ابلاغ عامہ mass communication کے پانچ تنقیدی ادوار
از، مسرور احمد
ماس کمیونیکیشن کے شعبہ کو دو بنیادی اکائیوں “سوسائٹی “اور” میڈیا” میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سوسائٹی، میڈیا کے بارے میں مختلف تھیوریز (theories) کے تناظر میں ماس سوسائٹی پر میڈیا کے اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس میں عوام الناس اور میڈیا سکالرز میڈیا کے بارے میں پائی جانے والی قیاس آرائیوں، مفروضات، تحقیقات اور مشاہدات پر رائے زنی کرتے ہیں۔ جب کہ ماس کمیونیکیشن کی دوسری اکائی میڈیا انڈسٹری کی تشکیل، اس کے پھیلاؤ اور عروج کے بارے میں بحث کرتی ہے۔
میڈیا ماہرین نے ماس کمیونیکیشن یا میڈیا کے پھیلاؤ کو بنیادی طور پر پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے جن میں ماس سوسائٹی اور ماس کلچر، سائنسی ترقی کے نتیجے میں میڈیا پر مرتب ہونے والے اثرات، محدود اثرات کا عہد (era of limited effects) ثقافتی تنقید (cultural criticism) کا عہد اور متوازن اثرات کے ادوار (moderate effects perspective) شامل ہیں۔
ماس سوسائٹی اور ماس کلچر کے دور کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں ملتا ہے جب لوگوں نے میڈیا کو ایک با اثر ذریعہ تو سمجھا، لیکن عمومی طور پر وہ اس سے مرعوب اور اس کے بارے میں منفی رائے رکھتے تھے۔
لوگ میڈیا کی قوت سے خائف تھے، انھیں ڈر تھا کہ میڈیا سوسائٹی کی اقدار کو کہیں تباہ نہ کر دے۔ اس دور میں نئی انڈسٹریل ٹیکنالوجی نے دیہاتوں میں سادہ زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی میں تلاطم پیدا کیا اور لوگوں کو شہروں کی طرف مہاجرت پر مجبور کیا جہاں انھیں فیکٹریوں اور سرکاری دفاتر میں ورک فورس کے طور پر کام کرنا تھا۔
یہ تھیوری لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے اس دور کے اخبارات کے کردار کا جائزہ لیتی ہے۔ ماس میڈیا نے انیسویں صدی کی شہری زندگی کی خوب عکاسی کی اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کو اجاگر کیا۔ میڈیا پر عام لوگوں کی حمایت، سیاسی بے چینی پیدا کرنے اور ثقافتی اطوار کو بدلنے کا الزام لگایا گیا۔ صنعتی دور کا آغاز ہو چکا تھا اور صنعتوں کی تشکیل سے ایک نئی طاقت ور کار و باری اشرافیہ وجود میں آ رہی تھی اور روایتی جاگیر داروں کا اثر و رسوخ زوال پذیر تھا۔
مزید دیکھیے: آزادئِ صحافت، چومسکی اور ہرمن کے پراپیگنڈا ماڈل کے تناظر میں از، مسرور احمد
اس دور کے میڈیا میں ہمیں جاگیر دار اشرافیہ، ان کے کلچر اور ان کی سیاست کے خاتمے کی صورت میں پرانے سوشل آرڈر کے زوال کی جھلک دکھائی دیتی ہیں۔ سو لوگوں کی بدلتی ہوئی سوچ کی عکاسی کرنے والے خیالات کو ماس سوسائٹی تھیوری کا نام دیا گیا۔
اس دور کی روایتی اشرافیہ جدیدیت کو سمجھنے کی کوششیں کرنے لگی۔ لیکن انیسویں صدی کے آخر تک بادشاہ، مذہبی طبقات اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو انقلابیوں کے سامنے ہار ماننا پڑی۔ ماس سوسائٹی تھیوری اس تصور کی ترجمانی کرتی ہے جو سٹیٹس کو (status quo) کو للکارنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور جس سے سوشل ایلیٹ (social elite) کو اپنے مفادات پر ضرب پڑنے کا اندیشہ تھا۔ کیوں کہ اس دور کا پریس عام آدمی کی حمایت کرنے، اشرافیہ پر تنقید کرنے اور ان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بے باک تھا۔
اس کے ساتھ زرد صحافت بھی رائج تھی جس میں عوام کی توجہ حاصل کرنے ا ور اخبار بیچنے کے لیے سنسنی خیز خبریں چھاپی جاتی تھیں۔ ماس سوسائٹی تھیوری کا مرکزی نقطۂِ نظر یہ ہے کہ اس دور کے میڈیا نے روایتی سوشل آرڈر کو بھر پُور چیلنج دیا۔ ماس میڈیا نے ٹیکنالوجی کی ترقی کو بھر پُور حمایت دی، ٹیکنالوجی کی اچھائیوں کی تشہیر کی اور اسے انسانی ترقی اور پیدا وار کی معراج قرار دیا۔
اگر چِہ ایک طرف صنعت کاری کے مثبت پہلو نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اس سے بہت سے مسائل بھی پیدا ہوئے جن میں مزدوروں کا استحصال، آلودگی اور سماجی بے اطمینانی وغیرہ شامل ہیں۔ میڈیا کے اس دور میں پراپیگنڈا اور میجک بلٹ جیسی تھیوریز متعارف ہوئیں۔ 1940-50 تک ماس میڈیا پر سائنسی اثرات کا عہد کہلاتا ہے جس میں سائنسی تحقیقات کو میڈیا میں خوب پذیرائی ملی۔
تجربات سے ثابت کیا گیا کہ میڈیا اتنا طاقت ور نہیں ہے جتنا کہ اسے ماضی میں سمجھا گیا اور یہ کہ لوگ میڈیا کے رسوخ کے خلاف مختلف طریقوں سے مزاحمت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نقطۂِ نظر کے مطابق میڈیا سٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کرنے کی بہ جائے معاشرے میں موجود سماجی مَیلانات (existing social trends) کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مضبوط بنانے میں مدد دے رہا تھا۔
اس دور میں ہمیں میڈیا کے محدود اثرات کا نظریہ (limited effect theory)، دو قدم نظریہ (two-step theory) اور لیزویل ماڈل (Lasswell model) نمایاں نظر آتے ہیں۔ 1950-60 تک میڈیا پر محدود اثرات کا عہد کہلاتا ہے۔ اس میں ماس سوسائٹی تھیوری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے غیر سائنسی اور غیر منطقی قرار دیا گیا۔
محققین کے نزدیک اب میڈیا پر ریسرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ بعض لوگوں نے تو ماس کمیونیکیشن کو محدود اثرات کا حامل بے کار اور مردہ شعبہ قرار دے دیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر میڈیا نے ترقی کرنا شروع کر دی کیوں کہ اب طالب علموں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شعبۂِ صحافت میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔
اشرافیہ کے خیال میں میڈیا جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا باعث بن سکتا تھا۔ سو اس دور میں اشرافیہ کی تکثیریت (elite pluralism) اور سماجی علوم کے نظریات (social cognitive theory) کا پھیلاؤ نظر آتا ہے۔
بیس سالوں پر محیط 1960-80 تک کا زمانہ میڈیا میں ثقافتی تنقید کا دور کہلاتا ہے جو برطانوی ثقافتی مطالعات (British cultural studies) سے گہرے اثرات کشید کرتا ہے۔ ایک مفروضہ پایا جاتا ہے کہ میڈیا معاشرے پر غالب اشرافیہ کی اجارہ داری برقرار رکھنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ اسی مفروضے کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ میڈیا نے اشرافیہ کے اقتدار کو سلامت رکھنے میں ان کی مدد کی اور ایسے افکار کو معاشرے میں پھیلایا جو ان کے اقتدار کے لیے سود مند ہو سکتے تھے۔
برطانوی ثقافتی مطالعات میڈیا پر غالب ثقافت (hegemonic cultures) کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ غالب ثقافت سے مراد ایسی ثقافت ہے جو بدیسی ہو ۔ جو کسی بھی ملک کے عام لوگوں کی بہ جائے وہاں کی اشرافیہ کے لیے کشش رکھتی ہو۔ یہ ثقافت طاقت ور اشرافیہ کو عوام کے مقابلے میں بَر تَری کا احساس دلاتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے گُر بتاتی ہے۔
کلچرل تھیوری کا مقصد اس بات کی وضاحت کرنا ہے کہ کس طرح میڈیا کلچرز اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پالیٹیکل اکانومی کلچرل تھیوری کی ایک بہترین مثال قرار دی جا سکتی ہے جو کہ کلچر کی ایک مائکرو سکوپک تھیوری (microscopic theory of culture) ہے کیوں کہ یہ ایک فرد کی بہ جائے پوری سوسائٹی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مائکرو سکوپک تھیوری معاشرے کی بہ جائے فرد پر توجہ دیتی ہے۔
پولیٹیکل اکانومی تھیوری طاقت کی حرکیات اور طاقت ور لوگوں کے اداروں پر اثر و رسوخ کا مطالعہ کرتی ہے جو ملک چلاتے ہیں۔ میڈیا کے متوازن اثرات کانقطۂِ نظر کمیونیکیشن سائنس، ابلاغ کی سماجی علامات اور میڈیا کی تعلیم کے پھیلاؤ کی بات کرتا ہے۔ یہ تحقیق کی تمام جہتوں کو ایک لڑی میں پِروتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ لوگ میڈیا کے پیغامات کو کس زاویے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ماس کمیونیکیشن کی بہت سی تھیوریز سامنے آتی رہی ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں کوئی بھی تھیوری فائنل نہیں کیوں کہ سوشل سائنسز کے مضامین اپنے تئیں شیزوفرینک (schizophrenic) ہوتے ہیں مختلف لوگوں کی مختلف توجیہات ہوتی ہیں اور خیالات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے اور اپ گریڈ ہوتے رہتے ہیں سو ان میں کچھ حتمی نہیں ہوتا۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ خواہ ماس کمیونیکیشن کا مضمون ہو یا کوئی اور تھیوریز پہ کام ہوتے رہنا چاہیے کیوں کہ تحقیق ہی سچائی کا راستہ دکھاتی ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے مختلف ادوار کے مطالعہ سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ اپنے آغاز میں میڈیا جس قدر آزاد تھا آج غیر محسوس طریقے سے اتنا ہی مقید ہے۔ کیا میڈیا حقیقی معنوں میں کبھی آزاد ہو کر عوام کی آواز بن سکے گا؟ یہ کروڑوں کا سوال ہے۔