مشال کا قاتل اب مردان کا بھگوڑا ہے
(علی ارقم)
مشال کو قتل کرنے، اس کی لاش کی بھنبھوڑنے، اور رگیدنے کے بعد فاتحانہ انداز میں قاتل ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا، “جس نے گولی چلائی، اس کا نام کوئی نہ لینا، جس نے نام لیا، وہ بھی توہین کا مُرتکب ہوگا۔”
“ہاں اور ایف آئی آر کاٹنی ہے تو میرا نام عارف، اور باپ کا نام طور خان ہے، مجھ پر کاٹو ایف آئی آر!”
قاتل ہجوم سے تحسین و آفرین کی صدائیں اٹھیں، کچھ نے کہا، واہ کیسا عاشق ہے، خود کا نام پیش کردیا، بلا جھجک۔
دوسرےنےکہا، “وہ کرسکتا ہے بھائی، وہ پی ٹی آئی کا کونسلر ہے، اُن کی حکومت ہے، بچ جائے گا۔”
واقعے کے اگلے دن، جب مشال کے گاؤں میں، کوئی اس کی مظلومیت کا قائل نہ تھا، اور اس کی جنازہ پڑھنے پر کوئی آمادہ نہ تھا، اسی دوران عمران خان کا جرات مندانہ موقف آگیا کہ جنگل کا قانون نہیں چلے گا، تو دوسری طرف چند روشن فکر لوگ مشال کے گاؤں پہنچ گئے تھے، اسے سپرد خاک کرنے، جب جنازہ اٹھا تو مُٹھی بھر لوگ ساتھ ہولئے۔ مشال کو منوں مٹی تلے دبانے کے بعد قبر کے پہلو میں کھڑے اس کے والد محمد اقبال اقبال مشال ریڈیو کے زلان اور ڈیوہ ریڈیو کے ریاض حسین کے ذریعے دُنیا سے مُخاطب ہوئے، مشال کے والد کو سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنے اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، اور مجروح جذبوں اور چُور چُور احساسات پر لفظوں کا مرہم رکھ دیا۔
اور پھر منظر بدل گیا، مشال کے لئے اُٹھنے والی آوازیں توانا ہوتی گئیں، اس میں سب کی آوازیں شامل ہوتی گئیں، مشال کے قاتل تنہا ہوتے چلے گئے۔ صورت یہ ہے کہ تمام جماعتیں بشمول جماعت اسلامی صوابی مشال کے والد کے ساتھ ہیں، اور عمران خان کے بعد صوبائی حکومت نے بھی اسے اپنے لئے ٹیسٹ کیس قرار دیا ہے۔
اب جو منظر بدلا تو وہ سب جو بزعم خود اپنےکارنامے پر نازاں تھے۔ اب اس عمل کے مبنی برحق ہونےاور درجہ قبولیت ملنے پر شک میں پڑگئے، انہیں سمجھ آنے لگا تھا کہ وہ اس کارنامے سے خود کے لئے جنت تو کیا واجب کرتے، دُنیا کی جس واہ واہ کی کچھ اُمید تھی، اُس کی جگہ بھی لعن طعن غالب آنے لگی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے تو بلاسفیمی کے الزام تلے یہ قتل دب جائے گا، پھر ہجوم کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ قاتل کی شناخت نہ ہو، لیکن کیا کیا جائے کہ آج کا رجحان نیک عمل کو انجام دینے کا ہی نہیں، اس کی فیس بُک پر تشہیر بھی لازم ٹھہری ہے، اب جب پکڑائی شروع ہوئی، تو کامیابی کا نشہ، سرشاری کا خُمار، اور سُرخروئی کا بخار اُترنے لگا، جس نے جشن منایا تھا وہ فیس بُک پر معافیاں پوسٹ کرنے لگے، اور سینہ تان کے ایف آئی آر کے لئے اپنا نام تجویز کرنے والا بھگوڑا عارف ولد طور خان چُھپتا چُھپاتا “اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام” لینے سیدھا بنکاک نکل لیا۔
برسوں پہلے کی بات ہے، جانے پی ٹی وی کا کون سا ڈرامہ تھا۔ جس کے ایک سین میں ڈرائنگ روم پر ایک بڑی تصویر لگی ہے، جس میں بہت سے شکاری کُتّے اکٹھے ایک ہرن کو گھیرے ہوئے ہیں، کوئی اس کی گردن سے لپٹا ہے تو کوئی پیٹھ سے، جب کہ ایک کُتّا ہرن کے پیروں تلے آیا ہوا ہے۔ اس بھیانک منظر کی فُل سائز پینٹنگ کو تصور میں لانا بھی تکلیف دہ ہے۔ لیکن موب کلنگ کے ساتھ یادداشت میں وہی تصویر عود کر آتی ہے۔ شکاری کتوں کی اس تصویر میں اصل شکاری جس نے کُتّوں کو اس ہرن کو بھنبھوڑنے بھیجا ہے وہ پس منظر میں ہے۔ ایسے شکاری مشال کے معاملے میں بھی ہیں۔ ان کی رُونمائی ابھی ہونی ہے۔
البتہ چھوٹا شکاری، مشال کو بھنبوڑنے والے غول کا لیڈر، اور بنکاک کا بھگوڑا اپنے پیچھے سب کے لئے سبق ضرور چھوڑ گیا ہے: کہ سینہ تان کر دعوے کرنا (پشتو کے ایک محاورے کے بقول کہ کٹہ کھونٹے کے بل پر زور لگا رہا ہے) تب ہی ممکن ہے جب پشت مضبوط ہو، موت کا خوف آئے جاں بخشی کے وعدے پر فرعون بنے پھرنے والے احسان اللہ احسان جیسے بھی فرفر اسکرپٹ پڑھنے لگتے ہیں۔