(شکور رافع)
کاروبار معیشت ہو یا محبت، ماہ دسمبر سود و زیاں کا گوشوراہ لکھتا ہے اور ہائے کہ اکثر خسارہ لکھتا ہے۔۔۔ ماہ دسمبر میں مسافر کو اردگرد کے سب شعبوں کے ہاں خزانی برف اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ شعبہ ادب کا عوامی طبقہ انت دسمبر کی بھیگی شاعری میں ’سوئمنگ پذیر‘ ہے تو خصوصی طبقہ سالانہ انکریمنٹ، گریزاں برس کے تجزیاتی مطالعے اور آئندہ برس کی ترقی و تعیناتی کے تنقیدی خاکے کی تیاری میں۔۔۔ شعبہ معیشت ظاہر ہے انہی گوشواورں کے احتساب میں گم ہے جسے آڈٹ کہتے ہیں اور دسمبر کا اختتام جس کے بعد ’بینک ہالیڈے‘ سے ہوتا ہے۔۔ ہالیڈے سے ذہن میں ایک طرف شعبہ تعلیم آتا ہے جہاں اکثریتا کے امتحانات اور بعد ازاں انگریز راج چلی سے آتی چھٹیاں ہیں تو دوجی طرف شعبہ سیاسیات کی ’ہالیڈے ان چھٹی‘ کا تصور بھی کہ جو یخ دسمبر میں عوام کو گھسیٹنے کے بجائے خواص میں گھل مل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ خواص کی سیاست سے تاہم آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام یاد کیا جا سکتا ہے جو 1906 کے اسی ماہ دسمبر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد مارشل لائی عہد کا ایک لمبا عہد ہے کہ جس کے سرد دسمبروں میں سیاست دان اور عوام ’اندر‘ ہی رہے۔ ہاں دسمبر 1971 میں شیخ مجیب کی قومیت پرست ’سردھرمی‘ ضرور دکھائی دیتی ہے کہ جب وہ خود تو ’اندر‘ رہا مگر قوم کو باہر نکال لیا۔۔۔ باہر نکالنے سے عسکری شعبہ ذہن میں آتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سولہ دسمبر کو اس ملک کے اور ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے نہ بچا سکے۔۔۔۔
ادھر، سوشیو پولیٹیکل شعبہ تاحال اس بحث میں مصروف ہے کہ سولہ اور ستائیس دسمبر سیاست دانوں کے شعبہ کی ناکامی تھی یا دفاعی شعبہ کی ۔۔۔ اور ہم بھی اسی موازناتی سالنامہ بلکہ ’کال نامہ ‘ قافیہ پیمائی کر رہے ہیں اور ادھر شعبہ ابلاغ و نشریات سب شعبوں پہ بازی لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ خشک سردی، دہشت گردانہ بے دردی، پانامہ سردردی اورمذہبی ہمدردی نیوز چینلز کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔۔ خواہشات کو بیدارنے، ابھارنے اور ضرورتیں بنا کر بیچنے والی میڈیا منڈی میں تو ہر آئٹم اور ہر موسم مہنگے داموں بکتا ہے تاہم اس آخری مہینے میں میڈیا کے شعبہ نے اخیر منافع کمالیا ہے، ہنوز کما رہا ہے اور کم ازکم یہ سارا ماہ کماتا رہے گا۔ میڈیا کی تجارت کی ایک جھلک ، آئیے سوکنوں کی طرح دیکھ دیکھ جلیں۔۔۔۔ دسمبر کی خشک سردی کا آغاز ہی نئے آرمی چیف کو ایمانی درجہ حرارت میں بھگو بھگو کر ہوا۔۔ پانچویں ساتویں دن جنید جمشید کے مذہبی و قومی شہادتی سانحہ اور بقیہ چھیالیس کے ہلاکتی واقعہ نے دیندار اشرافیہ کے لباس ، مڈل کلاس کی نجات اخروی کی آس اور غربا کی ’’اخرجت لی الناس‘‘ کو ٹی وی سے جوڑ جوڑ دیا۔ دل دل پاکستان کی وافر وطنیت پرستی اور دعوت و تبلیغ کی مقبول مذہب پرستی نے ریٹنگ کو اس سردی میں دو آتشہ کر ڈالا۔ طیارہ کی شہادت کے قل کے ساتھ ہی بارہ ربیع الاول ہے۔ جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں عقیدتی جسم ریشم واطلس وکمخواب میں بنوائے ہوئے جھنڈے، بینر، لڑیاں اور سہرے لے کر نکلیں گے جبکہ میڈیا والے کیمرے۔۔۔ عشق رسولؐ پہ سب عقیدت مند نور کا جلوہ سمیٹیں گے، ضرورتمند چاول حلوہ سمیٹیں گے اور عقلمند سیٹھ ریٹنگ کا بلوہ۔۔۔
عقیدتی جے جے کار کے فورا ً بعد سولہ دسمبر آ جائے گا۔ سانحہ پشاور کےمعصوم بچوں کی لہو رنگ تصویریں اور جذباتی ویڈیوز نکال نکال کر میڈیا پر شہدا کی ماؤں کی قیامت بھری استقامت دہرانے سے جذبہ شہادت پھیلتا جائے گا ، اشتہارات سمیٹتا جائے گا۔ ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے‘‘ کی دھنوں اور پھولوں کی کچلاہٹ کے نوحے میں سولہ دسمبر کے ایک اور پرانے واقعہ یوم سقوط پاکستان کی آہٹ اکتاہٹ کا سبب بن سکتی ہے سو ملک ٹوٹنے کا واقعہ پس منظرمیں ہی رہے گا تاہم کچھ چینلز اس بارے میں خصوصی رپورٹ کو انڈین را کی سازش کی آمیزش سے قابل قبول اور قابل ہضم بنا کر محب وطن کمپنیز کے اشتہارات سمیٹ ہی لیں گے ۔۔ سولہ دسمبر کے بعد پانامہ لیک پر کچھ نہ کچھ مرچ مصالحہ ہاتھ آنے کی امید ہے ۔ نہ بھی آ سکا تو کرسمس کی تیاری اور تہوار کے عالمی رنگوں کی چمک دمک میں ہمارے چینلز دنیا بھر کے مسیحاؤں کے معمولات کی منظر کشی ایسے کریں گے گویا اپنے ہاں کی مسیحی برادری رنگین روشن کرسمس ٹری سے دولت اور عزت توڑ توڑ کھا رہی ہے جبکہ ٹہنیوں پتوں سے جھاڑو بنا رہی ہے۔۔۔البتہ گیارہ اگست کے منکر چینلز پچیس دسمبر کو کرسمس سے زیادہ کوریج یوم حضرت قائد اعظم کو دے سکتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ ملت کے پاسباں پر خصوصی سپلیمنٹ پرنٹ میڈیا کو ہی زیادہ فائدہ دے سکیں گے۔ پچیس کے ساتھ ہی ستائس دسمبر بےنظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے۔۔ ’مت سمجھو ہم نے بھلا دیا‘ کے پس منظر میں سندھ حکومت کی شہادتی کارکردگی اور بلاول کی باغیانہ آزردگی عوام کے جزبات ابھارے گی اور سیٹھوں کے لیے اشتہارات۔۔ مسلسل میتیں بیچتے شرارتی شیطان تو پشیمان نہیں ہوں گے تاہم قدرت مہربان ہو کر دو دن بعد اکتیس دسمبر کو زمین کا سورج کے گرد ایک اور چکر مکمل کر دے گی ۔۔۔ یوں میڈیا پر الوداع ہوتے سال کی جھلکیاں اور نئے برس کی استقبالی بتیاں عوام کو مزید متوجہ رکھیں گی۔۔ استقبال سال نو پر یہ میڈیا عالمی فضاؤں میں جھلملاتی لہراتی روشنیاں، نغمے، مسکراہٹیں اور بقعہ نور فضائیں اس قوم کو دکھائے گا کہ جس کے نقشے میں ، افراد اور اداروں میں بجھتے قمقمے بے یقین اندھیاروں کو مسلسل سرد اور زرد کرتے جاتے ہیں۔۔۔
امید ، آرزو اور جستجو کے وہ دیے جو اس کم بخت صدی کی آمد سے قبل بنا اشتہارات، خال خال ہی سہی، آنکھوں اور ہونٹوں پر مچلتے دکھائی دیتے تھے۔ بس یہی دعا ہے کہ نئے سال کی آتش بازی کی لائیو کوریج میں آتش و بارود کا کوئی مزید خونی واقعہ نہ ہو کہ میڈیا منڈی تو اس بریکنگ بونس پر بھی کمائے گی مگر نئے برس کے آغاز پر ہی یہ انسانیت ہار جائے گی۔۔۔یہ انسان ہا ر جائے گا۔ انسانیت ہارنے کا قلق نہیں کہ جدید لغت میں اس کی کسی عالمی تعریف پہ اتفاق نہیں تاہم انسان کو نہیں ہارنا چاہیے کہ اس کی بقا پر اقوام متحدہ کا اتفاق ہے۔۔۔خود اقوام متحدہ کی بقا اور ارتقا کا فیصلہ برہمنوں کے ہاتھ میں ہے، بتوں کے نہیں ۔۔۔تاہم سرمایہ دارانہ نظام سے اکثریت و اقلیت میں بڑھتی خلیج، چین روس کی باہمی وعالمی قربت کسرت اور امریکہ یورپ میں سردمہری کی زیریں لہر عام آدمی کے لیے امید کا ابتدائیہ ہے۔۔۔۔۔۔
دیکھئے پاتے ہیں عشـــــاق بتوں سے کیــــا فیض
اک برہمــــــن نے کہا ہے کہ یہ ســــــــال اچھا ہے