بھی مشترکہ ہونے چاہئیں اور اس میں خطوں کی امتیازی قانون سازی نہ ہو۔ لیکن ہم اگر مقامی سطح پر ہی قانون سازی میں اتنے کمزور ہیں تو عالمی سطح پر تو شاید پہاڑ ہم سے نہ ہی اٹھایا جائے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ سرکاری مشینری کی حکمت عملی میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ یعنی ایک طرف تو سربراہِ حکومت نئے بیانیے کی بات کریں اور اُس کے لیے علما کو درخواست کریں ،دوسری طرف اُسی حکومت کے اہم رکن ایک حساس مسئلے کو بار بار میڈیا پر آکر اس طرح اچھالیں کہ دھڑکا لگ جائے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے اور پھر واقعہ بھی ہو جائے تومتبادل بیانیے کی اُس حکمت عملی کا کیا بنے گا جو ایک بصیرت کے تحت دی جا رہی ہو۔
مردان میں ہونے والا واقعہ غیر معمولی بھی ہے اور حساس بھی ،نیزجو نئے حقائق سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں یہ ہمارے معاشرے کی نہایت بھیانک اور کراہت آمیز تصویر سامنے لاتا ہے اور اگر سرکاری مشینری کو مسائل کا ادراک نہیں ہے تو عالمی سطح پر ہماری یہی تصویر ہی زُوم کر کے دیکھی جاتی رہے گی۔
بہت خوب ہاشمی صاحب۔حکومت اور نام نہاد ملت اسلامیہ مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہی نہیں۔ سب بندر والی بھاگ دوڑ کرتے بس۔