مارکسزم یا “مارکسی” نیشنلزم؟
از، شاداب مرتضٰی
رفیق ذوالفقار علی ذلفی نے اپنے مضمون کے آخری حصے میں تمہید کے طور پر اپنا نکتہ نظر مزید وضاحت سے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم بلوچ تحریک سے درست واقفیت نہیں رکھتے اور اس کی جانب ہمارا رویہ مارکسی نہیں۔ پھر انہوں نے ہمیں بلوچ تحریک سے واقفیت فراہم کر کے بلوچ تحریک کے بارے میں اپنے “درمیانے” نکتہ نظر کو درست مارکسی نکتہ نظر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی درست فہمی کی سند کے طور پر انڈیا میں برطانوی راج کے خلاف فوجی بغاوت کے بارے میں مارکس کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ پہلے ہم اس معاملے کے “مارکسی” پہلو کو جانچ لیں تاکہ ایک “مارکسی” کی حیثیت سے معاملے کے بقیہ پہلو سمجھنے میں آسانی رہے۔
مارکس نے اپنے رفیق ویدمیئر کو 5 مارچ 1852 کو لکھے گئے خط میں بیان کیا کہ اس کی تھیوری یعنی “مارکسزم” کیا ہے۔ مارکس نے لکھا کہ:
“۔۔جدید معاشرے میں طبقوں یا ان طبقوں کے درمیان کشمکش کی موجودگی کی دریافت کا سہرا میرے سر نہیں جاتا۔ مجھ سے بہت پہلے سرمایہ دارانہ تاریخ دان اس طبقاتی کشمکش کے تاریخی ارتقاء کو اور سرمایہ دارانہ معیشت دان طبقاتی معیشت کو تفصیل سے بیان کرچکے تھے۔ جو نئی بات میں نے کی ہے وہ یہ ثابت کرنا ہے کہ:
ا۔ طبقوں کا وجود پیداوار کی ترقی میں مخصوص تاریخی مرحلے سے مشروط ہے۔
ب۔ طبقاتی جدوجہد لازمی طور پر “پرولتاریہ (مزدور طبقے) کی آمریت” کی جانب لے جاتی ہے۔
ج۔ کہ یہ آمریت بذات خود طبقوں کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی جانب منتقلی پر مشتمل ہے۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز کا نعرہ تھا: دنیا کے “مزدوروں” متحد ہو جاؤ!
چنانچہ، مارکس ازم کا مطلب پرولتاریہ کی آمریت یعنی مزدوروں کی حکومت قائم کر کے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کو ختم کرنا اور غیر طبقاتی معاشرہ تشکیل دینا ہے۔ سو، کسی بھی “مارکسی” کے “مارکسزم” کی اصل پہچان مزدور طبقے کے بارے میں اس کے خیالات اور مزدور طبقے کی جانب اس کے رویے سے ہوتی ہے۔ لہذا، آئیے مزدور طبقے کے بارے میں ہم “مارکسی” رفیق کامریڈ ذلفی کے خیالات سنیں۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
ا۔ بلوچ قومی مستقبل کو محنت کش کا کوئی وطن نہیں ہوتا جیسے دلکش نعروں پر برباد نہیں کیا جاسکتا۔
ب۔ یہ سوال بھی ہنوز تشنہ جواب ہے کہ ان کو (مزدوروں کو) کیسے روکا جائے؟ محض یہ کہہ دینا (کہ) وہ محنت کش ہیں انہیں (روزگار کی) آزادی دی جائے یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
ج۔ محنت کش ریاست کے استحصالی منصوبوں سے دور رہیں کیونکہ ایسے منصوبے ہمارے (بلوچ تحریک کے) نشانے پر ہیں.
د۔ جو بلوچ (مزدور) خود ان منصوبوں کا (ریاستی منصوبوں کا) حصہ بننا گوارہ نہیں کرتا وہ کسی اور (مزدور) کے لیے نرم گوشہ کیوں رکھے؟
ہ۔ کیا اپنے ہی طبقے (بلوچ مزدور) کے خلاف استعمال ہونے والے فرد کو (غیر بلوچ مزدور کو) محنت کش قرار دیا جاسکتا ہے
و۔ ریاست کے استحصالی منصوبوں سے ایک پوری قوم کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے کیا ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک محنت کش کا شعار ہوسکتا ہے؟
یہ ہیں مزدور طبقے کے بارے میں ہمارے عالم فاضل “مارکسی” رفیق ذوالفقار ذلفی کے خیالات! صاف ظاہر ہے کہ یہ مارکسزم نہیں نیشنل ازم ہے۔ یہ قوم پرست “مارکسزم” مارکسزم کی نظریاتی بنیاد کا مخالف ہے۔ یہ مارکسزم کے نام پر مارکسزم کے خلاف مارکسزم ہے۔ اس مارکسزم کے نزدیک قوم کا مفاد ہر حال میں مزدور طبقے پر مقدم ہے۔ اس کی ساری فکر اور جدوجہد کا محور اس کی “قوم” ہے اور دوسری قوموں کا مزدور طبقہ اس کا قومی دشمن ہے۔ اس مارکسزم کو اب بھی اگر کوئی مارکسزم سمجھنے پر بضد ہے تو ہم اسے نیشنلسٹ مارکسزم (قوم پرستانہ مارکسزم) کہہ کر اس کا دل بہلا سکتے ہیں۔ لیکن یہ مارکسزم کی انتہائی پست اور موقع پرستانہ ترمیم ہے۔
اب آتے ہیں “مارکسی” رفیق کامریڈ ذوالفقار ذلفی کی جانب سے پیش کی گئی مارکس کی سند کی طرف۔ رفیق ذلفی نے 16 ستمبر 1857 کو نیویارک ٹریبیون میں مارکس کے شائع شدہ مضمون کو سند کے طور پر یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہے کہ بلوچ نسل پرستوں کے ہاتھوں غیر بلوچ مزدوروں کا قتل مارکسزم کی رو سے جائز ہے۔ لیکن جو اقتباس انہوں نے پیش کیا ہے اس میں مارکس نے 1857 کی جنگِ آزادی میں برطانیہ کے خلاف انڈین سپاہیوں کی بغاوت اور اس بغاوت میں انڈین سپاہیوں کی جانب سے برطانوی فوج کے افسروں کے خلاف سنگین تشدد کے استعمال کو برطانیہ کی پرتشدد پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اگر بلوچ نسل پرستوں کو باغی انڈین سپاہی سمجھا جائے اور برطانیہ کو جابر پاکستانی ریاست تو ذوالفقار ذلفی کی فہم کے مطابق بلوچ نسل پرست پاکستان کے غیر بلوچ مزدوروں کو اس لیے قتل کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان مزدوروں کو پاکستانی فوج کے ظالم افسر سمجھتے ہیں! دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بغاوت کے بارے میں مارکس نے دو ماہ قبل جولائی 1857 کے مضمون میں یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ برطانوی راج کے خلاف اس بغاوت میں انڈیا کے ہندو، مسلم، سکھ سپاہی اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہوگئے تھے! تمام مظلوم ظالم کے خلاف متحد ہوگئے تھے۔ ملاء بھی قرآن کی آیات سے جو چاہیں مفہموم نکال لاتے ہیں۔ کامریڈ ذلفی نے بھی مارکس کی تحریر کے ساتھ بالکل یہی روش اختیار کی ہے۔ مارکسزم کی آڑ میں مارکسزم کے خلاف کام کرنے کا یہ ترمیم پرستانہ طریقہ کوئی نئی ترکیب نہیں ہے۔
کامریڈ ذلفی “بلوچ تحریک” یعنی بلوچستان کی پوری قومی تحریک کے نمائندے بن کر اس معاملے پر تحریک کا مطالبہ یہ بتاتے ہیں کہ:
“… محنت کش ریاست کے استحصالی منصوبوں سے دور رہیں کیونکہ ایسے منصوبے ہمارے نشانے پر ہیں.”
اس قومی تحریک کہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ:
“…بلوچ مسلح تنظیموں کا اعلان نامہ ان جدید استحصالی منصوبوں کے حوالے سے ہے جن پر اعتراض کرنے کی پاداش میں اکبر خان بگٹی تالہ بند تابوت کی شکل اختیار کرگئے…”
ان کے مطابق پوری بلوچ سیاست کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ریاست کے ہر استحصالی و نوآبادیاتی منصوبے کو ناکام بنانا ہےـ
سو اس وقت جاری بلوچ تحریک (چوتھی لہر) ریاست کے جبر کے خلاف بلوچستان کی آزادی یعنی علیحدگی کی قومی تحریک ہے جس کا آغاز اکبر بگٹی کے ریاستی قتل سے ہوا۔ لیکن پوری بلوچ تحریک کی “نمائندگی” کرتے ہوئے وہ غلطی سے ہمیں خود ہی یہ بھی بتادیتے ہیں کہ بلوچ تحریک میں صرف یہی ایک “متفقہ” رجحان نہیں جس کی وہ اپنی دانست میں “نمائندگی” کر رہے ہیں بلکہ اس کے عین مخالف ایک دوسرا رجحان (قومی/صوبائی خود مختاری) بھی موجود ہے۔ پاکستانی وفاق میں رہتے ہوئے بلوچستان کے مفادات کا تحفظ کرنے والوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ “…وہ سیاسی کارکن بھی زیرِ عتاب ہیں جو پاکستانی فریم ورک میں رہ کر بلوچ مفادات کے تحفظ پر یقین رکھتے ہیں.۔۔” سو بھلے ہی ان کی دانست میں بلوچ قومی تحریک کے بارے میں ہماری ناواقفیت زیادہ ہو لیکن اتنا تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ تحریک کے جس رجحان کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں وہ بلوچ تحریک کا واحد اور متفقہ رجحان نہیں ہے۔
اپنی اسی غلط فہمی کے سبب انہوں نے ہمیں لبرلوں کے استعمال کے لیے اس “کالے پروپیگنڈہ” کی ایجاد کا مرتکب قرار دیا ہے کہ “… بلوچ اپنے وطن میں غیر بلوچوں کے داخلے سے خوش نہیں ہیں اور وہ نسل پرست ذہنیت کے ساتھ محنت کشوں کو نشانہ بنارہے ہیں…” حالانکہ ہم نے پوری بلوچ قومی تحریک کی نہیں بلکہ صرف “نسل پرستوں” کی مذمت کی ہے۔ لیکن چونکہ ذلفی صاحب نسل پرستوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، لہذا، انہوں نے ہماری جانب سے استعمال کی جانے والی اس اصطلاح کو اپنے تئیں کھینچ کر اسے پوری بلوچ قومی تحریک پر خود منطبق کر کے موردِ الزام ہمیں ٹہرا دیا ہے۔
اپنی قوم پرستانہ فکر کو مارکسزم کے ذریعے درست ثابت کرنے کے کی خاطر وہ بلوچستان میں طبقاتی تقسیم کی موجودگی سے انکار کرنے کے لیے عام حقائق کو مسترد کردینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور یہ قطعی غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مزدور و محنت کش طبقہ قومی تحریک سے اس قدر متفق ہے کہ وہ ریاستی منصوبوں میں کام کرنے کے بجائے روزگار کے لیے دیارِ غیر کے صحراؤں کی خاک چھاننے کو ترجیح دیتا ہے۔ مزدوروں کو قتل کرنے سے قبل ان کی قومی شناخت کیوں چیک کی جاتی ہے، ان کو بلاامتیاز فائرنگ کا نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا، مزدوروں میں سے غیر بلوچ مزدور الگ کر کے قتل کیوں کیے جاتے ہیں، یہ معمے حل کرنے کے لیے شاید شرلاک ہومز کی سی ذہانت درکار ہے۔ اسی طرح ریاستی اداروں سے وابستہ بلوچوں کی موجودگی بھی ان کی اس صریح دروغ گوئی کو انگوٹھا چڑاتی نظر آتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ بے انتہا دلچسپ ہے۔ ذوالفقار ذلفی مزدوروں کو موردِ الزام ٹہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ “پیٹ کی آگ بجھانا ہر جاندار کی اولین ترجیح ہے مگر انسان (مزدور) چونکہ شعور رکھتا ہے اس لیے وہ اس آگ کے بجھانے کے راستوں پر بھی سوچ بچار کرتا ہے.”. ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا مزدوروں کے قاتل بے شعور ہیں اور آزادی حاصل کرنے کے راستوں پر سوچ بچار نہیں کرتے؟ ان پڑھ مفلس مزدور کے شعور کے مقابلے میں تعلیم یافتہ سیاسی لیڈروں کا شعور اتنا پست کیوں ہے؟ تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر باشعور افراد کے عمل کی ذمہ دار صرف ریاست کیوں ہے اور ان پڑھ، بے شعور اور قلاش مزدور اپنے شعور اور عمل کا خود قصوروار کس منطق کی رو سے ہے؟
پس منظر کا قصہ: ہم سے کہا جاتا ہے کہ واقعے کو پورے پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے۔ مرض کی مکمل تشخیص کی جائے۔ لیکن اکبر بگٹی کو اس کے پورے پس منظر میں نہیں رکھا جاتا۔ بس یہ یاد رکھا جاتا ہے کہ اکبر بگٹی کو اس کا حق مانگنے پر ظالم ریاست نے قتل کر دیا۔ اکبر بگٹی پاکستان کی جابر رہاستی مشینری کے پرزے رہے، جابر ریاست کے وزیر اور گورنر رہے، لیکن اس “پس منظر” کو پیش منظر سے کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ جب تک کوئی بلوچ رہاست کا حصہ نہیں وہ مظلوم ہے، جب وہ ریاست کا حصہ ہے تو قومی بھائی ہے اور جب ریاست سے اس کی نہ بنے اور ریاست اس کی جان لے لے تو وہ “قومی شہید” ہے! لیکن غیر بلوچ مزدور اگر روزگار کے لیے ریاستی منصوبوں میں کام کرے تو وہ اس لیے بلوچ قوم کا استحصالی ہے اور واجب القتل ہے کیوں کہ وہ ریاست کا حصہ ہے! یہ منافقت کا ایک نہ ختم ہونے والا تاویلی سلسلہ ہے۔ افوسناک بات ہے کہ بلوچ تحریک کی یہ لہر کسی عام بلوچ محنت کش کے درد سے نہیں بلکہ ایک ایسے سردار کی ہلاکت سے شروع ہوئی جو سالہاسال استحصالی ریاست کا حصہ رہا۔
ذوالفقار ذلفی نے یہ بھی کہا ہے کہ “محنت کش کا قتل جائز نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں.” لیکن اس معاملے پر شروع سے آخر تک اور خصوصا آخری مضمون میں مزدور دشمن جن خیالات کا اظہار انہوں نے کیا ہے اس سے واضح ہے کہ انہوں نے نسل پرستوں کے ہاتھوں مزدوروں کے قتل کو ہر ممکن طرح سے جائز قرار دینے کی سر توڑ مگر ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس دوہرے معیار سے ہمارے اس سوال کا جواب ہنوز تشنہ ہے کہ اگر مزدوروں کا قتل قابلِ مذمت ہے تو مزدوروں کے قاتل قابلِ مذمت ہونے کے بجائے بے قصور کیوں ہیں؟