مسئلہ تاریخ کا نہیں نظریے کا ہے
از، ثوبیہ عندلیب
ہمارا آج ہمارے گزشتہ کل سے مربوط ہوتا ہے۔ تاریخ صرف گزرے ہوئے واقعات کا علم نہیں بلکہ یہ ماضی کے کردہ اور نہ کردہ اعمال کے نتائج کی روشنی میں مستقبل کی تیاری کا نام ہے۔ ماضی سے آگہی مستقبل کے لیے تنبیہ کا باعث ہوتی ہے۔ مگر جب سے ہندوستانی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی نے تاریخی واقعات پر فلمیں بنانا شروع کی ہیں پاکستان کا فلم سینسر بورڈ تاریخ کو عبرت کی بجائے فن اور تفریح کا ذریعہ سمجھنے لگا ہے۔
پاکستان میں ایک حلقہ ہمیشہ سے فلم سینسر بورڈ کی لبرل پالیسی کا ناقد رہا ہے۔ جبکہ ایک طبقے کے نزدیک کسی جمہوری معاشرے میں سینسر بورڈ کا وجود غیر ضروری ہے۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر مہذب معاشرہ کچھ معاشرتی اصول و ضوابط اور قوانین پہ قائم ہوتا ہے۔
جہاں کوئی قاعدہ نہ ہو وہ جنگل کہلاتا ہے۔ دوسری طرف ماضی میں فلم بورڈ کے کئی متنازعہ فیصلوں اور حالیہ دنوں متنازعہ فلم پدماوت کو بغیر کسی حیل وحجت کے نمائش کی منظوری ملنے کے بعد عام آدمی تو کیا ایک دانشور بھی اس منطق کو نہ پا سکا کہ سینسر بورڈ کس حکمت عملی اور نظریہ پہ عمل پیرا ہے ، کسی فلم کو رد کرنے یا نمائش کی اجازت دینے کا طریقہ کار کیا ہے۔
فلم پدماوت ابتدا ہی سے کئی تنازعات کا شکار رہی۔ پدماوت ایک لوک داستان ہے۔ اس کا اہم کردار رانی پدماوتی یا پدمنی ہے۔ محققین کے مطابق اس رانی کا ذکر دراصل سب سے پہلے ملک محمد جیائسی نامی لوک شاعر کی رزمیہ یا افسانوی نظم “پدماوت” میں ملتا ہے، یہ واقعہ چتوڑ سے تقریبا 250 سال بعد لکھی گئی تھی۔
بعد میں چند اور لوک شاعروں نے بھی اس داستان کو لکھا اور قابل ذکر یہ ہے کہ ہر کسی کے قصے میں واقعات کی تفصیل ایک دوسرے سےمختلف ہے ۔ اس کہانی کا دوسرا اہم کرداربرصغیر میں مسلم خلجی سلطنت کا دوسرا فرمانروا سلطان علاؤالدین خلجی ہے۔ سلطان علاؤالدین خلجی ہی وہ بہادرمسلمان بادشاہ تھا جس نے سولہویں صدی عیسوی میں اٹھنے والی منگول آندھی کو برصغیر کی طرف بڑھنے سے روکا۔
خلجی کا دورحکومت انتظامی لحاظ سے بھی بہترین دور مانا جاتا ہے۔ اس فلم میں تاریخ کے بالکل برعکس علاؤ الدین خلجی کو مسلمان جنگجو اور جنگلی شخص دکھایا گیا ہے۔ ایسا جنونی بادشاہ جو مطلق العنان سلطنت ، جاہ وجلال اور ہر عیش و عشرت پر دسترس ہونے کے باوجود چتوڑ کے راجپوت راجا رتن سین کی بیوی رانی پدمنی کو “محض دیکھنے کی خاطر” لاشوں کے انبار لگا دیتا ہے۔ اگرچہ اس کہانی اور رانی کی تاریخی حیثیت متنازع ہے لیکن انتہا پسند ہندو راجپوتوں میں اسے خاص تقدس حاصل ہے۔
جس کی وجہ سے ہندوستان میں پورا سال شری کرنی سینا اور اس جیسی کئی انتہا پسند ہندو جماعتوں کی جانب سے ایک ایسی رانی پدماوتی کے ناموس کے تحفظ میں ہنگامے جاری رہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود ثابت نہیں اور نہ ہی مؤرخین اس بات کو درست مانتے ہیں کہ محاصرہ چتوڑ کا محرک رانی پدمنی کا حسن تھا۔ دوسری طرف خلجی جو ایک تاریخی حقیقت ہے اس کی ذات اور مسلم تاریخ پر ہونے والے رقیق حملوں پر کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا۔
جہاں فلم کی نمائش کے ساتھ ہی شری کرنی سینا جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ وہیں پدماوت کی ریلیز کے بعد سوال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کرنی سینا جیسی انتہا پسند ہندو جماعتوں کو اعتراض کس بات پر تھا جبکہ یہی سیریل ڈرامہ اس سے پہلے متعدد بار ٹی وی اور فلم پر پیش کیا گیا جن میں کئی قابل اعتراض مناظر، لباس اور رقص شامل تھے مگر کبھی ایسا احتجاج نہیں ہوا تھا۔
اس فلم کے ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کا بیان تھا کہ راجپوت اور ہندو کمیونٹی اس فلم کی ریلیز کے بعد اس پر فخر کریں گے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ اس فلم کو متنازعہ بنا کر اتنی ہنگامہ آرائی کا تاثر دیا گیا۔ دوسری طرف ان تمام ہنگاموں میں یہ بات کہیں فراموش کر دی گئی کہ فلم میں بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر سکتی ہے۔
ملائشیا وہ پہلا ملک ہے جہاں اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں ملی۔ ملائشیا کے فلم بورڈ کے مطابق ملائیشیا کے نیشنل فلم سنسر شپ بورڈ (ایل پی ایف) نے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر فلم “پدماوت” کو ریلیز ہونے سے روک دیا ہے۔ ایل پی ایف کے چیئرمین محمد زمبیری عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ملائیشیا ایک مسلم ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی دیگر افراد سے زیادہ ہے اور یہاں کی مسلم برادری کو فلم “پدماوت” کے مرکزی خیال پر شدید اعتراضات ہیں کیونکہ “فلم کی کہانی اسلام کے حساس پہلوؤں کو متنازعہ انداز میں پیش کرتی ہے”۔
ہندوتوا کے ایجنڈے پر کام کرتے مذکورہ فلم کے یہ ہدایت کار اس سے پہلے بھی اپنی فلموں میں مسلم ثقافت اور شعائر اسلامی کو ہدف بناتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال ان کی پچھلی فلم “باجی راؤ مستانی” تھی۔ باجی راؤ مرہٹہ جنرل برصغیر میں مسلمان مغل سلطنت کے خلاف نبرد آزما رہا۔ جبکہ “مستانی” ایک مسلمان شہزادی جو اس پر فریفتہ ہو کر اس کے حرم میں داخل ہوگئی تھی ۔
یہ فلم پاکستانی سینما گھروں میں چلائی گئی تھی مگر ماضی میں اسی سے ملتے جلتے موضوعات پر بنی بھارتی فلمیں “ویرزارا” “ایک تھا ٹائیگر” اور اس کے بعد “ٹائیگر زندہ ہے” کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اسی طرح فلم “رانجھنا” پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ اس میں مسلمان لڑکی کا ہندو لڑکے سے معاشقہ دکھایا گیا تھا۔
اس علاوہ یہ موصوف ہدایت کار اپنی ہر فلم میں کسی غیر اخلاقی ، غیر انسانی رویے کو بھرپور پرکشش بنا کرپیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ “رام لیلا ” “گزارش” اور پدماوت سمیت اور دیگر کئی فلموں میں وہ خود کشی کو بہت گلیمرائز کر کے دکھا چکے ہیں۔ ان تمام ترفلموں پر پاکستان میں کوئی قدغن عائد نہیں کیا گیا۔ جبکہ موشن پکچر ایکٹ 1979 کسی جرم کو خوبصورت کر کے پیش کرنے پر فلم کو سرٹیفیکیٹ نہ دینے کا عندیہ دیتا ہے۔
پاکستان میں بہت سی فلمیں اینٹی پاکستان اور اینٹی مسلم موضوعات کی وجہ سے بند کی گئی مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسی متنازعہ فلمیں ریلیز کے لیے پیش کر دی گئیں کہ وہ کسی بھی اصول کے تحت نہ تو آرٹ کے مروجہ اصولوں پہ پورا اترتی تھیں اور نہ ہی آزادی اظہار کے۔
ایک ملک جہاں فلم “کھلاڑی 786” اس لیے نشر نہ ہو سکی کہ عدد 786 مسلمانوں کے ہاں اہم یا متبرک مانا جاتا ہے۔ فلم “رئيس” اس لیے نشر نہ کی گئی کہ اس کا مرکزی کردارایک گینگسٹر تھا جس کا تعلق مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے سے دکھایا گیا تھا ۔ جہاں سماجی موضوع پہ بننے والی پاکستانی فلم ” مالک “پر اس لیے پابندی عائد کی گئی کہ یہ فلم کسی مخصوص صوبے کے وزیر کو نشانہ بناتی ہے یا پھرایک سیاستدان کا محافظ اپنے مالک کو گولی مارتے دکھایا جاتا ہے۔ وہیں اس ملک کا سینسر بورڈ پدماوت جس میں ایک بادشاہ کو بھتیجے کے ہاتھوں قتل کرتے دکھایا جاتا ہے اور ایک مخصوص مذھب کے مخصوص بادشاہ کی شخصیت کو نشانہ بنایا گیا ہے پر کوئی اعتراض کیے بغیر اسے “آرٹ کی پذیرائی” کا نام دے کر ریلیز کی اجازت دے دیتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں اس فلم کی ریلیز کے خلاف ایک پیٹیشن بھی دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ فلم موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ جس کے مطابق اگر کوئی فلم دین اسلام کی عظمت، ملکی سلامتی ، نقص امن، اور اخلاقی اقدار کے لیے خطرہ ہو تو اسے سرٹیفیکیٹ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے باوجود یہ فلم پچھلے پانچ ہفتوں سے پاکستانی سینماؤں میں چل رہی ہے۔
اگرچہ فلم بورڈ کے کچھ اقدامات قابل قدر ہیں مگر کچھ متنازعہ فیصلے اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہی بورڈ ایک ہندوستانی فوجی پہ بنی فلم “ہالی ڈے” کو کلیئر کردیتا ہے مگرکشمیر کے پس منظر میں بنی ایک نسبتا معتدل ہندوستانی فلم “حیدر” جو کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ظلم و ستم دکھاتی ہے کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ملتی۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں غیرملکی ، خصوصا انڈین فلمیں ریلیز کرنے کے مضمرات سے کیا ہماری قوم آگاہ ہے؟ ایسی صورت میں جب ہم کشمیر کا تنازعہ حل نہیں کر پائے کیا ہم معاشی تعلقات منقطع کر کے ہندوستان کو کشمیر کے حل پر مجبور کر سکتے ہیں؟ یا پھر ہمارے سینما مالکان اور فلم ڈسٹری بیوٹرز کے معاشی مفادات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔
نوٹ:
مضمون کے مندرجات سے ادارہ ایک روزن کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ تردیدِ دعوی، ایک روزن کے عمومی تردیدِ دعوی کے باوجود ذکر کرنا پڑا۔
تاریخ فینٹاسی کے طور پر کسی مذہب و فرقے سے محفوظ نہیں۔ آرٹ جھوٹا نہیں ہوتا، یہ سیاسی ضرور ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی عینکوں کے شیشوں کا رنگ ہمہ وقت درک و شعور میں نہیں رہتا؛ اپنی عینک کے شیشوں کے رنگ کو ہم آفاقیت پر محمول کرجاتے ہیں۔ ایسا کرتے پَل اور ان پَلوں کے مجموعے روز و شب اور ہفت، مہینے، سال اور صدیاں، اور وہ خُرافات (ridiculousness) جسے ہم تاریخ کا نام دیتے ہیں ان کی مصنوعی چکا چوند میں ہم یہ تک بھول جاتے ہیں کہ روشنی تک کو پروردگار نے سات رنگوں کی جمع بندی سے معتبر کیا تو وہ ایک اکائی بنی۔
ہر اکائی ایک وحدت سے منسلک ہے اور ہر وحدت کے درُون میں اکائیوں کا شعور زندہ رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے۔ افسوس کہ اپنی عینک کے رنگ کو رنگِ واحد و یکتا ماننے کی روش سے بھی کوئی مذہب، فرقہ اور بیشتر تہذیبیں معصوم عنِ الخطاء نہیں رہتی ہیں۔ فرد کی سطح پر یہ نفسیاتی اندازِ فکر اور گروہی سطحوں پر یہ سماجی رجحان اور اس سے تشکیل پاتے مثبت/منفی/اور دیگر رنگا رنگ رویے ایسے گروہ، جتھے اور پرانے وقتوں کی یادگار جتھے نُما اداروں کو جنم دیتے ہیں جو رب کی دھرتی پر موجبِ فساد اور افتراق و تقسیم ہیں۔
مدیر ایک روزن
بہت خوب