مزاح کا حسن سادگی ہے
از، سرفراز سخی
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنّا جسے، کہہ نہ سکیں روبرو
علامہ کی نظم “مسجدِ قرطبہ” سے یہ شعر بطور اقتباس لینا اور یہاں لکھنا کچھ عجیب سا لگے شاید! مگر میری نظر میں مزاح فلسفہ و شعر (بات) ہی ہے، غالب کی زبان میں “نوائے سروش،” اگر ہم اپنے ان خام قہقہوں کی تصاویر میں ذرا غور فرماویں جو کسی کا تمسخر اڑانے کے غرض سے ہم اپنی تند خوئی اور غرور کے باعث ایجاد کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ششدر و حیران رہ جائیں کہ ہماری صورت میں اس وقت کس قدر منفی بدلاؤ رُو نما ہوتا ہے، اور اس لمحے ہماری صورت کیا سے کیا ہو کر رہ جاتی ہے۔
صد حیف کے غور فرمانا ہی تو منظورِ نظر نہیں، فقط مزاح کی آڑ میں فحش اور مغلظاتی فقروں کو پناہ دینی ہے، اور اپنے مزاحیہ بننے کی اداکاری کرتے ہوئے دوسرے کی تذلیل و تضحیک دل و جاں سے کرنی ہے۔
ابنِ صفی صاحب نے کہا کہ” لوگ مصلحتاً ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور زندگی بھر اداکاری کرتے رہتے ہیں”، سچ ہی کہتے ہیں جب انسان سچ بولنے سے محروم ہوجاتا ہے، تو اس کے پاس لٹ لٹا کر بہ ہر کیف جھوٹ کی بنجر زمین کے رہ ہی کیا جاتا ہے؟ اور ایک دروغ گو کبھی اپنی زبان سے کسی کی خیر نہیں چاہتا۔
اور جیدی صاحب نے فرمایا کہ:
مزاح اس آتش فشاں پہاڑ کی طرح ہے جس کے سینے پر برف جمی دیکھ کر، ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کے اندر لاوا نہیں کھول رہا ہو گا۔
یقیناً ایسا قطعاً نہیں ہوتا، یہ آتش فشاں پہاڑ مزاح نگار ہے، اس کے سینے پر جمی برف، اس کی تحریریں ہیں جنہیں ہم دیکھ/پڑھ رہے ہیں، مگر وہ کھولتی ہوئی حقیقت جو اس کے اندر ہے اسے ہم نظر انداز کیے ہوئے ہیں، بَل کہ نظر انداز کرنے کی صورت تو تب بنے کہ جب ہمیں اس کا بھیتر نظر آئے۔
مزاح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی یا مترادف ہیں خوش طبعی، ہنسی، مذاق اور پھر مذاق جو کہ خود بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں لذت، سواد جس کی بدولت ہم کھانے پینے کی اشیا میں فرق کر سکتے ہیں، اسی قوتِ مذاق “علم” کو لے کر ہم یہ تمعیز کر سکتے ہیں کہ یہ مزاح/فلسفہ ہے جس سے کچھ مُثبت حاصل ہو یا ٹھٹھول جو کہ محض باعثِ دل آزاری ہے۔
اسی شے کو بہت خوب صورتی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ہمارے بے حد عزیز دوست علی زاہد کہتے ہیں کہ “مزاح اور مذاق میں کوئی فرق نہیں مگر بہت بڑا فرق بھی ہے، مزاح معاشرے کے اندر موجود برائیوں کو ایک انوکھی تنقید کی مانند نروار کرتا ہے، اور ان کے مسائل کا حل سمجھانے میں بھی مدد کرتا ہے، جب کہ مذاق جو کہ بنیادی طور پر اپنے اندر ایک مُثبت پہلو رکھتا ہے مگر آج کل ہم نے اسے منفی معنوں لے لیا ہے جس کی آڑ میں ہم کسی بھی شخص کی شخصیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس کے احساسات مجروح کر سکتے ہیں۔”
مزید و متعلقہ: چراغ حسن حسرت کی مزاح نگاری از، سید الابرار
مزاح نگاری اور جمہوری اخلاقیات از، نصیراحمد
اکثر لوگ مزاح/مذاق کا سہارا فقط دل دکھانے کے لیے ہی لیتے ہیں، اور اسے مزید نکھارنے کے چکروں میں اس کی اصل شکل و صورت کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں، ارے مزاح یہ نہیں کہتا کہ گلی، محلے، چوراہے یا ہجوم میں کھڑے ہو کر کسی انسان کی عزت کو تار تار کرو، مزاح تو یوں ہے کہ “چور کی داڑھی میں تنکا”، بھرے مجمعے میں یوں نشانہ باندھ کر تیر چھوڑنا کے لگنے والے ہی کو لگے، اور کسی کو ذرا سا احساس بھی نہ ہو۔
حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
یہ ہے وہ سادگی، مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا
یہ کہاں کی دوستی ہے، کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
جہاں مرزا صاحب حضرت ناصح سے خفا نظر آ رہے ہیں وہیں دلاور فگار بذاتِ خود ناصح بنے مرزا صاحب کے چارہ ساز اور غمگسار کو مات دئیے ہوئے ہیں۔ نصحیت دیکھیے نہ نام نہ کام نہ ذات نہ پات نہ قد نہ رنگ نہ عمر نہ ڈھنگ، بس وہی “چور کی داڑھی میں تنکا” سو تنکا جس کی داڑھی میں ہو وہ جھاڑنے کی سعی کرتے ہوئے بہ آسانی ہجوم میں دھرا لیا جائے ۔
اور اب اسی سادگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ قطعہ دیکھیے ذرا کہ؛
چلی جاتی ہے آئے دن، وہ بیوٹی پارلر میں یوں
کہ مقصد ہے جواں لگنا، مثالِ حور ہوجانا
مگر یہ بات بیگم کی، سمجھ میں کیوں نہیں آتی
کہ ممکن ہی نہیں کشمش کا پھر انگور ہوجانا
ان دونوں قطعوں میں جہاں ادب کے پیرائے میں رہتے ہنستے ہنساتے ہوئے، تلخ حقائق کو مزاح کا رنگ دیا گیا ہے، وہیں شاعری کے علم “علمِ عروض” کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، قطعہِ اول بحر ” رمل مثمن محذوف” اور قطعہِ دوم بحر “ہجز مثمن سالم” میں کہا گیا ہے۔
جو کہ اپنی سلاست و فصاحت کے باعث مزاح کے حسن “سادگی” کو اور حسنِ سادگی بخش رہا ہے۔
اس مزاح کی سادگی کو لے کر شفیق الرحمٰن صاحب کی کتاب “حماقتیں” سے اقتباس پیش کرتا ہوں، “ایک بزرگ فرما رہے تھے، جب میں چھوٹا تھا اس قدر نحیف تھا، اس قدر کمزور تھا کہ میرا کل وزن چار پونڈ تھا، مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا تھا۔”
ایک اور چھوٹی سی مثال لیجیے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے “اک جناب فرما رہے ہیں کہ، بھئی ہمارے بکرے کی ایک خوبی ہے، وہ کیا؟ ساتھ میں کھڑے صاحب پوچھتے ہوئے، وہ یہ کہ آپ ہمارے بکرے کو جتنا دور سے دیکھیں وہ بکرا ہی نظر آئے گا۔”
مشتاق احمد یوسفی صاحب نے بھی مزاح یوں ہی لکھا کسی فرد کو ہدف بنانے کہ بجائے انسانی کمزوریوں اور سماج کی خرابیوں کو موضوع بنایا، پطرس بخاری صاحب کی بھی یہی خوبی ہے کہ انہوں اپنے مزاح کو تمسخر اور طنز سے آلودہ نہیں ہونے دیا …
کسی کے لبوں کو مسکراہٹ کے جگنو بے غرض عطا کرنا، مزاح ہے
اپنے اشکوں سے کسی اور کی چشم کے اشک صاف کرنا، مزاح ہے
علامہ کہتے ہیں کہ
ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد
چشمِ خود برست و چشمِ ماگشاد
(اکثر شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں مرنے کہ بعد زندگی نصیب ہوتی ہے، وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں لیکن ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں)
مزاح نگار ایسا ہی شاعر ہے، جو مذاق ہی مذاق میں اپنی مزاح نگاری کی بدولت ہمیں ہنساتا ہوا بہت سے تلخ حقائق بڑے آرام سے آشکار کروا جاتا ہے۔ ہم نے نہ جانے کیوں مزاح کی اُڑان کو تضیحک و طنز کے پنجرے میں قید کر کے رکھ لیا ہے، جب کہ اس کی ایک جدا گانہ پرواز ہے، منزلت ہے، انداز ہے، اس کا اپنا ایک الگ مقام ہے، جس کی نگہبانی و پاسداری ہر صاف گو پر لازم ہے، کیوں کہ مزاح کا حسن تو سادگی ہے۔