مذہب میں برہمنیت ، ملائیت اور کیپٹل ازم کا غلبہ
عادل فراز
مذہب کا مقصد
دنیا میں لا تعداد مذاہب موجود ہیں اور ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی بے شمار ہے۔ ہر مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ انسان کی فلاح و بہبود اور سماج کو تنزلی کے تحت الثریٰ سے ابھار کر کمال تک پہنچانے کے لیے آیا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسانی حقوق کی پامالی اور فرد کی آزادی پر قدغن نہیں لگاتا بلکہ ایسا منشور پیش کرتا ہے جس کا نفاذ انسان کے تحفظ اور اس کی ترقی کو یقینی بناسکے ۔ مذہب انسان کو جانوروں کی طرح آزاد نہیں چھوڑتا بلکہ اس کی بہتر زندگی کے لیے مضبوط قانون پیش کرتا ہے تاکہ فرد پورے سماج کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔ اس قانون کو خدا کا قانون کہا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا کے ہر مذہب میں خدا کا تصور موجود ہے ۔ خدا کے صفات و کمالات متفرق ہوسکتے ہیں مگر ایک خدا کا تصور تقریبا تمام مذاہب میں موجود ہے۔
جس طرح ہر مذہب میں خدا کے صفات جدا جدا ہیں اسی طرح اسکے نام بھی مختلف ہیں۔ ناموں کا یہ فرق در اصل لسانیاتی افتراق کی بنیاد پر ہے۔ جس مذہب کی الہامی کتابیں اور مذہبی صحائف جس زبان میں موجود ہیں خدا کا نام اس لسانی فرق کے ساتھ بدل جاتاہے۔ لہذا بحث کا موضوع یہ نہیں ہونا چاہیے کہ خدا ہے یا نہیں کیونکہ انسان کا لا شعور کسی نا کسی آفاقی طاقت کا قائل ہوتا ہے بحث یہ ہو کہ خدا کا نظام اور اس کا بھیجا ہوا قانون سماج کے لیے کس حد تک مفید ہے اور امتداد زمانہ کے ساتھ اس قانون میں تحریف و تصحیف کے بعد کس حد تک اصل قانون موجود ہے ۔آیا تحریف شدہ کتابوں کی تصحیح ممکن ہے یا پھر اس ترمیم شدہ آئین کے بالمقابل کوئی نیا آئین ترتیب دیا جائے ۔یا کوئی ایسا مذہبی آئین موجود ہے جو آج بھی اپنی آفاقیت اور ہمہ گیری کا دعویٰ کرتاہے تاکہ اس آئین کے نفاذ کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ۔قرآن کریم آج بھی یہ دعویٰ مضبوطی کے ساتھ کر رہا ہے کہ اس کا پیش کردہ نظام حیات سب سے بہتر اور حرف آخر ہے لہذا عصبیت سے ہٹ کر اس نظام حیات میں تدبر کی ضرورت ہے ۔یہ واحد ایسا نظام ہے جو آج بھی سماج کے ہر طبقہ کے حقوق کی بات کرتاہے اور ہر کسی یکساں اہمیت دیتا ہے۔
دین اسلام واحد ایسا موجود مذہب ہے جو جبر و قہر کی واضح مخالفت کرتاہے ۔جس مذہب میں نظریہ ٔ جبر و قہر کا تصور ہے وہ مذہب الہی نہیں ہوسکتا۔ اگر مذہب جبر و قہر و غلبہ کی بنیاد پر خود کو منوانے کی بات کرتاہے تو یقینی طور پر یا تو وہ مذہب آسمانی نہیں ہے یا پھر اس کے قانون میں تحریف کردی گئی ہے۔ جس طرح مذہب اسلام واضح طورپر دین میں جبر کی مخالفت کرتاہے اسی طرح دیگر ادیان بھی جبر و ظلم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔حقیقت حال یہ ہے کہ جس طرح مذہب اسلام کے پیروکاروں نے خودساختہ روایات اور قوانین کا سہارا لے کر جابر، ظالم ، فاسق اور فاجر کی اطاعت کو عوام پر تھوپا ہے اسی طرح دیگر ادیان میں بھی خودساختہ رہنماؤں نےمذہبی صحائف میں تحریف کی اور سرمایہ داروں کی مرضی کو قانون الہی کا نام دے کر عوام پر تھوپ دیا تاکہ اپنے مفادات حاصل کرسکیں۔
مذہب کے خلاف مزاحمتوں کا آغاز
نشاۃ ثانیہ سے پہلے مغربی معاشرہ پر کلیسا کی مطلق العنان حکمرانی تھی۔ تقریبا ایک ہزار سال تک مذہب کے نام پر مذہبی رہنماؤں نے عوام کا استحصال کیا اور ثروت مند طبقہ کی حکمرانی کے جواز الہامی کتابوں سے پیش کیے۔ مذہبی کتابوں میں اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے تحریف کردی گئی اور اسی تحریف شدہ نظام کو عوام پر خدا کا قانون بتا کر مسلط کردیا گیا ۔اس نظام میں سرمایہ دار طبقہ کو ہر اختیار دیا گیا مگر عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ۔یہ نظام انسان کو جدید تحقیقات اور نئے تجربات پر معتوب سمجھتا تھا ۔علم کی ترقی اور فنون کی ترویج اس کے بنیادی آئین کے خلاف تھی۔ سائنس کو مذہب کے مخالف تصور کیا گیا اور جن افراد نے اس میدان میں عملی اقدامات کیے ان پر کفر کے فتوی لگا کر سخت سزائیں دی گئیں۔اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ کلیسا اپنی بالادستی اور حکومت میں کسی کو شریک کرنا نہیں چاہتا تھا لہذا جہالت کی پشت پناہی کی گئی اور دانشوروں کی سوچ پرپابندی عائد کردی گئی ۔یہ صورتحال گزشتہ پچاس برسوں تک جاری رہی ۔مذہبی رہنما جدید ٹیکنالوجی اور نئی تحقیقات کو جرم سمجھتے رہے ۔حد یہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے اور ادب کے مطالعہ پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
اگر ایک ہزار سالہ مذہبی جبر کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کھوکھلے نظام سے نفرت اور بغاوت کی اصل بنیاد آمرانہ طرز حکومت اور سماج میں غیر برابری کا معیار تھی۔ عوام کو مذہبی کتابوں کی آیات کی غلط تشریحات کے ذریعہ فریب دیا گیا ۔غلط تشریحات نے سماج میں ایک الگ قانون اور نظام کی بنیاد رکھی ۔ایسا قانون جس میں انسان کو بنیادی حقوق اور آزادی اظہار سے محروم کردیا گیا۔ مذہبی دلائل دے کر عوام پر موروثی اقتدار کو مسلط کردیا گیا اور اقتدار پر قابض حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے مذہبی کتابوں اور صحائف میں ان کی مرضی کے مطابق تحریف و ترمیم کی گئی ۔رفتہ رفتہ اصل تعلیمات کو ختم کردیا گیا اور خودساختہ نظریات و عقائد کو مذہب کے نام پر عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔ بیچاری عوام کے لیے ظلم و جبر پر احتجاج اور مزاحمت کو بھی جرم عظیم سمجھا گیا ۔مزاحمت کاروں کو سخت سزائیں دی گئیں اور ہزاروں لاکھوں افراد کو مذہبی آمروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
مذہب کا یہی چہرہ عوام کی نگاہ میں مکروہ اور خوفناک ثابت ہوا۔ کیونکہ جس آئین میں عوام کے بنیادی حقوق اور آزادی کا تمسخر کیا گیا ہو وہ آئین دیرپا نہیں ہوتا۔ مذہب کے خلاف جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں اور بغاوتیں عالم وجود میں آئیں ان کے پس پردہ مذہبی رہنماؤں کی اجارہ داری اور سرمایہ دارانہ نظام کو مذہبی آئین کے نام پر نافذ کیےجانے کے خلاف احتجاج تھا۔ عوام نے سیکڑوں سال تک یہ استحصال برداشت کیا اور اپنے بے گناہ افراد کے بہیمانہ قتل پر عاجزانہ صبر کیا۔ دانشوروں ،عالموں اور ادیبوں نے زبان بندی کے فتوؤں کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کی اور ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد رکھی جس کے بنیادی عقائد میں مذہب اور خدا کو جگہ نہیں دی گئی۔ در حقیقت یہ انحراف مذہب اور خدا کے تصور سے نہیں بلکہ مذہبی جبروتیت اور کٹھ ملائی نظام سے بغاوت کا نتیجہ تھا ۔مگر یہاں بڑ ی چوک یہ ہوئی کہ محرکین بغاوت نے ناسور کا علاج نہیں کیا بلکہ مریض کا ہی خاتمہ کردیا ۔یعنی کلیسائی نظام کی بربریت اور مذہبی آمریت کو نابود کرنے کےلیے خدا اور مذہب کی ضرورت سے ہی انکار کربیٹھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی معاشرہ میں دہریت نے اپنے پاؤں پسارنے شروع کیے۔ خدا اور مذہب کے تصور کا خاتمہ ہوا تو اخلاقی اقدار مٹنے لگیں، آخرت کے انکار نے عذاب کا خوف اور ثواب کی حرص ختم کردی اور انسانی سماج میں فرد کی آزادی اور برابری کا نعرہ دے کر ایک نئے سماج کی تشکیل کی جانےلگی جو بظاہر بہت حسین اور دلکش تھا مگر اس کی حقیقت بہت مہیب اور خطرناک تھی۔
ہندوستان میں برہمن واد
ہندوستان میں برہمنی نظام مذہبی آمریت کی زندہ مثال ہے ۔جمہوری نظام ہوتے ہوئے آج تک شودروں اور دیگر کمتر قوموں کوبرابری کا درجہ نہیں مل سکا ۔آج بھی انہیں بھگوان کی پوجا کے لیے مندروں میں جانے سے روک دیا جاتاہا ہے اور مذہبی صحائف کی تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔اعلی ذات کے افراد کو اچھوتوں اور اقلیتوں کے جان و مال اور عزت و ناموس میں تصرف کا پورا اختیار دیا گیا اس کے باوجود بھی وہ اچھوت ہی رہے اور سماج میں انتہائی پست زندگی گزارنے پر مجبور نظر آئے۔
یعنی جمہوری نظام بھی برہمن واد کو ختم نہیں کرسکا یا یوں کہاجائے کہ جمہوری نظام ہی برہمن واد کو جنم دیتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں بھی اچھوت سمجھی جانےوالی قومیں مذہب بدل رہی ہیں۔ان کا رحجان اسلام کی طرف ہوتا ہے مگر بعض خطرناک وجوہات کی بنیاد پر وہ قومیں مسلمان نہ ہو کر بودھشٹ ہورہی ہیں۔بہرحال اس صورتحال سے اندازہ ہوتاہے کہ آج بھی جمہوری نظام کے تمام تر برابری کے دعوے جھوٹے اور بے اثر ثابت ہوئے ہیں کیونکہ جمہوری نظام بھی ایک طرح کی آمریت کی طرف داری کرتا ہے۔ جمہوری نظام میں بھی سرمایہ دار طبقہ اور طاقتور افراد کمزوروں کا استحصال کررہے ہیں۔ یہ صورتحال تمام تر جمہوری ممالک میں یکساں طور پر موجود ہے۔
مذہب مخالف تحریکوں نے سماج کو کیا دیا؟
مذہب کے خلاف جتنی بھی تحریکیں عالم وجود میں آئی ہیں ان کی بنیاد مذہبی آئین سے بیزاری کا اظہار کم مذہبی رہنماؤں کے ’’خدائی مزاج‘‘ کی مخالفت زیادہ تھی۔ سیکولرازم، سوشل ازم، کیپٹل ازم، لبرل ازم اور ایسے ہی نہ جانے کتنے مکتب فکر وجود میں آئے جن کا واحد مقصد انسان کی فلاح و بہبود ، اظہار کی آزادی اور مساوات کا مطالبہ تھا۔ یعنی ان تمام بنیادی حقوق کے خلاف کلیسا نے جو اپنا خود ساختہ نظام پیش کیا تھا اور جس جابرانہ نظام کی پرورش کی تھی اس نظام کے خلاف دانشوروں اور معمولی انسانوں نے باہمی اتحاد کے ساتھ تحریک شروع کی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی رہنماؤں کی آمریت ، خود پسندی اور بالادستی کا خواب کلیسا کے مقبرے میں ہی دفن ہوکر رہ گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آیا مذہبی آمریت کے خلاف جتنی تحریکیں وجود میں آئیں اور آج بھی مذہبی جبر کے خلاف جو آوازیں منظم یا غیر منظم طریقوں سے ابھرتی رہتی ہیں ان کے محرکین انسان کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے مخلص ہیں یا پھر یہ طبقہ بھی اپنی بالادستی کے لیے مذہبی جبر کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرتا رہا ۔ اگر ان تمام تحریکوں کے مقاصد اور بنیادی اہداف کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان کے تمام محرکین یا تو مذہبی رہنماؤں سے اپنے مفاد کی لاحاصلیت کی بنیاد پر یا مذہبی رہنماؤں کی جہالت اور کج حجتی کے خلاف میدان عمل میں اترے۔
آگے چل کر یہ محرکین بھی اسی بیماری کا شکار نظر آتے ہیں۔مثال کے طورپر سیکولر ازم کے نظریہ کا بانی جارج جیک اپ ہیولک جو خود ایک پروفیسر تھا اور مذہبی رہنماؤں کی آمریت اور اظہار کی آزادی پر قدغن کے خلاف قیدوبند کی صعوبتیں جھیل چکا تھا۔ قید سے رہائی کے بعد اس نے مذہبی نظام کے خلاف ’’سیکولر ازم‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔یعنی مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے لہذا مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے۔ اس نظریہ نے اپنے اہداف اور غایت کی بنا پر بڑی ترقی حاصل کی اور عوام میں مقبولیت بھی ملی۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ ’’سیکولرازم‘‘ کا نعرہ مذہبی جبر اور کلیسائی نظام کی بربریت کے خلاف دیا گیا نعرہ ہے۔
آمریت کی حد یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مذہبی اجارہ داروں نے اپنے گناہوں اور جرائم کی پردہ پوشی کے لیے دوسرون کو گناہوں سے نجات کا راستہ بتانا شروع کردیا۔ چونکہ عوام بدترین جہالت کے شکار تھے لہذا پادریوں نے ان کی جہالت کا بھی استحصال کیا۔ عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے لیے انہیں حسین سپنے دکھائے گئے۔ سماجی خرافات میں الجھا کر ان سے بڑے بڑے نذرانے وصول کیے جاتے ۔بھاری رقمیں لے کر جنت کے پروانے بانٹے جانے لگے ۔ساتھ ہی معاشرہ کے بااختیار اور سرمایہ دار طبقہ کو غریب عوام پر ظلم و تشدد کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔ان کی برتری اور آقائیت کے جواز مذہبی کتابوں سے پیش کیے گئے ۔یہ سب کچھ مسخ شدہ اور تحریف شدہ نظام کے تحت کیا جاتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں مذہبی نظام اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا لاوا ابلنے لگا ۔یہ لاوا لا دینیت اور دہریت کی شکل میں پھوٹ کر نکلا یعنی مذہبی نظام نے ہی انسان کو خدا سے دورکرنے کا کام کیا۔ یہ کام آج بھی جاری ہے بس طریقہ کار میں تبدیلی آگئی ہے ۔
کلیسائی نظام کے خلاف عقلیت کی تحریک نے جنم لیا جسے Rationalist Movement)) کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ یہ تحریک مذہبی نظام کے خلاف کامیاب تحریک تھی ۔یعنی اس تحریک کا بھی بنیادی ہدف مذہبی رہنماؤں کی آقائیت اور من مانی کو ختم کرنا تھا ورنہ تمام محرکین پہلے خود بھی مذہبی اور اس کے آئین کے پابند تھے ۔اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں نے لاکھوں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہادیا ۔تاریخ کے مطابق تین لاکھ افراد کو کلیسا نے قتل کروادیا اور بڑی تعداد کو زندہ جلادیا گیا ۔ان مظالم کی بنیاد پر عوام میں بغاوت کی لہر مزید دوڑ گئی اور مذہب کےخلاف جذبات مشتعل ہوتے گئے ۔نفرت کی آندھیوں نے کلیسائی نظام کی بنیادیں ہلاڈالیں اور جدید نظام کی بنیاد رکھی جسے ماڈرن ازم اور سیکولرازم کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
مذہبی اصولوں کے خلاف بدکرداری ،اخلاق سو، ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ۔ مساوات ،آزادی اور حقوق کے نام پر ایک بار پھر عوام کا استحصال کیا جانے لگا ۔آج بھی ان نعروں کی بنیادپر سرمایہ دار طبقہ حکمرانی کے مزے لوٹ رہاہے اور عوام کو انکے اختیارات اور آزادی کے خواب دکھاکر جمہوری آئین کی آڑ میں وہی کلیسائی نظام زندہ کردیا گیا جس کی مخالفت نے جدید نظام کی بنیاد رکھی تھی ۔جمہوری نظام در اصل مذہب سے بیزاری کا اعلان ہے جہاں عوام کی حکومت ، عوام کے زریعہ عوام پر ہوتی ہے ۔اس حکومت میں مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔
موجودہ صورتحال
ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا معاشرہ کلیسائی نظام کا اسیر ہے۔ گوکہ آج وہ نظام اپنی دیرینہ شکل میں موجود نہیں ہے مگر اس کے اثرات وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ایک نئے نظام کی شکل میں مرتب ہوئے ہیں۔آج کلیساؤں کی جگہ دیگر مذہبی ادارے اور مذہبی عبادت گاہیں اس نظام کو فروغ دے رہی ہیں بس کھلی آنکھوں سے احتساب کی ضرورت ہے۔
آج بھی مذہب کا سہارا لے کر عوام کے جذبات کو مشتعل کردیا جاتا ہے اور عوام اپنی جہالت کی بنیاد پر ان کے دام فریب میں پھنس جاتی ہے۔ نتیجہ کے طورپر سرمایہ دار طبقہ اور مذہبی رہنما مل کر بڑے بڑے فسادات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ تفرقہ بازی اور مسلکی جنگوں کو ہوادی جاتی ہے ۔ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف حق کی دہائی دے کر کھڑا کر دیا جاتاہے۔
خونریزی اور قتل عام کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور اکثریت اقلیتوں کا بہیمانہ قتل کرتی ہے۔ عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے ۔ گھر جلادیے جاتے ہیں ۔مال و اسباب لوٹ لیا جاتاہے۔ یہ تمام جرائم عوام سے مذہب کے نام پر کرائے جاتے ہیں اور عوام مذہبی غنڈوں کی چالوں کے شکار ہوتے ہیں۔
آج کا دانشور طبقہ مذہبی رہنماؤں اور مذہبی اجلاس سے اسی لیے کنارہ کش ہوگیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آج بھی کہیں نا کہیں کلیسائی نظام زندہ ہے اور ہمارے مذہبی رہنما اسی نظام کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں تاکہ سماج پر حکومت کی جاسکے۔ اس نظام کے خلاف بھی تحریک کی ضرورت ہے جس نے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے اور ایک مخصوص طبقہ عوام کے مفادات کو قربان کرکے اپنے مفادات حاصل کررہاہے۔
مذہب آج بھی آلہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے اور مذہبی کٹھ ملّا دقیانوسی نظام کی ترویج کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ایک نظام کی طرف دعوت دی جائے۔ اس نظام کی آفاقیت اور اہمیت پر مذاکروں اور کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔ جس نظام کو آج دنیا ’’ولایت فقیہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔