مشال کے بابا کس ریاست سے تعلیم مانگتے پھرتے ہو؟

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

مشال کے بابا کس ریاست سے تعلیم مانگتے پھرتے ہو؟

(ذوالفقار علی)

اس قتل کو لوگوں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے جانچ بھی لیا اور جانچ پڑتال کے بعد مشال کی موت کا جواز پیدا  کرنے کی کوشش کر کے اپنی منطق کی بھوک کو ٹھندا بھی کر چُکے۔ ایسا کیوں کر ہوا اس پر بھی بہت ساری بحث ہو چُکی ، بہت سارے عُذر بھی پیش کئے جا چُکے۔

ایک زندہ انسان کو جس طرح وحشی ہجوم نے گولیوں، لاتوں، مُکوں اور ڈنڈوں سے بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زندگی چھین لی وہ ہم ویڈیو کلپس کے ذریعے دیکھ چُکے۔

مذہبی رُجحانات رکھنے والے طبقات کے اس قتل پر کس قسم کے جذبات رہے ہونگے، میانہ روی والوں نے دین و دُنیا کی بھلائی کا سوچ کر خاموشی کا راستہ چُنا ہوگا یا نہیں، انسانی حقوق کے علمبردار غم میں نڈھال ہوئے ہونگے یا نہیں، انقلابیوں نے انقلاب کے ترکش سے اپنے تیر چلائے یا نہیں اس بحث میں پڑنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ ہم اپنے ارد گرد سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم سب کس نہج پر پہنچ چُکے!

وقت کی پُل کے نیچے بہت سا پانی بہہ چُکا لوگ اس قتل کی خوشیاں یا ماتم منا بھی چُکے مگر جہاں آگ جلتی ہے اُس کی حدت کا اندازہ اُسی جگہ کو ہوتا ہے۔

مشال کے رشتہ دار، گھر والے دوست احباب کس کرب سے گُزرے ہونگے اور اب کس حال میں ہیں اس کہانی کے قریبی کرداروں کے جذبات کی راکھ چھانتے ہیں کیونکہ بطور قوم ہماری اجتماعی یاداشت بہت کمزور ہے۔ایسا کرنے سے شاید ہمیں ہمارے حصے کی آگ ہی مل جائے۔

پہلا حصہ ریاست کی کوتاہی کو عیاں کرتا ہے۔ ان آنکھوں نے دیکھا مشال پر سنگین الزام لگا کر کمرے میں بند کر دیا گیا پھر نفرت بھری تقریریں کی گئیں اور لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا مگر باوردی پولیس اہلکار ہجوم کے اندر کھڑے چُپ رہے، پھر باہر سے جنت کے شوقین افراد بھی بُلا لیے گئےمگر قانون اور ریاست دونوں خاموش، یونیورسٹی میں دن کی روشنی میں اسلحہ اور ڈنڈے پہنچا دیے گئے۔

مگر ریاست کی طرف سے کوئی ایکشن دکھائی نہیں دیا، دو تین سو لوگوں کا ہجوم ڈنڈے اور اسلحہ لہراتے ہوئے ایک نہتے شخص کی جان لینے کے لیے آگے بڑھا مگر ‘سکیورٹی سٹیٹ ‘ دل ہی دل میں خوش نظر آئی، بپھرے ہوئے ہجوم نےمشال کے کمرے کےدروازے کو لاتوں اور ڈنڈوں سے توڑا مگر ریاست کی گہری نیند نہیں ٹوٹی۔

ہجوم کمرے کے اندر گیا تو مشال کی زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد ہے پھر بھی اُس کے جسم میں گولیاں آر پار کر دی گئیں اور لاش کو گھسیٹ کر باہر لے جا کرلاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی گئی، اُس کے جسم سے کپڑے نوچ لیے گئے خون میں لت پت مُردہ جسم کو جوتوں اور پتھروں سے بھی مارا گیا توپھر کہیں جا کر ریاست کی آنکھ کُھلی اور بچی کُھچی لاش کوقبضے میں لے کرایک نئے کھیل کا آغاز کیا۔

قانون کی عملداری کے کھیل کا سٹیج سجا جس میں بہت سارے اداکاروں نے حصہ لیا، سیاسی پارٹیاں، مُختلف ادارے اور افراد سکرپٹ کے مُطابق اپنا اپنا کردار نبھاتے رہے اور تماشائی تالیاں بجاتے گئے۔ کہانی کار سکرپٹ کو ڈیمانڈ کے مُطابق بدلنے لگا۔ قانون کی عملداری کے سٹیج پر الزام کا سین شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا گیا اور آوازوں کا تال میل ریاست کی ترتیب دی گئی دُھن میں اپنے سُر بکھیرنے لگا۔

ایک سُر کھنچتا ہے کہ مشال کے اکاونٹ میں نوے لاکھ کی رقم کہاں سے آئی، ہمنوا گلا پھاڑ کر کہتے ہیں بہت جلد ثابت ہو جائیگا کہ مشال گُستاخ تھا، پھر لمبی تان نکلتی ہے کہ اگر وہ گُستاخ نہیں بھی تھا تو جنہوں نے مارا ہے اُن کی نیت ثواب عظیم کمانا تھا، سٹیج کے عقب میں مشال کو مارنے والوں کے ورثا نمودار ہوتے ہیں اور من چاہے انصاف کے سُرمیں اپنی روداد سُناتے ہیں۔

اس کہانی کا سب سے درد ناک پہلو یہ ہے کہ مشال کا باپ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حوالے سے فکر مند ہے مگر اندھی گونگی بہری ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ وہ فریاد کرتا ہے کہ میری بچیوں کی تعلیم چھوٹ گئی خدارا کوئی بندوبست کرو مگر اُس کی آواز اُس کے دل کی طرح لرزاں لرزاں ہو کر واپس لوٹ آتی ہے۔ بھلا کب تک کوئی اپنی ہی چیخوں کی بازگشت میں زندہ رہ سکتا ہے!

وہ چلاتا ہے ہم باہر نہیں نکل سکتے ہمیں امان دی جائے مگر اُس کی نحیف آواز اونچے سُروں کی تھاپ میں دب جاتی ہے اور اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: عبد اللہ بٹ سے مشال خان تک

وہ تھک ہار کر گھر واپس آتا ہے تو مشال کا کُچھ سامان جو ریاست کے اہلکاروں کے پاس تھا اُس کے سُپرد کر دیا گیا جس میں دو سو ستر روپے نقدی، کُچھ کپڑے اور ایک چادر شامل تھی۔ قانون کی عملداری سے اب تک یہی برآمد ہوا۔ جو ریاست مشال کا لیپ ٹاپ اور کیمرہ برآمد نہیں کر پائی وہ قاتلوں کو کیسے سزا دے پائیگی اس کا اندازہ لگانا مُشکل نہیں ہے۔

مشال کی کہانی کا ایک پہلو مُحبت، پیار، جذبات، دُکھ اور اپنائیت کے احساس سے بندھا ہے اور یہی اصل اور دیر پا رشتہ ہے جسے ریاست  کے گُماشتے اور ٹھیکیدار ٹائپ کے افراد نہ تو خرید سکتے ہیں نہ ہی اپنے اپنے نظریات کی بھینٹ چڑھا سکتے ہیں۔

پولیس نے جب مشال کے کپڑے سپُرد کئے تو بوڑھی ماں  مشال کی قمیض کو آنکھوں سے لگا کر دیوانہ وار چومنے لگی، آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ اُن کپڑوں میں مشال کے بدن کی خوشبو اپنے اندر اُتار رہی تھی، اُس کی زندگی کے ایام کو، مشال کی شرارتوں کو اُس کی ہنسی کو، اُس کے پیار کو، اُس کے درد کو، خوابوں کو، اُس کی معصومیت کو، اُس کی جوانی کو، اُس کے بچپن کو، اُس کے ارمانوں کو خالی قمیض میں ٹٹول رہی تھی جیسے مشال لوٹ آیا ہو اور کہہ رہا ہو ماں میری پیاری ماں اس قمیض کو سنبھال رکھنا یہ تُجھے مذہب کے نام پر مرنے والے بےگُناہ بچوں کے درد سے آشنا کرے گی، ماں یہ ” چولا” ریاست کی بے حسی کو جھنجھوڑتا رہے گا، یہ ناانصافیوں اور ریاست کی رٹ کو آواز دیتا رہے گا، یہ ظالمانہ پالیسیوں اور طبقاتی محرومیوں کی داستان کو عیاں کرتا رہے گا۔

ماں چُپ کر جا یہ ریاست ہمارے طبقے کے درد سے نا آشنا ہے اسے چھیالیس سالہ حُسین نواز کی حالیہ تصویر سے جس میں وہ آرام سے کُرسی پر بیٹھے ہیں کی فکر ہے ہماری لاشوں کی نہیں، ماں کتنے گُمشدہ ، کتنے مُردہ اور کتنے اپاہج بچوں کی مائیں روزانہ بین کرتی ہونگی مگر ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

بس کر ماں ہمارے طبقے کے مُقدر میں پیدا ہوتے ہی درد لکھ دیا جاتا ہے اور یہی درد ایک دن ہماری طاقت بنے گا۔ ماں اُس دن میں اپنی چادر اور قمیض سمیت لوٹ کر آؤنگا پھر جی بھر کر مجھے گلے سے لگانا اور پیار کرنا۔

 

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔