عبد اللہ بٹ سے مشال خان تک
(ملک تنویر احمد)
عبد اللہ بٹ ایک معروف صحافی گزرے ہیں۔ ذہین اور بذلہ سنج کہ محفل کو کشت زعفران بنانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ عبد اللہ بٹ سیاسی نظریے میں نیشنلسٹ مسلمان تھے جن کا جھکاؤ انڈین نیشنل کانگرس کی طرف تھے اور تقسیم ہند کے مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد عبد اللہ بٹ کے ماضی کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر پاکستان کی مسلم لیگی حکومت بھی انہیں دق کرتی رہتی تھی اس لئے موصوف کا کاروبار نہ چل سکا۔ عبد اللہ بٹ تلخی ایام کے کڑوے کسیلے گھونٹ پینے کے باوجود حس مزاح سے محروم نہ ہوئے اور اپنے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کوبڑے مزے سنایا کرتے تھے ۔ عبداللہ بٹ کے بقول تقسیم ہند سے پہلے ایک مسلم لیگی نے ان سے پانچ سو روپے ادھار لئے تھے۔جب پاکستان بن گیا تو ایک دن میں نے ان مسلم لیگی صاحب سے ان پانچ سو روپوں کی واپسی کا تقاضا کیا۔مسلم لیگی صاحب نے عبد اللہ بٹ کے اس تقاضے میں چند ساعتوں کی توقف کے بعد مجھ پر چلانا شروع کر دیا،’’اوئے تو قائد اعظم کو گالیاں دیتا ہے ‘‘۔ مسلم لیگی صاحب کے اس چلانے پر بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ وہ صاحب ان لوگوں سے کہنے لگے کہ دیکھو یہ ابھی تک پاکستان کو نہیں مانتا اور قائد اعظم کو گالی دیتا ہے۔عبد اللہ بٹ نے اس کے کان میں کہا ،’’میں پیسے نہیں لیتا‘‘۔ تو اس مسلم لیگی نے جھٹ سے کہا ’’اب مان گیا ہے‘‘۔
عبد اللہ بٹ کے ساتھ بیتنے والے یہ واقعہ مزاح کے کچھ پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو لیکن اس کے پس پردہ وہ کریہہ اور بھیانک سوچ کا رفرما ہے جس میں کسی بھی مخالف کو آسانی سے زیر کرنے کے لئے ان مقدس ہستیوں اور قومی رہنماؤں کے نام پر اپنے مذموم اور بد بودار عزائم کی آبیاری مقصود ہوتی ہے۔آج پاکستان اسی بھیانک سوچ کے گرداب میں غوطہ زن ہے کہ جس میں مقدس ہستیوں کے نام پر ایسا استحصال جاری ہے کہ الامان الحفیظ۔معاشرے میں فروغ پذیر جبر کی یہ سوچ یکلخت کسی آسمانی بلا کی طرح اس دھرتی پر نہیں اتری بلکہ اس نے بتدریج سماج کے رگ و پے میں کچھ اس طرح پنجے گاڑے ہیں کہ اب ویرانوں کو نہیں بستیوں کو دیکھ کر خوف آتا ہے جہاں انسانی شکلوں میں درندے انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے چلے جا رہے ہیں۔مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والے لرزہ خیز واقعے کے بعد اگر کوئی اس سماج سے ترقی و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے کی خوش گمانی کا اسیر ہے تو اس کی عقل پر سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سماج کا تارو پود بڑی تیزی سے بکھرتا چلا جا رہا ہے جس کی گواہی پچھلے کئی عشروں سے ظہور پذیر ہونے والے واقعات ہیں ۔مشال خان نامی نوجوان کو جس کربناک موت کا شکار ہونا پڑا اس کا تصور بھی روح کا دہلا دے ،مشال خان کا قتل پورے سماج کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی فعالیت اور اس نظام انصاف کی مضبوطی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس نے شہریوں کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو ہر صورت میں یقینی بنانا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں توہین مذہب کا قانون مسلم لیگی صاحب کی ذہنیت کا شکار بنا ہوا ہے۔ایک ایسا قانون جس کی زد میں فقط ان افراد کو آنا تھا جو اپنی آلودہ ذہنیت کا اظہار مقدس ہستیوں پر افترا ء پردازی کر تے ہیں اب بے گناہ افراد کے گلے کے گرد پھندا بنتا جا رہا ہے۔سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے اعدا د وشمار کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے اسی فیصد الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اعداد شمار ان وسوسوں اور خدشوں کو صحیح ثابت کررہے ہیں جن اظہار بہت عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ مقدس ہستیوں کی توہین کے نام پر جھوٹے الزامات لگانا بیشتر حادثات و واقعات سے ثابت ہو چکا ہے لیکن اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے عدلیہ نے کبھی انگڑائی لی اور نہ ہی ریاست کے اداروں کو اس کی فکر دامن گیر ہوئی۔توہین مذہب اور پیغمبرؐ کی تقدیس کی حفاظت کرنے والے قانون کو جب معاشرے میں گروہی و ذاتی مفادات کی آبیاری کا ہتھیار بنا لیا جائے تو یہ سب سے بڑی توہین کے زمرے میں آئے گا۔ان قانون کا صحیح اطلاق ہی اس عظیم مذہب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہوگا جس نے ایک انسانی جان کو کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ مقدس قرار دیا تھا۔ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر سماج پر تنی ہوئی خاموشی کی چادر پر یقینی طور پر سب سے بڑا جرم ہے کہ اب تک بیسیویں ایسے واقعات کے بعد بھی ہم اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر کسی نے اس قانون کے غلط استعمال پر لب کشائی کی اسے بھی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف عمران خان نے آواز بلند کر کے پہل کی جو لائق صد تحسین ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے دو دن کے چپ کا روزہ توڑا جو ان کے حکومتی عہدے کے شان شایان نہیں ہے کہ حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجودانہوں نے دو دن تک اس پر چپ سادھے رکھی اور جب اس قتل کے خلاف عوامی رائے کو ہموار دیکھا تو اپنی آواز اس میں ملا دی۔ یہی وہ مجرمانہ خاموشی ہے جو مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا کاروبار کرنے والوں کو بڑھاوا دیتا ہے ۔شاید حبیب جالب نے ایسے ہی معاشرے کے
عبد اللہ بٹ کے ساتھ بیتنے والے یہ واقعہ مزاح کے کچھ پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو لیکن اس کے پس پردہ وہ کریہہ اور بھیانک سوچ کا رفرما ہے جس میں کسی بھی مخالف کو آسانی سے زیر کرنے کے لئے ان مقدس ہستیوں اور قومی رہنماؤں کے نام پر اپنے مذموم اور بد بودار عزائم کی آبیاری مقصود ہوتی ہے۔آج پاکستان اسی بھیانک سوچ کے گرداب میں غوطہ زن ہے کہ جس میں مقدس ہستیوں کے نام پر ایسا استحصال جاری ہے کہ الامان الحفیظ۔معاشرے میں فروغ پذیر جبر کی یہ سوچ یکلخت کسی آسمانی بلا کی طرح اس دھرتی پر نہیں اتری بلکہ اس نے بتدریج سماج کے رگ و پے میں کچھ اس طرح پنجے گاڑے ہیں کہ اب ویرانوں کو نہیں بستیوں کو دیکھ کر خوف آتا ہے جہاں انسانی شکلوں میں درندے انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے چلے جا رہے ہیں۔مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والے لرزہ خیز واقعے کے بعد اگر کوئی اس سماج سے ترقی و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے کی خوش گمانی کا اسیر ہے تو اس کی عقل پر سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سماج کا تارو پود بڑی تیزی سے بکھرتا چلا جا رہا ہے جس کی گواہی پچھلے کئی عشروں سے ظہور پذیر ہونے والے واقعات ہیں ۔مشال خان نامی نوجوان کو جس کربناک موت کا شکار ہونا پڑا اس کا تصور بھی روح کا دہلا دے ،مشال خان کا قتل پورے سماج کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی فعالیت اور اس نظام انصاف کی مضبوطی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس نے شہریوں کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو ہر صورت میں یقینی بنانا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں توہین مذہب کا قانون مسلم لیگی صاحب کی ذہنیت کا شکار بنا ہوا ہے۔ایک ایسا قانون جس کی زد میں فقط ان افراد کو آنا تھا جو اپنی آلودہ ذہنیت کا اظہار مقدس ہستیوں پر افترا ء پردازی کر تے ہیں اب بے گناہ افراد کے گلے کے گرد پھندا بنتا جا رہا ہے۔سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے اعدا د وشمار کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے اسی فیصد الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اعداد شمار ان وسوسوں اور خدشوں کو صحیح ثابت کررہے ہیں جن اظہار بہت عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ مقدس ہستیوں کی توہین کے نام پر جھوٹے الزامات لگانا بیشتر حادثات و واقعات سے ثابت ہو چکا ہے لیکن اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے عدلیہ نے کبھی انگڑائی لی اور نہ ہی ریاست کے اداروں کو اس کی فکر دامن گیر ہوئی۔توہین مذہب اور پیغمبرؐ کی تقدیس کی حفاظت کرنے والے قانون کو جب معاشرے میں گروہی و ذاتی مفادات کی آبیاری کا ہتھیار بنا لیا جائے تو یہ سب سے بڑی توہین کے زمرے میں آئے گا۔ان قانون کا صحیح اطلاق ہی اس عظیم مذہب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہوگا جس نے ایک انسانی جان کو کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ مقدس قرار دیا تھا۔ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر سماج پر تنی ہوئی خاموشی کی چادر پر یقینی طور پر سب سے بڑا جرم ہے کہ اب تک بیسیویں ایسے واقعات کے بعد بھی ہم اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر کسی نے اس قانون کے غلط استعمال پر لب کشائی کی اسے بھی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف عمران خان نے آواز بلند کر کے پہل کی جو لائق صد تحسین ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے دو دن کے چپ کا روزہ توڑا جو ان کے حکومتی عہدے کے شان شایان نہیں ہے کہ حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجودانہوں نے دو دن تک اس پر چپ سادھے رکھی اور جب اس قتل کے خلاف عوامی رائے کو ہموار دیکھا تو اپنی آواز اس میں ملا دی۔ یہی وہ مجرمانہ خاموشی ہے جو مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا کاروبار کرنے والوں کو بڑھاوا دیتا ہے ۔شاید حبیب جالب نے ایسے ہی معاشرے کے
لئے کہا تھا ع
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں