پہلے مجھے بھی مارشل لاء بھلا لگتا تھا
از، ظفر محمود
چند دن پہلے جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں مارشل لاء کی اچھائیاں بیان کیں۔ اُن کے بیان نے مجھے اپنے بچپن میں جنرل ایوب خان کا پہلا مارشل لاء یاد دلا دیا۔ عمر کم تھی مگر اب بھی یاد ہے کہ پورے بازار کی بے ہنگم دکانیں اور کھوکھے ایک ترتیب میں آ گئے۔ سب پر ہرا رنگ ہو گیا۔ داہنی طرف انقلاب زندہ باد لکھا گیا اور دوسری جانب ایوب خان کی تصویر بنا دی گئی۔ کھانے پینے کی اشیاء کے سامنے جالیاں لگوائی گئیں۔ یہ تبدیلیاں بہت بھلی لگی تھیں۔ عوام مارشل لاء حکومت سے بہت خوش تھے۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال جانے کے بعد فوجی پریڈ اور پی ٹی ہمارے معمولات کا حصہ بنی۔ ہمارے پرنسپل جے ڈی ایچ چیپ مین بھی برطانوی فوج میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اُن کی بلند و بالا فوجی شخصیت سے سب طالب علم مرعوب تھے۔ 1965ء میں ہندوستان سے جنگ شروع ہوئی تو فوج سے عقیدت عرو ج پر پہنچ گئی۔ جنگ کے دوران کدال سے خندق کھودنا اور رائفل چلانا سیکھی۔
بہت سے ہم جماعت اور دوست، فوجی افسران کے بیٹے تھے۔ کبھی کبھار اُن کے گھر جانے کا موقع ملتا۔ اُن کے رہن سہن، طرزِ زندگی اور والدین کے حسنِ سلوک کی خوبصورت یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ ایوب خان کے دور میں گندھارا موٹرز کا سکینڈل، تاشقند کا معاہدہ اور بھٹو کی حکومت سے علیحدگی اچھی نہ لگی‘ مگر فوجی حکمرانی کا مجموعی تاثر خراب نہ ہوا۔
یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر صوبائی حکومتوں کو بحال کیا تو ذہن کو ایک جھٹکا لگا۔ اُس وقت تک ون یونٹ کی خوبیاں ایک عقیدے کی طرح ذہن میں راسخ تھیں۔ 1970ء کا الیکشن، گورنمنٹ کالج لاہور میں ساتھی ہم جماعتوں اور اساتذہ کے ساتھ بحث مباحثے میں گزرا۔ ہوسٹل میں بہت سے بنگالی طالب علم بھی زیرِ تعلیم تھے جو بین الصوبائی تبادلے کے تحت مغربی پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
سیاسی شعور میں اُن کا نقطۂ نظر شامل ہوا تو ذہن کو مزید جھٹکے لگے۔ جب فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ درست قدم ہے۔ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی ایک ذہنی کرب میں گزری۔ سقوطِ ڈھاکہ پر سب افسردہ ہوئے مگر ہماری ماں کے آنسو کئی دن جاری رہے۔
ایک روز گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک صاحبِ فہم انگریزی کےپروفیسر، بشیر چشتی سے بات ہوئی۔ اُنہوں نے سمجھایا۔ کہنے لگے، جب سے انسان نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا شروع کیا ہے، اُس وقت سے (March of Civilization) یا سماجی ترقی کا ہر قدم ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ اِس ترقی کے عمل میں سماجی اقدار کو تحفظ ملا۔ روایات کی پاس داری ہونے لگی۔ قانونی ڈھانچہ وجود میں آیا۔ عدالتی نظام اُستوار ہوا۔ یہ سب ایک ہی راستے کی مختلف منازل ہیں۔
سب کا مقصد ایک تھا کہ معاشرے میں ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کی بجائے ایک سماجی سمجھوتے کے تحت، قانون اور آئین کے مطابق ملک کا نظام چلایا جائے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ جب کبھی فوج بزور طاقت حکومت سنبھالتی ہے تو سماجی ترقی کی راہ پر صدیوں کا سفر رائیگاں ہو جاتا ہے۔ جب طاقت سے حکومت پر قبضے کو، عدالت جائز قرار دے تو عام شہری کی سوچ بھی بدل جاتی ہے۔ دل میں قانون کا احترام کم ہو جاتا ہے۔ لوگ جائز اور ناجائز کو بھول کر صرف طاقت کا احترام کرتے ہیں۔
میرا سوال تھا کہ مارشل لاء کی حکومت میں قانون پر زیادہ سختی سے عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔ کیا اِس بنا پر قانون کی حکمرانی مضبوط نہیں ہوتی؟ اس کا جواب استادِ محترم نے کچھ یوں دیا۔ کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کا تعین کرنا ہو تو قانون پر عادتاً عمل کا جائزہ لو۔ اگر لوگ عادتاً قانون کا احترام کرتے ہوں تو ایمانداری کا رویہ تادیبی کارروائی کے ڈر اور خوف سے منسلک نہیں رہتا۔ لوگ باہمی حسن سلوک کی سماجی ذمہ داری کو دل سے قبول کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ فوج ملکی دفاع کے لحاظ سے قابلِ احترام مگر مارشل لاء ہمیشہ معاشرتی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا دعویٰ کہ ایشیائی ممالک نے فوجی حکمرانی کے ذریعے ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں، ایک غیر جانبدار تجزیے کا متقاضی ہے۔ ساؤتھ کوریا اور انڈونیشیا میں کئی دہائیوں تک فوج برسرِ اقتدار رہی۔ وہاں معاشی ترقی بھی ہوئی مگر کیا یہ مثالیں پاکستان پر منطبق ہوتی ہیں یا نہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ مجھے ساؤتھ کوریا کی معاشی ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کوریا کے چیمبر آف انڈسٹری کی میزبانی میں ہمیں مختلف صنعتوں کی ترقی سے روشناس کروایا گیا۔ ترقی کے اس دور میں امریکی فوجی اڈے ساؤتھ کوریا کی سرزمین پر قائم تھے‘ اور فوجی حکومت کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ سرمائے کا مکمل تحفظ اور پیداواری لاگت کی کمی، امریکی سرمایہ کاروں کو بھا گئی۔ امریکی ٹیکنالوجی کوریا منتقل ہوئی۔ ارتکازِ زر کی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت، مزدور اور کسان اس دور میں غریب سے غریب تر ہوتے گئے مگر صنعتی ترقی کی مضبوط بنیاد فراہم ہوئی۔ اِس دوران مزدوروں نے بارہا بغاوت کی جسے آہنی ہاتھوں سے کچل دیا گیا۔
1980ء میں گوانگ جو میں عوام فوج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تھانوں کا اسلحہ لوٹا گیا، 23 فوجی اور 4 افسر ہلاک ہو گئے۔ جواب میں فوج نے عوام پر گولی چلائی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔
اُن دنوں امریکہ ویت نام میں جنگ لڑ رہا تھا۔ ساؤتھ کوریا کے فوجی اِس جنگ میں امریکہ کے شریک بنے۔ 1964ء سے 1973ء کے درمیان ایک وقت میں تین لاکھ تک، ساؤتھ کورین فوجی ویت نام میں امریکہ کی جنگ لڑتے رہے۔ اُن کا خرچ امریکہ کے ذمے تھا۔
کوریا کا اپنا دفاعی بجٹ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کوریا کے وسائل صنعتی ترقی پر خرچ ہوتے تھے۔ کورین قوم ماضی میں اپنے ملک پر جاپانی قبضے سے بہت ناراض تھی۔ جاپان سے نفرت انتہا پر تھی، پھر بھی امریکی دباؤ پر ساؤتھ کوریا کی فوجی حکومت نے جاپان کے ساتھ ایسے معاہدے کیے جو عوام میں بہت غیر مقبول تھے۔ مگر مخالفت کچل دی گئی۔
ساؤتھ کوریا کی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے تھے۔ امریکی فوجی کورین لڑکیاں بغلوں میں دبائے چاروں طرف گھومتے نظر آتے، مگر کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اس بات پر احتجاج کرے۔ کوریا کا دفاع امریکہ کی ذمہ داری تھی۔ جب 1978ء میں جمی کارٹر امریکہ کا صدر بنا تو اُس نے پالیسی بنائی کہ بیرونِ ملک اڈے ختم کرکے امریکی فوجی اور سامانِ حرب واپس لے آئے گا۔ اِس اعلان سے کوریا کی فوجی حکومت پر لرزہ طاری ہو گیا‘ کیونکہ کوریا میں اُس وقت تک بندوق تو ایک طرف، اس میں استعمال ہونے والی گولی بنانے کا کارخانہ بھی موجود نہ تھا۔
ساؤتھ کوریا کی صنعتی ترقی کی مثال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا ایوبی دور میں ارتکازِ زر کی پالیسی ناکام نہیں ہوئی؟ کیا صنعتی مزدوروں کی اُجرت کو ساکت رکھا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان امریکہ سے ڈکٹیشن لے کر ہندوستان سے دوستی کر سکتا ہے؟ کیا جنوبی کوریا کی طرح پاکستان اپنے دفاع کی ذمہ داری کسی غیر ملکی فوج کے سپرد کر سکتا ہے؟ کیا ہم اپنی فوج کو کسی غیر کی جنگ لڑنے بیرونِ ملک بھیج سکتے ہیں؟
دوسری مثال انڈونیشیا کی ہو سکتی ہے، جہاں جنرل سہارتو کے اکتیس سالہ دورِ حکومت میں معاشی ترقی ہوئی۔ مگر جنرل سہارتو پر الزام ہے کہ اُنہوں نے حکومت حاصل کرنے کے لیے پانچ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کم از کم پندرہ لاکھ لوگ حوالۂ زندان کیے۔ 2009ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ دی کہ جنرل سہارتو نے پندرہ سے پینتیس ارب ڈالر کی کرپشن کی۔ انڈونیشیا کی مثال بھی گمراہ کن ہے کیونکہ نہ کبھی ہماری فوج نے حکومت حاصل کرنے کے لیے عوام پر گولی چلائی اور نہ کبھی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے قتلِ عام کیا۔ ایک عوامی فوج کی طرح وہ اپنی مقبولیت کے بارے میں ہمیشہ سے حساس رہی ہے۔
وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی فوج اور عوام کا مزاج ساؤتھ کوریا اور انڈونیشیا سے اتنا مختلف ہے کہ ہم اُن کی مثال کو نہ پہلے اپنا سکے اور نہ اب یہ غلطی کر سکتے ہیں۔ آج کل ہماری فوج کئی محاذوں پر برسرِ پیکار ہے۔ افسر اور جوان، ارضِ وطن پر اپنی جان نچھاور کر رہے ہیں۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس موقع پر فوج کے لیے عوامی حمایت اور تائید کتنی ضروری ہے۔ اِن حالات میں کوئی ایسا مشورہ جو فوج کو سیاست کے خارستان میں گھسیٹ کر عوام میں مُتنازع بنا دے، نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی فوج کے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.