مولانا مودودی کا تصور عورت : ایک تنقیدی جائزہ
(ارشد محمود)
مولانا مودودی کی ایک مشہور کتاب کا نام’’پردہ‘‘ہے۔ اس میں انھوں نے آزادیِ نسواں کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی حکمتِ عملی یہ رہی کہ اسلامی نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہوئے جدید مغربی دنیا کی مثال اور رویے کو نشانہ بنایا جائے۔ اس مسئلے پر جب ہم بحث کرتے ہیں، تو تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اسلامی نقطۂ نظر، مغربی موقف، اور تاریخ کا ارتقائی عمل۔
اسلامی فلاسفی کو بیان کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’انسان کو شہوانی قوت کو اخلاقی ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرنا ہے کہ وہ آوارگی اور ہیجانی جذبات میں ضائع ہونے کے بجائے ایک پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر میں صرف ہو۔‘‘
مولانا مزید لکھتے ہیں:
‘‘اسلامی نظمِ معاشرت میں عورت کے لیے آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسبِ ضرورت ہاتھ اور منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لیے گھر سے باہر نکل سکے۔‘‘
یہ فقرہ مولانا انسانی ذات کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کسی گڑیا، روبوٹ یا حیوان کے لیے نہیں! ان کا کہنا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو خانہ داری کے ماسوائے دوسرے امور کی مقید اور مشروط آزادی دی ہے۔ وہ مغربی عورت کی سیاسی اور عمرانی سرگرمیوں کا ذکر تضحیک سے کرتے ہیں۔
گویا یہ بات طے ہے کہ اسلام میں اصولی اور بنیادی طور پر عورت کے لیے سیاسی و معاشی اور عمرانی سرگرمیاں ممنوع ہیں۔ اسے خانہ داری تک محدود رہنا ہے، اور وہ صرف اضطراری حالت میں گھر سے باہر قدم رکھ سکتی ہے، وہ بھی محرم کی موجودگی میں اور سر تا پا کپڑے میں ملفوف ہوکر۔
گویا اسلامی طرزِ معاشرت کی حامل بستیاں عورت کے وجود سے خالی ہوں گی۔ البتہ کبھی کبھی اور کہیں کہیں کالے یا سفید کپڑے کی چلتی پھرتی بوری نظر آ جائے تو اسے عورت سمجھ لیجئے گا۔ پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر، عورت کی قیمت پر اور ذات کو قربان کرکے حاصل کی جاتی ہے۔
یہاں جدید مسلم دانشور عام لوگوں کے لیے کنفیوژن پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ مولانا کے تصور سے اختلاف کرتے ہیں اور مناسب اطوار میں رہتے ہوئے عورت کی سیاسی و معاشی اور عمرانی سرگرمیوں کو اسلام میں جائز قرار دیتے ہیں۔ اس سے ایک عام سامع اور قاری کے لیے الجھن پیدا ہوجاتی ہے کہ کون سا موقف صحیح ہے۔
دراصل مولانا اور دیگر مذہبی پیشواؤں کا موقف مذہبی روایات اور مقدس متن کے زیادہ قریب ہے، جبکہ مسلم دانشور محض عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ذاتی اجتہاد سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ حقیقتاً اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ محض اپنی طرف سے نکتے نکال کر اسلام کو جدید دنیا کے مطابق بنا رہے ہوتے ہیں، ورنہ زمانۂ جدید سے پہلے اس کی تاویل کبھی نہیں ہوئی، نہ اس طرح اسلام میں کبھی عمل کیا گیا ہے۔
استثنائی اور جزوی واقعات سے اسلام کے جدید دنیا کے بارے میں فلسفے کو نہیں بدلا جاسکتا۔ مسئلے کا حل جدید دور کے مطابق مذہب کی نئی تعبیریں کرنے یا اسے آج کے مطابق بنانے میں نہیں بلکہ دوٹوک موقف اختیار کرنے میں ہے۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہزاروں سال پرانے طرزِ حیات میں واپس جایا جائے یا اسے خیرباد کہہ کے جدید انسانی فکر کے مطابق اپنی معاشرت کے مسائل حل کریں۔
جب تک دو ٹوک فیصلہ نہیں ہو تا، عوام کے ذہن ماضی کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو سکیں گے مولوی اور استحصالی حکمران عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے، چنانچہ عام لوگ حال اور مستقبل کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر پائیں گے۔ یا تو مذہب کے عین مطابق زندگی گزاری جائے یا سائنسی فکر کو اپنا یا جائے؛ سیکولر اور مذہبی نظریات کو مخلوط کرکے کوئی قابلِ عمل سوسائٹی قائم نہیں کی جاسکتی۔
ہمارا بحران گہرا ہوتا جائے گا۔ جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے، مولانا نے سارا زور ان کی جنسی آزادی اور بے راہ روی پر دیا ہے، اور اسلام کو اس کے متبادل نوعِ انسان کے لیے بہترین نظام کے طور پر رکھا ہے۔ اب دیکھا جائے تو مغربی تہذیب اگر ایک انتہا کو جاتی ہے تو مولانا دوسری انتہا کو چھو رہے ہیں۔ ایک انتہا کے مقابلے میں دوسری انتہا کو کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے؟ مولانا نے جنسی آزادی کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات واضح کیے ہیں:
جسمانی قوتوں کا انحطاط
مولانا کا فرمانا ہے:
’’شہوانیت کے اس تسلط کا اولین نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فرانسیسیوں کی جسمانی قوت رفتہ رفتہ جواب دیتی چلی جارہی ہے۔ دائمی ہیجانات نے ان کے اعصاب کمزور کر دیے ہیں۔ خواہشات کی بندگی نے ان میں ضبط اور برداشت کی طاقت کم ہی چھوڑی ہے۔‘‘
حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی تمام رپورٹوں اور تقابلی جائزے کے مطابق جنسی بے راہ روی کی حامل یورپی قومیں ہم نام نہاد پاکیزہ معاشروں کے افراد سے قابلِ رشک حد تک صحت مند ہیں۔ ان کی فی کس عمر ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں نہ صرف پیٹ کی بھوک نے ادھ موا کیا ہوا ہے، بلکہ جنسی بھوک نے علیحدہ سے ساری قوم کو نفسیاتی، جسمانی اور اعصابی مریض بنا رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنسی گھٹن کا ہماری تہذیبی بربادی میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جنسی پابندیوں نے ہم میں اخلاقی گراوٹ پیدا کی ہے، ہماری تخلیقی اور کام کرنے کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مذہبی مدرسے، جیلیں، یتیم خانے، اور فوجی کیمپ ہم جنسی اختلاط کے بڑے بڑے مراکز ہیں۔ ہم اخلاقیات کی علمبردار قومیں کسی بھی لحاظ سے یورپی قوموں سے صحت مند نہیں۔
جہاں تک ضبط اور برداشت کی کمی کا تعلق ہے، یہ تو ہمارے مسائل ہیں، نہ کہ ترقی یافتہ قوموں کے۔ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی لحاظ سے خبطی بھی ہے اور قوتِ برداشت سے عاری بھی۔ آج کی دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے جنسی گھٹن کے ہوتے ہوئے اور زندگی کے معاملات میں عورت کی مساویانہ شرکت کے بغیر ترقی کی ہو۔
خاندانی نظام کی بربادی
مولانا جنسی آزادی سے خاندانی نظام کے برباد ہونے کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ دراصل کوئی بھی معاشرہ مسائل سے خالی نہیں ہوتا۔ ہر تہذیب انسان کے سامنے کچھ مسائل لے کر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان کے اختیار میں فیصلہ کرنا ہوتو وہ ان مسائل کا کوئی نہ کوئی حل بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسی طرح یورپی تہذیب کو بھی مسائل درپیش ہیں۔ لیکن چونکہ وہ اپنے ارادہ و فعل میں آزاد ہیں، لہٰذا وہ ان کا کوئی نہ کوئی حل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: عورت کی صنفی حیثیت پر سوالات ستاروں پر بھی رقم ہیں
ہم جس خاندانی نظام پر اتراتے ہیں، وہ بھی کوئی ایسا قابلِ رشک نہیں۔ ہمارا خاندانی نظام ملکیت، مرکزیت، آمریت اور مردانہ غلبے کے اصولوں پر استوار ہے، جب کہ مغربی خاندان شخصی آزادی، مساوی حقوق، اور یکساں باہمی احترام کے اصولوں پر قائم ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں جو مسائل ہیں ہمیں ان کا حل تو کجا، ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
ہمارے خاندانی نظام میں جس طرح ایک ان دیکھے لڑکی لڑکے کو شادی کے کھونٹے سے زندگی بھر کے لیے باندھ دیا جاتا ہے اور وہ جس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں، یہ انسانی تہذیب کا الگ المناک باب ہے۔ قبل از شادی جنسی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے متنوع قسم کے الگ مسائل ہیں۔
لڑکیاں اور لڑکے عجیب طرح کی جنسی توہمات کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے وہ اپنی ازدواجی زندگی کو غیر مطمئن کر بیٹھتے ہیں۔ ماں باپ کے سامنے بچوں کی حیثیت غلاموں جیسی ہوتی ہے۔ ساری زندگی میں ان کی حاکمیت اور بے جا اثر سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا۔
بچوں کے مستقبل کے بارے میں سب فیصلے بزرگ کرتے ہیں۔ بیوی اور بچے ملکیتی اشیا کی مانند ہوتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ اس معاشرے میں طلاق ہو جائے توعورت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو تا؛ وہ ماں باپ یا بھائیوں کے گھر محتاجی اور ذلت کی زندگی گزارتی ہے۔
مغرب میں طلاق یافتہ عورت کے لیے یوں کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ پہلے ہی اپنے نان نفقہ کی خود ذمے دار ہوتی ہے۔ اس کی اپنی ملکیت ہوتی ہے، اور پھر دوسری شادی کرنے میں بھی وہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ اِدھر طلاق ہوئی اُدھر دونوں نے کہیں اور اپنا اپنا نیا ساتھی تلاش کرلیا۔
ہمارے رائج خاندانی نظام میں قربانی کا بکرا بننا یا رشتے کے نام پر دوسرے کا استحصال کرنا عام بات ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں ساری زندگی ایک دوسرے پر انحصار کرتے گزرتی ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں فرد کچل دیا گیا ہے۔ کثیرالازواجی کا نظام اور بھی تباہ کن اثرات اور تماشا گریوں سے بھرا ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایسے نظام کو کسی طور بھی آئیڈیل نہیں کہا جاسکتا۔
دراصل اپنی برائیوں کو چھپانا ہمارا شیوہ ہے۔ ہماری اخلاقیات کی عمارت منافقت کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ اندر ہی اندر ہمارے خاندانی نظام میں بھی بہت مکروہ کھیل چلتے ہیں۔ لیکن مغرب اپنے مسائل کھل کر بتا دیتا ہے اور ہم انھیں صحیح تناظر میں دیکھنے کی بجائے اسے پروپیگنڈے کے ذریعہ بنالیتے ہیں۔ چنانچہ مولانا کا کہنا ہے:
’’اس ذہنی اور اخلاقی کیفیت کا اثر ہوتا ہے کہ ہر نسل کی تربیت پہلی نسل سے بدتر ہوتی ہے۔ افراد میں خودغرضی اور خود سری اتنی ترقی کرجاتی ہے کہ تمدن کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ ‘‘
حیرت کی بات ہے، مغربی اقوام اس کے باوجود دنیا اور تاریخ پر حکمرانی کیے جارہی ہیں اور شیرازہ نام کی چیز ہم مسلمانوں میں کسی سطح پر موجود نہیں! مغربی اقوام اور سماج تو ہر سطح پر منظم ہیں۔ یہ بھی ہماری خود ساختہ متھ (myth) ہے کہ مغرب میں اولاد ماں باپ کا یا والدین بچوں کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ جو لوگ اپنے پالتو کتے کی ویلفیئر کی خاطر اس قدر بے چین ہوجاتے ہیں، وہ اپنے پیدا کیے ہوئے بچوں سے کس طرح غافل رہ سکتے ہیں؟
چونکہ ہمارے ہاں فرد کی آزادی کا کوئی تصور نہیں، لہٰذا شخصی آزادی پر مبنی مغربی نظام کی خوبیاں ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ جب کہ فرد کی آزادی کی کوئی قیمت نہیں۔ فرد نہیں تو اجتماعیت بے کار ہے۔ جب آپ نے انسان کو ہی کچل دیا تو اس تہذیب اور سماجیات کا کیا کرنا!
لیکن ہر چیز اپنی قیمت مانگتی ہے۔ چنانچہ مغربی آزادی نے ان کے لیے کچھ مسائل بھی پیدا کیے ہیں، جس کے منفی اثرات کو متعدد سوشل سیکورٹیاں مہیا کرکے کم کردیا گیا ہے۔ اور علمی سطح پر بحث مباحثہ بھی جاری رہتا ہے۔ ان کی یونیورسٹیاں تو ہمارے سماجی مسائل پر پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق کرواتی رہتی ہیں،جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
نسل کُشی
اس میں مولانا آبادی کی منصوبہ بندی، استقرارِ حمل اور تولیدِ نسل میں مداخلت کرنے والے جدید سائنسی طریقوں کے عام اور برملا استعمال پر معترض ہوتے ہیں۔ مولانا کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
’’اس ذہنیت نے فطرتِ مادری کو اتنا مسخ کر دیا ہے کہ ماں اپنی اولاد سے بیزار، متنفر بلکہ اس کی دشمن ہو گئی ہے۔ مانعِ حمل اور اسقاط سے بچ بچا کر جو بچے دنیا میں آتے ہیں ان کے ساتھ بے رحمی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں وہ کچھ انفرادی مثالیں پیش کرتے ہیں اور پھر مغربی دنیا کے شرحِ پیدائش کے پیہم کم ہونے کو نسل کُشی کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پیدائش پر کنٹرول ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔ اس نے انسان کو آزاد کرنے، اسے ترقی دینے اور اپنے مستقبل پر کنٹرول عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔
غیرضروری بچوں کی پیدائش کو روکنا نسل کشی ہے یا نہیں، اس پر ہم بعد میں بحث کرتے ہیں،البتہ آج بے تحاشا آبادی میں اضافہ ہماری قومی خودکشی کا سبب بن رہا ہے !ہم اپنے ہی بوجھ تلے دب کر مرجانے والے ہیں۔
ذرا اس حشر کا تصور کریں جب پاکستان کی آبادی اکیسویں صدی میں پچاس اور سو کروڑ ہو جائے گی۔ ان لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا، زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹا دے یا بیٹی، یا اسے بانجھ رہنے دے۔ آج انسان کافی حد تک ان معاملات میں اپنی مرضی کی مداخلت کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور دن بدن انسان کا ان کے بارے میں علم اور دخل بڑھتا جارہا ہے۔
جہاں تک زندگی اور موت کا تعلق ہے، انسان کئی بیماریوں پر قابو پاکر، طرح طرح کے علاج اور معجزاتی آپریشنوں کے ذریعے موت کے فرشتے کاکام کافی حد تک کم کر چکا ہے۔ اگر جدید علاج اور وسائل آج نہ صرف قبل ازپیدائش بچی اور بچے کی شناخت ہوجاتی ہے، اپنی مرضی کے مطابق اسے حاصل بھی کیا جاسکتا ہے۔
بانجھ پن کے علاج موجود ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ انسان کی مصنوعی کاپی (کلون) بنائی جاسکتی ہے۔ مستقبل میں اپنی مرضی کی شکلوں اور عادات کے بچے بھی حاصل کیے جاسکیں گے۔ آج انسان کے کافی حد تک بس میں ہے کہ وہ جسے اور جب چاہے پیدا کرے، موت و حیات پر حتمی اور مطلق کنٹرول کا سوال بہرحال الگ ہے۔
اس وقت زیر بحث مسئلہ انسان کا موت و حیات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے سے ہے جس پر کچھ عرصہ پہلے آسمان کی مکمل طور پر اجارہ داری تھی۔ ان صاحبان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر صرف اتنے لوگ پیدا ہونے ہیں جتنے خدا نے لکھ رکھے ہیں یا جن کی روحیں بنا رکھی ہیں، تو پھر مانعِ حمل دواؤں کے استعمال کو غیر شرعی کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے؟
ظاہر ہے کسی روح کو آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ تو پھر لوگوں کو مانعِ حمل ادویات استعمال کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ ورنہ بڑی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، یعنی خدا نے تو روح بنا رکھی تھی، لیکن مانعِ حمل دوا کے استعمال سے وہ زمین پر نہ آسکی۔ قیامت کے روز وہ بچ جائے گی اور اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا؟
سچ تو یہ ہے کہ مانع حمل ادویات کے ایجاد ہونے سے قدیم جنسی تصورات پاش پاش ہو چکے ہیں اور ان سے متعلق تعزیری قوانین اور نظامِ اخلاق بھی اب مزید استوار نہیں رہ سکتے۔ وقت اور سائنس نے انھیں بے کار ثابت کر دیا ہے۔ زنا کی سزا حمل کی بنیاد پر رکھی گئی تھی، اور اب حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
باکرہ اور کنواری کا تصور بھی جدید طبی سائنس باطل قرار دے چکی ہے۔ مانع حمل ادویات نے عورت کو مردوں کے بنائے ہوئے قدیم سماجی شکنجوں سے آزاد کیاہے۔ عورت کو حق خوداردی، عزت نفس اور مردانہ غلبے سے رہائی ملی ہے۔ ورنہ مردوں نے عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھ رکھا تھا اور لڑکیاں پیدا کرنے پر اس کی تذلیل کی جاتی تھی۔
مرد جو چاہتا کرتاپھرتا تھا۔ عورت کو چونکہ حمل ہو جاتا تھا لہٰذا اُسے تعزیر کا نشانہ بنایا جاتا اور مرد کو عدم ثبوت کی وجہ سے چھوڑ دیاجاتا۔ اگر عورت کو حمل نہ ہوتا، تاریخ میں اس پر جتنے بھی عذاب نازل ہوئے ہیں کبھی نہ ہوتے۔ سائنس نے مرد کو اس معاملے میں نہتا کر دیا ہے۔ اس کے ہاتھ سے یہ استحصالی ہتھکنڈا نکل چکا ہے۔
عورت اور مرد کے درمیان قانونی مساوات قائم ہو گئی ہے۔ اب عورت اپنی مرضی سے بچہ جنے گی اور مرد اس کے اس اضافی فریضے پر ممنون ہوگا۔ آگے چل کر تو شاید عورت کا یہ بار بھی ختم ہوجائے اور بچوں کی پیدائش کلی طور پر لیبارٹری میں ہی ہونے لگے۔
جنسی معاملات میں آزادی کے بغیر عورت کسی طرح کی بھی آزادی حاصل نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ محض جنس ہی تھی جس کی وجہ سے عورت سے اس کا انسانی مقام چھن گیاتھا، اور اسے کمزور صنف قرار دیا گیا تھا۔ مرد نے تمام ملکیت، طاقت اور اختیارات اپنے ہاتھ لے لیے تھے۔
اب عورت کو اپنے بدن پر اختیار ملا ہے اور وہ مرد کی ملکیت اور مرضی سے آزاد ہو گئی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے بچہ پیدا کرسکتی ہے۔ یہ ماں کے دائرۂ اختیار میں ہے کہ وہ بچہ پیدا کرے یا نہ کرے۔ مانعِ حمل ٹیکنالوجی نے جنسی فعل میں پیدائش اور لذت کے عمل کو تاریخ میں پہلی بار الگ الگ کر دیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ماضی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے قریب زیادہ لذت کی وجہ سے جاتے تھے یابچے پیدا کرنے کی وجہ سے، لیکن آج سائنس نے یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ آپ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب اپنی ضرورت اور مرضی سے کرسکتے ہیں۔
جنسی اختلاط کی خواہش جبلی ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ فطرت نے اسے صرف بچے پیدا کرنے کے لیے بنایا ہے، ورنہ اس کی خواہش اتنی کثرت سے نہ ہوتی۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس کی خواہش جنم لے سکتی ہے۔ اگر جنس صرف بچے پیدا کرنے کے لیے ہوتی تو حمل ہوجانے کے بعد اس کی مزید خواہش پیدا نہ ہوتی،جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مانعِ حمل طریقے فطرت پر انسانی کنٹرول کا قابلِ فخر ثبوت ہیں اور انھوں نے انسانی تہذیب کے ارتقا و ترقی میں عظیم کار نامہ انجام دیا ہے۔
مولانا مندرجہ ذیل نکات پر مغربی تہذیب سے اختلاف کرتے ہیں:
(1) مولانا کا فرمانا ہے کہ مذہب جو طرزِ حیات تجویز کرتا ہے وہ عین فطرت کا مقتضیٰ ہیں
(2) انسان کی صلاح اور فلاح اسی میں مضمر ہے۔ مزید برآں اس طرزِ معاشرت میں غایت درجے کی حکمت اورنفسیاتِ انسانی کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے
مولانا نے اس سلسلے میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ صرف مردانہ نقطۂ نظر سے ہیں اور عورت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
مولانا مغربی تہذیب کے مقابلے میں اخلاق، تہذیب، شرافت اور حسنِ سیرت کو اپنا معیار بناتے ہیں، اور عورتوں کو حیا اور عصمت کے زیوروں سے آراستہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ دراصل یہی زبان اور پر کشش لفاظی ہے جو ہمارے جیسے فیوڈل اور قبائلی اقدار کے عادی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
تعلیم اور عمومی سائنسی فکر کے فقدان کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے یہ زمین زرخیز ثابت ہوتی ہے۔ اس سے ان کا مقصد حل ہو جاتا ہے کہ جو نظام موجود ہے اس میں کوئی تبدیلی نہ آنے پائے۔ اس ’’اخلاق، تہذیب، حیا اور عصمت‘‘کے اندر جو منافقتیں، دوہرے معیار اور ظلم وناانصافی کی داستانیں پوشیدہ ہیں، ان کا کوئی ذکر نہ کیا جائے۔
اسی لیے مولانا فرماتے ہیں کہ مسلم تاریخ ان ’’اعلیٰ اقدار‘‘پر ساڑھے تیرہ سو سال کے زبردست امتحان پر پوری اتری ہے۔ لیکن اس صالح اور پاکیزہ تمدن میں سینکڑوں سال تک لونڈیوں کی جو منڈیاں لگتی تھیں، ایک ایک شخص کی لونڈیوں اور بیویوں کی تعداد سینکڑوں میں جاتی تھی، کہیں کہیں اور کبھی کبھی متعہ یعنی عارضی نکاح کا رواج بھی رہا۔ مسلم تاریخ کی اہم شخصیات بکثرت طلاق سے درجنوں بیویاں اپنی زندگی سے فارغ کرتی رہی ہیں، مالِ غنیمت میں عورتوں کو اٹھانا اور انھیں باہم دیگر مال ومتاع کی طرح تقسیم کرنا اور بچوں کو غلام بناکر فوجی کیمپوں میں بھیج دینا، ایک دوسرے کو تحائف میں عورتیں پیش کرنا بھی اس صالح تاریخ کا حصہ ہیں۔
برصغیر کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا طبقۂ اشرافیہ پیشہ ور عورتوں کے کوٹھوں سے بھرا رہتا تھا، جب کہ گھر میں چار چار بیویاں الگ پڑی ہوتی تھیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں عورت تعلیم اور کسی بھی طرح کے سماجی کردار سے محروم رہی ہے۔ حیا اور شرافت کے نام پر صدیوں تک عورت کو معذور اور چار دیواری میں مقید رکھا گیا ہے اور سب ملاؤں کی آج بھی یہی خواہش ہے۔
اب ہم مولانا کی دلیل نمبر ایک پر بحث کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی ’’زوجین‘‘ پیدا کیا ہے۔ یہ بات حقائق کے خلاف ہے کہ سب انواع میں جوڑے پائے جاتے ہیں۔ فطرت نے بہت سی انواع یک صنفی بھی پیدا کی ہیں۔ دوسرے مولانا جب فطرت کی خصوصیات کی بات کرتے ہیں تو وہ لفظ ’’رکھ دی ہیں‘‘ استعمال کرتے ہیں، جیسے انھیں فطرت کے اندر ’’رکھ‘‘ دیا گیا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب فطرت کی بات کی جائے تو اسے صحیح طور پر سمجھنے کے لیے سائنسی رویہ ضروری ہے، اپنے پاس سے باتیں نہیں بنائی جا سکتیں، اور سائنس یہ کہتی ہے کہ فطرت کے اندر پائے جانے والے میلانات، قوتیں اور جبلتیں، اشیاء کے بننے کے ارتقائی عمل کے دوران اندرونی اور بیرونی اثرات کے زیر اثر کروڑوں سال میں تشکیل پائی تھیں، انھیں کسی مخصوص وقت میں ’’رکھا‘‘ نہیں گیا تھا جیسا کہ مولانا کا خیال ہے۔ ’’رکھاگیا‘‘ کا تصور ارتقا کی نفی کرتا ہے۔
مولانا کو فطرت کے اندر جو ’’مقاصد ‘‘ نظر آتے ہیں، وہ بھی محض انسان کا اپنا واہمہ ہے، اس لیے کہ جب وہ چیزوں کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا ہے تب اسے ان میں ’’مقاصد‘‘ نظر آتے ہیں۔ ورنہ حیوانات ہوں یا نباتات، سورج چاند، ستارے ہوں یا دیگر سیارے، سب کا اپنا اپنا آزادانہ وجود ہے۔ وہ ایک دوسرے سے منسلک ضرور ہیں لیکن محض کسی کا ’’مقصد‘‘ پورا کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے تھے۔
گھوڑا اس لیے نہیں پیدا ہوا تھا کہ ہم اس پر سوار ہوں، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ہم نے اسے سواری کے لیے استعمال کر لیا۔ گھوڑے بے چارے کو تو پتا بھی نہیں تھا کہ اس کا یہ استعمال ہونا ہے۔ گھوڑے کی تخلیق فطرت کے خود مختار قوانین اور اسباب کے تحت ہوئی تھی۔
حقیقت بھی یہی ہے اور سائنس کا موقف بھی یہی ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ یا تو مغربی تہذیب کو اپنا لو یااسلام کو۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ آج کے دور میں ہم کھلی حقیقتوں کی حامل سائنس کو اپنا ئیں یا ملاؤں کی بتائی ہوئی غیرحقیقی اور خود ساختہ روایتوں کو۔
مولانا کا فرمانا ہے، عورت کی فطرت میں صنفی کشش کے ساتھ شرم وحیا اور تمانع اور فرار اور رکاوٹ کا مادہ ’’رکھا‘‘ گیا ہے۔ انسان کے بچے کے کمزور، بے بس اور کئی سال تک ماں باپ کی حفاظت کے محتاج ہونے کا ’’مقصد‘‘ یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان جنسی تعلق کے علاوہ بھی رشتہ قائم رہے۔ حیوانات ایک چھوٹی سی مدت کے بعد اپنے بچوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں، جب کہ انسان ابتدائی پرورش کے بعد بھی اولاد کی محبت میں گرفتار رہتا ہے۔
یہ تمام باتیں مولانا اس مفروضے پر کررہے ہیں جیسے یہ تمام خصوصیات روزِ اوّل سے ہی انسان میں موجود تھیں، جب کہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب انسان بھی اپنی اولاد کو رشتوں کے حوالے سے پہچانتا نہیں تھا، باپ اپنی بیٹی اور بھائی اپنی بہن سے جنسی رشتہ جوڑ لیتا تھا۔
پہچاننے کا عمل کہ کون کیا ہے، ہزاروں سال کے سماجی ارتقائی عمل میں وجود میں آیا، ورنہ انسان نے لاکھوں سال اولاد کی پہچان اور اس کی تربیت کا بطور ماں باپ فریضہ لیے بغیر گزارے ہیں۔ اسی طرح عورت کے اندر یہ شرم و حیا آسمان سے ودیعت نہیں ہوئی تھی، یہ نفسیاتی کیفیت ہزاروں سال کے مخصوص سماجی ماحول میں پیدا ہوئی ہے اور اس سے برعکس ماحول کی تربیت اس کا خاتمہ کردے گی۔
دراصل لوگوں کی سادہ فہمی اور لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر مذہب کے نام پر غیر سائنسی افکار پھیلائے جاتے ہیں۔ خاندان (family) کا تصور تو چند ہزار سال بھی پرانا نہیں، جب کہ انسان اس کرۂ ارض پر کروڑوں سال سے رہ رہا ہے۔ مولانا کے سارے تھیسس کی بنیاد ہی باطل ہو جاتی ہے۔ وہ جن خصوصیات اور جس ترتیب اور تنظیم اور رنگ و بو کو آج دیکھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ایسا ہمیشہ سے ہی تھا اور یہ سب کچھ فکسڈ (fixed) ہے۔ اسے ایسا خاص مقصد سے ’’رکھا‘‘گیا ہے۔ حالانکہ جو سامنے ہے وہ ہمیشہ سے نہیں ہے، وہ ارتقائی پر اسس (process) میں وجود میں آیا تھا اور آج بھی تغیر و تبدل کا شکار ہے۔
اب مولانا اس ’’اہم‘‘ سوال کی طرف آتے ہیں کہ عورت اور مرد کے درمیان صنفی کشش اور میلان کو کس طرح قابو کیا جائے، اس لیے کہ انسان حیوانی عنصر اگر اس پر پوری طرح غالب ہوجائے تو وہ انسانیت اور اس کے تمدن دونوں کو کھاجائے گا۔ مولانا کا فرمانا ہے:
’’شہوانیت میں حد سے تجاوز کرنے سے نسلیں کمزور ہوجاتی ہیں، جسمانی اور ذہنی قوتوں کی نشوونما رک جاتی ہے، اور اسی لیے مغربی تہذیب تباہی کی طرف جارہی ہے۔ یہ کیا چیز ہے کہ سوسائٹی میں عورت کو عورتوں سے زیادہ مرد کی صحبت اور مرد کو مردوں سے زیادہ عورتوں کی معیت مرغوب ہے ؟‘‘
مولانا نہ جانے کس تباہی کی بات کررہے ہیں۔ ابھی تک حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام مادی، جسمانی اور ذہنی قوتوں کے لحاظ سے قابلِ رشک زندگی گزار رہی ہیں، اور ہم جیسی پسماندہ اقوام نہ صرف ہر چیز کے لیے مغرب کے محتاج ہیں، بلکہ اب تو ہمیں اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جہالت ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مولانا کی دلیل کے برعکس مغربی اقوام کی ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ وہ سیکس کے مسئلے سے فارغ ہو چکے ہیں، جبکہ ہمارا ذہن سیکس کی سوچ کے سوا کسی اور تخلیقی کام کے لیے تیار ہی نہیں۔
ہماری ثقافت، تہذیب، نظامِ اخلاقیات کو صرف ایک ہی سوچ کنٹرول کررہی ہے اور وہ ہے سیکس۔ مغربی لوگوں کی جنسی سرگرمیاں ان کے جنسی اعضا تک محدود ہیں، لیکن ہمارا کوئی علاج نہیں، اس لیے کہ جنسی سرگرمی ہمارے اذہان اور ہماری سوچوں پر قبضہ کر چکی ہے۔
مولانا صاحب کی یہ خواہش بھی بڑی غیر فطری ہے کہ عورت کو عورتوں کی صحبت میں اور مرد کو مردوں کی صحبت میں خوش رہنا چاہیے! فطرت نے عورت کو مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے ہی بنایا ہے اور صحبت کی یہی نوعیت فطرت کے عین مطابق ہے۔
مولانا کو اگر عورت مرد کی صحبت میں خطرات دکھائی دیتے ہیں تو عورت عورت اور مرد مرد کی صحبت میں بھی ’’خطرات‘‘ موجود ہیں۔ وہاں بھی ہم جنسیت کا کھاتا کھل سکتا ہے۔ پاکیزگی کے قائم رہنے کی ضمانت تو اس میں بھی نہیں ہے۔
مولانا بار بار’’فطرت کی منشا اور مطالبے‘‘کا ذکر کرتے ہیں، حالانکہ وہ سب باتیں فطرت کی بجائے ہمارے تہذیبی عمل کا نتیجہ ہیں اور تہذیب انسان کی اپنی بنائی ہوئی اور قابلِ تغیر ہے۔ وہ فطرت اور نیچر کے نام پر عورت کو مختلف حیلے اور بہانے سے گھر میں بٹھانا چاہتے ہیں۔ اب وہ بچے کے پیدائشی مراحل اور پھر اس کے طویل عرصے تک نگہبانی کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ مغرب میں عورت کے تمام سماجی سرگرمیوں میں شرکت کے باوجود یہ سب کام بخوبی انجام پارہے ہیں۔ انھیں اس میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے، ورنہ ان کا تہذیبی عمل کب کا رک جاتا اور انھیں کوئی اور لائحۂ عمل اختیار کرنا پڑتا۔
وہ قومیں اپنی جگہ پر خوش باش ہیں۔ وہاں کے بچوں کو ہم سے زیادہ اعلیٰ پرورش اور تعلیم وتربیت کے وسائل میسر ہیں اورماں باپ کا پیار بھی کسی طرح کم نہیں۔ ہم لوگوں نے یہاں بیٹھ کر ان کے بارے میں خود ساختہ کہانیاں بنا رکھی ہیں۔
ہم یہاں پر یہ بات پھر دہرا دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے، کوئی بھی تہذیب مسائل سے مبرا نہیں، لیکن انسانیت کے لیے وہ تہذیب سودمند اور قابلِ ترجیح ہو گی جو انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ مشرقی تہذیب کی نہ صرف سب خوبیاں خیالی ہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ آج ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔
مولانا کو فنونِ لطیفہ میں بھی سوائے جنس کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ بقول مولانا کے:
’’ہمارے سنیما، ہمارے لٹریچر، ہماری تصویروں، ہماری موسیقی اور اس مخلوط سوسائٹی میں بنی ٹھنی عورتوں کا مردوں سے سامنا ہونے سے شہوانی ہیجان غیر معمولی اعتبار سے بڑھ جاتا ہے، ورنہ ایک پر سکون فضا میں عام عورتوں اور مردوں کا ایسا ہیجان کبھی لاحق نہیں ہوتا۔‘‘
حیرت کی بات ہے کہ جس طرح کا پر سکون فضا والا صالح معاشرہ مولانا تجویز کرتے ہیں، پھر اس میں مردوں کو کیوں سینکڑوں لونڈیاں اور چار چار بیویاں رکھنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اصل بات صالح تمدن کی نہیں؛ فنونِ لطیفہ میں جنس زدگی کی تلاش کا مطلب ہے کہ جمالیات کو مٹایا جائے، تاکہ انسان کے اندر سے لطافت کا خاتمہ ہو اور اسے خوب صورتی کی طرف متوجہ ہونے سے روکا جائے، خواہ وہ کسی شکل اور ہیئت میں ہو۔
یہ حضرات فنون اور آرٹس میں لوگوں کی فطری محبت سے جل بھن جاتے ہیں۔ ان ایک ہی خواہش ہے کہ لوگ ہر وقت پوجا پاٹ میں مصروف رہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ سخت مذہبی لوگ اپنے حلیے اور لباس کی وضع کو زیادہ سے زیادہ بدنما کرکے خود کو خدا کے مقربین میں شمار کرتے ہیں!
انسدادِ فحاشی کی تدابیر میں لٹھ بازی اور دیگر فاشسٹ طریقے ان کے کارکنان کے ہاں سر فہرست ہیں، لیکن مولانا احساسِ گناہ کے پیدا کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اس لفظ ’’گناہ‘‘ کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گناہ ایک خیالی، تجریدی اور مہمل تصور ہے۔ اگر کسی کو کہا جائے کہ وہ لفظ ’’گناہ‘‘ کی تعریف (definition) کرے تو بہت مشکل ہو جائے گا یہ بتانا کہ آخر گناہ کسے کہتے ہیں؟ یہ سادہ زمانوں کی باتیں تھیں جب مصلحین گناہ و ثواب جیسے غیر واضح الفاظ سے لوگوں کو اپنے وقت کی برائیوں سے بچانے کی کوشش کرتے تھے۔
گناہ کا تصور توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں عمل گناہ ہے، تو اس میں عقلی تجزیہ شامل نہیں ہوتا، اس کی بنیاد محض اندھا وہم ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہر گناہ سچ مچ کوئی ایسا جرم ہو جس سے آپ کو یاکسی دوسرے کو کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ آج انسان کا شعور زیادہ ترقی یافتہ ہے۔احساسِ گناہ پیدا کیے بغیر وہ مسائل کو سائنسی سطح پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر کوئی کام کرنا ہے تو کیوں کرنا ہے، یا اگر نہیں کرنا ہے تو کیوں نہیں کرنا ہے۔ اگر کوئی برا فعل بھی ہے، تب بھی اس کا مکمل تجزیہ، عمل اور ردّعمل اور اس کے نتائج وعواقب سے آگاہی خوفِ گناہ سے کہیں زیادہ کارگر ہو سکتا ہے۔ اس میں انسان کی خود اختیاری قائم رہتی ہے۔ وہ اپنے عمل اور اس کے نتائج کی ذمے داری پورے شعور کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اس میں انسان کی ذہنی صحت بھی برقراررہتی ہے، ورنہ خوفِ گناہ ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔
چونکہ گناہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے اس کا فیصلہ خود فرد نہیں کرتا بلکہ خارجی اتھارٹی کرتی ہے، چنانچہ یہ مذہبی پیشوا کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ کس عمل کو گناہ قرار دے دے اور تابعین کو اسے بلا سوچے سمجھے قبول کر لینا ہوتا ہے۔ گویا گناہ کی تھیوری میں شعور کا خانہ خالی کرنا پڑتا ہے اور اپنے افعال و اعمال کسی خارجی اتھارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑنے ہوتے ہیں، اور پھر یہ مذہبی پیشوا لوگوں کے ذہنوں اور دلوں پر اپنی من مرضی سے حکمرانی کرتے ہیں۔
صحیح اور غلط کیاہے، اس کی ذمے داری انسان کے انفرادی اور اجتماعی شعور پر عائد ہوتی ہے، جس کے پیمانے زمان و مکان کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ گناہ و ثواب کا چکر محض لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول میں لینے کے لیے تھا۔ یہ زمانہ سائنس اور جمہوریت کا ہے۔ ہربات کا فیصلہ علمی بنیاد اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ کرناوقت کا تقاضا ہے۔
مولانا کو جب یہ دلیل دی گئی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں ان کے آزادانہ اختلاط پر پابندیاں عائد کرنا دراصل سارے معاشرے کے اخلاق اور سیرت پر حملہ ہے اور ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر، تو وہ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہر قفل جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے، گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور سمجھ لیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے، ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دے دیا ہے۔‘‘
مولانا کو متبادل دلائل کا اپنے حق میں موڑ نے کا خوب فن آتا ہے اور پھر سہولت یہ ہے کہ سامنے ایسے سامعین ہوتے ہیں جو اپنے ذہن و شعور کو پہلے ہی ان کے زانو پر رکھ چکے ہوتے ہیں۔ مولانا کی پہلی مثال لیجیے،جب آپ قفل لگاتے ہیں، ظاہر ہے آپ ساری دنیا کو چور قرار نہیں دے رہے ہوتے اور اسی لیے دنیا بھی اسے اپنی عزتِ نفس کا سوال نہیں بناتی۔ آپ صرف امکانی چور سے محفوظ ہونے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی جسے آپ قفل لگا رہے ہوتے ہیں وہ پلٹ کر آپ کو کہتی ہے کہ تم مجھ پر قفل کیوں لگا رہے ہو، اس لیے کہ وہ ایک بے جان چیز ہے اور آپ اس کے مالک ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ عورت پر بھی پابندیاں اسی لیے عائد کی جاتی ہیں کہ اسے کسی امکانی مفسد سے بچایا جائے۔ لیکن اس تقابل میں بہت بڑی چیز جو نظر انداز کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے جس پر آپ ’’قفل ‘‘ لگا رہے ہیں، اور نہ ہی آپ اس کے ’’مالک ‘‘ہیں۔
وہ جیتی جاگتی اور صاحبِ شعور انسانی ذات ہے۔ آپ کو کیا حق پہنچتا ہے اس پر قفل لگانے کا، اور بلاوجہ اس پر اعتبار نہ کرنے کا؟ ایسا کیوں تجویز نہیں کیا جاتا کہ قفل مردوں پر لگا دیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں کوئی فساد برپا نہ کرسکیں اور عورتوں کی عزتیں محفوظ رہیں؟ دراصل ان کے سارے فلسفے اور ایمان کی بنیاد ہی عورت کو غیر جاندار ’’شے‘‘ اور مرد کو اس کا ’’مالک‘‘ سمجھنا ہے، اسی لیے یہ بلاسوچے سمجھے اس طرح کی مثالیں اور دلائل پیش کر جاتے ہیں۔
مولانا کے دیگر دلائل میں بھی عورت کو ایک شے کے مشابہ سمجھا گیا ہے۔ ہمارا مولانا سے اختلاف اور جھگڑا صرف اسی نکتے پر ہے کہ ہم عورت کو انسان سمجھتے ہیں اور وہ ایک چیز!
اب مولانا ’’تعلقِ زوجین کی صحیح صورت‘‘پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک عدل سے مقرر کیے جائیں، ان کے درمیان ذمے داریاں مناسبت کے ساتھ تقسیم کی جائیں اور خاندان میں ان کے مراتب اور وظائف کا تقرر اس طور پر ہو کہ اعتدال اور توازن میں فرق نہ آنے پائے۔ یہ لوگ عدل، اعتدال، توازن اور وظائف کی باہمی تقسیم جیسے الفاظ استعمال کرکے صدیوں سے عورت کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
ایک فریق کو گھر پر بند کر دیا اور دوسرے کو آزاد اور کھلا چھوڑ دیا یہ کس طرح کا اعتدال اور توازن ہے؟ مرد کو چار عورتیں دے دیں ا ور عورت کو ایک چوتھائی مرد، ایک فریق کو ملکیت سے محروم کر دیا (عورت کمائے گی نہیں تو اس کی ملکیت کہاں سے آئے گی؟) اور اس کی تخلیقی صلاحتیوں کو بچے سازی تک محدود کردیا اور دوسرے فریق کو غلبے اور ملکیت کے تمام ذرائع فراہم کر دیے۔
یہ ہے عدل! مرد اور عورت کو آقا و غلام، غالب و مغلوب، فاعل اور مفعول کے رشتے میں باندھ کے اعتدال اور توازن کا نام دے رہے ہیں۔ مولانا مرد اور عورت کے درمیان جو توازن تجویز کرتے ہیں وہ معکوسی رشتے کا توازن ہے، مساواتی رشتے کا نہیں۔ جہاں تک مولانا کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ تاریخی معلومات کے ریکارڈ میں کسی ایسی قوم کا نشان نہیں پایا جاتا جس نے عورت کو حاکم بنایا ہو، پھر دنیا میں عزت اور طاقت حاصل کی ہو یا کوئی کارِ نمایاں انجام دیا ہو۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے، دور جدید کی یورپی تہذیب مرد عورت کے درمیان مساوات رکھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ ترین کارِ نمایاں انجام دے رہی ہے۔ اور عورتوں کو گھر کی ملکہ بنانے والے معاشرے ان اقوام کی غلامی کررہے ہیں اور اپنی بربادی کا خود ہی منھ بولتا ثبوت ہیں۔ اور اگر ان لوگوں کو تاریخ میں جھانکنے کی توفیق ہو تو انسانی تہذیب کے اوّلین معاشرے مادر سری نظام پر مشتمل تھے یعنی عورت خاندان اور قبیلے کی سربراہ ہوتی تھی۔
زراعت عورت کی ہی ایجاد ہے جس نے انسان کو تہذیب اور تمدن سے آشنا کیا تھا، ورنہ یہ مرد وحشی اور شکاری کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ تاریخی عوامل نے ایسا پلٹا کھایا کہ مرد نے ملکیت پر قبضہ کرلیا اور عورت کے فرائض کو خانہ داری تک محدود کردیا۔ لیکن نہ مادر سری نظام حرف آخر تھا او ر نہ پدر سری نظام، دونوں نے اپنے اپنے حالات میں تاریخ کو آگے بڑھنے میں مدد کی اور اب وہ مقام آگیا کہ تاریخ کی باگیں مرد اور عورت دونوں نے یکساں تھام لی ہیں۔
جن عوامل کی وجہ سے مادر سری اور پدر سری نظام بنے تھے وہ دونوں ہی نابود ہو چکے ہیں۔ یہ خواہ مخواہ مذہب کے نام پر وقت کو پیچھے لے جا رہے ہیں اور تاریخ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مولانا مغربی تہذیب کی خیالی فساد آرائیوں پر صفحے کے صفحے کالے کرتے جاتے ہیں۔ اگر وہ تہذیب کسی سچ مچ جنسی فساد میں مبتلا ہوتی تو وہ معاشرہ ابھی تک ڈھیر ہو چکا ہوتا، حالانکہ وہاں جتنا عدل، امن، سکون، ڈسپلن، اقدار کی پاسداری، قانون کی عملداری اور حقوق وفرائض کا توازن ہے، ہم صالح قومیں اس کا تصور نہیں کرسکتیں۔ اور سب سے بڑی بات، فرد بھی آزاد ہے، جب کہ مولانا جو نظامِ معاشرت تجویز کرتے ہیں، اس میں ایک فریق (عورت) توبالکل ہی کچل دیا جاتاہے اور دوسرا(مرد) روبوٹ بن جاتا ہے۔
مولانا کے تھیسس میں مردوں اور عورتوں کو فریب دینے کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ بلند بانگ لفاظی میں لکھتے ہیں:
’’اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں، تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام دے،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
عورت کو کھوکھلے الفاظ سے بہلایا جاتا ہے، اس لیے کہ جب عملی تصویر سامنے آتی ہے، تو یہ سب کچھ تحلیل ہو کر رہ جاتا ہے اور مولانا فوراً ہی یہ سوال اٹھا دیتے ہیں: ’’کیا فطرت کا یہ مقصود ہے کہ دونوں پر ایک جیسی خدمات کا بار ڈالا جائے ؟‘‘ مولانا کے خیال کے مطابق ایک جیسی ذمے داریاں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے نظامِ جسمانی بھی یکساں ہوں! اس کے بعد وہ زور دیتے ہیں کہ فطرت نے عورت کا جسم بچہ جننے اور اس کی پرورش کے لیے بنایا ہے۔
گویا تھوڑی دیر پہلے مردوں کی طرح عورتوں کی فطری استعداد اور صلاحیت کو جو زیادہ سے زیادہ ترقی کی وکالت ہو رہی تھی، اس کا مطلب عورت کی ہمہ گیر ترقی نہیں محض بچنے جننے کی استعداد میں ترقی تھی! پھر مولانا ایام ماہواری کے دوران عورت کی طبیعت پر جوضمنی اثرات پڑتے ہیں ان پر اپنی کتاب کے کئی صفحے کالے کرتے ہیں، تاکہ عورت کو کسبِ معاش کے لیے ناکارہ ثابت کیا جائے۔
ان کے نزدیک عورت کو ماہواری، حمل، رضاعت، بچے کی پرورش اور نگہداشت کے چکر سے فرصت نہیں مل سکتی۔ ظاہر ہے، ایک بچے سے فارغ ہونے پر پاکباز مرد اسے فرصت ہی کب دے گا، فوراً دوسرا بچہ پکڑا دے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسبِ معاش کے لیے فطری طور پر ناکارہ ہے تو پوری ترقی یافتہ دنیا میں عورت ہر طرح کی سماجی، فنی، تفریحی اور معاشی سرگرمی میں کیوں کر مصروف ہے؟
مولانا سماجی میدان سے عورت کو بے دخل کرنے کے لیے ’’فطرت‘‘ کو مسلسل اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پہلی بات مولانا کو یہ سمجھنی چاہیے کہ انسان جانور نہیں جو تمام تر زندگی ’’فطرت‘‘ کے عین مطابق گزارے۔ انسان نے فطرت کی کئی چیزوں کو توڑا ہے اور اس میں انسانی ساختہ تہذیب کا رنگ بھرا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں عورت کاکام بچے پر بچے جنتے اور انھیں پالتے رہنا ہے۔
مولانا فطرت کے نام پر عورت کو جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر کیوں مجبور کرنا چاہتے ہیں؟ آج کا ترقی یافتہ انسان ایک دو بچوں سے زیادہ جننے کا قائل نہیں ہے۔ جدید طبی سہولتیں اور اعلیٰ معیار کی صحت کے وسائل کی وجہ سے عورت بچے کی پیدائش کے فوری بعد ہر طرح کے فرائض ادا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اب تو بچے کی پیدائش کے لیے عورت کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ تب مولانا کی ’’فطرت‘‘ کہاں جائے گی؟
سب مذہبی پیشوا حقوقِ نسواں پر بحث کرتے ہوئے بظاہر عورت کے بڑے ’’ہمدرد‘‘ اور ’’عدل و انصاف‘‘کے پیروکار بن جاتے ہیں۔انھیں بڑا دکھ ہوتا ہے کہ عورت بے چاری ہر تیسرے ہفتے ماہواری کا شکار ہو جاتی ہے، نو ماہ کے حمل اور بعداز حمل کا پورا ایک سال ’’سختیاں‘‘جھیلتے گزارے اور پھر بچے کی پرورش کے لیے اپنی راتوں کی نیندیں اور دن کا آرام حرام کرے اور اس کے بعد اسے روزی کمانے کی مشقت پر بھی لگا دیا جائے، یہ بہت بڑا ’’ظلم‘‘ہے، چنانچہ عورت کو مردانہ کاموں کے لیے تیار کرنا عین اقتضائے فطرت اور وضعِ فطرت کے خلاف ہے۔
چونکہ علم الحیات کی رو سے عورت کو بچے کی پیدائش اور پرورش کے لیے بنایا گیا ہے، چنانچہ اسے نفسیاتی طور پر بھی انفعالی کاموں کے لیے بنایا گیا ہے۔ جن کاموں کے لیے ’’شدت، تحکم، مزاحمت اور سرد مزاجی چاہیے، ان میں عورت کو گھسیٹ لانا خود اس کو بھی ضائع کرنا ہے۔‘‘ دراصل مولانا کے نزدیک عورت کا صرف ایک ہی روپ ہے اور وہ ہے مری، کچلی، دبی ہوئی عورت، اور ان کے خیال میں ایسی عورت ہی ’’فطرت کے عین مطابق‘‘ ہے۔
مولانا نے واضح طور پر لکھا ہے کہ عورت کو سپہ سالار، مدبر اور منتظم بننے کی بجائے صرف اچھی ماں، اچھی بیوی اور اچھی خانہ دار ہی بننے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ تمدن کا نقصان ہو گا۔ خاندان کے لیے روزی کمانا، اس کی حفاظت کرنا اور محنت طلب معاشرتی خدمات انجام دینا مرد کا کام ہے۔ بچوں کی پرورش، خانہ داری اور گھر کو (مرد کے لیے) سکون و راحت کی جنت بنا نا عورت کا کام ہے۔ حتیٰ کہ مولانا کا ارشاد ہے کہ جس رکن کی ’’دماغی اور قلبی‘‘حالت بار بار ایام ماہواری اور حمل میں بگڑ جاتی ہو، وہ اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔
حد یہ ہے کہ مولانا اپنا مذکورہ بالا تھیسس ’’خاص علمی تحقیق اور سائنسی مشاہدات و تجربات‘‘ کی مدد سے نکالا ہوا بتاتے ہیں مذہبی پیشوا ’’علم، سائنس اور تحقیق‘‘ کو کیسے بگاڑ کر جہالت میں ملفوف کر سکتے ہیں، یہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ ظاہر ہے اندھی عقیدت رکھنے والے پیروکاروں کی سمجھ بوجھ کو پہلے سے ہی بند کر دیا گیا ہو تا ہے۔
یہ طے ہو جانے کے بعد کہ عورت کا فریضۂ منصبی صرف بچے پیدا کرنا، ان کی پرورش کرنا اور مرد کی راحت کا باعث بننا ہے، اور اس تقسیم میں مردوں کا کوئی قصور نہیں، بلکہ یہ فرق فطرت کا پیدا کردہ ہے، مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ عورت کا مکمل طور پر قبضہ پاک کرنے کے لیے ابھی اور ’’فطری‘‘ ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ اب مولانا عورت کے اندر فطرت نے جو شرم و حیا کامادہ رکھ چھوڑا ہے، اس کی طرف آتے ہیں۔ اسے مولانا عورت کی بہترین صفت قرار دیتے ہیں۔ مولانا فلسفۂ زوجیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’مرد اور عورت زندگی کے دو مساویانہ ساتھی نہیں، بلکہ زوجین میں سے ایک میں قوتِ فعل ہے اور دوسرے میں قوتِ انفعال۔ ایک برتر ہے اور دوسرا ماتحت، ایک کرنے والا ہے اور دوسرا کروانے والا، ایک دینے والا ہے اور دوسرا قبول کرنے والا۔”
اب مولانا فرماتے ہیں کہ فاعل کو مفعول پر فضیلت ہے اور یہ فضیلت ’’غلبہ، قوت اور اثر‘‘ کے معنی میں ہے۔ جو شے کسی دوسری شے پر فعل کرتی ہے وہ اسی وجہ سے تو کرتی ہے کہ وہ اس پر غالب ہے، اس کے مقابلے میں طاقت ور ہے اور اس پر اثر کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ اور جو ’’شے‘‘ اس کے فعل کو قبول کرتی ہے وہ مغلوب ہے تو ایسا کرتی ہے۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مولانا عورت کو ایک شے کے مشابہ قرار دے رہے ہیں۔ یہاں ہم اس بات کی تردید کرنا چاہتے ہیں، کہ کوئی بھی جدید سائنس اور تحقیق مولانا کے فاعل اور مفعول کے فلسفے کو نہیں مانتی۔ بچے کی پیدائش کے عمل میں عورت اور مرد اپنی اپنی جگہ پر فاعل کا فریضہ ہی ادا کر رہے ہو تے ہیں، بلکہ عورت کا ’’فاعلی‘‘ کردار مرد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ جنسی عمل میں مرد عورت پر عمل پیرا ہوتا ہے، یا اسے کچھ ’’دیتا ‘‘ ہے، بلکہ دونوں مساویانہ عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ طے کرنے کے بعد کہ عورت کا بنیادی فریضہ خانہ داری، بچوں کی پیدائش وتربیت اور خاوند کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنا ہے، پھر وہ عورت کے لباس اور ستر کے حدود مقرر کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کلامِ مقدس کی روشنی میں نقاب اور برقع اوڑھنے کی سختی سے حمایت کرتے ہیں۔ صرف ناگزیر حاجت اور ضرورت میں ہی چہرہ کھولنے کی اجازت ہے اور یہ بھی اس لیے ہے کہ اسلام انتہا پسند مذہب نہیں!
البتہ یہ سوچنا باقی ہے کہ اس اعتدال اور انتہا میں فرق کتنا باقی رہ گیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ پھر عورت کے باہر نکلنے کے ’’قوانین‘‘ بنائے جاتے ہیں۔ اس میں پہلا حکم خداوند ی یہ ہے کہ ’’اپنے گھروں میں (وقار کے ساتھ) بیٹھی رہو۔۔۔ مردوں کے ساتھ بات کرنے میں درشت لہجہ استعمال کرو۔‘‘ نرم لہجے میں مرد کہیں لٹو ہی نہ ہو جائیں۔
اگر عورت کو پاکیزہ کام کے لیے پاکیزہ جگہ جانے کی عام اجازت نہیں، تو اسلام کسی سماجی کام کے لیے عورت کو باہر جانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اسے تو اپنے کسی عزیز ترین رشتے دار کے جنازے میں شریک ہونے کی اجازت نہیں۔ احتیاط کا یہ عالم ہے کہ سو سال کی بوڑھی عورت سو سال کے بوڑھے نا محرم مرد کے ساتھ حج نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد مولانا کہتے ہیں یہ ہے یہی وہ ’’عدل اور نقطۂ توسط‘‘ جس کی ساری دنیا کو ضرورت ہے!
تجزیہ اچھا ہے
مگر اس میں “ہ ” کی بجائے “ھ “کو استعمال کیا گیا ہے جیسےکہ “ھے” وغیرہ
مہربانی فرما کہ تو آئندہ خیال رکھئے گا
صحیح تلفظ لکھنا بھی ہمارا فریضہ ہے