مولانا طارق جمیل اور ففتھ جنریشن وار فیئر
مولانا طارق جمیل سنہ 1953 میں پیدا ہوئے اس حساب سے آج مولانا کی عمر قریباً 66 سال ہے۔ اس عرصے میں مولانا کی عمر کا بڑا حصہ بھر پُور عوامی زندگی پر مشتمل رہا ہے جس میں ان کی ملاقاتیں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہوتی رہی ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر، اور دنیا دیکھنے اور برتنے کے تجربہ میں شاید ہی کوئی اور پاکستانی بَہ شمول سفارت کار، بزنس مین، شو بِز کا ستارہ اور کرکٹ کھلاڑی مولانا کے مقابلے میں آ سکے، غرض یہ کہ مولانا ایک جہان دیدہ شخص ہیں۔
1973 آتا ہے
1973 میں مولانا کی عمر قریباً بیس برس برس ہو گی جب بھٹو کی سربراہی میں آئین پاس اور نافذ ہوا؛ یہ وہ آئین ہے جسے بھٹو اور وقت کے تمام جیّد عُلَماء نے فخریہ طور پر اسلامی تسلیم کیا، اور بہت سوں نے تو آئین کے اسلامی ہونے کا کریڈٹ بھی لیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ مذکورہ آئین کتنا اسلامی تھا یا نہیں، یا ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔
1974 بھی دیکھ لیا
میں مولانا کی عمر قریباً 21 برس رہی ہو گی جب قومی اسمبلی نے ہم وطن احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اس اقدام کو حکومتِ وقت اور تمام علماء نے عین ضروری اقدام، اور اسلامی ریاست کی تکمیل اور نصب العین کے حصول کی طرف بہت بڑا سنگ میل قرار دیا۔
1976 جب آیا…
1976 میں مولانا کی عمر 23 برس ہی ہو گی جب بھٹو حکومت کی جانب سے جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پا بندی عائد کی گئی اور ان حکومتی اقدامات کو اسلامی ریاست کے نصب العین کے حصول کی طرف اہم پیش رفت مانا جاتا ہے۔
1977 تو ایسا آیا کہ …
1977 میں مولانا کی عمر 24 سال رہی ہو گی جب پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نام کی تحریک چلی، جس کے نتییجے میں ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ جسے علماء سمیت اپوزیشن نے تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی کام یابی گردانا، اور اس پر فخر بھی کیا، خوشیاں بھی منائیں گئیں؛ اور بعض نے تو مٹھائیاں بھی بانٹیں۔
مذکورہ عمل نہ صرف اسلام، بَل کہ رسولِ خدا محمدِ مصطفیٰ ﷺ کے نامِ نامی، اسمِ گرامی اور ذاتِ پاک سے بھی منسوب تھا۔ چُناں چِہ اس سارے عمل کے اسلامی ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ مولانا طارق جمیل کی عمر اس وقت قریباً 24 سال رہی ہو گی۔
1977 سے 1988 کی دھائی جمع ایک
1977 سے 1988 تک کے سنہری گیارہ سالوں میں مولانا کی عمر 24 سے شروع ہو کر 35 سال تک ہو گئی ہو گی۔ اس ساری مدت میں حکومت اور ریاست کا اسلام اور ریاستِ مدینہ کی دعویٰ داری کسی ثبوت کی محتاج نہیں، معمولی تعلیم یافتہ اور تھوڑی سی بھی غیر جانب داری رکھنے والا پاکستانی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان گیارہ سالوں میں ریاستی اور حکومتی سطح پر اسلام کا نام اور عمل دخل پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ تھا (غلط اور صحیح کی بحث ایک طرف رکھیں، لیکن اس امرِ واقعہ سے انکار نا ممکن ہے،) ایک بار پھر سے یاد رکھیے کہ مولانا طارق جمیل صاحب نے اس دورِ با برکت میں عمرِ عزیز کی 24 ویں سے 35 ویں بہار گزاری ہو گی اور ضیاء الحق کے انتقلالِ پُر ملال پر ملک کے قریباً تمام دینی اور بعض غیر دینی طبقات نے با آوزِ بلند اور زور شور سے ضیاء الحق کی اسلام اور شریعتِ محمدی ﷺ کے لیے خدمات کو نہ صرف قومی ٹیلی ویژن پر رو رو کر یاد کرتے ہوئے دُہرایا، بَل کہ ضیاء الحق کو اسلام کے لیے خدمات بَہ جا لانے پر شہید کا لقب بھی عطا کیا۔
یہ قریباً نا قابلِ یقین ہو گا کہ مولانا طارق جمیل نے ضیا کی زندگی کے دوران اور ان کی وفات پر آمر جنرل کی اسلام کے لیے خدمات کا توصیفانہ ذکر نہ صرف سن رکھا ہو گا، بَل کہ غالباً خود بھی کسی نہ کسی حد تک جنرل ضیاء کی اسلامی خدمات کے قائل نہ رہے ہوں گے۔
1988 آنے دی جاتی ہے
1988 میں مولانا کی عمر 35 سال کے لگ بھگ رہی ہو گی جب اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل دھوم دھام سے ہوئی، جس کا ایک بنیادی نعرہ اور ہدف ہی غیر اسلامی قوتوں کا راستہ روک کر ملک میں اسلام کا بول بالا کرنا تھا۔
اور 1990 بھی آیا رہا
1990 میں مولانا کی عمر 37 سال رہی ہوگی جب اسلامی جمہوری اتحاد انتخابات جیت کر بَر سرِ اقتدار آیا اور بلند بانگ طور پر اسلامی طرزِ حکومت کے دعوے بھی سنے گئے اور بہت سے جید علماء (جن میں سے بہت سے علماء سے مولانا طارق جمیل کے اس وقت اور آج بھی بہت قریبی مراسم ہیں) کی طرف سے اسلامی جمہوری اتحاد کو عین اسلام اور اس کی حکومت کو اسلامی، یعنی ریاستِ مدینہ کا سرٹیفکیٹ عطا کیا گیا۔
دو بارہ یاد رکھیے کہ اس اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور بعد ازاں اس کے 1990-93 کے اقتدار کے دوران مولانا نے زندگی کی قریبا 35 ویں سے لے 40 ویں بہار گزاریں ہوں گی۔
1997-99 کی دو تہائی اختتامِ دُھائی
1997-99 کے دوران مولانا طارق جمیل صاحب کی عمر 44 سے 46 سال کے لگ بھگ رہی ہو گی جب دو تہائی اکثریت اور ہیوی مینڈیٹ کے نشے میں چُور آج کے جمہوریت اور سول سُپریمیسی اور ووٹ کی حرمت کے چمپیئن نواز شریف صاحب نے بَہ طورِ وزیر اعظم پندرھویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان اور عملی کوشش بھی کی تھی، جس میں کتاب و سنت کی ایک بار پھر بالا دستی قائم کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔
اس دور میں مولانا قریباً 44 سے 46 سال کے ہوں گے جب وقت کے حکم راں کی طرف سے اسلامی اقدامات کا ملک کے دینی طبقات بَہ شمول مولانا کے گہرے مراسم والے حلقہ سے بھر پُور اور کھلے عام خیر مقدم بھی کیا گیا تھا۔
پچھلے پنتالیس سال، جس دوران مولانا طارق جمیل نے بیس سے چھیاسٹھ سال کی عمر کا سفر طے کیا، کے دوران پاکستان میں حکم رانوں کی طرف سے اسلام اور ریاستِ مدینہ جیسے زبانی دعوؤں اور عملی اقدامات، جو کہ اپنے اپنے ادوار میں زبان زد عام رہے، کا یہ ایک اجمالی خاکہ ہے۔
پاکستانی حکم رانوں کی طرف سے اسلام، دین، مذھب اور ریاستِ مدینہ کے نام اور اقدام کے استعمال کے اس خاکے کو سامنے رکھتے ہوئے چند ماہ پہلے کا مولانا طارق جمیل کا وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت کرتے ہوئے یہ توجیہ پیش کرنا:
عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے حکم ران ہیں جنہوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی کم از کم بات تو کی ہے ورنہ آج تک (عمران خان سے پہلے) پاکستان کے کسی حکم ران نے یہ بات تک نہیں کی تھی۔
حیرت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ساتھ گھناؤنا مذاق بھی محسوس ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ اختلاف حمایت پر نہیں توجیہ پر ہے۔
پاکستانیوں کی وہ نسل ابھی زندہ اور فعال ہے جس نے سنہ 1973 کے آئین سے شروع ہونے والے اسلامی اقدامات، دعوؤں اور وعدوں کو سنا، دیکھا، چکھا اور بھگت رکھا ہے؛ کچھ نے ان گزشتہ اعلانات کی حمایت اور اقدامات پر خوشیاں منائیں تھیں۔ کچھ نے ان اعلانات اور اقدامات پر تحفظات اور تنقید کر کے کوڑے، جیلیں، دھمکیاں اور گالم گلوچ سنی تھی؛ جب کہ کچھ نے ان اقدامات سے نوکریاں اینٹھ کر اور کار و بار چمکا کر تجوریاں بھر لیں تھیں۔
چُناں چِہ وطن عزیز میں ذہنی مریضوں، نو سر بازوں، عیّاروں اور شاطروں کو چھوڑ کر پنتالیس سال سے زیادہ عمر کا کوئی شخص گزشتہ حکومتوں کی طرف سے دعوؤں اور اقدامات کی روشنی میں یہ دعویٰ کرنا نظر نہیں آئے گا کہ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان پہلا حکم ران ہے جس نے ریاستِ مدینہ کی بات کی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ مولانا طارق جمیل نے عمران خان اور موجودہ حکومت کی حمایت کیوں کی؟ کسی بھی حکومت، یا سیاسی جماعت، یا لیڈر کی حمایت یا مخالفت میں مؤقف رکھنا اور اس کا اظہار کرنا، مولانا طارق جمیل سمیت ہر پاکستانی (علاوہ حاضر سروس فوجی و سویلین) کا بنیادی آئینی حق ہے۔
مسئلہ تاریخ کو اور وہ بھی ایسی تاریخ جس کو اپنے ذہن و بدن پر گزرانے والے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں زندہ ہیں، مسخ کرنا ایک شرم ناک حرکت ہے۔
مولانا طارق جمیل کی یاوہ گوئی کی عادت تو عام مشہور ہے جس میں مولانا اپنے مواعظ کے دوران تاریخِ اسلام اور جہاں دل کرے اور ضرورت محسوس ہو وہاں تاریخ عالم پر بھی بَہ طورِ معمول ہاتھ صاف کرتے نظر آتے ہیں۔
مولانا کی یہ عادت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ خود پیغمبرِ اسلام ﷺ اور صحابہ کرام (رض) کی ذات کے بارے میں بھی متنازع سے لے کر ضعیف اور حتیٰ کہ موضوع (گھڑی ہوئی/جھوٹی) احادیث و آثار اپنے خطبات میں عام بیان کرتے پائے جاتے ہیں۔ سُنا ہے کہ اس حوالے سے مولانا کو ان کے بزرگوں کی طرف سے متعدد مرتبہ سرزنش بھی کی جا چکی ہے جس کا بَہ ظاہر مولانا پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔
مولانا پاکستان کی مقبول ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں، اور ان کی کہی ہوئی بات بلا شُبہ کروڑوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ مولانا کا اثر و رسوخ اس حد تک ہے کہ مختلف عصری تعلیمی ادارے اور حکومتی محکمے مولانا کو وعظ کے لیے بلاتے رہتے ہیں۔ یہ ایک الگ المیہ ہے کہ مولانا جیسا غیر محتاط، سنی سنائی بات بیان کرنے اور تاریخ مسخ کرنے والے شخص کو پاکستانیوں کی ایک اچھی بھلی تعداد جس میں ہر معاشی سطح تعلیم اور شعبے کے لوگ شامل ہیں ایک اخلاقی قطب نما کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مولانا کی طرف سے اظہر من الشمس اغلاط بیانی کی نشان دہی کرنے والا بھی مولانا کے معتقدین کی طرف سے سخت تنقید اور مولانا کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی طرف سے نا پسندیگی کا ہدف بنتا ہے۔
زیرِ بحث معاملہ میں مولانا کی طرف سے مسلمہ حقائق کا بلاد کار پر مبنی سیاسی رائے کے اظہار سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ مولانا صرف دین کے واعظ ہی نہیں، بَل کہ عساکرِ پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ ففتھ جنریشن وار فیئر لڑنے والے لشکر کے ساتھ بَہ طورِ امام متعین ہیں تا کِہ عین جھوٹ کا طومار باندھتے ہوئے اگر وقتِ نماز آ جائے تو مجاہدین مولانا کی قیادت میں زمیں بوس ہو سکیں۔
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
از، سلمان یونس