متفق علیہ دھرنا 

Farnood Alam

متفق علیہ دھرنا 

دھرنا و مارچ وغیرہ میری رائے میں سب جائز ہے۔ مگر کوئی فوج کی پالکی میں بیٹھ کر آئے، کسی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ سیاسی قوتیں باہم ہر معاملے کا حل نکال سکتی ہیں۔ ان کے لیے استعفیٰ بھی دیا جا سکتا ہے مگر فوج بیچ میں آ جائے تو پھر عوام کے نمائندے کے لیے استعفیٰ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔

دوہزار چودہ کا دھرنا اس لیے غلط تھا کہ وہ فوج کی حمایت میں تھا۔

یہ والا اس لیے روا ہے کہ یہ فوج کے خلاف ہے۔

سیاسی کارکنوں کے لیے وہ دور بہت اہمیت کا حامل ہونا چاہیے جس دور میں فوج با قاعدہ پارٹی کے طور پر آشکار ہوئی ہے۔


متبادل رائے:

آؤ ہم تماشا دیکھتے ہیں از، سیّد کاشف رضا


موجودہ وقت میں انتخابات سے پہلے سے لے کر اب تک فوج نے اپنی پوزیشن بتادی ہے۔ مثلاً موجود حکومت کے حوالے سے فوج کی غیر جانب داری کو جن چیزوں نے متاثر کیا ہے وہ یہ ہیں:

1۔ انتخابات سے پہلے آرمی چیف نے صحافیوں کے سامنے نواز شریف اور اسحق ڈار کا نام لے کر کہا کہ یہ disaster ہیں۔

اسی نشست میں آرمی چیف نے اٹھارویں ترمیم پر رائے بھی دی۔

  1. انتخابات سے کچھ روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا، یہ تبدیلی کا سال ہے۔

3۔ انتخابات کے نتائج پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹویٹ میں کہا، وتعز من تشاء وتذل من تشاء۔

  1. پچھلے دنوں ریٹائرڈ بریگیڈئیر اور موجودہ وزیرِ داخلہ نے کہا، نواز شریف اگر اپنے قریبی لوگوں کی بات نہ مانتے تو چوتھی بار بھی وزیر اعظم ہوتے۔

5۔ پچھلے دنوں بزنس کمیونٹی سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا، اپوزیشن سے دور رہو اور حکومت کو سپورٹ کر۔

6۔ وزیرِ اعظم نے کہا، میں استعفیٰ نہیں دوں گا فوج میرے ساتھ ہے۔

از، فرنود عالم