وَڈّا نانا واقعی روشنی کا منبع تھا
از، ضیغم رضا
یہ خبر ہم نے ایک جبر کی طرح سُنی، سہی اور فطرت کے انتقام کو قانون مانتے ہوئے چپ ہو رہے۔ نانا کی وفات شاید اتنا بڑا بھونچال نہیں تھا کہ انہوں نے بھر پُور زندگی گزاری تھی اور بَہ طورِ انسان اپنے تمام تر شخصی امکانات کو بَہ رُوئے کار لاتے ہوئے حتیٰ المقدُور تحرک و تبدل کا سامان کیا تھا۔
اصل سانحہ تو اس تیَقُّن کا تھا کہ نانا اب اس دنیا میں نہیں رہے اور یہ وقت محض چند گھڑیوں کا تھا، یعنی یہ جاننے میں کہ نانا بھی فانی ہیں اور اس ادراک میں کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے! یہاں مجھے ایک دوست کا سنایا ہوا بہ ظاہر ایک لطیفہ، مگر، قانونِ فطرت کا شارِح ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔
وہ یوں کہ علاقے کی ایک نامی گرامی شخصیت کا جنازہ پڑھنے کے بعد لوگ واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ایک چرسی نے پوچھا، “سئیں کون فوت ہو گیا تھا؟” لوگوں نے بتایا تو اس نے سر کو ہاتھوں میں دیا اور لمبی سی ہائیں کرتے ہوئے کہا، “سئیں ایہو خدا تاں ول بچدا کوئی نوے” (اگر یہ ہی خدا رہا تو کوئی باقی نہیں بچے گا)۔
سو جب بڑے ماموں نے آ کے بتایا کہ نانا کی طبیعت بہت خراب ہے تو ایک لمحے کو سب کچھ ساکت ہو کے رہ گیا۔ حتیٰ کہ برآمدے میں سارا دن اودھم مچاتی مینائیں بھی سہمی ہوئی نظر آئیں۔ بند کنویں میں بوکا گرنے کی مانند صرف ایک شور تھا، وہ صرف میرے دل کی دھڑکن کا تھا!
اس ساکت لمحے میں دل کی دھڑکن سے بھی تیز رفتار، ذہن کی تھی جو بڑی تیزی سے ماضی کو زندہ کیے جا رہا تھا۔ ابھی گزری عید پہ ہی سنا تھا کہ نانا کی کہولت نے ان کی آنکھوں کو چمکنے سے نہ روکا تھا۔ روایتی طور پر پورے خاندان کے افراد جب ان کے پاس گئے اور نماز پڑھنے کے لیے ساتھ چلنے کا کہا، تو وہ اٹھ بیٹھے تھے۔
سب سے پہلے شیو کا سامان منگوا کے چہرے کو تر و تازہ کیا، اور پھر جانے کی اجازت دے دی کہ ان کی صحت انہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اور وہ آخری سَر زَنش جو انہوں نے بھرے مجمع میں مجھے کی تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے پوچھا، “اوئے تم کیا کرتے پھر رہے ہو؟” میری منمناہٹ، “ایم فل” تک محدود رہی، مگر قدم نہیں رکے۔ سو انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،”اکڑ دیکھو! جیسے ڈی سی کا پُتر ہو!”
آخری دنوں میں جب کہ بیماری نے ان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا، ایسی حالت میں انہیں دیکھنا خاصا تکلیف دِہ کام تھا۔ عزیزوں کے بار بار اصرار کے با وُجود میں انہیں دیکھنے نہیں گیا کہ میرے سامنے نانا کی جو تصویر تھی موجودہ تصویر اس کی نسبت خاصی دھندلی، بَل کِہ، موہوم تھی۔
میری یاد داشت میں ان کی جو تصویر ہے وہ میں نے اپنے بچپن میں دیکھی تھی، جب میں بَہ مشکل چار پانچ سال کا ہوں گا، تب سنا تھا کہ وہ بہاول پُور میں رہتے ہیں۔ جس دن ہمیں باہر کھلینے کی آزادی نہ ہوتی ہم جان لیتے کہ آج اتوار ہے اور نانا، گھر آئے ہوئے ہیں۔
ان کا وتیرہ تھا کہ گاؤں پہنچتے ہی سرچ لائٹ لے کر بچے تلاش کرتے پھرتے۔ جو بھی نظر آ جاتا اس کی اچھے طریقے سے چھترول کرتے اور پھر گھر بھیج دیتے۔ پہلے وہ اپنے مخصوص دھیمے (با رُعب) لہجے میں پوچھتے:
“اوئے منحوس دا پتر آ گھر بہن نئیں آندا؟”
اول تو سامنے والا یہ جملہ سن کر ہی اپنا پیشاب خطا کر دیتا، یا اگر وہ تگڑا ہوتا تو باہر پھرنے کا (سچا/جھوٹا) بہانہ بنا کر اپنی خلاصی کراتا۔ دوسری صورت میں اگر اس کے پاس کوئی معقول وجۂِ آوارگی نہ ہوتی تو نانا کا ایک تھپڑ اس پہ چودہ طبق روشن کر دیتا۔ اِدھر نانا کا تھپڑ اس کے گالوں پہ ثبت ہوتا، اُدھر اس کا الٹا ہاتھ آناً فاناً اس کی آنکھوں سے لگ جاتا؛ اور وہ رِیں رِیں کرتا گھڑ دوڑتا۔ یہ بھی نہیں کہ گھر اس کے لیے جائے اماں ثابت ہوتا اور والدین اس پہ تشفی کے ڈونگرے برساتے۔
ہر گز نہیں! اگر وہ بتا دیتا کہ مجھے “دادے وڈے” نے مارا ہے تو الٹا والدین اس پہ برس پڑتے کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی، “وڈے” کے سامنے یوں آوار گردیاں کرے!
نانا کا اصل نام تو عبد الکریم ارشد تھا، لیکن ہر شخص کے لیے ان کا نام الگ تھا۔ اگر دوسرے گاؤں کا کوئی آدمی ملنے آتا تو “وڈے ملک صاحب” کا پوچھتا۔ جو لوگ ان کی ملازمت سے واقف تھے، مگر عہدہ نہ جانتے تھے، وہ ماسٹر صاحب کہتے۔ جب کہ ہم خاندان والے انہیں رشتے کے اعتبار سے بلاتے۔
ہمارے تخاطب میں دو باتیں مشترک تھیں: وڈا کا لاحقہ اور خوف! وَڈّا تو سب انہیں اس لیے کہتے تھے کہ عمر و رتبے میں ان کا پورے گاؤں میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ بڑا بیٹا ہونے کے سبب ان پہ والد کی پَگ بھی تھی اور تعلیم میں بھی وہ سب بھائیوں سے آگے تھے۔ البتہ، جہاں تک خوف کا تعلق ہے تو اس میں زیادہ دخل تو ان کے الگ تھلگ رہنے کا ہے کہ جس نے انہیں حد درجہ مغائرت برتنے کا چلن بخشا؛ ان کے چہرے کی سنجیدگی اور کم گوئی بھی سامنے والے کو کَپکَپا دیتی تھی۔ قہقہہ تو ہم نے کبھی سنا ہی نہ تھا مسکراہٹ بھی عید کی مانند سال بعد نظر آتی۔
میری شدید خواہش تھی کہ نانا کو بہاول پُور میں دیکھوں کہ سنا تھا وہاں وہ اپنی چھوٹی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بہ ظاہر علائقی بے گانگی سے مملو اس شخص کو خوانگی معمول میں الجھا ہوا دیکھنے کی میری کمینی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب ایک دفعہ موسمِ گرما کی تعطیلات میں میرا بہاول پُور جانا ہوا۔ اب تک نانا کو میں نے نہیں دیکھا تھا، البتہ، ایک تجسس تھا کہ دیدے پھاڑے جھانکتا رہتا، یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہے وہ؟ کیسا ہے وہ؟
تبھی جب اماں نے کہا کہ میں اپنی دادی (نانا کی والدہ) کی عیادت کے لیے جا رہی ہوں اور تم نے بھی ساتھ چلنا ہے تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
میں اماں کے ساتھ چل تو دیا، مگر نہیں جانتا کہ قومی شاہ راہ ابھی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس پہ ہچکولے کھاتے ہوئے رینگتی بس: ہمارے جسمانی اعضاء میں یوں اُتھل پُتھل کر رہی تھی جیسے دودھ میں چینی گھولنے کے لیے برتن ہلایا جاتا ہے۔ ہر دھکے کے بعد اماں اپنے بازوؤں کی گرفت میری کمر کے گرد مضبوط کرتی، کہ کہیں میرا سر اگلی سیٹ سے نہ ٹکرا جائے، مگر میں مطمئن تھا۔
میں جو بچپن سے وَڈّا، وَڈّا سن کے عاجز آ چکا تھا، اور سوچ چکا تھا کہ نانا کوئی ایسی چیز ہے جسے محسوس کرنے کی میرے پاس صلاحیت ہے اور نہ ہی تاب؛ اب اسے دیکھنے کا چاؤ مجھے ہر رنج سے رہائی دے چکا تھا۔ سو ایسی ہی ان سدھائی گھوڑی کی مانند بس پہ سفر کرتے ہوئے جب ہم بہاول پُور پہنچے تو میں خوش ہوا؛ واقعی یہ شہر اتنا وڈا تو تھا کہ نانا اس میں سما سکیں۔
جب اماں نے نانا کے گھر کی گھنٹی بجائی تو میں نے عقل و ہوش کے سب دَر وا کیے اور اتنا چوکس ہو گیا کہ اپنی سانس پہ بھی توجہ دینا چھوڑ دی۔ در اصل، مجھے خوف لاحق ہو گیا کہ جب دروازہ کھلے گا تو اس سے جھانکتی روشنی کہیں میری آنکھوں کو چُندھیا نہ دے اور میں اس روشنی کے اصل منبع کو دیکھنے سے نہ رہ جاؤں۔
وَڈّا نانا واقعی روشنی کا منبع تھا!
ساٹھ کی دھائی میں، جب کہ ذرائع آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھے، انگوٹھا چھاپ افراد بھی زندگی کر گزرتے تھے۔ نانا پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ اگر ہمارے خاندان میں آج چند افراد پڑھے لکھے ہیں، یا ملازمت پیشہ ہیں، تو یہ انہیں کی وجہ سے ہوا۔ جُوں ہی ان کی ملازمت ہوئی تو انہوں نے بوریا بستر باندھا اور بہاول پُور رہائش اختیار کر لی۔
خاندان کے اس وقت جتنے بھی بچے تھے سب کو تعلیم دلانے کا جتن کیا اور اپنے گھر میں اپنے پَلّے سے پڑھایا۔ آج اماں اسی گھر کی گھنٹی بجا رہی تھی جس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں نانا کا خون پسینہ ایک ہوا تھا۔
میرے اندر سانس کا اتنا دباؤ جمع ہو گیا کہ مجھے خطرہ لاحق ہو گیا کہیں نانا کو دیکھنے سے پہلے ہی میں زمین پہ نہ آ رہوں! لیکن دروازہ کھلتے ہی نہ مجھے روشنی نے چُندھیایا، نہ ہی میں نانا کی صورت دیکھ پایا۔ میرے ہم عمر ایک لڑکے نے دروازہ کھولا اور ‘آؤ آپی’ کہہ کر ہمیں اندر مَدعُو کیا، یہ میرا چھوٹا ماموں تھا۔
ماموں کی رَہبری میں ہم نے مختصر سی راہ داری کو چند قدموں کے بعد عبور کر لیا۔ سامنے ایک مختصر سا صحن نظر آیا جس میں بَہ مشکل تین چار پائیاں ڈالی جا سکیں۔ دائیں ہاتھ پہ چھت کو جاتی سیڑھی تھی جس کے نیچے پانی کا نَل تھا۔ صحن سے برآمدہ اور اس سے متصل دو کمرے تھے۔ برآمدے میں دو چار پائیاں پڑی تھیں۔ ایک پہ اماں کی بیمار دادی لیٹی تھیں جب کہ دوسری چار پائی پہ ایک فربَہ خاتون براجمان تھیں۔
(جاری ہے)