مارگلہ کی پہاڑیاں
از، نصیر احمد
پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد کے شمال میں پہاڑیوں کا یہ سلسلہ حسن و جمال اور زینت و زیبائش کی وہ تربیت گاہ ہے جس سے اسلام آباد کے باشندے کچھ خاص سیکھتے نہیں۔ پہاڑیوں میں حسن کا تنوع شہر میں آ کر بدصورتی کی مختلف جہتوں کی شکل اختیار کر جاتا ہے جیسے برگد والے چشمے کا صاف شفاف پانی شہر میں گندے نالوں کی سنگت میں گدلا ہو جاتا ہے۔ شہریوں کی حس جمال فطرت کے حسن کی حفاظت کر سکتی ہے مگر خونی انقلابوں کے منتظر شہری حسن حیات سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
بات سیاسی ہو گئی ہے مگر ماحول کی حفاظت بہر ایک سیاسی ذمہ داری بھی ہے اور شہری تو سیاسی ہی ہوتے ہیں۔
خیر یہ پہاڑیاں سندر سکھیوں کی ان تصاویر کی طرح ہیں جن میں وہ سب گھلی ملی اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کے سنگ شاداں اور اپنے اور ایک دوسرے کے حسن پر نازاں۔ شاید یہ کچھ رومانوی سی بات لگے لیکن محبتیں اور قربتیں بھی فطرت کے حسن کی طرح نیا تخلیق کرنے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتی ہیں اور ان صلاحیتوں کے اظہار بھی کر دیتی ہیں۔ اور پھر انسان فطرت میں اپنی آرزوئیں اور امنگیں تو دیکھتے ہی ہیں۔ اگر آپ کسی اردو اخبار میں حکمرانوں کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں تو شاید آپ کو ان پہاڑیوں میں ازمنہ قدیم کے دلاور بھی نظر آسکتے ہیں جن کی اخباری شکلیں عصر حاضر کے حکمرانوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ اگر آپ کسی تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں تو شاید یہ پہاڑیاں آپ کو دہشت ناک ڈائینیں لگیں جو آپ کے کاروباری مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہیں۔
خیر یہ حوصلوں کو آزمانے والی بلند پہاڑیاں بن بتائے اچانک اوپر اٹھتی جاتی ہیں جیسے اچانک کسی فلک پیما یا کسی دانا سے ملاقات ہو جائے۔ اور وہی ہوتا ہے جو کسی دانا یا فلک پیما سے ملاقات کے بعد ہوتا ہے۔ یا تو آپ حوصلہ ہار کر دانا یا فلک پیما پر الزام دھرتے ہوئے اپنا سفر ملتوی کر دیتے ہیں یا آپ دانائی سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔ اور وہ مقام آ جاتے ہیں جہاں پہاڑیاں آسمان کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں اور جہاں دانا اور فلک پیما آپ کی دل داری کرتے ہیں لیکن منزلوں کی دوری آپ کے سامنے بھی ایک مستقل سوال بن کر آپ کو ستاتی رہتی ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے مسئلے کو معطل اور منسوخ کرنے کے بجائے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی سعی کی جائے تو شاید کوئی اپائے مل ہی جائے۔
ان پہاڑیوں میں پتھروں سے بنے ہوئی کئی راستے ہیں جو قلہ کوہ تک آپ کو لے جائیں گے۔ پھلاہی، دھمن، گرنڈا، سنتھا، تھمر، شہتوت، چیڑ، پٹاکی سمیت درختوں اور جھاڑیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ کو جمادات و نباتات سے دل چسپی ہے تو آپ حیرت نظارہ اور رعنائیوں سے بہت زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اور اگر آپ صرف بندہ مومن ہیں تو تھوڑی سی اچھل کود کے بعد وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل بلند کر کے بھی خوش ہو سکتے ہیں۔
پھر پرندوں کا بھی اک جہان ہے۔ بلبلیں، کالے تیتر، فاختائیں، رنگ برنگی چڑیاں، لمبی دم والے پرندے، زریں مرغوں کے جوڑے ، روبنز، اور وہ پرندہ جس کی آواز ہتھوڑے اور پن چکی کی آوازوں کا شاندار امتزاج ہے، ان پہاڑیوں پر زندگی کی پروازوں اور زندگی کے نغموں کے مختلف انداز آپ کے سامنے مسلسل پیش کرتے رہتے ہیں۔
شام ڈھلے لوٹتے وقت کبھی جہاں چوہے بھی نظر آ جاتے ہیں اور کبھی کبھار خنزیر بھی۔ پھر ہوائیں زلفوں، داڑھیوں، درختوں کی شاخوں اور پتوں کے ساتھ وہ تخلیق تجربے کرتی ہیں کہ زلف برباد مدہ تا ندہی بربادم اور درخت بھی حسین سے حسین تر ہوتے جاتے ہیں۔
ہاں کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ جو سنبھالی نہ جا سکے اتنی بڑی داڑھی اگانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر چشموں کا بہتا پانی کسی بہت ہی شاندار موسیقار کی طرح ہر ساز کی انفرادیت بھی برقرار رکھتا ہے اور اجتماعیت کا حسن بھی ضیاع نہیں ہونے دیتا۔ حسن فطرت کا یہ شاندار شاہکار پہاڑ آپ کے گہرے خیالات، گہرے جذبات اور گہرے احسات کو سنبھالتے بھی اور ان کی نشو ونما بھی کرتے ہیں۔
پھر اعلٰی حضرت انسان کی بھی بے شمار قسموں سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے۔ تسبیح و درود میں مصروف قدرت الہی کے ہمہ وقت مدحت کرنے والے دین دار بھی ملتے ہیں جن کے سلام کی طوالت ہانپتے ہوئے سانسوں کی درستی بھی آزمائش بنا دیتی ہے۔ پردوں میں ملفوف خواتین جن کے پاس سے گزرتے ہوئے آپ بے وجہ ہی احساس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ڈھونگ ڈھکوسلوں سے بے نیاز دعوت پارسائی دیتی لڑکیاں۔
شلوار قمیص کی عظمتوں کے گن گاتے دیہاتی اور جمع، تفریق ، ضرب اور تقسیم کی حکمتوں کے مسافر کاروباری بھی۔ اور مشکوک سے مولوی جن کی کوہ پیمائی اسلام آباد کے مستقبل کے بارے میں پریشانیاں لاحق کر دیتی ہے۔ سلسلہ کوہسار کا حسن برباد کرتے شہریوں سے اکثر ملاقات ہوتی ہے اور ماحول کے تحفظ میں مصروف اکا دکا اچھے لوگ بھی مل جاتے ہیں۔ بکروں اور بکریوں کی طرح پہاڑیوں پر چڑھتے صحتمند بوڑھے جن کی چستی جوانوں کو جوانیاں اکارت کرنے پر طعنے دیتی رہتی ہے۔ نوجوان طالب علم جن کی بے ترتیب پھرتیاں نوجوان چڑوں اور چڑیوں کی پروازوں کی نقالی کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ سرکاری سپاہی جو جان بوجھ کر لوگوں کو تنگ کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔
کبھی مارڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں، کبھی درندوں سے ڈراتے ہیں اور کبھی شناخت ناموں کی پیچیدگیوں میں الجھا دیتے ہیں۔ خواتین کی بھی خاصی تعداد ہوتی ہے اور اچھی بات یہ ہے خواتین کو ان پہاڑیوں پر ہم نے کسی کو تنگ کرتے نہیں دیکھا۔کھانے پینے اور گانے کے شوقین نوجوانوں کی ٹولیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ طرح طرح کے خاندان بھی جو اپنی مصروف زندگیوں کو سیر کوہسار سے راحت و مسرت کے سہارے دیتے ہیں۔اور عشاق کرام کے جوڑے بھی رازو نیاز میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔خیر اب زمانہ بدل گیا ہے، اب تو بلند آوازوں میں نئی نئی مصنوعات کے بارے میں معلومات کے تبادلے کیے جاتے ہیں۔
ہم اس معاملے میں ذرا پرانے خیالات رکھتے ہیں۔ ہم تو ان کوہساروں میں آپ کے حسن کے ہزار ہا ہزار ہا زاویے ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ پتھروں میں آپ کی نخوت، سبزے کے سلسلوں میں آپ کا لطف و کرم، پرندوں کی پروازوں میں آپ کی ادائیں، بادلوں میں شمعیں جلاتے سورج میں آپ کی ذہانت ذکاوت بہتے پانی میں زندگی سے آپ کی وابستگی، چاندنی میں آپ کی تسلیاں، بارشوں میں آپ کی گریہ و زاری، ارد گرد پھیلی ہوئی سرخیوں میں آپ کے تمتماتے گال اور نہ جانے کیا کیا۔ اس سے پہلے ہمارے خیالات کچھ آوارہ ہوں، یہ سلسلہ ہی بند کر دیتے ہیں۔لیکن ایک بات کہے دیتے ہیں کہ جب بھی کسی خنزیر سے پالا پڑتا ہے، ہمیں اس میں رقیبان رو سیاہ کے عکس نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہم پچھلے تین سالوں سے ان پہاڑیوں کی پیمائی میں مبتلا ہیں۔ کبھی دوستوں کے ساتھ، کبھی کنبے والوں کے ساتھ اور کبھی تنہا۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ نیا ہی ہوتا ہے۔ فطرت سچی عاشقی کی طرح ہوتی ہے، ہر وقت نئے کے ساتھ تجربہ کاری کرتی رہتی ہے۔ فطرت سائنسی اور منطقی علم کی طرح بھی ہوتی ہے، ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا دریافت کرتی رہتی ہے۔ فطرت شاندار شاعری کی طرح بھی ہوتی ہے کبھی سجی سجائی غزلیں اور کبھی بے ترتیب جھاڑیوں کی طرح ارد گرد بکھرے شاعرانہ تاثرات۔فطرت دانائی کی بھی طرح بھی ہوتی ہے کہ بکھرے ہووں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے۔
فطرت سفاک بھی ہوتی ہے کہ جمے ہووں کو اکھاڑ دیتی ہے۔ سب سے بڑھ کر فطرت جمہوریت کی طرح بھی ہوتی ہے کہ زندگی کی کروڑوں جہتوں کو اپنے دامن میں نشو ونما کا موقع بھی دیتی ہے۔
شبان ہجراں کی درازی اور شجر ظلمت کے پھیلاؤ کے بہت سارے شکوے ہم نے اسی سلسلہ کوہسار میں سوچے ہیں اور ہمیں ارد گرد کے بلند ترین مقام سے کائنات کا جائزہ لینا بھی بہت اچھا لگتا ہے۔
مارگلہ کی پہاڑیوں سے وابستہ زندگی سے آشنائی کے لیے ہم اپنے کنبے والوں، اپنے دوستوں اور مارگلہ کے حسن کے انتہائی شکر گزار ہیں۔ یہ تحریر ہم اپنے ایک نوجوان دوست کے نام کرتے ہیں جو علم و ترقی جو ترقی اور انسانی بہبود کا بہت خواہشمند تھا۔ وہ کبھی کبھار ہمارے ساتھ ان پہاڑیوں پر آیا کرتا تھا ۔ یہ پہاڑیاں اس کے ولولوں اور جذبوں سے ہار جایا کرتی تھیں۔ عشق لا حاصل کے کوہسار بھی وہ عبور کر آیا تھا لیکن موت سے کوئی بھی نہیں جیت سکا، سو وہ بھی ہار گیا لیکن حوصلوں سے اس کی بھرپور زندگی کے ہمارے سنگ چند لمحے ہمارے اب بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حکومت ان کوہساروں پر عوام کو تنگ کرنے اور تکلیف دینے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ وہی سنگ دل حسیناؤں اور تنگ دل غنڈوں والی نخوت و نفرت جس سے شہر میں اکثر سامنا رہتا ہے، کبھی کبھی کوہساروں پر بھی آ دھمکتی ہے۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان پہاڑیوں پر جاتی ہے، اس کے حوالے سے حکومتی انتظامات میں بہتری کی ضرورت ہے۔ اور شہریوں کو بھی ان پہاڑیوں کو ورزش و تفریح کے علاوہ ان کی جمالیاتی اور ماحولیاتی افادیت اور ضرورت کا احساس کرنا چاہیے اور ان پہاڑیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔