مارشل لاء
از، نعیم بیگ
۔۔۔۔۔۔افسانہ “مارشل لاء “ نعیم بیگ کے پہلے اردو افسانوی مجموعہ ” یو۔ڈیم۔ سالا ” (اشاعت 2013) سے منتخب کیا گیا ہے۔ اس وقت افسانے کو ایک معروف روزنامہ نے ناقابل اشاعت قرار دیا تھا۔ بہ قول افسانہ نگار اس افسانے کے سب کردار تخلیق کردہ ہیں، کوئی موافقت محض حالات کی غُربت ہو گی۔ ۔۔۔۔۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ وہ اپریل 1983ء کے اوائل کی ایک یاد گار اور حیران کن شام تھی۔ میں اپنی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا، امنگیں نہ صرف جوان تھیں، بلکہ ان کے اندر پارہ نما پھیلاؤ اس قدر توانا اور غالب آ چکا تھا، کہ جہاں ذرا سی سہولت ملتی یہ پارہ اس طرف بہہ نکلتا۔
گریجویشن کرنے کے بعد میں نے چند دوستوں کے مشورے سے شام کے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔چونکہ وکیل بننے کی دھن سر پر سوار تھی، لہذا والدین نے بھی کوئی مدافعت نہ کی۔میں جب بھی وکیلوں کو کالا کوٹ پہنے سر راہ دیکھتا، ہمیشہ فلمی عدالتیں میرے چشمِ تصور سے ابھر کر حقیقت کا روپ دھار لیتیں۔جب انھیں عدالت کے سامنے جذباتی اور قانونی دلائل دیتے ہوئے دیکھتا، جہاں بالآخر جج صاحب یک جنبشِ قلم ایک فیصلہ سنا دیتے۔ ہیرو اور ہیروئین کا ملاپ ہوتا، ولن اپنے انجام کو پہنچتا اور سب راضی خوشی گھروں کو لوٹ جاتے۔ میرا وکیلوں کے بارے میں یہی دلکش تصور تھا۔ میری قانون اور قانونی بحث کے بارے میں اس سے زیادہ فہم نہ تھی۔اتنا ضرور سنا تھا کہ قانون پڑھنے سے قانون دان بننے تک کا طویل سفر انسان کو تھکا دیتا ہے، لیکن ہم تو تھے ہی خطروں کے کھلاڑی۔ ایک تو منہ زور جوانی ، دوسرے ترقی پسند خیالات نے بورژوائی طبقے کے خلاف دماغ کے اندر ایک تلاطم برپا کر رکھا تھا، جو تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔یہ طے تھا کہ کچھ نہ کچھ قانون پڑھنا ضرور ہے، سو اسی تناظر میں ایڈونچر کے طور پر لاء میں شام کے سیشن میں داخلہ لے لیا۔
وہ شام جس کا ذکر میں نے ابتدا میں کیا ہے، یہ وہی شام تھی، جب ہماری لاء کی پہلی کلاس ہونے جا رہی تھی۔ چونکہ کالج کے اوقات شام کے تھے ،لہذا مجھ جیسے بے شمار طالب علم وہی تھے، جو صبح کہیں نہ کہیں نوکری کرتے اور شام کو اپنی پڑھائی کا اہتمام کرتے۔ سہ پہر تین بجے کلاس کا وقت تھا۔ تقریباً پوری کلاس پونے تین بجے کے قریب لیکچر ہال میں جمع ہو چکی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں سنہ ۸۳.ء کا آغاز تھا اور پورے ملک میں مارشل لاء اپنے عروج پر تھا۔ خوف کی ایک لہر ہر وقت ماحول کو سوگوار رکھتی تھی۔دفتروں میں، کالجوں میں، اور تو اور گھروں میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ اِدھر آپ نے کوئی بات کی اُدھر آپ پر کوڑوں کی بارش ہوجائے گی۔
بہ ہر حال میں اپنی کلاس کی طرف آتا ہوں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سب طالب علم پونے تین بجے لیکچر ہال میں جمع ہو چکے تھے۔ تقریباً چالیس سے اوپر کی کلاس تو ہوگی۔ جب میں لیکچر ہال میں داخل ہوا تو پہلی نشستوں کی قطار میں چھ فوجی افسران اپنی فل یونیفارم میں ایک ساتھ پوری رَو کو سنبھالے بیٹھے تھے۔ ان کے برابر دوسری طرف کی قطار میں ایک نشست خالی تھی، سو میں فوراً موقعِ غنیمت جانتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا۔ کالج نیا نیا تعمیر ہوا تھا، لہذا اس کا لیکچر ہال ایک چھوٹے سائز کے تھیٹر ہال کی مانند تھا۔ سٹیج، روسٹرم اور بڑا سا دیواری بلیک بورڈ ہمارے سامنے قدرے بلندی پر تھا۔ اس طرح ہمارے پیچھے بیٹھنے والے طلبا اور طالبات قطار در قطار اوپر کی طرف بیٹھے تھے۔
خوش گوار حیرت تب ہوئی جب ہمارے کالج کے معروف اور قانون کی دنیا کی جانے پہچانے بیرسٹر امجد ملک ٹھیک تین بجے لیکچر ہال میں ہاتھ میں چند کاغذات تھامے داخل ہوئے۔ ان کے داخل ہوتے ہی تمام کلاس کھڑی ہو گئی۔ انھوں نے داخل ہوتے ہی وہ کاغذ سب سے پہلے نظر آنے والے طالب علم کو تھما دئیےِ اور حاضری کی ہدایت دیتے ہوئے تیز قدموں سے روسٹرم پر جا کھڑے ہوئے۔
روسٹرم کے پیچھے سے انھوں کلاس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو چند فوجی افسران کو مکمل یونیفارم میں بیٹھے دیکھ کر قدرے ٹھٹکے اور انگلش میں مخاطب ہوکر کلاس سے کہا، کہ اس سے پہلے میں اپنا لیکچر شروع کروں، چاہتا ہوں کہ سب طالب علم رسماً اپنا مختصر تعارف پیش کریں اور تعارف شروع کرنے کا اشارہ انھوں نے فوجی افسران کی طرف کر دیا۔ ان افسران میں چار جونئیر افسران تھے، دو سینئر رینک کے افسران تھے۔ شاید وہ ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت میں اپنا کیریر دیکھ رہے تھے۔
مزید دیکھیے: نعیم بیگ کی افسانوی دنیا از، دیپک بدکی
جب تعارف ختم ہوا تو بیرسٹر امجد ملک نے اپنا لیکچر شروع کیا۔ میرے لئے ، لیکن شاید ہم سب کے لئے پہلا اتفاق تھا، کہ ہم شائستہ اور روانی کے ساتھ انگریزی میں مکمل لیکچر سن رہے تھے۔ بیرسٹر امجد ملک نہایت زیرک قانون دان کی حیثیت سے ملک بھر میں مشہور تھے۔ انھوں نے جب کلاس میں بیٹھے فوجی افسران کو یونیفارم میں دیکھا، تو میرا خیال ہے کہ ان کی رگِ قانون پھڑک اٹھی ہو گی۔ ایک تو مارشل لاء کا زمانہ، دوسرے قانون کی کلاس، تیسرے فوج کے افسران کو یونیفارم میں طالب علم کی حیثیت سے اور چوتھے شاید دل کے کسی نہاں خانے میں مارشل لاء کے خلاف بھڑاس نکالنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع میسر نہ آتا۔ یہ سوچ کر انھوں نے آج اپنے لیکچر کا موضوع مارشل لاء کو جلی حروف میں بلیک بورڈ پر جا کر لکھ دیا۔
وضاحت انھوں نے یوں کی، کہ چونکہ آج آپ سب کی قانون کی پہلی کلاس ہے۔ قانون پڑھنے سے پہلے آپ کے لئے قانون کی بنیاد اور اساسی جوہر کو جاننا بہت ضروری ہے۔ کتنے قسم کے قانون ہوتے ہیں، میں آج تفصیل سے اس پر بات کروں گا اور اس بحث کو ہم مارشل لاء سے شروع کریں گے۔ پھر آہستہ آہستہ انھوں نے قانون کی بنیادیں مارشل لاء کی لاش پر کھڑی کرنا شروع کر دیں۔
انھوں نے رفتہ رفتہ مارشل لاء کے وہ پہلو جو حقیتاً اور عملاً فطری انصاف اور قانون کی نفی کرتے تھے، کو پوری طرح بے نقاب کردیا۔ دلائل کے دریا کیا بہہ رہے تھے، کہ فوجی افسران کے چہروں کے رنگ بدلنا شروع ہو گئے۔ قانونی نکات اور دلائل اس قدر بھرپور اور منطقی تھے، کہ کوئی ذی روح انسان معاشرے کے اندر رہنے کی تمنا کو دل میں لیے اِن سے روگردانی نہیں کر سکتا تھا۔ فطرت اور انسانی قوانین کا آپس میں ربط، انسان کی بہتری، تقدس اور ترقی کے عوامل کو لحظہ بہ لحظہ قانون کی چھتری تلے مارشل لاء کو روندتے ہوئے بیرسٹر صاحب اس موڑ پر آ نکلے، کہ بار بار پہلو بدلتے فوجی افسران کے لئے شاید مزید لیکچر سننا محال ہو گیا تھا۔ انھوں نے زندگی میں مارشل لاء کی اتنی تذلیل نہ دیکھی ہوگی۔
بالآخر ایک افسر نے کھڑے ہونے کی جسارت کر لی اور بیرسٹر صاحب کی طرف سوال کرنے کا اشارہ کیا۔ ہم سب نے مڑ کر فوجی افسر کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ تقریباً سرخ تھا، مجھے یقین ہے کہ اگر وہ بولتا تو اس کے الفاظ اس کا ساتھ نہ دیتے۔ غصے کی آندھی چہرے پر نمایاں تھی۔ ہم سب سہم سے گئے۔ میں نے تو چشمِ تصور میں بیرسٹر امجد ملک کو ننگ دھڑنگ ٹکٹکی پر بندھے سو کوڑے تک کھاتے دیکھ لیا تھا، لیکن انھوں نے جس جواں مردی کے ساتھ آج مارشل لاء کو لتاڑا تھا، کہ ہم سب بھی ان کے لیے سو سو کوڑے کھانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ یہ بات میری کلاس فیلو نیلم نے مجھے بعد میں بتائی۔
فوجی افسر کے کھڑے ہونے اور سوال کرنے کے اشارے پر ہال میں ایک سناٹا سا چھا گیا۔ بیرسٹر صاحب نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا، لیکن وہ بدستور کھڑے رہے، بلکہ ان کے ساتھ ایک دوسرا فوجی بھی جھٹکا لیکر کھڑے ہو گیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور صرف فائر کرنے کا آڈر دینا باقی ہے۔ اسی اثناء میں امجد ملک نے اپنی بات مکمل کی اور دھیرے سے روسٹرم کے پیچھے سے نکل کر سامنے آگئے اور کہنے لگے۔
“میں آپ کو بحیثیت پروفیسر حکم دیتا ہوں کہ تشریف رکھیں، لیکچر ختم کرنے کے بعد آپ کو سوال کرنے کا پورا حق دوں گا۔ ”
اتنے میں باہر کوریڈور میں گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی، لیکچر کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے فوجی افسران کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا سوال کرنا چاہتے ہیں؟
“دیکھئے! یہ قانون کی کلاس ہے، اور آپ قانون پڑھنے کے لئے آئے ہیں۔ آج ہم نے مارشل لاء کے خلاف قانونی دلائل دیے ہیں۔ کل میں مارشل لاء کی حمایت میں قانونی دلائل دوں گا اور اس میں آپ کو بھی زحمت دوں گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مارشل لاء ایک انسان دوست قانون ہے تو آپ اپنے دلائل میرے اور باقی طالب علموں کے سامنے رکھیے گا، یہ آپ کا قانونی حق ہے کہ دلائل میں آپ اپنی آواز اور نقطہ نظر ہم سب تک پہنچائیں۔”
یہ کہہ کر انھوں نے حاضری کے کاغذات سنبھالے اور حیرت زدہ کلاس سے باہر نکل گئے۔