میچ ایسے دیکھنا جیسے آخری ہو
از، وسعت اللہ خان
ایک تو مجھے اس انشا پرداز کی تلاش ہے جس نے پاکستان اور بھارت کے لیے روایتی حریف کی اصطلاح سرقہ کی۔ حالانکہ یہ اصطلاح ایشیز ٹرافی کے دو دعوے داروں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے مختص ہے۔ پاکستان اور بھارت تو ایک دوسرے سے دو طرفہ سیریز بھی بمشکل کھیلنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو روایتی حریف کیسے ہوگئے؟ اور کوئی یہ بھی بتا دے کہ کرکٹ جیسے شرفا کے کھیل میں حریف کے پرخچے کب سے اڑائے جانے لگے اور چھکے کب سے چھڑائے جانے لگے اور شاہینوں، شیروں، کینگروز اور دیگر جانوروں نے کب سے پیڈنگ شروع کر دی؟
مگر کیا کریں؟ آج کل کے لمڈوں میں یہی اصطلاحات اور یہی چلن ہے۔ لہذا میں بھی اسی جذبے سے اپنے ’’جذباتوں‘‘ کا اظہار کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ تصور کر کے گویا کرکٹ کے میدان میں نہیں کسی رومن اکھاڑے کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوں کہ جہاں کسی بھی لمحے بھوکے سانڈوں اور گلیڈی ایٹرز کا زندگی و موت کا کھیل شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔
ہمارے ابا یہ نصحیت کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے کہ بیٹا ہر نماز ایسے پڑھنا جیسے آخری ہو۔ نماز تو خیر ہم ایسے کیا پڑھتے البتہ پاکستان اور بھارت کا ہر کرکٹ میچ ضرور ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے آخری میچ ہو۔ یہی ناہنجار بھارت اس بار جب آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کے پول میچ میں پاکستان کو اپنے تئیں کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک بار پھر حالات کچھ ایسے بن جائیں گے کہ فائنل میں
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
قدرت خدا کی دیکھئے کہ ہمارے زخموں پر پہلا مرہم پول میچ میں سری لنکا نے بھارت کو سات وکٹوں سے ہرا کر لگایا اور پھر خود پاکستان سے ہار کر دوست ہونے کا حق ادا کر دیا اور پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا اور وہ بھی ڈک ورتھ لوئیس فارمولے کے بغیر۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس فارمولے کے بارے میں کدو نہیں پتہ۔ بس اتنا سنا ہے کہ یہ بارش کے بعد کھیلے جانے والے اوورز پر لاگو ہوتا ہے اور ساؤتھ افریقہ کو ہرانے میں یہی ریاضیاتی معمہ پاکستان کے کام آیا تھا۔
اور پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ انگلینڈ جیسی ٹیم جس نے کوئی پول میچ نہ ہارا جب پاکستان جیسی آٹھویں نمبر کی ٹیم سے اس کا سیمی فائنل میں سامنا ہوا تو یقین نہ آتا تھا کہ یہ پاکستانی ٹیم ہی ہے۔ یقین آتا بھی کیسے، فیلڈنگ ایسی کہ انگلینڈ کو ایک چھکا مارنا بھی نصیب نہ ہوا، یوں لگا گویا وکٹ نے انگلش بلے بازوں اور بالرز کی ٹانگیں پکڑ لیں۔ اگر یہ کوئی خدائی مداخلت نہیں تھی اور خالصتاً پاکستانی ٹیم کا زورِ بازو ہی تھا تو پھر یہی زورِ بازو ہر میچ میں کیوں نظر نہیں آتا اور پاکستان بیشتر سیریز اور ٹورنامنٹس میں پاگل بن کے حلوہ کھانے کی اداکاری کیوں کرتا ہے؟
اس مضمون کو بھی دیکھیے: مصباح اور یونس ستارے نہیں، استعارے تھے
قصہ مختصر پاکستان پہلی بار آئی سی سی چیمپینز ٹرافی فائنل میں پہنچ گیا۔ دوسری جانب سے بھارت بھی حسبِ توقع بنگلہ دیش کو مارتا ہوا فائنل میں آ گیا۔ یوں بقول ایک ٹریکٹر ٹرالی ادیب پاکستان کو ’’وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا‘‘۔
ابھی فائنل میں ایک دن باقی ہے۔ مہنگے چینلوں نے تو بہت پہلے ہی سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ایک دو تین چار سابق ٹیسٹ کرکٹرز پینل پر رکھ لیے۔ مگر غربا چینلز اپنے اینکروں کے پیچھے ہی گیند اور بلا بنا کے کم خرچ بالا نشیں کرکٹانہ مہارت کا تاثر دے کر اپنا وجود منوا رہے ہیں۔
جس طرح ایک ہی بیماری کی تشخیص کے باوجود کسی ڈاکٹر کا نسخہ دوسرے ڈاکٹر سے یکسر مختلف ہوتا ہے اسی طرح کرکٹ میں بھی کسی ماہر کی رائے کسی دوسرے ماہر سے اتفاق نہیں کرتی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا منجن ہے اور کوئی بھی کسی سے کم مقدار اور قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں۔
اگر پاکستانی ٹیم کل میدان میں اترنے کے بعد ایسے تمام بھانت بھانت کے ٹی ویانہ دانشوروں اور ناصحین کی خواہشاتی فرمائشوں اور مشوروں پر عمل کرتی ہوئی کمر بستہ ہو جائے تو صرف ان مشوروں کا بوجھ ہی ٹیم کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے۔ شکر ہے جہاں پاکستانی ٹیم ٹھہری ہوئی ہے وہاں اکا دکا پاکستانی چینلز ہی کمروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ورنہ تو ان کمروں کو بدلے اور انتقام کی پکار اور تبصراتی و مشوراتی ٹیلی کاسٹ ایندھن سے ہی آگ لگ جائے۔
ہارنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر بھی دعا کیجیے کہ اگر بدقسمتی سے بھارت ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرے اور تین سو سے اوپر رنز بنا لے تو اس کی اننگز مکمل ہوتے ہی ساون ایسا ٹوٹ کے برسے کہ اوول میں گھٹنے گھٹنے پانی کھڑا ہو جائے اور پھر شام ڈھلے یہ فیصلہ ہو کہ پاکستان بس دو اوورز کھیلے اور بھارت کے تین سو سے زائد سوکھے رنز کے مقابلے میں محض پندرہ گیلے رنز بنائے اور ڈک ورتھ لوئیس فارمولے کے مطابق ایوریج رن ریٹ کی ضرب جمع تقسیم کے بل پر بھارت کی ناک رگڑ دے۔ اور اگر پاکستان ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرے تو کم از کم چار سو اکیس رنز بنا لے تاکہ ہمارے بالرز کو بھارت کی اننگ میں سات کھلاڑیوں تک جانے والے طویل بیٹنگ آرڈر کے پرخچے اڑانے کے لیے ٹھیک ٹھاک گنجائش مل سکے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان اگر پہلے بلے بازی کرتا ہے اور خدانخواستہ پوری ٹیم دو سو کے اندر لپٹ جاتی ہے تو پھر جائے نماز بچھا کر دعا کی جائے کہ جیسے ہی بھارت اپنی اننگز شروع کرے آسمان سے ایسی جھڑی لگے کہ ایک ہفتے تک رکے ہی نہیں۔ یوں فائنل ہی پانی میں بہہ جائے۔
اب آپ کہیں گے کہ میں کتنی گھٹیا سوچ رکھتا ہوں۔ اور یہ کیسی گری ہوئی ذہنیت ہے کہ مجھے کرکٹ سے بطور کھیل نہیں بس اس سے دلچسپی ہے کہ کسی طرح بھارت نہ جیتے۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ہاں میں گھٹیا ہوں۔مگر میں اکیلا نہیں۔میرے جیسے کروڑوں ہیں جو بھارت ہو کہ پاکستان ہر جگہ اسی طرح سوچتے ہیں۔اس میں اعلی اور ادنیٰ کی کوئی قید نہیں۔ رشی کپور بھی یہی ٹویٹ کرتے ہیں کہ پاکستان کو فائنل میں آنا مبارک ہو۔ بھارتی ٹیم کی وردی بھی نیلی ہے اور ہم تمہیں بھی نیلا کرنے کے لیے ایک بار پھر تیار بیٹھے ہیں۔
وہ اور جنٹل مین ہوں گے جو کرکٹ کے میدان میں جوس، چپس، سینڈوچ اور سیب وغیرہ لے کر اپنے بچوں کے ہمراہ صرف کرکٹ انجوائے کرتے ہوں گے۔ ہم تو بھیا اپنے ساتھ ستر سال کا کوڑا کرکٹ لے کر گراؤنڈ میں جنگ دیکھنے اور کرنے جاتے ہیں۔اور گھر میں ٹی وی کے سامنے بھی بیٹھے ہوں تو ہمارے گلاس میں جوس بھی پلک جھپکتے زہر اور دوسرے پل میں تریاق ہو جاتا ہے۔
آپ اپنی سیانپتی اپنے لیے بچا رکھیں۔ ہم ایسے ہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ بھلے فائنل کوئی بھی جیتے۔
بشکریہ: ایکسپریس ڈاٹ پی کے