مولانا مودودی یا سید قطب پر جب بھی تنقید کی
(خورشید ندیم)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی میرے فکری سفر کا ایک اہم پڑاؤ ہیں۔ وہ میری اُس روایت کا حصہ ہیں جو میرے لیے باعثِ افتخارہے۔ علمی وجاہت کے ساتھ، شخصی اوصاف کے حوالے سے بھی وہ ایک بے مثل آدمی تھے۔ ان کا فکری دیوان میرا طالب علمانہ سفر کا ایک پراؤ ہے، منزل نہیں۔ میری جستجو مجھے محترم جاوید احمد صاحب غامدی تک لے آئی۔
ان نئے پڑاؤ پر میرے قیام کے تین عشرے مکمل ہونے کو ہیں۔ تادمِ تحریر، مجھے اطمینان ہے کہ میں صحیح جگہ پہنچ گیا ہوں۔ میں نے اس زاویہء فکر میں دین کو جس طرح سمجھا، یہ اُس سے بہت مختلف ہے، جیسے میں نے مولانا مودودی کے ہاں جانا؛ تاہم اس سے میرے دل میں مولانا کی محبت اور احترام میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں میری فکری ہی نہیں جذباتی آسودگی کا بھی بھرپور اہتمام ہوا۔ جاوید صاحب کے دل میں مولانا مودودی کی بے پناہ محبت کے مظاہر میں نے بارہا دیکھے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ سید قطب کا بھی ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ اس امت کے جلیل القدر لوگوں میں سے تھے۔ آسمان کی آنکھ نے ایسے صاحبانِ عزیمت کم ہی دیکھے ہوں گے۔
یہ بات کہنے کی مجھے اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ میں نے جب بھی مولانا مودودی یا سید قطب کے فکر پر کوئی تنقید کی، میرے ‘پیر بھائیوں‘ نے اسے کسی اور زاویہ نظر سے دیکھا۔ اس کا ایک مظہر میرے محترم بھائی سلیم منصور خالد کا مضمون ہے جو انہوں نے میرے کالم ”مسئلہ تکفیر اور سید قطب‘‘ کے جواب میں لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ”یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے‘ جس میں یہ متعین کرنے کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہو رہی ہے، اس کا منبع سید قطب اور اخوان المسلمون کی فکر ہے‘‘۔ سلیم منصور خالد کا کہنا ہے کہ ”(مولانا مودودی اور سید قطب) نے کبھی تکفیر اورکفر سازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کر سکتا ہے کہ مولانا مودودی نے تکفیری فکر کی ترویج یا تائید کی ہے؟‘‘
میرے کالم کا جو اصل موضوع تھا، میرے محترم ناقد نے اس سے صرفِ نظر کیا اور ایک ضمنی بات کے رد پر زورِ قلم صرف کیا۔ اس کی حکمت تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے کالم میں یہ نہیں لکھا کہ مولانا مودودی یا سید قطب نے براہِ راست کسی کی تکفیر کی۔ میں نے جو بات کہی ہے، اسے خود انہوں نے نقل کر دیا ہے کہ ”اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہاپسند تنظیمیں وجود میں آئیں‘ جو مسلمانوں کو مرتد قرار دیتیں اور ان کی تکفیر کرتی ہیں‘‘۔ اخوان اور جماعت اسلامی فکر کے لحاظ سے توام ہیں۔ میری اس رائے کی بنیاد کیا ہے، میں اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیے دیتا ہوں۔
مولانا مودودی اور سید قطب روایتی علما میں سے نہیں تھے۔ مولانا تو ایک جدید علمِ کلام کے بانی اور صاحبِ اسلوب ادیب تھے۔ یہی معاملہ سید قطب شہید کا بھی ہے۔ ان حضرات کے ہاں روایتی علما کی طرح فتویٰ کی زبان استعمال نہیں ہوتی۔ وہ فقہی یا کلامی اختلافات کی بنیاد پر بھی کسی کی تکفیر نہیں کرتے؛ تاہم انہوں نے قرآن مجید کی بنیادی اصطلاحوں، دین، رب، الٰہ اور عبادت کے ساتھ طاغوت کی جو تعبیرِ نو کی اور سید قطب نے جاہلیتِ جدیدہ کا جو تصور دیا، اس سے ایک ذہن پیدا ہوا، جو انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہے۔ اس ذہن کے نزدیک مسلمان حکمران طاغوت ہیں اور وہ قرآن مجید کی ان آیات کے مصداق ہیں جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ جو اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، وہ کافر اور فاسق ہیں۔ میں اس بات کو دو مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔
1995ء میں جب بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں، جماعت اسلامی نے ان کے خلاف ایک تحریک اٹھائی۔ پختون خوا کے امیر اور جماعت اسلامی کے مرکزی راہنما مو لانا گوہر رحمان نے اس تحریک کا دینی جواز پیش کرتے ہوئے لکھا‘ ”پاکستان کی موجودہ حکومت طاغوت ہے، الجماعۃ نہیں اور اس کی خیر خواہی اور وفاداری کا التزام طاغوت کا التزام ہے، التزامِ جماعت نہیں۔ اس لیے کہ یہ حکومت نہ صرف قرآن و سنت کا التزام نہیں کرتی بلکہ حدود اللہ اور شعائر اللہ کا مذاق اڑاتی ہے‘‘۔ (تفہیم المسائل، صفحہ 188)۔
مولانا گوہر رحمان نے اس کے بعد وہ تمام آیات نقل کیں جن میں کہا گیا کہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، وہ کافر ہیں، ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ بات تکفیر تک کیسے پہنچتی ہے۔ مولانا گوہر رحمان اس بحث کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”جو لوگ ایمان ہی نہیں لائے ہیں، وہ اعتقاداً کافر ہیں اور جو لوگ قرآن و سنت پر اعتقاد اور ایمان تو رکھتے ہیں مگر قرآن و سنت پر فیصلہ نہیں کرتے، وہ عملی کفر اور عملی ظلم اور عملی فسق کے مرتکب ہیں۔ اعتقادی اور عملی کفر کا فرق اخروی سزا ہے۔ ایک ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا اور دوسرا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ لیکن اس دنیا میں امامت و قیادت کا اہل کافر اور ظالم نہیں ہے، خواہ اعتقادی کفر و ظلم میں مبتلا ہو یا عملی کفر و ظلم کا مرتکب ہو۔ اور جو لوگ سیکولر سیاست کے قائل ہوں اور سیاست و حکومت میں قرآن و سنت کی بالا دستی کو ذھناً بھی تسلیم نہ کرتے ہوں بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہو کہ سیاست میں دین و مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے‘ وہ تو اعتقادی کفر اور فکری کفر کے مرتکب ہیں۔ ان کی اہلیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ (صفحہ 190)
دوسری مثال مصر کی تنظیم ‘الہجرہ والتکفیر‘ کی ہے۔ یہ اخوان ہی کے لوگ تھے‘ جنہوں نے مسلمانوں حکمرانوں کی تکفیر کی اور مسلم معاشروں سے ہجرت کو لازم کہا۔ ان کو سمجھانے کی کوشش ہوئی لیکن وہ مان کر نہ دیے۔ ترجمان القرآن کے جس شمارے (مئی2017ئ) میں برادرم سلیم منصور خالد نے میری رد میں مضمون لکھا ہے‘ اسی میں ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب کا ایک مضمون بھی شائع ہوا ہے۔ انہوں نے بھی اشارتاً یہ بات لکھی ہے۔ وہ اخوان کے مرشدِ عام شیخ الہضیبی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف تھے مگر ان ”کی صراحت و وضاحت کے باوجود انتہا پسند نوجوانوں نے جماعۃ التکفیر والہجرہ کے نام سے ایک الگ گروپ تشکیل دے دیا‘‘۔ ان شواہد کی موجودگی میں کیا کوئی اسے تہمت قرار دے سکتا ہے کہ ”اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں اور ان کی تکفیر کرتی ہیں‘‘۔
اس رائے کے حق میں اور بہت سے شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں‘ مگر ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میری آنے والی کتاب میں یہ شواہد جمع کر دیے گئے ہیں، جس میں اسی سوال کو موضوع بنایا گیا ہے کہ پولیٹیکل اسلام کے عنوان سے معروف دین کی سیاسی تعبیر کیسے دوسرے مرحلے میں انتہا پسندی میں ڈھل گئی۔
مولانا مودوی کی کتاب ‘خلافت و ملوکیت‘ شائع ہوئی تو اس پر غیر معمولی شور برپا ہوا۔ مولانا نے اپنے مقدمے کے دفاع میں یہ بیان کیا کہ میں نے دین کو ماضی و حاضر کی شخصیات سے براہِ راست قرآن و سنت سے سمجھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تنقید سے احترام کم نہیں ہوتا۔ ہمیں شخصیات سے زیادہ حق کو محبوب رکھنا چاہیے۔ مولانا مودودی اور سید قطب نے شاید یہ نہ چاہا ہو جو بعد میں ہوا لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ انتہا پسند گروہوں نے انہی کی فکر کو اپنا راہنما کہا۔ میں نے بطور طالب علم اسی کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ سلیم منصور خالد جیسے احباب کی خدمت میں میری درخواست یہ ہے کہ وہ اس تنقید کو اُسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ تاریخی شخصیات پر مو لانا مودودی کی تنقید کو دیکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اُس تنقید سے ان کی نظر میں حضرت معاویہؓ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک، کسی کے احترام میں کوئی فرق نہیں آیا ہو گا۔