مریخ کے کینچوے اور ہماری زمین کی زرخیزی
از، ملک تنویر احمد
مغرب سے خبر آئی ہے کہ ماہرین نے کھیتوں اور فصلوں کے لیے مفید سمجھے جانے والے کینچوؤں کی مریخ کی مٹی میں افزائش میں کامیابی حاصل کر لی ہے جس سے سرخ سیارے پر کھیتی باڑی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اگرچہ عام افراد ان کینچوؤں کو ناپسندیدہ حشرات الارض سمجھتے ہیں تاہم زمین کی زرخیزی کے لیے یہ بہت کارآمد ہوتے ہیں اور ہمارے ایکو سسٹم کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
اہلِ مغرب کو اس کامیابی پر شاداں و فرحاں ہونے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ زمین نامی سیارے سے ہزاروں لاکھوں میل کی مسافت پر اپنے مدار میں گھومنے والے مریخ نامی سیارے پر ان کینچوؤں کی افزائش میں یہ فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے جو زمین میں بوے جانے والے بیج کو لہلہاتی فصلوں میں بدلنے کے لیے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
اہل مغرب جہاں اس کامیابی کا جشن منانے میں حق بجانب ہیں وہیں پر مشرق کی سر زمین پر واقع پاکستان نامی خطہ ارض پر کچھ خاص انسانوں کی افزائش کامیابی سے جاری ہے جو ملک میں بنیاد پرستی، مذہبی جنونیت، انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی کے بیجوں کی افزائش میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں البتہ ایسے کینچوؤں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور نا ہے خاص ضرورت۔ ہم اپنے چنیدہ انسانوں میں سے ہی زرخیزی کے امکانات نکال لیتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی افزائش چار عشروں سے جاری و ساری ہے جس میں تازہ تازہ اضافہ ان صاحبانِ جبہ و دستار کا اسلام آباد پر دھاوا بولنا تھا جن کے انداز تخاطب اور طرز تکلم سے ایسے “موتی و جواہر” جھڑتے ہیں کہ انسان ان گرمی گفتار اور شعلہ فشانی پر عش عش کر اٹھے۔
ان انسانوں کی افزائش کے لیے پاکستان نامی سرزمین بڑی سازگار ہے کیونکہ ذہن سطحی اور جذباتی نظریات سے ایسے مرعوب و ماؤف ہو چکے ہیں کہ کسی دلیل، منطق اور علمی انداز فکر کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان ذہنوں کو چھو کر نہیں گزرا۔
اس ملک کے بانیان نے جب پاکستان نامی کھیت تیار کیا تو ان کے اذہان میں ایک روشن خیال اور جمہوری پاکستان کے اعلیٰ آدرش اور تصورات تھے جس میں مذہبی رواداری اور تحمل و برداشت کے ایسے بیج بونے تھے جس سے ایک ایسے سماج کی فصل کاٹنی تھی جو مذہبی ومسلکی گھٹن و جنونیت کے کیڑوں مکوڑوں اور سنڈیوں کے حملوں سے پاک ہوتی۔ بابائے قوم کا دستور ساز اسمبلی سے گیارہ اگست 1947 کا خطاب ایک ایسے سماج کی تشکیل کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے جس میں مذہبی تفریق سماج کو تقسیم کرنے کی بجائے مذہبی رواداری سماج کو اپنے تمام تر لسانی و ثقافتی تنوع کے ساتھ ایک یک رنگی پاکستانی قومیت میں ڈھالتی۔ تاہم ایسا سماج تشکیل دینے کی بجائے ایسے انسانوں کی ایک ایسی نسل کی افزائش کی گئی جو انتہا پسندی و جنونیت کی فصل کاٹنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ان کی افزائش کے لیے ایک ایسا ایکو سسٹم تیار کیا گیا جس میں انہیں سازگار حالات بہم میسر کیے جاتےہیں۔ ان خاص انسانوں کی مدد سے اس ملک کے اجتماعی شعور و دانش کے کھیت کے اردگرد ایسی باڑ کو پروان چڑھایا جاتا ہے کہ یہ باڑ ہی کھیت کو بنجر و ویران کر ڈالتی ہے۔ ان خاص انسانوں کی مدد سے کبھی پارلیمان کو پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش کا مظہر ہے اسے بے توقیر کیا جاتا ہے اور اس پر یہ ٹڈی دل فوج کی طرح حملہ اور ہوتے ہیں تو کبھی جمہور کی آواز کو دبانے کے لیے تقدیس کے نام نہاد پیکر اس نظام کو ہی سرے سے خلاف شرع قرار دے ڈالتے ہیں۔
اہل مغرب کے نزدیک فصلوں کی افزائش کے لیے استعمال ہونے والے وہ حشرات الارض ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں لیکن کائنات کی اعلیٰ و ارفع قوتوں کو ان کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ فصلوں کی بڑھوتری کے لیے کارامد ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں پائے جانے والے خاص انسان بھی عوام کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ آج تک انہیں جمہوری طریقے سے قبولیت عام نہیں ملی اور ہر بار یہ خاص انسان انتخابی نتائج کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ عوام کے نزدیک یہ ناپسندیدہ و نامطلوب مخلوق ہیں۔ لیکن اس ملک کی “اعلیٰ و ارفع” قوتوں کو ان کی افادیت سے انکار نہیں اس لیے ان کی نگاہِ التفات ہر بار ان خاص انسانوں پر پڑتی ہے کہ کس طرح ان سے اپنے مطلوبہ مقاصد کی فصل اٹھانی ہے۔
اب دھرنے پر قاضی صاحب لاکھ چیختے چلاتے رہیں خاص انسانوں کی مدد سے پروان چڑھی گئی اتنشار و انارکی کی نئی دنیا تیار ہو چکی ہے۔