مٹکا ٹوٹ جائے تو اسے پھر ٹھیکرے کہتے ہیں!
جمیل خان
جس طرح پاکستان کے دولخت ہونے سے قبل مغربی پاکستان کے بہت سے دانشوروں یا سیاسی رہنماؤں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا تھا، اور کچھ نے جو دل سے اس کارروائی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے بھی اس کے خلاف اپنی زبانیں بند رکھیں اور کہیں کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔
سچ تو یہ ہے کہ ان غیرجانبدار دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں نے بھی مشرقی پاکستان میں جاری ظلم و ستم کو مضبوط جواز فراہم کیا تھا، ان کی خاموشی بھی انہیں بالکل اسی طرح اس قتل عام کے جرم میں برابر کا شریک ٹھہراتی ہے، جیسے کہ جماعت اسلامی، اردو ڈائجسٹ، نوائے وقت اور دیگر دائیں بازو کے صحافی، دانشور اور سیاستدان نے اس کارروائی کی حمایت کرکے اس جرم میں پوری طرح شریک تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان نے آخری مراحل میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے میں مدد کی تھی، لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی، جب بانیٔ پاکستان نے ڈھاکہ میں اردو زبان کو ملک کی قومی زبان قرار دیا تھا، بعد کے برسوں کے دوران بنگالیوں کے خلاف مغربی پاکستان میں عمومی رویہ یہ تھا کہ بقول احمد علی خان کے جب آپریشن شروع ہوا تو لوگ بنگالیوں کو ملعون کہا کرتے تھے۔
بالکل اسی طرح آج بھی خصوصاً پنجاب کی اشرافیہ اور مڈل کلاس اور ملک بھر کے دائیں بازو کے سیاسی و غیرسیاسی گروہوں نے یہی رویے اپنائے ہوئے ہیں۔
بلوچ، پشتون، سندھ کے قوم پرستوں، ہزارہ شیعہ اور مجموعی طور پر شیعہ کمیونٹی کے خلاف ظلم و ستم جاری ہے، لیکن ملکی صحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کی اکثریت دگرگوں حالات سے لاتعلق ہے، یا پھر اس ظلم کو جائز قرار دیتی ہے۔
پاکستان کسی قوم کا نام نہیں ہے، یہ قوموں کے اکھٹ (وفاق) کا نام ہے، یہ ریاست کا نام ہے، قومیں یہاں درجنوں ہیں، لسانی برادریاں یہاں بیسیوں ہیں، ان سب کو اکھٹا کرنے کے لیے آئین کے ذریعے ایک ریاست تشکیل دی گئی تھی، یہ قومیں کسی سلطان کی تلوار سے فتح نہیں ہوئیں، کسی مطلق العنان جابر شہنشاہ کے لشکرکشی کے نتیجے میں پاکستان تشکیل نہیں پایا تھا…. بلکہ آئینی اور جمہوری طور پر تمام قوموں سے پاکستان میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی تھی۔
گوکہ اس وقت تذبذب کا شکار دیکھ کر اور انکار کے اندیشوں کے خوف سے پشتون اور بلوچوں کے ساتھ جبر سے بھی کام لیا گیا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے تلخ تجربے کے بعد بھی عقل کے ناخن نہیں لیے گئے ہیں، اور وہی مطلق العنان شہنشاہیت کے رویے تاحال جاری ہیں۔
اگر پاکستان کوئی قوم ہوتی اور اس کی ثقافت اور زبان ایک ہوتی تو پھر شاید کوئی مسئلہ نہ ہوتا، جیسے کہ کئی ممالک ہیں، مثلاً عرب ممالک یا ایران وغیرہ، لیکن پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی یہاں درجنوں اقوام ہیں، جن کی اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ موجود ہے۔
اصل پاکستان ٹوٹ چکا ہے، مٹکا ٹوٹ جائے تو ٹھیکرے باقی رہ جاتے ہیں، ان ٹھیکروں کو مٹکا نہیں کہا جاتا۔ تاہم پھر بھی ہماری ہمیشہ یہی خواہش ہے کہ پاکستان ناصرف قائم و دائم رہے، بلکہ خوشحالی و ترقی کی راہوں پر بھی آگے بڑھتا چلا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اب پاکستان کا نیا آئین تشکیل دیا جائے، اس نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت کو نظرانداز کرنا تباہی و بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اور اس سب سے پہلے پاکستان میں میگنا کارٹا کے طرز کے ایک معاہدے کی بھی اشد ضرورت ہے، جو فوجی مقتدرہ کو ریاستی معاملات سے علیحدہ کرنے پر مبنی ہو، جس طرح برطانیہ میں میگنا کارٹا کے ذریعے بادشاہ کو ریاستی معاملات سے الگ کیا گیا تھا، اور بادشاہ کے حکم کو حرف آخر سمجھنے کے طریقہ کار کو رد کردیا گیا تھا۔
جب ایسا ہوگیا تو یقیناً پاکستان اگلے دو عشروں کے بعد جنوبی و جنوب مشرقی ایشیاء کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ترین ملک بن کر اُبھرے گا۔