مذہب اور ریاست کی علیحدگی
از، ڈاکٹر محمد علی
1۔ مذہب اور حکومت کا گٹھ جوڑ ہزاروں سال پرانا ہے
آج کچھ مذہبی سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ گویا انھوں نے ایسے فقرے ایجاد کرکے بڑا تیر مار لیا کہ ” اقتدار اعلٰی اور حاکمیت اعلٰی خدا تعالٰی کی ہے انسانی حکومت تو ان کے پاس صرف ایک امانت ہے”۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تصور ہزاروں سال سے بادشاہوں کو خدا اور خدا کا نمائندہ قرار دے کر جواز حکومت دینے کے لیے ہر زمانے میں گھڑا جاتا رہا ہے۔
شاید ہی کوئی زمانہ یا دور یورپ کا یا مشرقی ملوک کا اس تصور سے پاک ہو، عام طور پر بادشاہوں کو ظل اللہ اور ظل الٰہی سمجھا جاتا رہا ہے اور جس قدر پیچھے چلتے جائیں یہ تصور مزید گاڑھا ہوتا جائے گا، حتٰی کہ بہت قدیم ادوار میں بادشاہ ہی کو خدا کا روپ اور خدا سمجھا جاتا تھا اور بادشاہوں کی پوجا عام تھی۔
تو آج کے مذہبی سیاستدان بھی کوئی نئی بات پیش نہیں کررہے بلکہ خدائی فرمان کے آڑ میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، ایک سادہ سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب یہ درست ہے کہ تمام جہاں پر اللہ تعالٰی کی مطلق اقتدار اعلی ہے، بے شک ہے۔ مگر کسی سنی، وھابی، شیعہ، دیوبندی مولوی کے خدا کے نام سے اس کے بندوں پر حکومت کا حق آپ کو کب اور کس معاہدے کے تحت تفویض ہوا؟ جبکہ آپ ایک دوسرے کو کافر بے دین اور واجب القتل بھی گردانتے ہیں؟
کیسے معلوم ہو کہ تم ہی خدا کے نمائندے ہو تمھارے مخالف نہیں؟ بس یہ تصور محض ایک سراب اور دھوکا ہے، خدائی حقوق کے ساتھ انسان پر حکومت قائم کرنے کے لیے ایک ڈھونگ رچایا گیا ہے۔
2۔ مذہب اور حکومت کی علیحدگی
اس مسئلے کا پس منظر سمجھنے کے لیے ہزار سال تک یورپ میں چرچ اور ریاستی گٹھ جوڑ اور مظالم کا مطالعہ ضروری ہے، گویا یہ ارتقاء ایک رد عمل کے طور پر ظاہر ہوئی، حکومت کو چرچ کی گرفت سے “آزاد” ہونے کے بعد مذہبی کے مقابلے میں “دنیاوی” قرار دیا گیا۔ یہ بڑی تبدیلی تھی جو renaissance کے بعد ظہور میں آئی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی ہے۔
3۔ مذہبی انتظامیہ انصاف نہیں کرسکتی
جس طرح مذہبی حکومت ایک خاص مذہب کو حکومت کی طاقت سے نافذ کرنے کا نام ہے، جس کی وجہ سے انسانی شخصی آزادیوں اور اعمال پر اثرانداز ہو کر مختلف مظالم اور اتلاف حقوق کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے، مثلاً اسرائیلی حکومت اگر عہدِ قدیم کے قوانین سرکاری طور پر نافذ کردیں یا امریکہ والے اگر عیسائی مذہب کا نفاذ کر دیں یا بھارت والے قدیم ھندوتوا پر مبنی عجیب احکامات سرکاری سر پرستی میں تمام عوام کے لیے لازم کردیں تو مسلمانوں کا کیا حال ہو گا؟
اسی طرح اگر پاکستان یا شام کی حکومت وھابی حنبلی روایات کو قانون بنا کر لاگو کر دیں تو دیگر فرقوں یا مذاہب کا کیا حال ہوگا؟ اگر ایک حاکم یا جج کا عقیدہ ہی یہ ہو کہ مثلاً شیعہ یا احمدی اسلام سے باہر جا چکے ہیں، اس لیے مرتد ہیں، اور فلاں فلاں امام وغیرہ کے نزدیک واجب القتل ہیں تو وہ کسی شیعہ یا احمدی کے حقوق کی کس طرح تحفظ کرے گا؟
یا کسی کیس میں اس کے ساتھ انصاف کیسے کرے گا؟ پس لازم ہے کہ اپنے عوام کے ساتھ انصاف کا حق ادا کرنے کے لیے ایک جج یا حاکم اپنے ذاتی مذہب کو گھر میں چھوڑ کر اپنی عدالت یا دفتر میں بیٹھا کرے اور شہریوں کو محض انسان سمجھ کر ان سے معاملہ کرے نہ کہ ان کو مسلمان، شیعہ یا سنی یا ہندو اور عیسائی سمجھ کر۔ بس یہی سیکولر ازم کا بنیادی تصور ہے۔
4۔ مذہب کی بنیاد درحقیقت فرد کی کامل آزادی پر ہے
ایک مذہبی حکومت کی موجودگی میں کسی مخلوط معاشرے میں یعنی جہاں متعدد مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں، آزادئِ اظہار اور عقیدے اور اعمال کی آزادی کی کیا صورت ہو گی؟ جب کہ شریعت اور خدائی حساب کتاب کی بنیاد ہی ایک بھر پور آزادی کا تقاضا کرتے ہیں ، ہر ایمانی کیفیت اور عمل، صرف برضا رغبت کسی خدائی حکم کو ماننا اور اس پر عمل کرنے کا نام ہے، ورنہ مذہبی عبادات ممکن ہی نہیں۔
پس ایک مخصوص آزادی اسلامی یا دیگر مذہبی عقائد اور احکام کے لیے لازم ہے، اور درحقیقت تمام مذاہب پر عمل کرنے کے لیے ایک ضروری امر ہے، پس کسی حکومت یا انتظامیہ کا مذہبی عقائد اور اعمال اور عبادات وغیرہ میں دخل دینا سخت مضر اور نقصان دہ ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کے اتلاف پر مبنی ہے بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پامال کیے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ یہی دراصل مذہب اور ریاستی اداروں کی علیحدگی کا تصور ہے۔
5۔ سیکولر اور مذہبی حکومت
بہت سے لوگ لفظ سیکولر (secular) کو اینٹی ریلیجیئس(anti religious) کے معنوں میں لیتے ہیں، یہ سخت لا علمی اور غلط بات ہے، سیکولر سے مراد ہے، دنیاوی، یا زیادہ سے زیادہ غیر مذہبی؛ یعنی کسی کے مذہبی عقائد اور اعمال اور عبادات اور عبادت گاہوں سے قطعی سروکار نہ رکھنے والی حکومت اور انتظامیہ۔
اگر غور سے دیکھیں گے تو سورہ حج کی آیت 40 یہی فلسفہ سکھاتی ہے، یعنی اسلامی جنگوں کی ایک ضرورت ہی یہی بتائی گئی ہے کہ ایک ظالم قوم کو روکنا۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہیں منہدم ہوں۔ یہ ایسی عظیم الشان بات ہے کہ تمام مذاہب کی کسی ایک کتاب میں بھی نہیں ملے گی۔ مذہبی حکومت، جوسیاسی ملاؤں کے ذہن میں ہے وہ تو اس سوچ کی مکمل خلاف ورزی پر مبنی ہے، کچھ عرصہ قبل مکہ مکرمہ کے بڑے مفتی نے فرمایا تھا کہ جزیرۃ العرب کے اندر تمام گرجا گھروں کو منہدم کردینا چاہیے، اس سے بعض لوگوں کے شکوک و شبہات دور ہونے چاہئیں: حوالہ ٭٭یہ لنک٭٭ ہے
6۔ مطلق انصاف
جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ریاست کے معاملات اور مذہبی معاملات کو مکمل طور پر الگ الگ رکھنے میں یقین رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی حکومت اور انتظامیہ کے لیے قطعی طور یہ جائز نہیں کہ کسی شہری یا شہریوں کے مذہبی عقائد، عبادات اور عبادت گاہوں یا رسم و رواج میں سرکاری سرپرستی کے طور دخل اندازی کرے۔ اس قسم کی حکومت ہی کامل اور مطلق انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکتی ہے۔
بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا میں فی زمانہ ہر ملک اب بے شمار مذاہب کے لوگوں پر مشتمل ہیں اور جہاں ایک مذہب ہو، وہاں بھی بے شمار ایسے فرقے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل اختلافات رکھتے ہیں، جس طرح کسی ریاست کے لیے جائز نہیں کہ کسی کے مذہب کا تعین کرے یا دخل دے اسی طرح کسی حاکم کے مذہبی عقائد کا ریاستی امور میں مداخلت درست نہیں۔ نہ مخالفت نہ بلاوجہ کی تائید۔
7۔ مکمل ضابطہ حیات
تو کیا ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسی حکومت قائم کریں جہاں وہ ضابطہ حیات بطور اسلامی نظام حکومت کے رائج ہو جائے؟ درحقیقت یہ باتیں بہت گہرے مغالطوں پر مبنی ہیں اور مفصل بیان چاہتی ہیں ، قرآن کریم کی 6236 آیات میں سے 5 آیات ہی کوئی دکھا دیں جو اسلام کے وضع کردہ نظام حکومت کے بارے میں خاص ہوں، نہیں ہیں، البتہ اصولی ہدایات ہیں۔
کسی بھی مسلمان کے لیے اگر وہ حاکم بنے تو مکمل انصاف اور عدل سے کام لے، مشاورت سے کام لے اور امانتیں حقدار تک پہنچاے اور ہر امانت کا حق ادا کرے اور ہر خیانت سے بچے، جس بھی عہدے پر فائز ہو، یہ اصولی ہدایات کسی خاص نظام کے لیے مخصوص نہیں، یہ جو اصطلاحات ہیں، نظام، ضابطہِ حیات، نظریہ وغیرہ یہ جدید دور میں کچھ وجوہات کی بنا پر مسلمانوں میں در آئی ہیں۔
درحقیقت اسلام ایسے عباد الرحمن تیار کرنا چاہتا ہے جو تقوٰی اور اعلٰی عقلی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دین اور دنیا کے سب کام کریں، گناہ اور جرائم اور اتلاف حقوق سے پاک ہو جائیں۔ ایک مسلمان خواہ حاکم ہو یا محکوم، آقا ہو یا غلام، آجر ہو یا اجیر، ہر حال میں توحید پر قائم ایک اللہ کا بندہ ہے۔
یاد رہے کہ مسلمانوں پر ہرگز لازم نہیں کہ حکومت پر قبضہ کریں ورنہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں کسی ملک میں سو بندے بھی اسلام میں داخل ہوں ایک فساد اور ہنگامہ برپا ہو گا۔ البتہ اگر معمولی طریق سے کسی مسلمان کو حکومت ملے تو وہ حضرت عمر اور ابوبکر رضی اللہ عنہم کی طرح اس امانت کا حق ادا کرے گا اور یہ بھی تمام لوگوں کے مشوروں اور آراء سے ایک غیر جانب دار حکومت ہو گی۔
8۔ خلافتِ راشدہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک دن خلافت راشدہ جاری ہو گا۔ لیکن خلافت تو درحقیقت نبوت کا تسلسل اور تتمہ ہے، اور نبوت تو قطعی طور پر روحانی چیز ہے؛ نبوت کے لیے دنیوی حکومت قطعی کوئی لازمی امر یا جزو لا ینفک نہیں، تو پھر خلافت کے لیے کیسے حکومت لازمی امر بن گئی؟
نبوت اور کارِ نبوت ہے کیا؟
یہ بات سمجھنی چاہیے: نبوت درحقیقت انسانی پیدائش کی غرض و غایت کے حصول کا نام اور ذریعہ ہے، تعلق بااللہ اور تقرب الی اللہ کے حصول کا اعلٰی نمونہ ہے۔ تمام اعمال بھی اس کے اندر آجاتے ہیں خواہ کوئی کاریگر ہو دکان دار ہو قاضی یا وزیراعظم ہو۔ اس کے اعمال اس بنیادی مقصد کے حصول کے لیے ہوں گے، نہ کہ ان مراتب کا حصول یا شعبہ جات یا حکومت کا حاصل کرنا۔
آنحضورﷺ کی وفات کے بعد ایک خدائی تقدیر اور توارد یا کسی احسان کے نتیجے میں یا کسی بھی غرض سے آنحضورﷺ کے 4 بزرگ صحابہ اور آنحضورﷺ کے تربیت یافتہ ساتھی، روحانی خلافت کے ساتھ ساتھ دنیوی حکومت بھی کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ درحقیقت کسی مخصوص سیاسی ماڈل کی بنیاد نہیں بنائی جا سکتی۔
وہ بزرگ سیاسی طریقِ کار کی بجائے روحانی امور کی طرف ہی متوجہ رہے ہیں، اور نہ انھوں نے کسی سیاسی فکر کی بنیادیں رکھیں۔ سیاسی عمل درحقیقت عوام کی اجتماعی ضرورت اور آرا پر مبنی معقول طریق کار کا اختیار کرنا ہے اور دیگر دنیاوی امور کی طرح ہی، عقل اور شعور کے مطابق چلنا ہے اور انصاف اور مشاورت پر کار سرکار اور امور مملکت کی بنیاد رکھنی ہے۔