مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ

مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ
مولانا مودودی

مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ

از، مولانا عمار خان ناصر

مولانا مودودی کی دینی فکر میں اسلامی ریاست کا قیام، جس کو وہ اپنی مخصوص اصطلاح میں ”حکومت الٰہیہ“ کا عنوان دیتے ہیں، بے حد اساسی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اسے مسلمانوں کے ایک اجتماعی فریضے کا درجہ دیتے ہیں۔

اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی و اخلاقی اقدار اور متعین احکام و قوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے۔ اس لیے بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیاتِ اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیلِ نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہلِ دانش کے ہاں غور و فکر اور بحث و مباحثے کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔

مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ ان مفکرین کے غور و فکر اور مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی و نظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔

مولانا مودودی کا شمار اس طرزِ فکر کے حامل قائدین کی صف اول میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہند سے قبل مولانا نے ”موجودہ سیاسی کشمکش“ کے زیرِ عنوان ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ میں کئی قسطوں پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی تحریر لکھی جس میں معروضی صورت حال میں مسلم لیگ اور جمعیة علمائے ہند وغیرہ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے تجویز کیے جانے والے لائحہ ہائے عمل پر زودار تنقید کی اور متحدہ قومیت اور لبرل جمہوری ریاست کے تصورات کے بالمقابل حکومت الٰہیہ یعنی اسلامی ریاست کے قیام کو مسلمانوں کے لیے واحد شرعی لائحہ عمل قرار دیا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نظری سطح پر اس حوالے سے زوردار بحث شروع ہو گئی تھی کہ نئی ریاست کو ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونا چاہیے یا ایک اسلامی ریاست۔ اس بحث میں مولانا مودودی نے بھرپور حصہ لیا اور آخرِ کار عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی محنت اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۵۶ء کے دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی دفعات شامل کر لی گئیں۔

اس تناظر میں ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین اس نکتے کے حوالے سے تفصیلی مراسلت ہوئی کہ کیا اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کی رو سے شریعت کے قوانین کا نفاذ مجلس قانون ساز اور صدرِ مملکت کی منظوری کا محتاج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مسلم و غیر مسلم اراکین دونوں کو یکساں حق رائے دہی حاصل ہے۔

ڈاکٹر احمد حسین کمال کے اٹھائے ہوئے ان سوالات کے جواب میں مولانا نے دو تفصیلی مکتوب تحریر کیے جن میں انھوں نے نفاذِ شریعت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کیا۔ یہ مکاتیب ترجمان القرآن کے دسمبر ۱۹۵۶ءکے شمارے میں شائع ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں:

آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے متعلق ہمارا نقطہِ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ …. دستورِ اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، نہ کبھی پوشیدہ تھی، لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آ رہا ہے۔“ (۱)

”ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ”براہِ راست“ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست و پا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی اور طرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔

“…. ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدانِ مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ”براہِ راست“ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اور بروقت اٹھا دینا ہوگا۔“ (۲)

”واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتداء انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انھی اصولوں پر سال ہا سال تک اس کا مسلسل ارتقاء ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظامِ تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔

“ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم از کم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لا دینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔“ (۳)

غلبہِ دین کی جدوجہد میں تدریج کی حکمت عملی کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

”اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہِ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت و تدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔

“جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو مؤخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرزِ عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھوؤں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔

“ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان و مکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطہِ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔ ….

“ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ و متحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی واخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظِ نسل و نسب و وطن سربراہی کے مقام پر آ سکے۔ ….

“رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس کا تو سارا نشو و ارتقاء ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرز عمل کا گہرا مطالعہ کر کے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث و معاملات پر منطبق ہو سکتے ہوں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انھی حوادث و معاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔“ (۴)

اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں اور بیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین و قانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

مولانا سے سوال کیا گیا کہ ”کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟“ اس کے جواب میں فرمایا:

”فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

“علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔

“اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِ اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

“میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضورﷺ کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ …. آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔“ (۵)

Maulana Ammar Khan Nasir aik Rozan
مولانا عمار خان ناصر، صاحب مضمون

مزید فرماتے ہیں:

”بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔

“اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامة الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ …..

“کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے آئمہِ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عامہ کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عامہ کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔

“وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کارِ فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔

“یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔“ (۶)

مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:

”یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔

“ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔“ (۷)

”میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سال ہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔

“اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین و قانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ …. یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔“ (۸)

مولانا نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں واضح کی کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریکِ اصلاح برپا کرنا ہی ہوگا نہ کہ مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش۔ لکھتے ہیں:

”واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:

“ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمامِ کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ….

“دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔

ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔“ (۹)

یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دورِ حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہِ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث و مباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی و معروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔

اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دورِ جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط و خال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔


حوالہ جات

(۱) ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر“، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیة پبلی کیشنز، لاہور، ۱۱۰۲ئ، ص ۸۰۱، ۹۰۱

(۲) ایضاً، ص ۶۱۱، ۷۱۱

(۳) ایضاً، ص ۱۲۱، ۲۲۱

(۴) ”تفہیم الاحادیث“، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارہِ معارف اسلامی، لاہور، ۶۴۵۴، ۵۵۴۔

(۵) ”تصریحات“، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور، ص ۷۵۲، ۸۵۲۔

(۶) ایضاً، ص ۰۲۳-۲۲۳

(۷) ایضاً، ص ۰۴۳

(۸) ایضاً، ص ۲۹

(۹) ابو الاعلیٰ مودودی: ”اسلامی ریاست: فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی“، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۰۱۰۲ئ، ص ۶۳۶، ۷۳۶

بشکریہ: دلیل ڈاٹ پی کے

1 Comment

  1. سر آپ کی تحریر بہت معلوماتی ہے لیکن کچھ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے۔
    1. مولانا مودودی تو پرامن سیاسی جدوجہد کی بات کرتے ہیں لیکن ایسی کیا وجہ ہے آج جماعت اسلامی ہر طرح کی پرتشدد جماعتوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی کرتی نظر آتی ہے؟ کیوں ہر طرح کے دہشت گرد ان کے گھروں سے ملتے ہیں؟ کیوں ملک کی تمام پرتشد جماعتیں جماعت اسلامی کی قیادت میں اکٹھی نظر آتی ہیں؟ کیوں یہ کسی دہشت گرد تنظیم کی یا دہشت گردی کے واقعے کی مذمت نہیں کرتے (سوائے سارا ملبہ ہندوستان کی راء پر ڈالنے کے)۔ اگر جماعت اسلامی اپنے قائد کے نظریات سے ہٹی ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور اس کو واضع کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے؟
    2۔ اگر اپنے ملک میں سماجی تبدیلی اور مسائل حل کرنے کے لئے پرامن اور آئنی حدود کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنی چاہیے تو دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے بھی اس اصول کو سامنے رکھا جائے گا یا وہاں پرتشد کاروائیاں اور سامراجی ممالک کی سرپرستی میں ‘جہاد’ کی اجازت بھی ہوگی؟ اگر دوسرے ممالک میں برپا ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہے تو ایسا کونسا ظلم ہے جو ہمارے معاشرے میں برپا نہیں ہے؟ یہاں مسلح جدوجہد جائز کیوں نہيں؟ اور اگر اپنے ملک میں ناجائز ہے تو دوسرے ممالک میں کیسے جائز ہوگئی؟

1 Trackback / Pingback

  1. بلا ستر کے جو اسٹیبلشمنٹ نکلی — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.